گدھا کہانی (میرزا ادیب)

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی
نویں قسط
امانت دَر امانت
(میرزا ادیب)
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال جولائی ۱۹۹۰)

کالو خاں، فخرو اور فخرو کی ماں، تینوں باورچی خانے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ان کے چائے پینے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ الگ الگ کسی نہ کسی فکر میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ماں نے لمبا گھونٹ حلق سے اُتارا اور رمضان خاں کو بددعا دی۔

"اللہ کرے اسے تو کسی کی آئی آ جائے۔"

"آپا! کسی کو اس طرح بددُعا نہیں دیا کرتے۔" کالو خاں بولا۔

"کیوں بددُعا نہ دوں۔ مصیبت بن گیا ہے ہمارے لیے۔ اب کہتا ہے کہ وہ میری امانت ہے۔ میں لے جاؤں گا۔"

کالو خاں مسکرایا، "آپا، یہ گدھا اس کی امانت نہیں تو کیا ہے۔ تمہارے لعل نے دو سو روپے لے کر اسے بیچ دیا تھا۔" فخرو کو اس بات پر غصہ تھا کہ چچا نے گدھے کو گدھا کہا تھا۔ بادشاہ سلامت نہیں کہا تھا۔

"چچا! وہ بادشاہ سلامت۔۔۔"

"چُپ رہ، بادشاہ سلامت کے بچے! میرا منھ نہ کھلواؤ۔ بادشاہ سلامت ہے تو اُسے دو سو روپے میں بیچ دیا تھا۔" فخرو کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

"وہ اول درجے کا غنڈہ ہے۔ ساری منڈی پر اس کا اثر ہے۔" چچا نے کہا۔

"تو ہم کیا کریں۔۔۔؟" ماں نے پوچھا۔

"آپا! اصول یہ ہے کہ جو شخص جو چیز خریدتا ہے وہ چیز اس کی ملکیت ہو جاتی ہے۔

"ہائے اللہ! تو کیا گدھا۔۔۔" فخرو تلملا اتھا، "اماں، بادشاہ سلامت۔"

کالو خاں کے تیور بدل گئے :

"ارے تو باز آتا ہے کہ نہیں۔ بادشاہ سلامت، بادشاہ سلامت کی رٹ لگا رکھی ہے۔"

کالو خاں سے ڈانٹ سن کر فخرو نے پیالی زمین پر رکھ کر اپنا سر جُھکا لیا۔

"تم لوگ گھبراؤ نہیں۔ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔" کالو خاں نے کہا تو ماں بولی :

"پر کالو خاں! وہ گدھا لینے آئے گا تو ہم کیا کریں گے؟" فخرو اپنے بادشاہ سلامت کی توہین برداشت نہ کر سکا، اُٹھ بیٹھا۔

"سرکار کا ارادہ کدھر کا ہے؟" کالو خاں نے اُسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

"میں بیتھ نہیں سکتا۔"

کالو خاں نے غصے سے کہا، "بیٹھ جاؤ!" فخرو مجبوراً بیٹھ گیا۔

"یہ کوکئی گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔" کالو خاں نے کہا۔

"وہ لینے آ جائے گا۔" فخرو نے اپنا سوال دہرایا۔

"تو آ جائے۔ ماں نے اس طرح دائیں ہاتھ کو ہلایا جیسے کہہ رہی ہو کہ میری سمجھ میں تو خاک نہین آیا۔ پھر اس نے کہا :

"کریں گے کیا؟"

"آپا! مجھے اور تم دونوں کو الگ الگ کام کرنے ہوں گے۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ میں کروں گا اور تم دونوں کیا کرو گے؟"

"ہوں۔" ماں کے ہونٹوں سے نکلا تو کالو خاں بولا :

"صرف ایک کام، خاموش رہو گے۔ کچھ بولو گے نہیں، کچھ پوچھو گے نہیں۔ کوئی سوال نہیں کرو گے، بس۔"

"بتاؤ گے نہیں، خود کیا کرو گے تم؟" ماں نے سوال کیا۔

"نہیں، کچھ نہین بتاؤں گا۔ آپا! بتاؤں کیا۔ یہ جو تمہارا عقل مند بیٹا ہے نا حماقتوں کی پوٹلی ہے ۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ اس کا ہاضمہ بہت ہی کمزور ہے۔ کوئی بات چھپتی ہی نہیں۔ اس کے پیٹ کے اندر ایک ڈھول ہے ڈھول۔ بجائے پر آ جائے گا تو بجاتا ہی چلا جائے گا۔ آپا! تم سب کچھ جانتی ہو۔ اب میں جاتا ہوں۔" کالو اُتھنے لگا تو اماں نے کہا، "جا کہاں رہے ہو کالو خاں؟"

"آپا! میں تو رو رہا تھا کہ ہمارے فخرو کا معدہ کم زور ہے۔ اب تمہار حافظہ بھی کم زور ہو گیا ہے۔ میں نے کہا نہیں کہ مجھ سے کچھ مت پوچھو۔ یاد نہیں رہا؟"

"اچھا بابا، جو جی میں آئے کرو۔"

"کروں گا۔ کرنے ہی تو جا رہا ہوں۔" کالو خاں جانے لگا۔

"واپس کب آؤ گے کالے خاں؟"

کالو نے زور سے اپنا ہاتھ جھٹکا، "آپا! کمال کر رہی ہو تم بھی!"

"توبہ میری اب تم سے کچھ پوچھنا بھی جرم ہو گیا۔" "اس سے بڑی خرابی ہو گی آپا۔"

ماں لوٹ آئی۔ کالو خاں ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں ماں بیٹے بیٹھے رہے۔

"فخرو پُتر!" ماں نے بیٹے کو پیار سے پُکارا، "تمہارا منھ کیوں سوجا ہوا ہے؟ تمہارے چاچے نے جو کچھ کہا ہے غلط نہیں ہے۔ اگر تجھے ڈانٹتا ہے تو مجھے بھی ڈانٹتا ہے حال آنکہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے اور مجھے آپا کہتا ہے۔"

"تو؟" فخرو نے زور سے کہا۔

"سب کچھ ہضم کرو۔ پوچھو کچھ نہیں۔ کسی سے کہو کچھ نہیں۔" ماں نے یہ الفاظ اُس طرح کہے جس طرح کالو خاں نے کہے تھے۔

ان کے گھر سے کچھ دور کالو خاں گدھے کی رسی پکڑے ایک بارونق بازار میں سے گزر رہا تھا۔ آتے جاتے ہوئے لوگ حیران ہو رہے تھے کہ آج کالو خاں دُکان بند کر کے گدھے کو کہاں لے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے فخرو ہی کو گدھے کو لے جاتے ہوئے اور لاتے ہوئے دیکھا تھا۔ کالو خاں بے نیازے سے چلا جا رہا تھا۔ اگر وہ قریب سے گزرتے ہوئے لوگوں پر نظر ڈالتا تو ان کے چہروں پر بکھرے ہوئے سوال کو پڑھ لیتا، مگر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ آگے ہی آگے چلا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک نئی آبادی میں پہنچ گیا۔ کچھ دور جا کر اس نے ایک دو منزلہ عمارت کے دروازے پر دستک گی۔ دروازہ کھل گیا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔

"آؤ کالو خاں بڑی مدت کے بعد صورت دکھائی ہے۔"

"کیا کہوں ہاشم! تم کو معلوم نہیں ہو گا۔ میں دُکان دار بن چکا ہوں۔"

