عسکری

معطل
میرا خیال ہے حکومتی بد انتظامی کو انگریزی تعلیم سے جوڑ کر دیکھنا مناسب نہ ہو گا۔ ایسا کر کے ہم شاید کرپشن کو اپنی قوم کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے اس کا نزلہ انگریزی تعلیم پر گرا کر خود کو دھوکے میں رکھیں گے۔
صاحبِ مراسلہ کی تحریر کا اقتباس پیش ہے

قائدِ اعظم بھی انگریزی تعلیم میں ہی پروان چڑھے اور انگریزی قانون کی بیرسٹری کے حامل تھے۔ تحریکِ پاکستان میں شامل سبھی لوگوں کے شراب نہ پینے کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟۔ شراب پینا کسی شخص کا ذاتی عمل ہے لیکن قوم کے ساتھ دھوکہ اور بد انتظامی کو اس سے نتھی کر کے دیکھنا بذاتِ خود اس جُرم کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ بدانتظامی میں صرف انگریزی سکولوں کے پڑھے ہی نہیں بلکہ مدرسوں کے پڑھے حاجیوں کو لوٹنے والوں ، ڈیزل کے پرمٹ لینے والوں ، قوم کو عیدین پر تقسیم کرنے والوں ، حکومتی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے والوں ، طالبان کے حمایت کرنے والوں اور کفریہ فتوے دینے والے ”جید علماء“ کے بھی نام آتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں انسانی گروہوں کی بہت سی اکائیاں شامل ہوتی ہیں اور کسی بھی اکائی کے افراد کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی افراط و تفریط کا شکار ہو سکتے ہیں لہذا کسی گروہ کو با لجملہ اس کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
میں یہ بات کروڑ بار کہہ چکا کہ انسان کے ذاتی فعل اس کے ملک کے ساتھ رشتے یا ایمانداری کو کوئی نقصان نہیں دیتے ۔ ساری دنیا کی افواج شراب پیتی ہیں کیا امریکی جنرل امریکہ کے غدار ہیں ؟ کیا آسٹریلیوی افواج غدار ہیں وہ تو ڈانس دیکھتے ہیں شراب پیتے ہیں پر جب وقت پڑے تو ایسے ڈٹ جاتے ہیں کہ بس ۔ کیا سکھ ڈرپوک ہیں؟ وہ تو افیون کھا کر پشاور پر چڑھ داڑے تھے اورقبضہ کر ڈالا تھا ۔ بات ساری انگریزی کی نہیں اخلاقی انحطاط کی ہے اور مسلمانوں سے زیادہ ملبہ دوسروں پر ڈالنے والا شاید ہی کوئی ہو ۔ ارے بھئی اگر انگریزی تعلیم اور وہ سب کچھ جو انگریزی سے ملا ہے ہٹا دیا جائے تو کیا بچت گا ؟ ریلوے پی آئی اے بسیں کاریں ہسپتال تو دور ایک سوئی تو کمیونسٹ چائنا سے آ رہی ہے ۔ اور وہ لوگ خود جو انگریزی ماں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں ان مسلمانوں سے کروڑ ہا گنا کم غدار کرپٹ اور کام چور ہوتے ہین اس کی کوئی خآص وجہ جبکہ ہونا اس کا الٹ چاہیے تھا ۔
 

عسکری

معطل
یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ انیسویں صدی میں ہمارا تعلیمی نظام انگریزوں سے بہتر تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو پچاس ہزار انگریز فوجی اتنی آسانی سے پورے برصغیر پر قبضہ نہ کر لیتے۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی بن رہی تھی استعمار ساری دنیا میں پھیل رہا تھا اور یورپ کے چھاپہ خانے لگ چکے تھے تب یہ اعلی تعلیم یافتہ مسلمان جو کسی سے بھی کم نہیں تھے چند سو انگریزوں سے ملک چھنوا بیٹھے :laugh: بنانے تاج محل عشق میں اور کرنی ملک گیری لعنت ہے ایسی بادشاھت پر جو زرداری گورمنٹ جیسی ہی تھی
 

عسکری

معطل
مغل دور میں سائنسی تعلیم بالکل ندارد تھی۔
مغل دور میں ہی کیا اس سے پہلے اور بعد میں بھی یہ خظہ جہل ہی رہا ۔ اور آج تک جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں کیا عجیب نہیں ۔ سعودی جیسا شدید ترین ملک 30 سال پہلے فیصلہ کر چکا کہ تعلیم نسواں کے بغیر ملک کبھی آگے نہیں جا سکتا پر ہمارے پاس ابھی یہ سوچنے کا وقت ہے جو یورپ 300 سال پہلے سوچتا تھا ۔
 

