ماڈل ٹاﺅن میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اورڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پرپولیس چڑھائی کی اندرونی کہانی سامنے آگئی جس کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی مخالفت کے باوجود صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ نے سبق سکھانے کے احکامات صاد رکیے ۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی دارلحکومت میں گذشتہ روزہونیوالی ایک میٹنگ میں رانا ثنا ءاللہ نے انتظامیہ کوہدایت کہ منہاج القرآن میں کارروائی کریں تاہم
کمشنر لاہور نے کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے آپریشن میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔
راناثناءاللہ کارروائی پر بضد تھے اور اُنہوں نے ہدایت کی کہ مستقبل میں عوامی تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے کارروائی ناگزیر ہے۔
راناثناءاللہ کے احکامات پرآدھی رات کے بعدپولیس کی مختصر نفری منہاج القرآن پہنچی اوربیریئرہٹانے کی کوشش کی جس پرمتعلقہ حکام کو لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کی کاپی دکھائی گئی لیکن رکاوٹیں ہٹانے کا کام جاری رکھنے پرپولیس اور ہوسٹل میں مقیم لڑکوں میں جھڑپ ہوگئی ۔تصادم کے بعد پولیس کی کچھ نفری واپس لوٹ گئی تاہم کچھ موقع پرموجود رہے جبکہ کہاجارہاہے کہ آخری وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کو واقعے سے لاعلم رکھاگیا۔
منگل کی صبح ڈی سی اولاہور اور ڈی آئی جی بھاری مشینری کے ساتھ تازہ دم دستوں کے ہمراہ موقع پرپہنچے اور”
سبق “سکھانے کاعملی مظاہرہ شروع کردیاجس میں منہاج القرآن شیخوپورہ کے ناظم سمیت 8افرادجاں بحق اور80کے قریب زخمی ہوگئے ۔
پولیس ترجمان نے دعویٰ کیاکہ تجاوزارت کے خلاف آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی ماراگیا جسے مقامی میڈیا نے بھی بریکنگ نیوز کے طورپرچلایالیکن روزنامہ پاکستان کی تحقیقات کے مطابق لاہورکے کسی بھی ہسپتال میں پولیس اہلکار کی لاش منتقل نہیں کی ۔ ہسپتال ذرائع نے بتایاکہ مرنیوالے تمام افراد کی موت گولیاں لگنے سے واقع ہوئی جبکہ منہاج القرآن انتظامیہ کے مطابق شہداءتحریک کے کارکنان و طالبعلم تھے ۔
منہاج القرآن انسٹی ٹیوٹ کے اندر کی دیواریں بھی گولیوں سے چھلنی ہوگئی ہیں ، ہرطرف تباہی کے مناظرہیں جبکہ پولیس نے خود باہر کھڑی کئی گاڑیوں کو بھی جان بوجھ کر تباہ کردیا۔
یہ انکشاف بھی ہواہے کہ چارسال قبل حکومت پنجاب نے ہی ایک مراسلہ جاری کیاتھاجس میں منہاج القرآن انتظامیہ کوہدایت کی گئی تھی کہ سیکیورٹی خدشات موجودہیں اوروہ اپنی سیکیورٹی کے لیے انتظامات کرلیں جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے خود ہی بیریئرنصب کیے تھے ۔
منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے قریب ہی رہنے والے
محلے کی کمیٹی کے رکن اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بتایاکہ اہل علاقہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ خود کمیٹی کے رکن ہیں اورباہمی مشاورت سے ہی علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے بیریئرلگانے کا فیصلہ کیاگیاجس کی عدالت نے بھی منظوری دی تھی ۔