ہاشم نے کہا، "مجھے معلوم ہو گیاتھا۔ اور یہ دو معزز مہمان باہر کیوں کھڑے ہیں؟ اندر آؤ۔"

"ہاشم! ایک تکلیف دینے آیا ہوں۔"

"اندر آ کر کہو۔"

"نہیں ہاشم مجھے جلدی جانا ہے۔ سنو تم نے کہا ہے دو معزز مہمان باہر کیوں کھڑے ہیں۔"

"یار کالو خاں معاف کرنا وہ ہنسی مذاق کی بات تھی۔"

"ٹھیک ہے۔ ان دو معزز مہمانوں میں سے ایک چلا جائے گا۔ دوسرے کی میزبانی تم کرو گے۔ تھوڑے دنوں کے لیے۔"

"سر آنکھوں پر، مگر یہ چلا جائے گا؟" ہاشم نے گدھے کی طرف دیکھ کر کہا۔

"معاملہ اس کے اُلٹ ہے۔"

"کیا کہا؟ یعنی یہ ۔۔۔۔"

"بالکل یہی۔" دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔

"میں کچھ سمجھ نہیں سکا کالو خاں!"

"ہاشم! میں یہی تکلیف دینے آیا ہوں۔ اس کی وجہ بتاؤں گا ضرور لیکن ابھی نہیں۔"

"مگر کالو خاں۔۔۔" کالو نے سمجھ لیا کہ ہاشم کیا کہنا چاہتا ہے۔ بولا، "یہ بڑا شریف جانور ہے۔ ذرہ برابر تکلیف نہیں دے گا گھر والوں کو۔ جہاں رکھو پڑا رہے گا۔ جلدی لے جاؤں گا۔ کوئی اعتراض ہے تم کو؟ ہاشم نے جواباً کہا :

کالو خاں! تم میرے بچپن کے دوست ہو۔ میں تمہاری کوئی بات نہ مانوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔"

"تو بسم اللہ، اصل میں یہ گدھا امانت در امانت ہے ہمارے پاس۔ میرا بھتیجا جہاں سے اسے لایا تھا امانت کے طور پر لایا تھا۔ پھراس نے اسے بیچ دیا ہے۔ اب پکڑو اسے۔"

کالو خاں نے گدھے کی رسی ہاشم کے ہاتھ میں دے دی۔

"کیا مطلب؟ اسی طرح چلے جاؤ گے؟"

"ہاں تمہارا شکریہ۔ مجھے جانے کی اجازت دو۔"

"اچھا نہیں لگتا کالو خاں، خیر، تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔"

کالو خاں دو قدم جا کر رُک گیا۔ ہاشم گدھے کی رسی پکڑے دروازے پر کھڑا تھا۔

"کیا یاد آ گیا ہے، کہہ ڈالو۔"

"اس کے یہاں رہنے کا کسی کو بھی علم نہیں ہونا چاہیے۔"

"راز ہے کوئی؟"

"یہی سمجھ لو۔"

کالو خاں ایک طرف چلنے لگا۔ اب وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیا تھا جہاں تیلی، لوہار، بڑھئی اور کمہار وغیرہ رہتے تھے۔ ایک جگہ کئی گدھے بندھے تھے۔ یہ ایک کمہار کا گھر تھا۔ کالو خاں ایک ایک گدھے کو بڑے غور سے دیکھنے لگا۔ ایک گدھے کے قریب اس کے قدم رُک گئے۔ ایک بچہ ذرا دور کھڑا یہ منظر بڑی دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگ کر چلا گیا۔ دو تین منٹ بعد ایک آدمی آ گیا اور بولا، "کیا بات ہے؟" اس کے لہجے سے برہمی نمایاں تھی۔

"شاید آپ نے مجھے چور سمجھا ہے۔" کالو خاں نے ہنس کر کہا۔

"دو مہینے ہوئے ہمارے دو گدھے چوری ہو گئے تھے۔"

"میں چور نہیں ہوں جناب۔ مگر گدھا ضرور لے جانا چاہتا ہوں، منھ مانگی قیمت دے کر۔"

اب کمہار کا لہجہ بدل گیا۔ وہ بولا، "گدھا خریدنا چاہتے ہو؟"

"جی ہاں، جو قیمت مانگیں گے دوں گا۔"

"کیوں خریدنا چاہتے ہو؟"

"بس! مجھے ضرورت ہے۔ قیمت بتائیے۔"

"ذرا ٹھہر جاؤ۔" وہ آدمی تیزی سے اندر چلا گیا۔ کالو خاں کھڑا رہا۔ وہ آدمی واپس آ گیا۔ اور آتے ہی پوچھا، "کون سا چاہیے؟"

"یہ۔" کالو خاں نے اس گدھے پر ہاتھ رکھ دیا جسے وہ غور سے دیکھتا رہا تھا۔

"کیا دے سکتے ہو؟"

"جو بھی آپ مانگیں گے۔"

وہ آدمی پرھ چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا، "یہ میرے خالو کا ہے۔ سات سو سے کم۔۔۔"

"ٹھیک ہے، مجھے یہ قیمت منظور ہے۔"

کالو خاں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کا ایک بنڈل نکالا۔ نوٹ گنے اور بولا :

"یہ لیجیے۔ دیکھ لیں۔"

کُمہار نے نوٹ گنے۔ سر کے اشارے سے اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ اور کالو خاں گدھے کی رسی پکڑ کر چل پڑا۔

(جاری ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی
دسویں قسط
گدھا بھاگ گیا
(میرزا ادیب)
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال اگست ۱۹۹۰)

کالو خاں نے جب گھر میں پہنچ کر گدھے کو دالان والے کمرے میں بند کر دیا تو وہ اس قدر تھک چکا تھا کہ فوراً چارپائی پر لیٹ جانا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے فخرو کی ماں اس کے سامنے آئی جو باورچی خانے میں سے باہر آ رہی تھی۔ اس نے جو کالو خاں کو دیکھا تو بولی :

"کالو خاں! گدھے کو لے کر کہاں چلے گئے تھے؟ کہاں چھوڑ آئے ہو اسے؟ اتنی دیر غائب کہاں رہے تھے؟"

"آپا! ایک دم اتنے سوال جڑ دیے ہیں۔ میری بات بھول گئی ہو کیا؟"

"اب کوئی اس طرح چُپ بھی کیسے رہے۔ وہ گدھا ۔۔۔"

"وہیں ہے جہاں ہوتا تھا۔" کالو خاں نے اس کا فقرہ کاٹتے ہوئے کہا۔ :وہاں نہیں تھا۔"

"نہین تھا۔ اب تو ہے نا۔ میں بڑا تھک گیا ہوں۔ ایک کپ چائے۔ بس اور کہنا سننا کچھ نہیں۔ کچھ مت پوچھو اس وقت۔" کالو خاں سونے کےکمرے میں چلا گیا۔

فخرو کی ماں کالو خاں کے لیے چائے بنانے کی خاطر دوبارہ باورچی خانے کی طرف جانے لگی کہ فخرو بھاگتا ہوا آیا اور بولا :

"اماں! وہ کہاں ہے۔"

"کون بھئی؟"

"بادشاہ سلامت اور کون! چچا آ گئے ہیں؟"

"ہاں۔"

"کہاں ہیں؟"

"یہیں ہے نا۔ پوچھ کیوں رہے ہو؟ چائے بناتی ہوں۔ لے جاؤ اس کے لیے۔"