عسکری

معطل
اور اگر بیس ہو قوم کی علم میں لگن ہو اور ملک سے پیار ہو تو جاپان کوریا نا انگریز ہیں نا یہودی ۔پر 40 کی تباہ کن دھائی کے بعد آج پھر چمک رہے ہیں ۔ چین نے ہی لگن محنت سے کیا سے کیا بنا ڈالا خود کو ۔ ہم ہیں کہ جہالت میں امن اور ترقی تلاش کر رہے ہیں ۔ 2010 میں چین نے 1 لاکھ 17 ہزار پی ایچ ڈی پیدا کیے اور ہم نے ؟ اس لیے وہاں سٹیلتھ جہاز شپ ہیلی کاپٹر گاڑیاں موبائیل الیکٹرونکس کمپیوٹرز کیا دنیا کی ہر چیز بن رہی ہے اور ہمارے یہاں دہشت گردوں کی نئی فوج جو 14 سال کی عمر میں اپنے ہی ملک کو خؤد کش حملوں میں اڑا رہے ہیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
گندی ترین حکومتی انتظامیہ
ہمارا خطہ برصغیر (پاک وہند)ہے ۔ جب یہاں برے حکمرانون جو تمام قسم کی عیاشیوں میں مست تھے ۔ دولت نے جنہیں فرائض منصبی سے غافل کر دیا تھا ۔ ان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلبہ ہو گیا۔ انگریزوں نے پہلے سے ان کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کررکھا تھا ۔ ہندو تو پہلے دن سے انگریز کے وفاداروں میں شامل ہوگئے ۔ کیونکہ وہ کسی آقا کی منشی گیر ی کرکے ہی اپنی دھونس جمالینا کافی سمجھتے تھے ۔ جب کہ مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کی پہلے ہی سے رپورٹ یہ تھی کہ یہ اپنے ہر بچے کو اس قدر تعلیم دیتے ہیں کہ وہ عظیم سلطنت برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کے قابل ہوتاہے ۔ فرق صرف زبان کا تھا ۔ ورنہ تعلیم کا معیار مسلمانوں کا اعلیٰ تھا ۔ پہلے پہل انگریز نے چند تعلیمی پالیسیاں نافذ کرکے دیکھیں ۔ ناتو کوئی خاص نتیجہ برآمد ہوا اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ختم کیا جاسکا ۔ پھر لارڈ میکالے اپنی ایک تجویز ساتھ لے کر آیا ۔ تجویز یہ تھی کہ ان کو انگریزی زبان میں مغربی تعلیم دی جائے جو مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو مادر پدر آزاد سوچ فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ انسویں صدی کے آغاز میں اور بعد میں اسلامی تحریکوں کی بدولت 1857میں جنگ آزادی ہوئی جس میں دینی جامعات سے پڑھے لکھے علماء نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ پھر انگریزوں نے اکبر بادشاہ کی لادینی سوچ کے حامل افراد کو چن چن کر غداری کے لیے منتخب کیااور دین کے علماء کو شہید کر دیا ۔ ان کو دور دراز جزیروں میں تاحیات قید کردیا۔
نئے غداروں کے تعاون سے انگریزی نظام تعلیم کو فروغ دیا اور نام نہاد دینی مدرس کا افتتاح کر کے مسلم قوم و ملت کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کا منصوبہ بنایا ۔
انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ شراب نوشی اور دیگر اخلاقی برائیوں کا عادی ہوا۔ جبکہ بدمذہب مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد دین کی ضروریات سے منکر ہوئے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمراہی میں چند مخلص لو گوں نے مل جل کر ایک مسلم ریاست پاکستان کو تشکیل دیابعد میں تعلیمی اور انتظامی امور اُسی لاد ین طبقے کے ہاتھ میں رہے ۔ جبکہ بدمذہب فرقوں کے علماء کئی بار شراب اور کبا ب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ۔
اب ان تعلیمی اداروں سے نوکری کے رسیا اور کرپٹ افراد پڑھ لکھ کر فارغ ہوتے گئے اور پاکستان کی حکومتوں اور اقتدارکا حصہ بنتے گئے ۔ رشوت روز مرہ کا معمول بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ لو گ گھر سے رشوت کے تمام لوازمات پورے کرکے دفتروں کا رُخ کرنے لگے ۔
آج حال یہ ہے کہ ایک سو کے قریب ملکی ٹی وی چینل موجود ہیں ۔ جوکہ کفار کی فکر کو معاشرے میں پروان چڑھا رہے ہیں اور رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں ۔ عالَم کفر کی جانب سے ایک گستاخانہ فلم شائع ہوئی تو اُس کے رد عمل میں احتجاج کو توڑ پھوڑ کی شکل دینے کے لیے انہی لو گوں کا سہارا لیا گیا جو اس معاملے میں تربیت یافتہ تھے ۔ لارڈ میکا لے نے جو تصور دو صدیاں پہلے دیا تھا کہ یہاں کے باشندوں کے ذہن ایسے بننے چاہیں کہ وہ اندرسے انگریز ہوں آج اُ س کی تعبیر ہمارے سامنے ہے ۔
اُسی فکر کے پر وہ لو گوں نے توڑ پھوڑ کرے کے دینی مظاہروں کو بد نام کرنے کی سازش کی اور میڈیا نے بھی اُس کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری نبھائی ۔
اس ملک کی بدترین انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ انہوں نے آج تک انٹر نیٹ پر یو ٹیوب کو امریکی انتظامیہ سے رجسٹرڈ نہیں کروایا ہو ا تھا ۔
تب عوام کے مطالبے پر یوٹیو ب کو بند کردیا گیا ۔ لیکن اُس کو رجسٹرڈ کروا کے اور گستاخانہ فلم کو بند کر وا کے اس لیے دوبار ہ نہیں چلا یا گیا۔ کہ نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہی نہ ہو۔ اور دینی قوتوں کی طرف رد عمل کو سامنے نہ لایا جاسکے ۔
اگر اس ملک کی انتظامیہ اچھی ہوتی تو وہ جنسی انار کی پھیلانے والی ویب سائٹس کو بند کروا کے بھی تو
ملک و قوم کی خدمت کر سکتی تھی ۔ لیکن یہ کافر کے غلا م اس قوم کو گناہوں کی دلدل میں دھنسانے کے انتظامات مکمل کر رہے ہیں لیکن حقیقت صورت حال سے دور رکھنے کے لیے یو ٹیوب کا معاملہ حل کرنے کو تیار نہیں۔ یہ کس قدر گھٹیا سوچ کے انسان ہیں جن کے ہاتھوں میںیہ ملک ہے ۔ جو انتظامی امور میں اتنی بڑی خیانت کر رہے ہیں ۔کیا یہ بدترین انتظامیہ نہیں ۔ کیا یہ اب بھی حکمرانی کے حق دار ہیں ؟ کیا یہ انسان ہیں ۔کیا یہ مسلمان ہیں؟یا لا رڈ میکالے کے غلام
مسلمانوں کا ہر بچہ اس قدر تعلیم یافتہ ہوتا تھا کہ انگلستان کا وزیراعظم بننے کا اہل ہوتا تھا ۔ ماشاءاللہ
انگریزوں کے خلاف جتنی بھی تحاریک آزادی نے جنم لیا وہ سب دینی جامعات کے فارغ التحصیل تھے ۔ سبحان اللہ
سبھاش چندر بھوش ۔۔۔بھی ۔۔۔۔؟
کیا محترم کالم نگار جو کہ " سر سید احمد خان " کو غدار قرار دیے رہے ہیں ۔ اس بات کی وضاحت کر سکیں گے کہ " علامہ اقبال محمد علی جوہر ۔ محمد علی جناح ۔ اور دیگر مسلم مشہور رہنما کون کون سے " دینی مدرسے " کے فارغ التحصیل تھے ۔ اکثر تو متفقہ " کافر " ممالک میں قائم مدرسوں سے علم حاصل کیئے ہوئے تھے ۔ کاش کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ رہنما ان مشرک و کفار ممالک کے مدرسوں سے حاصل کردہ علم کو " مشرف بہ اسلام " کرنے کا راز بھی فاش کر جاتے ۔
اسلام " سلامتی کا دین اور سلامتی کی تعلیم دیتا ہے ۔
لگتا ہے کہ فاضل کالم نگار کو " یو ٹیوب " بندش پر تلخی کا سامنا ہے ۔
جس کے باعث " لکس ایوارڈز " کی تقریب سے کماحقہ واقفیت پانا مشکل ہے ۔
کالم کے اختتام پر اس " مشہور ریفرنڈم " کی یاد آگئی جو کہ " نفاذ اسلام " کے بنیاد پر " شخصی حکومت " قائم ہونے کی پہچان بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عسکری

