گم گشتہ کشتیوں کو درکار ہے کنارا (نظم)

گم گشتہ کشتیوں کو درکار ہے کنارا
تاریک شب میں اپنا مشکل ہے اب گزارہ

قطبی ستارے دے اب کوئی صحیح اشارہ
باطل کے تیز بپھرے طوفاں نے ہم کو مارا

پہچان کب تھی ہم کو رہبر سے راہزن کی
اک فرد بے عمل کو تھا نا خدا پکارا

گو لٹ چکے ہیں ہم اب سب کچھ گنوا چکے پر
ایمان کا خسارہ ہم کو نہیں گوارا

ہم روشنی کی خاطر جگنو پکڑ کے لائے
جیسے کہ ڈوبتے کو تنکے کا ہو سہارا

احسان ہم پہ کر دیں سیدھا جو راستہ ہے
رہبر اسی کی جانب اب لے چلیں خدارا۔
 
بہت خوب ،
یہ اشعار خاص طور سے پسند آئے۔
گو لٹ چکے ہیں ہم اب سب کچھ گنوا چکے پر
ایمان کا خسارہ ہم کو نہیں گوارا
کیا کہنے ۔۔ ذہن میں کئی ایک واقعے اسی حوالے سے تازہ ہو گئے خاص طور سے جگر صاحب کا مئے نوشی کے دوران نعت کی فرمائش والا۔۔۔
ہم روشنی کی خاطر جگنو پکڑ کے لائے
جیسے کہ ڈوبتے کو تنکے کا ہو سہارا
 
یہ تو غزل لگ رہی ہے!!!

سر ! میں مبتدئین میں شمار ہوتی ہوں ۔ عروضی پیچیدگیوں سے علم القافیہ ، اوزان و بحور ، زحافات اور کچھ ابتدائی معلومات سے واقف ہوں ۔
غزل اور نظم میں بنیادی فرق صحیح طرح نہیں سمجھ پائی ۔
اتنا جانتی ہو کہ غزل وہ شعری تصنیف ہوتی ہے جس میں "عورت" سے یا "عورت" کے متعلق گفتگو ہو ۔ اور غزل کا ہر شعر انفرادی شناخت رکھتا ہے ۔ اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے ۔ اپنا مطلب واضح کرنے کے لیے دوسرے اشعار پہ انحصار نہیں کرتا ۔ جبکہ نظم کے اشعار شروع سے آخر تک باہمی ربط میں ہوتے ہیں ۔ ایک موضوع شروع کیا تو آخر تک اسے ہی لے کر چلے ۔
اگر آپ غزل اور نظم میں بنیادی فرق کی وضاحت کر دیں جس سے مجھے ان دو اصناف کی شناخت میں دشواری نہ ہو تو نوازش ہوگی ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
غزل نظم کی ہی ایک صنف ہے۔ کسی نظم کو غزل کہنے کے لیے مذکور باتوں کے علاوہ سب سے ضروری چیز زمین یعنی بحر قافیہ و ردیف ہے۔ اس کے علاوہ غزل کا پہلا شعر مثنوی نظم کی طرح ہم قافیہ و ردیف ہوتا ہے۔ اسے مطلع کہا جاتا ہے۔ باقی تمام اشعار میں عموما" ہر شعر کے مصرع ء ثانی میں قافیہ و ردیف کا خیال رکھا جاتا ہے تاہم ردیف اختیاری ہے۔ آخری شعر میں عموما" شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہا جاتا ہے۔

مزید یہ کہ عصرِ حاضر کی غزل کا دامن بہت وسیع ہو چکا ہے اس میں ہر طرح کی طبع آزمائی کی جاچکی ہے اب یہ صرف عورتوں کے ناز و ادا تک محدود نہیں رہی۔
 
غزل نظم کی ہی ایک صنف ہے۔ کسی نظم کو غزل کہنے کے لیے مذکور باتوں کے علاوہ سب سے ضروری چیز زمین یعنی بحر قافیہ و ردیف ہے۔ اس کے علاوہ غزل کا پہلا شعر مثنوی نظم کی طرح ہم قافیہ و ردیف ہوتا ہے۔ اسے مطلع کہا جاتا ہے۔ باقی تمام اشعار میں عموما" ہر شعر کے مصرع ء ثانی میں قافیہ و ردیف کا خیال رکھا جاتا ہے تاہم ردیف اختیاری ہے۔ آخری شعر میں عموما" شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہا جاتا ہے۔

مزید یہ کہ عصرِ حاضر کی غزل کا دامن بہت وسیع ہو چکا ہے اس میں ہر طرح کی طبع آزمائی کی جاچکی ہے اب یہ صرف عورتوں کے ناز و ادا تک محدود نہیں رہی۔


مشکور ہوں محترم !
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہ
بہت خوب کہی ہے نظم ہے یا کہ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم روشنی کی خاطر جگنو پکڑ کے لائے
جیسے کہ ڈوبتے کو تنکے کا ہو سہارا
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

ندیم مراد

محفلین
میرے خیال میں استاد محترم کی داد تکنیکی طرف چلی گﺉ شاﺉد وہ کہ رہے ہیں کہ ہے تو نظم مگر اس میں غزل کا سا تغزل موجود ہے یہ ایک کمپلیمینٹ ہے تنقید نہیں، اسے غزل مسلسل بھی کہ سکتے ہیں،
وللہ اعلم
 
ہ
میرے خیال میں استاد محترم کی داد تکنیکی طرف چلی گﺉ شاﺉد وہ کہ رہے ہیں کہ ہے تو نظم مگر اس میں غزل کا سا تغزل موجود ہے یہ ایک کمپلیمینٹ ہے تنقید نہیں، اسے غزل مسلسل بھی کہ سکتے ہیں،
وللہ اعلم
ہے تو سوچنے والی بات ۔
اب اس کا جواب سر خود ہی دے سکتے ہیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
"مس" کہہ لیا کروں گی آئندہ ۔
:)
افففففففففف
توبہ
مس جی تو بہت کان پکڑواتی رہی ہیں ۔ اور آپ مجھے ہی " مس " کہنے کا ارادہ کر رہی ہیں ۔۔۔
نایاب کہہ لیں بھائی کہہ لیں لالہ کہہ لیں انکل کہہ لیں مگر " مس " نہ کہیئے گا ۔۔۔۔
بہت دعائیں سدا ہنسیں مسکرائیں
 
Top