ماں باورچی خانے میں گئی تو وہ بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ "اماں۔۔۔"

"مت پوچھو مجھ سے کچھ۔ چائے بنانے دو۔"

فخرو خاموش ہو گیا۔ ماں جیسے خود سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، "پتا نہیں اتنی دیر کہاں رہا ہے۔ کہاں لے گیا تھا اسے؟"

فخرو یہ لفظ کیسے نہیں سن سکتا تھا۔ بولا، "اماں! پوچھا کیوں نہیں چچا سے؟"

"پھر سوال؟"

"اماں تم بھی بس وہ ہو۔"

"کیا ہوں میں؟"

"اماں ہو اور کیا ہو۔"

ماں ہنس پڑی۔ چائے بن چکی تھی۔ ماں نے پیالی میں ڈالی۔

"اُدھر ہے کمرے میں۔ سو گیا ہو تو جگانا نہیں۔"

"تو اماں! سوتے ہوئے کیسے چائے پیئے گا؟"

"فخرو! تم اُلو ہو۔ بھلے مانس اگر سو رہا ہو تو مت جگانا۔"

"اماں! آپ کا یہ اُلو بیٹا پوچھتا ہے کہ سوتے میں کیسے چائے پیئے گا۔ جگاؤں نہیں۔"

ماں نے ماتھے پر ہاتھ مارا، "اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ چائے واپس لے آنا۔"

"اچھا۔" فخرو چائے کا کپ لے کر کمرے کے اندر گیا۔ کالو خاں سو رہا تھا۔ وہ اُس کے سرہانے کھڑا رہا۔ پھر واپس آ گیا۔

صبح ہوئی تو تینوں ناشتا کرنے لگے۔ اچانک دروازے پر دھک دھک کا شور ہونے لگا۔ "یہ کیا بھونچال آ گیا ہے۔" ماں بولی، "فخرو دیکھو تو جا کر۔" فخرو اُٹھا، باہر گیا اور جلد ہی واپس آ گیا :

"اماں! رمضان خاں بہت سارے لوگوں کو لے کر آیا ہے۔"

"یا اللہ خیر!" خوف سے ماں کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ مگر کالو خاں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ مزے سے ناشتا کرتا رہا۔

"کالو خاں، سنا نہیں تم نے۔ وہ لاؤ لشکر لے کر آیا ہے۔" "تو پھر کیا ہے؟"

"نہ جانے کیا کرے گا۔"

"آپا! ناشتا کرو آرام سے۔ فخرو! جاؤ کہہ دو میں آ رہا ہوں۔"

"فخرو جانے لگا۔ ماں بھی اُٹھی تو کالو خاں نے کہا، "آپا! تم بیٹھی رہو۔ میں اکیلے ہی جاؤں گا۔"

"ہائے میرے اللہ اکیلے جاؤ گے؟"

"نہیں فوجی دستہ ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چائے دو آپا۔" ماں کا تو خوف سے بُرا حال تھا۔ کالو خاں نے خود ہی چائے بنائی اور پینے لگا۔

فخرو واپس آ گیا اور بولا، "کہتا ہے جلدی آؤ۔"

"سن لیا ہے۔" کالو خاں نے گھونٹ گھونٹ چائے پی اور پھر اُٹھ بیٹھا۔ پھر بولا :

"میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ بولنا بالکل نہیں۔ سُن لیا؟"

فخرو نے ہاں میں سر ہلادیا۔ ماں نے آہستہ سے کہا، "اللہ خیر کرے۔"

کالو خاں دروازے کی طرف جانے کے بجائے دالان کے پچھلے حصے کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے سوال کیا کہ یہ کیا کر رہا ہے، مگر ان کے ہونٹ بند تھے۔ دو تین منٹ بعد کالو خاں گدھے کے ساتھ دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ ایک بار پھر ماں بیٹھے کی آنکھوں نے وہی سوال دُہرایا اور اب کے بھی ان کے ہونٹ خاموش رہے۔ کالو خاں نے دروازہ کھول دیا۔ ماں اور بیٹا اس طرح دروازے کی طرف قدم اٹھا رہے تھے جیسے ان پر جادو کر دیا ہو اور وہ اسی حالت میں چل رہے ہوں۔ کالو خاں گدھے کو لیے دروازے سے نکل گیا تھا اور وہ دونوں دروازے میں کھڑے تھے۔

"کالو خاں٬" رمضان خاں گرجا۔

کالو خاں نے اپنا دایاں ہاتھ بلند کیا :

"کچھ کہنے سُننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے تم نے خریدا تھا، تمہارا ہے۔"

"اور کیا میرا ہے۔ سولہ آنے میرا ہے۔"

"تو لے جاؤ اسے۔ کالو خاں نے گدھے کی رسی رمضان خاں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ رمضان خاں نے رسی پکڑ لی۔ "بس معاملہ ختم؟" کالو خاں نے رمضان خاں سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ رمضان خاں نے اپنا سر آہستہ آہستہ ہلا دیا۔

جو لوگ رمضان خاں کے ساتھ آئے تھے وہ مایوس ہو گئے تھے۔ انہیں امید تھی کہ خوب ہنگامہ ہو گا۔ مزہ آئے گا مگر وہاں تو کچھ بھی نہ ہوا۔

فخرو اور اس کی ماں دروازے سے ہٹ گئے تھے۔ فخرو بِلک بِلک کر رو رہا تھا۔

"یہ تم نے کیا کیا ہے؟" ماں نے غصے سے پوچھا۔

"وہی جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔" کالو خاں نے بغیر کسی افسوس کے جواب دیا۔ فخرو زیادہ زور زور سے رونے لگا تھا۔ "فخرو میرے پُتر! میرے اچھے بیٹھے! گھبراؤ نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔" کالو نے فخرو کو پیار کیا اور ماں سے کہا، "آپا! دُکان پر جا رہا ہوں۔" اور ذرا بھی رُکے بغیر چلا گیا۔

رمضان خاں گدھے کی رسی پکڑے فاتحانہ شان سے چلا جا رہا تھا۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے تھا۔ کوئی شخص ہجوم میں سے کسی سے پوچھتا کہ ہوا کیا ہے تو جواب ملتا :

"تم نہیں جانتے؟ رمضان خاں نے گدھا فتح کیا ہے۔" اس پر قہقہے بلند ہو جاتے۔

اس شام رمضان خاں کے ہاں بڑی شاندار دعوت ہوئی۔ لوگوں میں مٹھائی بانٹی گئی۔ رات کو دیر تک قوالی ہوتی رہی۔ بارہ بجے رمضان خاں بڑی بُری طرح تھک کر پلنگ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ صبح سورج نکل چکا تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ اس کی بیوی ہاتھ میں لسی کا گلاس لیے اپنے پلنگ پر بیٹھی تھی۔

"خدیجہ! تمہاری آنکھیں لال کیوں ہیں؟" رمضان خاں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ رات کو سوئی کہا تھی۔

"کیوں؟ سوئی کیوں نہین تھی؟"

"سوتی کیسے! ساری رات ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا ہے یہ تمہارا منحوس گدھا۔"

"ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا ہے، تو کیا وہ مرغے کی طرح ککڑوں کوں کرتا؟" یہ کہہ کر رمضان نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔

"پر انور کے ابا! پہلے تو کبھی نہیں بولا تھا۔ اب اسے کیا ہو گیا ہے۔ بار بار ڈھینچوں، ڈھینچوں۔ میرے تو کان پک گئے ہیں سُن سُن کر۔" رمضان کاں نے بیوی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، "خدیجہ، بالکل معمولی بات ہے۔ نئے گھر میں آیا ہے نا۔"