معطل
انگریزی پڑھے مستقبل شناس پاکستان بنا گئے ملا تو اس کے خلاف تھے ۔ اور اب اگر متحدہ ہند ہوتا تو یہیہ ملا کہہ رہے ہوتے ہندو مسلم بھائی چارہ رکھو گائے کی قربانی مت کرو جیسا انڈین ملا کہتے ہیں ہر سال ۔:D
 
کچھ باتیں درست اور کچھ غلط۔
گندی ترین حکومتی انتظامیہ
ہمارا خطہ برصغیر (پاک وہند)ہے ۔ جب یہاں برے حکمرانون جو تمام قسم کی عیاشیوں میں مست تھے ۔ دولت نے جنہیں فرائض منصبی سے غافل کر دیا تھا ۔ ان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلبہ ہو گیا۔ انگریزوں نے پہلے سے ان کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کررکھا تھا ۔ ہندو تو پہلے دن سے انگریز کے وفاداروں میں شامل ہوگئے ۔ کیونکہ وہ کسی آقا کی منشی گیر ی کرکے ہی اپنی دھونس جمالینا کافی سمجھتے تھے ۔ جب کہ مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کی پہلے ہی سے رپورٹ یہ تھی کہ یہ اپنے ہر بچے کو اس قدر تعلیم دیتے ہیں کہ وہ عظیم سلطنت برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کے قابل ہوتاہے ۔ فرق صرف زبان کا تھا ۔ ورنہ تعلیم کا معیار مسلمانوں کا اعلیٰ تھا ۔ پہلے پہل انگریز نے چند تعلیمی پالیسیاں نافذ کرکے دیکھیں ۔ ناتو کوئی خاص نتیجہ برآمد ہوا اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ختم کیا جاسکا ۔ پھر لارڈ میکالے اپنی ایک تجویز ساتھ لے کر آیا ۔ تجویز یہ تھی کہ ان کو انگریزی زبان میں مغربی تعلیم دی جائے جو مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو مادر پدر آزاد سوچ فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ انسویں صدی کے آغاز میں اور بعد میں اسلامی تحریکوں کی بدولت 1857میں جنگ آزادی ہوئی جس میں دینی جامعات سے پڑھے لکھے علماء نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ پھر انگریزوں نے اکبر بادشاہ کی لادینی سوچ کے حامل افراد کو چن چن کر غداری کے لیے منتخب کیااور دین کے علماء کو شہید کر دیا ۔ ان کو دور دراز جزیروں میں تاحیات قید کردیا۔
نئے غداروں کے تعاون سے انگریزی نظام تعلیم کو فروغ دیا اور نام نہاد دینی مدرس کا افتتاح کر کے مسلم قوم و ملت کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کا منصوبہ بنایا ۔
انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ شراب نوشی اور دیگر اخلاقی برائیوں کا عادی ہوا۔ جبکہ بدمذہب مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد دین کی ضروریات سے منکر ہوئے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمراہی میں چند مخلص لو گوں نے مل جل کر ایک مسلم ریاست پاکستان کو تشکیل دیابعد میں تعلیمی اور انتظامی امور اُسی لاد ین طبقے کے ہاتھ میں رہے ۔ جبکہ بدمذہب فرقوں کے علماء کئی بار شراب اور کبا ب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ۔
اب ان تعلیمی اداروں سے نوکری کے رسیا اور کرپٹ افراد پڑھ لکھ کر فارغ ہوتے گئے اور پاکستان کی حکومتوں اور اقتدارکا حصہ بنتے گئے ۔ رشوت روز مرہ کا معمول بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ لو گ گھر سے رشوت کے تمام لوازمات پورے کرکے دفتروں کا رُخ کرنے لگے ۔
آج حال یہ ہے کہ ایک سو کے قریب ملکی ٹی وی چینل موجود ہیں ۔ جوکہ کفار کی فکر کو معاشرے میں پروان چڑھا رہے ہیں اور رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں ۔ عالَم کفر کی جانب سے ایک گستاخانہ فلم شائع ہوئی تو اُس کے رد عمل میں احتجاج کو توڑ پھوڑ کی شکل دینے کے لیے انہی لو گوں کا سہارا لیا گیا جو اس معاملے میں تربیت یافتہ تھے ۔ لارڈ میکا لے نے جو تصور دو صدیاں پہلے دیا تھا کہ یہاں کے باشندوں کے ذہن ایسے بننے چاہیں کہ وہ اندرسے انگریز ہوں آج اُ س کی تعبیر ہمارے سامنے ہے ۔
اُسی فکر کے پر وہ لو گوں نے توڑ پھوڑ کرے کے دینی مظاہروں کو بد نام کرنے کی سازش کی اور میڈیا نے بھی اُس کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری نبھائی ۔
اس ملک کی بدترین انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ انہوں نے آج تک انٹر نیٹ پر یو ٹیوب کو امریکی انتظامیہ سے رجسٹرڈ نہیں کروایا ہو ا تھا ۔
تب عوام کے مطالبے پر یوٹیو ب کو بند کردیا گیا ۔ لیکن اُس کو رجسٹرڈ کروا کے اور گستاخانہ فلم کو بند کر وا کے اس لیے دوبار ہ نہیں چلا یا گیا۔ کہ نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہی نہ ہو۔ اور دینی قوتوں کی طرف رد عمل کو سامنے نہ لایا جاسکے ۔
اگر اس ملک کی انتظامیہ اچھی ہوتی تو وہ جنسی انار کی پھیلانے والی ویب سائٹس کو بند کروا کے بھی تو ملک و قوم کی خدمت کر سکتی تھی ۔ لیکن یہ کافر کے غلا م اس قوم کو گناہوں کی دلدل میں دھنسانے کے انتظامات مکمل کر رہے ہیں لیکن حقیقت صورت حال سے دور رکھنے کے لیے یو ٹیوب کا معاملہ حل کرنے کو تیار نہیں۔ یہ کس قدر گھٹیا سوچ کے انسان ہیں جن کے ہاتھوں میںیہ ملک ہے ۔ جو انتظامی امور میں اتنی بڑی خیانت کر رہے ہیں ۔کیا یہ بدترین انتظامیہ نہیں ۔ کیا یہ اب بھی حکمرانی کے حق دار ہیں ؟ کیا یہ انسان ہیں ۔کیا یہ مسلمان ہیں؟یا لا رڈ میکالے کے غلام
1857 کی جنگ ہندوستانیوں نے لڑی تھی۔ صرف مسلمانوں نے نہیں۔
اکبر بادشاہ کا دین جہانگیر کے دور حکومت میں ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد کتنے ہی مغل بادشاہ گزر گئے۔
اس پر خاصا کام ہوا ہے۔ پی ٹی اے نے سینکڑوں ویب سائٹس بند کی ہیں۔
 