"پہلے بھی تو یہاں آیا تھا۔ اس کے منھ کو تالا لگ گیا تھا۔ ہاں دولتیاں ضرور جھاڑتا تھا۔"

"پیار کرو گی تو دولتیاں بھی نہین جھاڑے گا۔ پیار کرو اس سے پیار۔ بالکل ہِل جائے گا۔ چارا دیا ہے اسے؟ میں کل نہیں کہا تھا کہ اسے چارا تم خود دیا کرو گی۔"

"کہا تھا۔"

"تو یہاں بیٹھی لسی پی رہا ہو۔ اُدھر وہ بھوکا پیاسا پڑا ہو گا۔ کیسے اس گھر کو اپنا گھر اور تم لوگوں کو اپنے لوگ سمجھے گا؟"

"گھبراتے کیوں ہو؟"

"بات ہی گھبرانے کی ہے۔"

"وہ گیا ہوا ہے چارا لے کر۔"

"انور گیا ہوا ہے؟" رمضان خاں نے پوچھا۔

"ہاں۔"

"تو جاؤ تم بھی۔ پیار کرو اس سے۔ پھر وہ ہم سب سے پیار کرنے لگے گا اور جب ایسا ہو جائے گا تو بیڑا پار ہو جائے گا۔"

خدیجہ نے لسی کا گلاس خالی کر کے تپائی کے اوپر رکھ دیا۔ رمضان خاں اٹھا اور انگڑائی لے کر باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد خدیجہ نے انور ا کہہ کر پکارا اور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ کئی منٹ گزر گئے مگر وہ نہ آیا۔ اب خدیجہ اٹھ بیٹھی۔ نلکے کے نیچے رمضان خاں مسواک کر رہا تھا۔ اس کی بیوی کمرے میں جا رہی تھی۔ "جا رہی ہو؟" رمضان خاں نے مسواک منھ سے نکال کر پوچھا۔ "ہاں۔"

"میری بات یاد رکھنا۔ خوب پیار کرنا۔ بالکل ہمارا ہو جائے۔"

خدیجہ گدھے کے کمرے کے پاس پہنچی۔ اس کا بیٹا وہیں تھا اور گدھے کے چہرے کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا۔

"انور، کیا دیکھ رہے ہو؟"

"آ جاؤ اماں! اندر آ جاؤ۔" انور بولا۔

خدیجہ نے ڈرتے ڈرتے قدم رکھا۔ وہ آگے بڑھی اور آگے بڑھی۔ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ انور نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "اماں کیا کر رہی ہو؟ کچھ نہیں ہو گا۔" انور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ خدیجہ گدھے کے بالکل قریب جا پہنچی، مگر گدھے کو ذرا بھی حرکت نہ ہوئی۔

"بڑا بھلا مانس ہو گیا ہے اب تو۔ پہلے دیکھتے ہی دولتی مار دیتا تھا۔" خدیجہ کو گدھے کے دولتی نہ جھاڑنے پر کچھ حیرت ہوئی۔ زیادہ حیرت اس بنا پر ہوئی کہ انور گدھے کے چہرے کو اوپر اٹھا کر اسے غور سے دیکھنے لگا تھا۔

"یہ کیا کر رہے ہو؟ نیا چہرہ لگا کر تو نہیں آ گیا؟"

"نیا چہرہ کیوں لگائے گا۔ یہ اس کا اپنا ہی چہرہ ہے۔ پر اماں، یہ وہی؟"

"کیا کہا؟"

"میں نے پوچھا ہے کہ یہ وہی ہے؟"

"تو اور کیا وہی نہیں ہے تو اور کون ہو گا!"

"اماں، میں نہیں مانتا۔ تم کہو گی کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ پر اماں، میں نے پہلے والے گدھے کے ماتھے پر ایک چمک سی دیکھی تھی جو یہاں نہیں ہے۔ دیکھو ذرا!"

خدیجہ نے جھک کر گدھے کے ماتھے کو دیکھا۔ "ہے چمک؟" انور نے پوچھا۔

"نہیں چمک ومک تو نہیں ہے۔"

"یہ کوئی اور گدھا ہے۔ وہ پہلے والا نہیں ہے۔"

"آؤ تمہارے باپ سے کہتے ہیں۔"

خدیجہ اور انور رمضان خاں کی طرف جانے لگے۔ وہ غسل خانے اندر نہا رہا تھا۔ خدیجہ نے زور سے غسل خانے کے دروازے پر دستک دی۔

"کون ہے؟" اندر سے رمضان خاں کی آواز آئی۔

"جلدی نکلو انور کے ابا۔"

"کیوں کیا ہوا ہے؟"

"باہر تو آؤ۔"

رمضان خاں جلدی جلدی نہا کر غسل خانے سے باہر آ گیا۔ "ٹھیک طرح نہانے بھی نہیں دیا۔ کیا ہوا ہے؟" رمضان خاں نے سخت لہجے میں پوچھا۔

"پہچان کر لائے ہو گدھے کو؟"

"پہچان کر لایا ہوں۔ کیا وہ گدھے کے بجائے بکرا یا ریچھ ہے۔"

"گدھا ہے" انور بولا۔

"تو پھر؟"

"ابا، یہ وہ گدھا نہیں ہے۔ کوئی اور ہے؟" "نہیں یہ وہی ہے۔"


"یہ وہ نہیں ہے۔" "میں بھی کہتی ہوں وہ نہیں ہے۔ وہ نہ تو ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا تھا اور دولتی مارے بغیر رہتا ہی نہیں تھا۔ یہ تو وہ ہے ہی نہیں۔"

"پاگل ہو گئے ہو تم دونوں۔"

اور رمضان خاں گدھے والے کمرے کی طرف جانے لگا۔ کمرے کا دروازہ کُھلا تھا اور دالان والا کمرا بھی کُھلا تھا۔ گدھا نہیں تھا۔ "بھاگ گیا ابا۔" "بھاگو اس کے پیچھے پکڑ کر لاؤ۔"

انور بھاگ گیا اور رمضان خاں بیوی کے ساتھ دالان سے ہو کر باہر سڑک پر آ گیا۔ کچھ دور انور بھاگا جا رہا تھا۔ رمضان خاں بھی گھر سے نکل بھاگا۔ لحیم و شحیم آدمی، تھوڑی ہی دیر بعد پسینے میں تربتر ہو گیا۔ ایک جگہ وہ ذرا رُکا۔ سائیکلوں والی دکان پر ایک لڑکا سائیکل میں ہوا بھروا رہا تھا۔ کانپتے ہوئے رمضان خاں نے لڑکے سے کہا، "گدھا۔" پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے وہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ لڑکا سمجھا اس نے گدھا کہا ہے۔ غصے سے بولا، "گدھے تم ہو، تمہارا باپ ہے۔"

"میں کہتا ہوں گدھا۔" رمضان خاں اب کے بھی فقرہ مکمل نہ کر سکا۔

"کیا گدھا گدھا لگا رکھی ہے۔ کیا کیا ہے میں نے؟" لڑکا غصے میں آ گیا۔ لوگ جمع ہو گئے۔

لڑکے کو سمجھایا، "بزرگ ہے صبر سے کام لو۔"