اس مراسلے میں لفظ ملا، مولوی یا عالم کے لئے نہیں استعمال کیا گیا ہے ۔ ملا کے معانی اس اور باقی سب مراسلوں مذہبی سیاسی بازی گروں کے ہیں۔

بہت سی گواہیوں سے یہ ثابت ہے کہ قائداعظم قرآں باقاعدگی سے انگریزی ترجمے کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان کا خواب پاکستان میں امرھم شوری بینھم کے حکم کے مطابق جمہوری حکومت قائم کرنے، تعلیم عام کرنے اور عورتوں کو مردوں جتنی تعلیم کی فراہمی تھا۔

اس میں شبہ نہیں کہ گندی ترین حکومتی انتظامیہ ہندوستان پر بابر کے حملے سے 1857 تک کی جنگ آزادی تک گذری ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں ہندوستان میں کوئی یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی، کوئی سائنسی ایجاد نہیں ہوئی ، کوئی مالی نظام تشکیل نہیں پایا۔ کوئی سڑکوں کا نظام قائم نہیں ہوا۔ اس دور میں ملائیت نے اپنی پسند کے قاضی یعنی جج ، مفتی یعنی قانون ساز اور بناء کسی مشورے کے گورنر ہندوستان پر بٹھائے۔ قرآن کی جگہ ، کتب روایات سے حکومت کی۔ جس میں فرد واحد کی حکومت کو لوٹنے پر مامور کیا۔ جب کہ قرآن کا حکم تھا ۔۔۔۔ امرھم شوری بینھم ۔۔

باہمی مشورے سے جمہوری حکومت کے قیام کا حکم
سورۃ الشوری، آیت 38۔
42:38
والَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں​
ہندوستان پر مسلمان حکومت کے دور مین کسی مجلس شوری کی مثال نہیں ملتی بلکہ جب بھی مشورہ کیا گیا ۔ ملا پارٹی فتوے لے کر کود پڑی کہ اگر کوئی مجلس شوری تمام مسلمانوں کے ووٹ یا بیعت سے ہوگی تو اس کو قابو کرنا بہت ہی مشکل ہوگا جبکہ ایک فرد واحد کو ملا فتووں کی مدد سے قابو رکھتے رہے۔​
تعلیم کے میدان میں ملاء کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ سب لوگ تعلیم پا جائیں کیوں کہ یہ لوگ گورنری، قاضی گیری اور مفتی گیری بس اپنے ہی پاس رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ عدلیہ کے لئے فرمان الہی ہے کہ تم میں سے عادل لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئیے۔ جیسے کہ آج کل پاکستان کی عدالت عالیہ ، جو کہ ایک مفتی اعظم کی جگہ ایک پورے بنچ پر مشتمل ہے، جسٹس مفتی تقی عثمانی اسلامی تعلیم اور اسکول کی تعلیم دونوں سے بہرہ ور ہیں ۔ ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام جج ، قرآن و سنت رسول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملاء جدید تعلیم کے مکمل طور پر سر سید احمد خان کے دور سے خلاف ہے۔​
مقننہ اور عدلیہ کی جماعت کا حکم
3:104 ولْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں​
ملاء عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہے جبکہ اللہ تعالی کا صاف حکم کے کہ عورتیں قانون سازی اور عدلیہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ ہوں۔ عورتیں تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو عدلیہ اور مقننہ میں ساتھ ساتھ مردوں کے شانہ بہ شانہ کس طرح ہو سکیں گی؟؟​
خواتین کا مردوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ، عدلیہ ، مقننہ میں شمولیت کا حکم
9:71 والْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے​
گو کہ موجودہ حکومت میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن پاکستان کے قیام سے آج تک کی تاریخ گواہ ہے کہ انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ ضرورت ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہر قسم کے منافع پر، زراعت پر اور ہر قسم کی آمدنی پر 20 فی صد ٹیکس لگایا جائے۔ سود خوری اور منافع خوری کی تعریف، قرآن کے مطابق کی جائے۔ اس سے معاشرے میں دولت کی فراوانی اور روانی بڑھے گی، معاشرے میں ملاح و بہبود کے لئے رقم فراہم ہوگی ، جب بڑھاپے میں فلاح و بہبود ور صھت عامہ موجود ہوگی تو آخری دنوں کا خوف ختم ہوجائے گا ، اس خوف کی کمی سے اور اور اکاؤنٹ ایبلٹی بڑھنے سے رشوت کی بیماری ختم ہوجائے گی۔ نوکری ملنے سے بے کاری ختم ہوجائے گی۔ ضرورت ہے کہ ہم قرآن کی تعلیمات پر عمل کریں۔ اسی میں ہماری فلاح ہے۔​