"مگر اس نے مجھے گدھا کیوں کہا ہے؟" لڑکے نے فوراً کہا۔

رمضان خاں کی سانس کسی حد تک درست ہو گئی تھی۔ کہنے لگا، "میرا گدھا ۔۔۔ بھا۔۔۔ بھاگ۔۔۔ گیا ہے۔"

"تو یوں کہو نا۔" لڑکا بولا۔ سب ہنس پڑے اور رمضان آگے جانے لگا۔ مگر گدھا کہیں نہ ملا۔ گھر کے سب لوگ اسے ڈھونڈ چکے تھے۔ مگر وہ نہ ملا۔

(جاری ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی
گیارویں قسط
شاہ صاحب کے گھر
(میرزا ادیب)
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال ستمبر ۱۹۹۰)

کالو خاں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر آیا۔ فخرو اور اس کی ماں کھانے کی میز پر اس کا انتظار ہی کر رہے تھے۔

"چچا!" فخرو نے جلد ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کالو خاں نے اُسے محبت آمیز نظروں سے دیکھا، "پُتر! میں جانتا ہوں تو جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کھانا کھا لے پھر چلیں گے۔"

"کہاں چچا؟"

"جہاں تمہارا بادشاہ سلامت ہے۔"

"رمضان خاں کے گھر؟"

"مت پوچھ مجھ سے کوئی سوال۔ تو بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتا ہے نا؟"

"بڑا اُداس ہو گیا ہے۔" ماں بولی۔

"ہاں تو مل لے گا۔ میں نے اس سے وعدہ جو کیا ہے۔ آپا! اس سے کہو آرام سے کھانا کھائے۔" فخرو نے جلدی جلدی دو چار لقمے حلق سے اُتار کر پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔

"کھا لیا ہے؟" کالو خاں نے پوچھا۔ "ہاں چچا۔" "تو ہاتھ دھو لے۔ میں بھی اُٹھتا ہوں۔"

چند منٹ کے بعد کالو خاں اور فخرو جانے لگے۔ فخرو کالو خاں کے پہلو میں چُپ چاپ چلا جا رہا تھا، مگر جب اس نے دیکھا کہ وہ رمضان خاں کے گھر کے بجائے ایک نئی آبادی کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں تو بولا، "چچا۔"

"میں نے کہا ہے بادشاہ سلامت می طرف جا رہے ہیں۔ بے صبری مت کرو۔ چُپ چاپ چلے چلو۔" وہ چُپ چاپ چلتے گئے اور اسی مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ جہاں کالو خاں نے گدھا اپنے پُرانے دوست ہاشم کے حوالے کیا تھا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ ہاشم آ گیا اور بولا :

"بہت اچھا کیا جو آ گئے ہو۔ میں خود ہی تمہاری طرف آنے والا تھا۔"

"خیر تو ہے ہاشم!"

"اندر آؤ پتا چل جائے گا۔"

"ہاشم، یہ میرا بھتیجا بھی، بھانجا بھی، بیٹا بھی۔ اس کا نام فخر دین عرف فخرو ہے۔" کالو خاں نے فخرو کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ہاسم نے فخرو کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ تینوں ایک کمرے میں داخل ہو گئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

"کیا حال ہے ہمارے اس کا؟"

"اُدھر چلتے ہیں۔ شربت وربت پی لو۔" ہاشم نے کہا تو کالو خاں نے کہا :

"نہیں ہاشم، پہلے اُسے دیکھیں گے۔ لے چلو ہمیں اُدھر۔"

"ہاشم انہیں ایک طرف لے گیا۔ کمرے کا دروازہ کھولا۔ سامنے فخرو کا بادشاہ سلامت کھڑا تھا۔ "میرا بادشاہ سلامت۔" فخرو بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔

"چلو اب چھوڑ دو اسے۔" کالو خاں نے کہا۔ ادھر فخرو گدھے کو چھوڑ کر الگ ہو گیا، ادھر گدھا زمین پر گر پڑا۔

"کیا ہوا بادشاہ سلامت؟" فخرو گھبرا کر بولا۔ کالو خاں نے فخرو کو آواز دی :

"اِدھر آ جاؤ تم۔"

گدھا اُٹھنے کو کوشش کرنے لگا، مگر اُٹھ نہ سکا۔ "چچا کیا ہو گیا ہے اسے؟"

"یہ سوال مجھے سے کرو بیٹا۔ اسی لیے تو میں تم لوگوں کو یہاں بُلانا چاہتا تھا۔ جب سے یہاں آیا ہے، صرف ایک مرتبہ اس نے گھاس دانہ کھایا ہے۔"

"اور باقی دن؟ فخرو تڑپ اتھا۔

"نہین کھایا کچھ اس نے۔"

فخرو پھر گدھے کی طرف جانے لگا۔ "فخرو، مت ستاؤ اسے بیمار ہو گیا ہے یا پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔" "چچا، ہم سے بچھڑ کر بڑا اُداس ہو گیا ہے۔"

"یہی بات ہے۔" ہاشم بولا۔ "گھر لے چلیں گے، کیوں چچا؟" "ہاں اب خطرہ ٹل گیا ہے۔"

"خطرہ کیسا" ہاشم نے پوچھا۔

"اور چچا، آپ نے تو اُسے رمضان خاں کے حوالے کر دیا تھا؟"

"وہ اور تھا۔" "اور تھا چچا، میں سمجھا نہیں۔"

ہاشم خاموش بیٹھا رہا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔ بول پڑا :

"یہ چچا بھتیجے میں راز و نیاز کیا ہو رہا ہے؟"

"بات لمبی ہو جائے گی۔ بس یہ سمجھ لو ایک شخص بُری طرح اس کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ میں نے اس سے ملتا جُلتا ایک گدھا خرید کر اس کے حوالے کر دیا ہے۔"

"پہچانا نہین اس نے؟" ہاشم نے سوال کیا۔

"اصلی اور نقلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور سنو، پیارے بھتیجے۔" کالو خاں فخرو سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، "تم ہو اول درجے کے ڈھنڈورچی۔ ڈھنڈورا مت پیٹنا۔ میرے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ سمجھے کہ نہیں؟" فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

"ہاشم، سارا قصہ پھر کبھی سناؤں گا۔ فی الحال تم ہمیں اجازت دو۔"

"ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے خاطر تواضع تو مہمانوں کی کر لینے دو۔"

"نہیں ہاشم، اب اجازت ہی دے دو۔ بڑی مہربانی۔ بڑا شکریہ۔ تم کو بڑی تکلیف ہوئی۔" "مجبوری ہے پھر تو۔"

فخرو تیزی سے گدھے والے کمرے میں گیا۔ بادشاہ سلامت اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ فخرو نے اس کی رسی پکڑی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔ کالو خاں اور ہاشم بھی اُدھر آ گئے۔

"ٹھہرو میں تانگے کا انتظام کرتا ہوں۔ اس سے چلا نہیں جائے گا۔" ہاشم نےکہا، پھر تانگے کا انتظام کرنے چلا گیا۔

گدھے کی حالت واقعی بڑی خراب تھی۔ کم زوری کی وجہ سے وہ چند قدم بھی نہین چل سکتا تھا۔ سب نے مل کر اسے تانگے میں ڈالا۔ اب فخرو ضد کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت کو گدی پر بٹھایا جائے اور وہ نیچے بیٹھے گا۔ گدی پر گدھے کو لٹایا جانا مشکل تھا۔ کالو خاں نے فخرو کو ڈانٹا تو وہ گدی کے اوپر بیٹھ تو گیا مگر اس انداز سے کہ پوری طرح بادشاہ سلامت پر جُھکا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ بڑا افسردہ تھا۔ بار بار آہیں بھرتا تھا۔

کالو خاں نے ہاشم کا بڑا شکریہ ادا کیا اور تانگا چل پڑا۔ تانگا جب گھر پہنچا تو رات کی سیاہی پھیلنے لگی تھی۔ مکان کے آگے اِکا دُکا آدمی ہی دکھائی دیتا تھا۔ گدھے کو تانگے سے اُتارا گیا تو کالو خاں نے دروازے پر دستک دی۔ دو منٹ بعد دروازہ کھلا۔ گدھے کو دروازے کے سامنے دیکھ کر ماں کے منھ سے بے اختیار نکلا، "پھر یہ۔"

کالو خاں نے فوراً انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اُسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ "سب کچھ بتا دوں گا آپا! چُپ رہو۔" گدھے کو اس کے مخصوص کمرے میں پہنچا دیا گھا۔ اُس کے کھانے کا سامان ابھی وہاں پڑا تھا۔

"فخرو، چلو بیٹا اب سو جاؤ کھانا کھا کر۔" پر بادشاہ سلامت تو کچھ کھا ہی نہیں رہا۔"

"کھا لے گا۔ فکر کیوں کرتے ہو۔ اب اپنے گھر میں ہے۔"

کالو خاں زبردستی فخرو کو باورچی خانے کے باہر کھانے کی میز پر لے گیا۔ ماں نے چاول اور سالن وغیرہ میز کے اوپر رکھ دیا۔ فخرو نے کھانے سے انکار کر دیا، "اماں، میں نہیں کھاؤں گا۔ بادشاہ سلامت جو نہیں کھا رہے۔"

کالو خان نے اسے پھر ڈانٹ پلائی، "ایک بار کہہ جو دیا ہے۔ اپنے گھر میں ہے۔ وہاں اداس ہو گیا تھا۔ یہاں کھائے پیے گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔"

کالو خاں اور ماں کے اصرار پر فخرو نے تھوڑے سے چاول کھا لیے۔ پھر وہ ہاتھ دھو کر کھانے سے اٹھ بیٹھا اور جانے لگا۔

"تم باز نہیں آؤ گے فخرو۔ " کالو خاں نے غصے سے کہا۔ :گدھے کے ساتھ گدھے ہو گئے ہو۔"

ماں نے سمجھایا، "جانے دو اسے کالو خاں۔" فخرو جانے لگا اور دیر تک واپس نہ آیا۔

"یہ وہاں کر کیا رہا ہے؟" ماں بولی۔

"دیکھتے ہیں چل کر۔"

گدھا بیٹھا ہوا تھا اور فخرو سر جھکائے اس کے پاس کھڑا تھا۔ ماں اور چچا کو دیکھ کر فخرو بے اختیار رونے لگا۔ نہیں کھاتے۔"

"تو تم کیوں اُس کے سر پر چڑھ کر بیٹھے ہو۔ کھا لے گا۔" کالو خاں نے غصے سے کہا۔

پھر کالوخاں نے اندر جا کر دیکھا۔ کھانے کا سارا سامان ویسے کا ویسا پڑا تھا۔

"دیکھا آپ نے چچا۔"

"ہاں دیکھا ہے۔ آ جاؤ اب۔ صبح سوچیں گے۔"

"صبح تک تو یہ!"

"کچھ نہیں ہو گا فخرو بیٹا! جانور ہے نا۔"

"بادشاہ سلامت ہے۔" فخرو نے اپنے گال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ کالو خاں ہنس پڑا۔ فخرو کو کالو خاں کی ہنسی بڑی بُری لگی، مگر خاموش رہا۔ ماں آخر فخرو کو سمجھانے میں کام یاب ہو گئی۔ کالو خاں تو پہلے ہی انہیں وہاں چھوڑ کر سونے کے لیے چلا گیا تھا۔

فخرو لیٹنے کو تو لیٹ گیا، مگر بار بار کروٹیں بدلتا رہا۔

آدھی رات کے وقت ماں کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ فخرو پلنگ پر نہیں ہے۔

"وہیں ہو گا۔" اس نے دل میں سوچا اور اُٹھ کر وہاں گئی۔ فخرو لالٹین ہاتھ میں لیے گدھے کے پاس دیوار سے لگ کر کھڑا تھا۔

"فخرو پُتر۔" فخرو چُپ رہا۔ "فخرو کیا ہوا ہے تجھے؟" "اماں۔۔۔" اور فخرو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ "نہ پُتر نہ۔ حوصلہ کرو۔ جانور ہے نا۔ سمجھ جائے گا۔"

کالو خاں بھی وہاں آ گیا۔ "تم لوگ کیا کر رہے ہو یہاں؟" "میں نے اسے پلنگ پر نہ پایا تو یہاں آ گئی۔"

"فخرو" "چچا، نہیں کھایا کچھ۔" "تو ہم کیا کریں، تمہارے ساتھ پاگل ہو جائیں۔" فخرو بلک بلک کر رو رہا تھا۔

"فخرو، اب نکل آؤ۔" کالو خاں کا لہجہ کافی نرم تھا۔ "صبح سوچیں گے کہ کیا کرنا چاہیے۔ "گھبراؤ نہیں۔" ماں اور کالو خاں فخرو کو واپس لے آئے۔ فخرو برابر کروٹیں لیتا رہا۔

صبح کی اذان ہوئی تو فخرو اٹھ کر گدھے کے کمرے میں چلا گیا۔ کالو خاں نے اسے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے وہاں پہنچ گیا۔ "فخرو۔" فخرو نے بڑی مایوسی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ ماں بھی وہاں آ گئی تھی۔ "آپا، جلدی سے ناشتا تیار کر دو۔ ہم اسے لے جائیں گے۔"

"کہاں؟"

"جہاں سے فخرو اسے لایا تھا۔ اس کا اصل گھر تو وہ ہے نا۔ شاہ صاحب نے اسے امانت کے طور پر فخرو کے حوالے کیا تھا۔ بہت اُداس ہو گیا ہے۔"

ماں چلی گئی۔ کالو خاں فخرو کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے آیا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد صبح کی سفیدی اندھیرے پر غالب آنے لگی تھی۔ کالو خاں نے فخرو سے کہا، "فخرو تانگا لے آؤ جا کر۔"

تھوڑی دیر بعد تینوں نے بڑی مشکل سے گدھے کو تانگے میں لادا اور تانگا چلنے لگا۔

"راستے کا علم ہے نا؟ بھول تو نہیں گئے؟" کالو خاں نے پوچھا۔ "نہیں بھولا۔"

"تو ٹھیک ہے۔"

تانگا اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ وہ بزرگ جنہیں شاہ صاحب کہا جاتا تھا جب انہوں نے تانگے کی آواز سنی تو باہر آ گئے۔ اب صورت یہ ہوئی کہ کہاں تو گدھے کے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل اور کہاں یہ ہوا کہ وہ شاہ صاحب کو دیکھتے ہی تانگے سے کود پڑا۔

"دیکھا فخرو۔" فخرو کے چہرے پر خوشی کی چمک نمایاں ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب بولے :

"یہ تم لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ اس کی حالت بگڑ گئی تو اسے یہاں لے آئے۔"