ٹیکس، سود ، منافع اور دولت کی روانی کے بارے میں اگلے مراسلے میں۔ انشاء اللہ
 
کچھ باتیں درست اور کچھ غلط۔

1857 کی جنگ ہندوستانیوں نے لڑی تھی۔ صرف مسلمانوں نے نہیں۔
اکبر بادشاہ کا دین جہانگیر کے دور حکومت میں ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد کتنے ہی مغل بادشاہ گزر گئے۔
اس پر خاصا کام ہوا ہے۔ پی ٹی اے نے سینکڑوں ویب سائٹس بند کی ہیں۔
اوپر والی دو باتوں کا جواب ان شاءاللہ اُدھار رہا
پی۔ٹی۔اے کی نئی پالیسی سے پہلے یہ تحریر لکھی یعنی کہ تقریبا دو ہفتے قبل۔ پرانی کارگردگی کسی حد تک قابل تحسین ہیں۔ لیکن فلٹر مکمل مطلوب ہے
 
اس مراسلے میں لفظ ملا، مولوی یا عالم کے لئے نہیں استعمال کیا گیا ہے ۔ ملا کے معانی اس اور باقی سب مراسلوں مذہبی سیاسی بازی گروں کے ہیں۔

بہت سی گواہیوں سے یہ ثابت ہے کہ قائداعظم قرآں باقاعدگی سے انگریزی ترجمے کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان کا خواب پاکستان میں امرھم شوری بینھم کے حکم کے مطابق جمہوری حکومت قائم کرنے، تعلیم عام کرنے اور عورتوں کو مردوں جتنی تعلیم کی فراہمی تھا۔

اس میں شبہ نہیں کہ گندی ترین حکومتی انتظامیہ ہندوستان پر بابر کے حملے سے 1857 تک کی جنگ آزادی تک گذری ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں ہندوستان میں کوئی یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی، کوئی سائنسی ایجاد نہیں ہوئی ، کوئی مالی نظام تشکیل نہیں پایا۔ کوئی سڑکوں کا نظام قائم نہیں ہوا۔ اس دور میں ملائیت نے اپنی پسند کے قاضی یعنی جج ، مفتی یعنی قانون ساز اور بناء کسی مشورے کے گورنر ہندوستان پر بٹھائے۔ قرآن کی جگہ ، کتب روایات سے حکومت کی۔ جس میں فرد واحد کی حکومت کو لوٹنے پر مامور کیا۔ جب کہ قرآن کا حکم تھا ۔۔۔ ۔ امرھم شوری بینھم ۔۔

باہمی مشورے سے جمہوری حکومت کے قیام کا حکم
سورۃ الشوری، آیت 38۔
42:38
والَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں​
ہندوستان پر مسلمان حکومت کے دور مین کسی مجلس شوری کی مثال نہیں ملتی بلکہ جب بھی مشورہ کیا گیا ۔ ملا پارٹی فتوے لے کر کود پڑی کہ اگر کوئی مجلس شوری تمام مسلمانوں کے ووٹ یا بیعت سے ہوگی تو اس کو قابو کرنا بہت ہی مشکل ہوگا جبکہ ایک فرد واحد کو ملا فتووں کی مدد سے قابو رکھتے رہے۔​
تعلیم کے میدان میں ملاء کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ سب لوگ تعلیم پا جائیں کیوں کہ یہ لوگ گورنری، قاضی گیری اور مفتی گیری بس اپنے ہی پاس رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ عدلیہ کے لئے فرمان الہی ہے کہ تم میں سے عادل لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئیے۔ جیسے کہ آج کل پاکستان کی عدالت عالیہ ، جو کہ ایک مفتی اعظم کی جگہ ایک پورے بنچ پر مشتمل ہے، جسٹس مفتی تقی عثمانی اسلامی تعلیم اور اسکول کی تعلیم دونوں سے بہرہ ور ہیں ۔ ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام جج ، قرآن و سنت رسول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملاء جدید تعلیم کے مکمل طور پر سر سید احمد خان کے دور سے خلاف ہے۔​
مقننہ اور عدلیہ کی جماعت کا حکم
3:104 ولْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں​
ملاء عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہے جبکہ اللہ تعالی کا صاف حکم کے کہ عورتیں قانون سازی اور عدلیہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ ہوں۔ عورتیں تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو عدلیہ اور مقننہ میں ساتھ ساتھ مردوں کے شانہ بہ شانہ کس طرح ہو سکیں گی؟؟​
خواتین کا مردوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ، عدلیہ ، مقننہ میں شمولیت کا حکم
9:71 والْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے​
گو کہ موجودہ حکومت میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن پاکستان کے قیام سے آج تک کی تاریخ گواہ ہے کہ انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ ضرورت ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہر قسم کے منافع پر، زراعت پر اور ہر قسم کی آمدنی پر 20 فی صد ٹیکس لگایا جائے۔ سود خوری اور منافع خوری کی تعریف، قرآن کے مطابق کی جائے۔ اس سے معاشرے میں دولت کی فراوانی اور روانی بڑھے گی، معاشرے میں ملاح و بہبود کے لئے رقم فراہم ہوگی ، جب بڑھاپے میں فلاح و بہبود ور صھت عامہ موجود ہوگی تو آخری دنوں کا خوف ختم ہوجائے گا ، اس خوف کی کمی سے اور اور اکاؤنٹ ایبلٹی بڑھنے سے رشوت کی بیماری ختم ہوجائے گی۔ نوکری ملنے سے بے کاری ختم ہوجائے گی۔ ضرورت ہے کہ ہم قرآن کی تعلیمات پر عمل کریں۔ اسی میں ہماری فلاح ہے۔​

ٹیکس، سود ، منافع اور دولت کی روانی کے بارے میں اگلے مراسلے میں۔ انشاء اللہ
سو فی صد کسی مستشرق کی باطل تحقیق اور باطل استدلال ہے۔ دروغ گوئی کی انتہا ہے۔ دراصل کفار انگریزوں کی پالیسیاں گندی ترین اور ان کے غلاموں کی ہیں۔ ساری لعنت نوآبادیاتی نظام، سرمایہ دارانہ نظام اور لا دینیت کی تعلیم، آزادیِ اظہار رائے کا قانون اور کفار کی پیروی ہے
 
یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ انیسویں صدی میں ہمارا تعلیمی نظام انگریزوں سے بہتر تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو پچاس ہزار انگریز فوجی اتنی آسانی سے پورے برصغیر پر قبضہ نہ کر لیتے۔
یہ مغلوں کی عیاشیوں اور غداروں کی کارستانیاں تھیں۔ ورنہ ان مغربی سفیروں کی رپورٹس آپ لوگوں کے علم میں ہی نہیں۔ بچوں والی باتیں۔ کھی کھی کھی
 
میرا خیال ہے حکومتی بد انتظامی کو انگریزی تعلیم سے جوڑ کر دیکھنا مناسب نہ ہو گا۔ ایسا کر کے ہم شاید کرپشن کو اپنی قوم کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے اس کا نزلہ انگریزی تعلیم پر گرا کر خود کو دھوکے میں رکھیں گے۔
صاحبِ مراسلہ کی تحریر کا اقتباس پیش ہے

قائدِ اعظم بھی انگریزی تعلیم میں ہی پروان چڑھے اور انگریزی قانون کی بیرسٹری کے حامل تھے۔ تحریکِ پاکستان میں شامل سبھی لوگوں کے شراب نہ پینے کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟۔ شراب پینا کسی شخص کا ذاتی عمل ہے لیکن قوم کے ساتھ دھوکہ اور بد انتظامی کو اس سے نتھی کر کے دیکھنا بذاتِ خود اس جُرم کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ بدانتظامی میں صرف انگریزی سکولوں کے پڑھے ہی نہیں بلکہ مدرسوں کے پڑھے حاجیوں کو لوٹنے والوں ، ڈیزل کے پرمٹ لینے والوں ، قوم کو عیدین پر تقسیم کرنے والوں ، حکومتی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے والوں ، طالبان کے حمایت کرنے والوں اور کفریہ فتوے دینے والے ”جید علماء“ کے بھی نام آتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں انسانی گروہوں کی بہت سی اکائیاں شامل ہوتی ہیں اور کسی بھی اکائی کے افراد کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی افراط و تفریط کا شکار ہو سکتے ہیں لہذا کسی گروہ کو با لجملہ اس کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
قائد نے آخری عمر میں کس کی فکر کو پروان چڑھایا؟ انگریزی یا ۔۔۔۔؟
کس نے کہا تحریک پاکستان کے سب۔۔۔۔۔ شرابی تھے یا نہ تھے؟
احکام کے معاملے میں ذاتی فعل کا اسلام میں تصور نہیں ۔۔ سیکولرزم میں ہے۔ وہ لادینیت ہے
حاجیوں کو لوٹنے والوں ، ڈیزل کے پرمٹ لینے والوں ، قوم کو عیدین پر تقسیم کرنے والوں ، حکومتی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے والوں ، طالبان کے حمایت کرنے والوں اور کفریہ فتوے دینے والے ”جید علماء“ کے بھی نام آتے ہیں۔
ان میں کچھ میں صداقت ہے کچھ میں مبالغہ
حج کرپشن سب کے سامنے ہے
باقی سب کچھ بھی سب کے سامنے ہے
یہ سارا انگریزی جمہوری نظام کا خاصہ ہے
جس کی پیروی کی جا رہی ہے
 
دراصل آپ کے کالم میں جن الفاظ کو میں نے مارک کیا، اس کے رو سے ایک عظیم شخصیت سر سید احمد خان اور اس کے قائم کردہ ادارہ پر بات آ رہا ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں سر سید احمد خان نے ہی انگریزی تعلیم کو فروغ دیا۔ اس لیے ذہن مختلف کیفیت کا شکار ہوا۔ اب یہ مبصرین ہی کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت کہاں تک حقیقت ہے؟
اسی عظیم شخصیت ہی نے تو ہمیں تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا، وہی تو مستشرقین کا سب سے بڑا آلہ کار تھا۔ قرآن کی تفسیر میں تحریف کرنے والا، حدیث کا منکر۔ ثبوت موجود ہیں۔ صرف الزامات نہیں۔
 