"جناب، کیا کہوں۔ اس کی حالت دیکھ کر فخرو کی حالت بھی بگڑ گئی تھی۔" کالو خاں نے فخرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شاہ صاحب کا ملازم شربت کا گلاس لے آیا۔ جب شربت پی چکے تو شاہ صاحب نے کالو خاں سے کہا :

"اب مجھے وہ سب کچھ بتاؤ جو اب تک پیش آیا ہے۔"

"بہتر جناب۔"

کالو خاں نے کہا اور وہ سارے واقعات بتانے لگا۔

(جاری ہے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی
بارویں قسط
انجام بخیر
(میرزا ادیب)
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال اکتوبر۱۹۹۰)

فخرو کو اپنے بادشاہ سلامت سے بڑی محبت تھی۔ وہ اسے شاہ صاحب کے ہاں چھوڑ کر کالو خاں کے ساتھ گھر واپس آیا تو بڑا اُداس معلوم ہوتا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد جب فخرو اور اس کی ماں اور کالو خاں سونے کی تیاری کر رہے تھے تو کالو خاں نے فخرو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا :

"فخرو پُتر، مجھے علم ہے تمہیں اس کے چلے جانے پر دُکھ ہوا ہے، مگر یہ بھی تو سوچو کہ اگر وہ دو تین دن اور یہاں رہتا تو بھوک سے مر نہ جاتا کیا۔ یہ اچھا نہیں ہوا کہ وہ شاہ صاحب کے ہاں خوش ہے؟ تم نے اسے دیکھا تھا، وہ تانگے سے کود کر اندر چلا گیا تھا۔ وہ دیکھا تھا نا۔"

"ہاں۔" "تم اپنے بادشاہ سلامت کو صحت مند اور خوش دیکھنا چاہتے ہو نا؟" "ہاں۔" فخرو نے آہستہ سے کہا۔ "تو وہ بہت خوش ہے۔ پیٹ بھر کر کھائے گا۔ ساری کم زوری دور ہو جائے گی۔"

فخرو کی ماں جو کالو خاں اور اپنے بیٹے کی باتیں دل چسپی سے سُن رہی تھی، بولی، "فخرو تم جب چاہو وہاں چلے جانا۔ کون روکے گا تمہیں؟"

فخرو کے چہرے پر تر و تازگی سی آ گئی۔ یہ اس کے لیے ایک ایسی خوش خبری تھی جس کا اس نے پہلے خیال نہیں کیا تھا۔ کالو خاں نے اب کے فخرو کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا، "فخرو، میں تم سے ایک بہت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔ بے کاری آدمی کے لیے ایک مصیبت ہوتی ہے۔ بے کار گھر میں پڑے رہو گے تو زندگی تم پر ایک بوجھ بن جائے گی۔"

"کالو خاں، تم نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ یہ بات میرے دل میں بھی تھی۔" فخرو کی ماں بولی۔

"اب پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جو چاہو کام کر سکتے ہو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ایک بڑا اچھا اور شان دار مکان خرید لیں گے۔ اس مکان کے نیچے دکانیں ہوں گی۔ ایک میں تم بیٹھ جانا۔" اسے اچھے اچھے کپڑے پہننے کا بڑا شوق ہے۔" ماں نے کہا۔ "ٹھیک ہے تم دکان میں کپڑے رکھ لینا۔ خود بھی پہننا دوسروں کو بھی پہنانا۔ ٹھیک ہے فخرو۔"

"ٹھیک ہےہ چچا جان۔" فخرو کالو خاں کو چچا کہا کرتا تھا۔ آج اس نے چچا جان کہا تھا۔ کالو خاں خوش ہو گیا۔

کچھ دیر تک ایسی ہی باتیں ہوتی رہیں۔ مستقبل کے منصوبے بنائے گئے۔ نئے نئے کام سوچے گئے۔ سیر و تفریح کے پروگراموں پر غور کیا گیا۔ رات کے دس بج گئے۔ "اب سو جانا چاہیے۔ کل مکان ڈھونڈنے جانا ہے۔" کالو خاں نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ان کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ بہت خوب صورت خواب ان کے ذہنوں میں روشنی پھیلا رہے تھے۔ بستر پر لیٹے تو دیر تک وہ سو نہ سکے۔ جاگتے میں خواب دیکھتے رہے۔ بارہ بجے کے بعد سوئے۔

انہیں گہری نیند سوئے ہوئے دو تین گھنٹے گزرے ہوں گے کہ تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ سب سے پہلے کالو خاں نے آنکھیں کھولیں۔ دو نقاب پوش ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں ٹارچ پکڑے کھڑے تھے۔

"خبردار، جو آواز نکالی۔ بتاؤ وہ جواہرات کہاں ہیں؟"

ٹارچوں کی تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چُندھیا گئی تھیں۔ اس اچانک واقعے سے وہ سخت گھبرا گئے تھے۔ "بولو۔" ایک نقاب پوش آگے بڑھ کر گرجا۔ تینوں میں سے خوف کے مارے کوئی بھی نہ بول سکا۔ "بتاؤ ایک منٹ کے اندر اندر ورنہ گولیوں سے بھون دیں گے۔"

"تینوں کو بھون دیں گے۔" کسی کے گلے سے آواز نہ نکلی۔

"بولتے کیوں نہیں، مرنا چاہتے ہو؟" ایک نقاب پوش نے پستول کا رُخ کالو خاں کی طرف پھیرتے ہوئے کہا اور ایک ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔

"بولو۔" دوسرا نقاب پوش گرجا۔" "اوئے تو بول اوئے۔" پہلے نقاب پوش نے فخرو کی طرف دیکھتے ہوئے پستول والا ہاتھ لہرایا۔ "بتا دو نہین تو ایک بھی زندہ نہین بچے گا۔ دوسرا بولا۔

تینوں کے چہرے ڈر سے زرد پڑ چکے تھے۔ فخرو کانپ رہا تھا۔

"نہیں بتاتے؟" پہلے نے پستول فخرو کی کنپٹی سے لگا دی۔

"اللہ کے واسطے اسے نہ مارو۔" ماں چیخی۔ "تو فوراً بتا دو۔ ہیرے کہاں ہیں۔" ماں نے کوٹھری کی طرف اشارہ کر دیا۔ "کہاں؟" "زمین میں۔"

اس پر پہلے نقاب پوش نے دوسرے سے کہا :

"پستول تانے رکھو۔" اور وہ کھوٹری کے اندر چلا گیا۔ دوسرے نے پستول ان پر تانے رکھا۔ کالو خاں ذرا ہلا تو وہ گرجا :

"خبردار کالو خاں۔ پہلی گولی تمہارے سینے سے پار ہو گی۔" نقاب پوش نے ٹارچ کی روشنی کالو خاں کے چہرے پر ڈالی۔ "کسی نے ذرا بھی حرکت کی تو اُس کی خیر نہیں۔" نقاب پوش نے ذرا آگے بڑھ کر کوٹھری کے اندر جھانکا۔ "کون سی جگہ ہے۔ بتاؤ۔" نقاب پوش نے اسے مخاطب ہو کر پوچھا۔ "دی۔۔۔ وار۔۔۔"

"کون سی دیوار؟"

"س۔۔۔ا۔۔۔۔م۔۔۔۔نے۔"

نقاب پوش نے دوبارہ کوٹھری میں جھانک کر کہا، "سامنے والی دیوار۔" وہ واپس اپنی جگہ پر آ گیا۔

تینوں نقاب پوش کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو لہو ہی نہیں بدن میں۔ یکایک ایک گرج سنائی دی :