ہاں اچھی خبر ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان والے ہیں حق بات کرتے ہیں عمل کرتے ہیں اور تلقین کرتے ہیں
ایسے لوگ بھی ہیں لیکن ان کی زبان بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے یہ کفار کا آخری حدف ہے
بقول سلطان صلاح الدین ایوبی کہ " کسی قوم کو بغیر جنگ کیے جیتنا ہے تو اس میں فخش اور شراب عام کردی جائے۔
جی۔ اب سرسید خان کی فکر نے اس معاشرے کو دو وقت کی روٹی کا غلام بنا دیا۔ اور فحاشی ہماشرے میں تعلیم کے نام پر گھس آئی
 
میں یہ بات کروڑ بار کہہ چکا کہ انسان کے ذاتی فعل اس کے ملک کے ساتھ رشتے یا ایمانداری کو کوئی نقصان نہیں دیتے ۔ ساری دنیا کی افواج شراب پیتی ہیں کیا امریکی جنرل امریکہ کے غدار ہیں ؟ کیا آسٹریلیوی افواج غدار ہیں وہ تو ڈانس دیکھتے ہیں شراب پیتے ہیں پر جب وقت پڑے تو ایسے ڈٹ جاتے ہیں کہ بس ۔ کیا سکھ ڈرپوک ہیں؟ وہ تو افیون کھا کر پشاور پر چڑھ داڑے تھے اورقبضہ کر ڈالا تھا ۔ بات ساری انگریزی کی نہیں اخلاقی انحطاط کی ہے اور مسلمانوں سے زیادہ ملبہ دوسروں پر ڈالنے والا شاید ہی کوئی ہو ۔ ارے بھئی اگر انگریزی تعلیم اور وہ سب کچھ جو انگریزی سے ملا ہے ہٹا دیا جائے تو کیا بچت گا ؟ ریلوے پی آئی اے بسیں کاریں ہسپتال تو دور ایک سوئی تو کمیونسٹ چائنا سے آ رہی ہے ۔ اور وہ لوگ خود جو انگریزی ماں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں ان مسلمانوں سے کروڑ ہا گنا کم غدار کرپٹ اور کام چور ہوتے ہین اس کی کوئی خآص وجہ جبکہ ہونا اس کا الٹ چاہیے تھا ۔
میں نے انگریزی نظام تعلیم کو کہا جو بھی کہا
 
سو فی صد کسی مستشرق کی باطل تحقیق اور باطل استدلال ہے۔ دروغ گوئی کی انتہا ہے۔ دراصل کفار انگریزوں کی پالیسیاں گندی ترین اور ان کے غلاموں کی ہیں۔ ساری لعنت نوآبادیاتی نظام، سرمایہ دارانہ نظام اور لا دینیت کی تعلیم، آزادیِ اظہار رائے کا قانون اور کفار کی پیروی ہے
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ ریسرچ نہیں ۔ یہ وہ قرآن حکیم ہے جس کا پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو پڑھتا ہے جانتا ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان کیا ہے ؟؟؟
سرجی آپ نے کبھی قران حکیم بھی پڑھا ہوتا تو آج یہ مشکل نا ہوتی ۔۔۔ کہ اللہ تعالی کے پیغام کو مستشرق کی باطل تحقیق اور باطل استدلال کہہ کر اپنی ذاتی خواہشوں کی پیروی کی جارہی ہے ؟

اتفاق سے تمام معانی ، مستند پاکستانی مترجمین کے ہیں۔ اور معانوں میں کوئی تبدیلی بھی نہیں کی گئی ہے۔ جوں کا توں معانی فراہم کئے گئے ہیں۔ یہی تو وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ملاء قرآن حکیم کبھی "مشکل" کہہ کر چھپاتا ہے، کبھی "ہم سے سمجھو" کہہ کر چھپاتا ہے۔

لہذا یہ الزام دینا کہ یہ کسی مستشرق کی باطل تحقیق اور باطل استدلال ہے بالکل درست نہیں۔ مسلمان جس راہ پر چل کر ہندوستان میں ڈوب گیا وہ ایک حقیقت ہے۔ جب مسلمان کو حقیقت کا اندازہ ہوا تو قرآن پر عمل کیا اور تمام لادین ملاء کی راہیں چھوڑ دیں ۔ صرف 65 سال میں پاکستان نے اتنی ترقی کی ہے کہ ملاء حیران و پریشان ہے۔

ملاء اپنے رواج کو قائم رکھنے کے لئے باہمی مشورے کے حکومت، عدلیہ کی جماعت، مقننہ کی جماعت، عورتوں کی تعلیم اور قانون سازی اور عدلیہ میں شرکت کے خلاف ہے ۔ اسی لئے قرآن حکیم کو چھپاتا پھرتا ہے۔۔۔

کوئی وجہ ہی ہوگی کہ آپ نے کہا کہ یہ باطل تحقیق اور باطل استدلال ہے۔

ذرا جلدی سے ہندوستان میں ملاء کی پروردہ حکومت کی قائم کردہ یونیورسٹیوں کی تعداد بتائیے۔
ذرا جلدی سے ہندوستان میں ملاء کی پروردہ حکومت کے قائم کردہ شفاخانوں کی تعداد بتائیے۔
ذرا جلدی سے ہندوستان میں ملاء کی پروردہ حکومت کی بنائی ہوئی سڑکوں کی لمبائی بتائیے۔
ذرا جلدی سے ہندوستان میں ملاء کی پروردہ حکومت کے بنائے ہوئے مالیاتی نظام کی تفصیل بتائیے۔
ذرا جلدی سے ہندوستان میں ملاء کی پروردہ حکومت کے بنائے ہوئے عورتوں کے مدرسے اور یونیورسٹیوں کی تعداد بتائیے۔
ذرا جلدی سے ہندوستان میں ملاء کی پروردہ حکومت کےدور میں ہوئی ایجادات کی تعداد بتائیے۔

ملاء کی پروردہ حکومت نے صرف قلعے بنائے جس میں لوٹ کا مال رکھا، قوموں کی قوموں کو قتل کیا ، عورتوں کو قابو کیا اور ان کو تعلیم سے محروم کیا۔ عورت کو صرف ایک کموڈوٹی کی طرح بیچا اور خریدا اور سربازار نچا کے برا بھلا کہتے رہے ۔

کاریں، کمپیوٹر، سوئی، ہوائی جہاز ، بحری جہاز ، بندوق، ایٹم بم اور انٹرنیٹ بھی ملاء کی پروردہ حکومت کے دور میں ایجاد ہوا تھا کیا۔

ملاء کان کھول کر سن لے کہ اللہ تعالی نے فرما دیا ہے کہ جب اس نے انسان کو بنایا تو اس کو تمام نام سکھا دیے، ہر طرح کا علم سکھا دیا ، ملاٗ اس علم پر پابندی لگاتا ہے۔ یہ دیکھو۔
2:31 و
عَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا
ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَ۔ؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو​


یہ علم تو انسان کے ساتھ ساتھ اس کے ڈی این اے میں پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالی کے حکم سے انسان اس علم کو ریسرچ کرکے حاصل کرتا ہے

ملاء کو اس کی حرکتوں کا خوب لگ پتہ چل جائے گا۔ جب ۔۔۔
39:69
وأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمینِ اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور الکتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا

اس روز ملاء اس گواہی کو کس طرح رد کرے گا کہ ۔۔۔۔ باہمی مشورے ، مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کی جماعت ۔۔ عورتوں کی مساوی تعلیم کہ وہ مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ کا مساوی حصہ ہوں ۔۔۔ کا فرمان الہی ، ملاء تک پہنچا دیا گیا تھا۔ اس دن کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس دن صرف سات سے سترہ نمبروں کے لتروں کی عید ہوگی :)

ابھی ملا آئین اور قوانین کے فرق کو اپنی کتابوں میں دھونڈہی رہا تھا کہ مسلمان نے ملاء کو رد کردیا اور اپنا آئین لکھا کہ اس ملک کے قوانین --- قرآن اور سنت --- کی روشنی میں بنیں گے۔
آج سے 65 سال پہلے مسلمان نے یہ طے کیا کہ اس ملک پاکستان میں مفتی اعظم قانون نہیں بنائے گا ، بلکہ مقننہ ایک جماعت ہوگی
آج سے 65 سال پہلے مسلمان نے یہ طے کر لیا کہ اس ملک پاکستان میں قاضی فیصلہ نہیں کرے گا، بلکہ عدلیہ ایک جماعت ہوگی
آج سے 65 سال پہلے مسلمان نے یہ طے کرلیا کہ انتظامیہ ایک فرد واحد کی حکومت نہیں ہوگی بلکہ انتظامیہ ایک جماعت ہوگی
آج سے 65 سال پہلے مسلمان نے یہ طے کرلیا کہ مسلمان ماں تعلیم حاصل کرے گی اور قانون سازی، عدلیہ ، انتظامیہ میں اپنا مساوی کردار مردوں کے شانہ بشانہ ادا کرے گی ۔

سب سے بڑھ کر مسلمان نے یہ طے کرلیا ہے کہ تمام مسلمانوں کے باہمی مشورے سے یعنی جمہوری نظام کے تحت حکومت کھڑی ہوگی۔

ملاء آج تک اس نظام کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف ہے۔

ملاء اس دن سے ڈرے جس دن مسلمان نے اس کو پہچان لیا اس دن ملاء کا ٹھکانہ بحیرہ عرب ہوگا۔ انشاء اللہ ۔
 
کپڑے ھھھ ھھھ ھھھ ھھ اب تک یہ پھنسا ہوا معاشرا کہ کون کیا پہنے گا :laugh: آپ نا دیکھیں بھئی کس نے کہا دیکھیں ہر انسان کو حق ہے کہ اپنا لباس چنے یا طالبان کی طرح مسلمان کا لباس شلوار قمیض ہے اور پانچے اونچے رکھو :ROFLMAO:

آپ کی باتوں سے مجھے یہ یاد آ گیا :laugh:

Maulvis1.jpg
جی کیا خوب کہا۔
مادر پدر آزاد معاشرے کا حال آپکے سامنے ہے۔ کہ جہاں اب تو اپنی ماں کی شناخت بہی مشکل ہو رہی ھے۔
ایسا معاشرہ ھمیں تو نہیں چاہیے،،،،،
 

عسکری

معطل
جی کیا خوب کہا۔
مادر پدر آزاد معاشرے کا حال آپکے سامنے ہے۔ کہ جہاں اب تو اپنی ماں کی شناخت بہی مشکل ہو رہی ھے۔
ایسا معاشرہ ھمیں تو نہیں چاہیے،،،،،
کس کو کیا چاہیے اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا ملائیت اب ملک گیری کے فیصلے کرے گی جو اپنی اذان اور نماڑ کے مسئلے 1400 سال میں حل نہیں کر پائے ؟ ہاتھ کھلے رکھنے ہیں کہ باندھ کر پہلے یہ تو متفق ہو لیں:laugh: آپ کو پوری آزادی ہے سات پردوں میں اپنی خواتین کو رکھیں اور دوسروں کو بھی اتنی ہی آزادی ہے کہ ساتھ انچ کا لباس پہنیں ۔ کسی کو یہ حق کب ملا کہ اپنی مرضی دوسروں پر تھوپے؟ کب پاکستان میں کسی کا برقعہ یا حجاب نوچا گیا ؟
 
Top