"ہینڈز اپ۔"

اور دوسرے ہی لمحے میں نقاب پوش کی طرف دو ہاتھ بڑھے اور پستول چھن گیا۔

"واہ رے دلیر ڈاکو، کہاں ہے دوسرا؟"

یہ آواز تھانے دار کی تھی جو تین سپاہیوں کے ساتھ اندر آ چکا تھا۔ ان سب کے ہاتھوں میں پستول تھے۔ "کہاں ہے دوسرا؟" تھانے دار نے نقاب پوش کے گال پر زور سے تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا۔ نقاب پوش جو سخت گھبرا گیا تھا کوٹھری کی طرف اشارہ کرنے لگا۔

"جاؤ۔" تھانے دار نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ فوراً دو سپاہی اندر گئے اور دوسرے نقاب پوش کو دھکے دیتے ہوئے باہر لے آئے۔

"لگاؤ انہیں ہتھکڑیاں۔" تھانے دار نے حکم دیا۔ تھانے دار نے دائیں ہاتھ سے پہلے نقاب پوش کا نقاب کھینچ لیا۔ یہ اکبر تھا جو ایک بار گدھے کو سیر کرانے لے گیا تھا۔ تھانے دار نے دوسرے نقاب پوش کا نقاب بھی ہٹا لیا۔ یہ بھی اکبر کا ایک ہم عمر دوست تھا۔

"ماں جی۔" تھانے دار نے ماں سے کہا۔ "اب آپ لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم شام ہی سے ان بہادر ڈاکوؤں کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ پکڑے گئے ہیں۔"

ماں دعائیں دینے لگی :

"اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم پر ایسا احسان کیا ہے کہ ساری عمر نہیں بھولیں گے۔"

"یہ آپ کا بہت ہی بڑا احسان ہے۔" کالو خاں بولا۔

تھانے دار بولا :

"یہ کوئی احسان نہیں ہے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ امن پسند شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہمارا کام ہے۔ پولیس کا اور کیا کام ہوتا ہے؟"

"اللہ تم لوگوں کو کبھی تتی ہوا نہ لگے۔ ہمیشہ سُکھی رہو۔" ماں نے بے اختیار دعائیں دیں۔ "اب سونا چاہو تو سو جاؤ۔ ہم مجرموں کو لے جا رہے ہیں۔ انہیں سزا قانون دے گا۔ اللہ حافظ۔" تھانے دار اور سپاہی جانے لگے اور ان کے ساتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے دونوں مجرم بھی قدم اٹھانے لگے۔ "اللہ حافظ" ماں اور کالو خاں نے ایک ساتھ کہا۔

تھانے دار اور سپاہیوں کے جانے کے بعد ماں اور کالو کی حالت کافی حد تک سنبھل گئی۔ فخرو ابھی تک ٹکٹکی باندھے سامنے دیکھ رہا تھا۔

"اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔" ماں نے کہا اور ہاتھ بڑھا کر فخرو کو اپنے قیریب کر لیا۔

"اب کیوں ایسی حالت ہے تیری؟ اللہ نے بڑا فضل کیا ہے۔ پُتر فخرو۔ خود کو سنبھال بیٹا۔" "اماں۔۔۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں۔"

"اماں، وہ دیکھا اکبر تھا اور دوسرا حامد تھا۔ میرے دوست تھے مدرسے میں۔"

"دیکھا تھا نا انہیں؟" "ہاں دیکھا تھا۔" "میرے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔" "اللہ جانے کیوں دماغ الٹ گیا بے وقوفوں کا۔"

اس دوران میں کالو خاں آہستہ سے کوٹھری کے اندر چلا گیا تھا وہ باہر آ گیا۔

"بہت اچھے وقت پر قدرت نے ہماری مدد کی ہے۔" "وہ چچا، وہ ۔۔۔۔"

کالو خاں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ "ہر طرح خیریت ہے۔ زمین نہیں کھودی گئی۔ اللہ بہت ہی مہربان ہے۔"

ابھی تک خوف ان کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا۔ بات کرتے تھے تو اِدھر اُدھر دیکھ لیتے تھے۔ نیند ان کی آنکھوں میں کہاں۔ صبح سارے محلے میں یہ خبر پھیل گئی کہ رات فخرو کے گھر ڈاکا پڑا تھا۔ مگر سپاہیوں نے مجرموں کو گرفتار کر لیا۔ مجرم دو نوجوان تھے۔ جنہوں نے نقاب پہنا ہوا تھا۔

عدالت کا کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ جج صاحب پُروقار انداز میں اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجرموں کے کٹہرے میں اکبر اور اس کا ساتھی حامد کھڑے تھے۔ ان کے ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ماں، فخرو اور کالو خاں بنچ پر بیٹھے تھے۔ جج صاحب کے سامنے وکیل اور تھانے دار موجود تھے۔ جج صاحب کچھ لکھ رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ مقدمے کی کاروائی ہو چکی ہے۔ کچھ لکھ کر جج صاحب نے قلم رکھ کر مجرموں کے کٹہرے کی طرف دیکھا اور بولے :

"اتنی چھوٹی سی عمر میں ایسا بھیانک جُرم۔"

"جی حضور، انہیں جرم کے راستے پر لایا گیا تھا۔ اصل مجرم اور ہے حضور۔" تھانیدار نے کہا۔

"کون ہے وہ؟" جج نے پوچھا۔ ایک سپاہی رمضان کو مجرموں کے کٹہرے کی طرف لے جانے لگا جس کے ہاتھ ہتھکڑیوں سے بندھے تھے۔

"یہ ہے اصل مجرم جناب۔ ترکاریوں کی منڈی کا ایک پُرانا بیوپاری ہے۔ اس کا نام رمضان خاں ہے۔ اس نے پہلے تو فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں کو بہت پریشان کیا اور پھر انہیں لوٹنے کے لیے ان نوجوانوں کو ان کے گھر پر ڈاکا ڈالنے کی ترغیب دی اور بڑے بڑے لالچ دیئے۔

تھانے دار رُکا تو جج نے اکبر سے کہا :

"تمہارا نام اکبر ہے؟" "جی ہاں۔" کیا کہا تھا رمضان خاں نے تم سے؟"

"جی مجھ سے کہا تھا کہ اگر تم فخرو کے گھر سے ہیرے لے آئے تو میں تمہیں بڑی دولت بھی دوں گا اور تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لوں گا۔" اکبر نے کہا۔

"اور تمہارا کیا نام ہے؟" جج صاحب نے اکبر کے ساتھی سے پوچھا۔

"حامد جناب۔ میں اکبر کا دوست ہوں۔ " "کیا کہا گیا تھا تم سے حامد؟" "مجھ سے رمضان خاں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ساری دنیا کی سیر کراؤں گا اور مالا مال کر دوں گا۔"

"مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے۔"

"ہمیں سب کچھ رمضان خاں نے ہی بتایا تھا۔" اکبر بولا۔ اب کے جج صاحب رمضان خاں سے مخاطب ہوئے :

"رمضان خاں، ان لڑکوں نے جو کچھ کہا ہے درست ہے؟"

پہلے تو رمضان خاں خاموش رہا۔ جج صاحب نے دوبارہ پوچھا تو رمضان خاں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس پر وکیل کہنے لگا :

"حضور، میں عرض کروں گا کہ یہ رمضان خاں ایک قومی مجرم ہے۔ جناب اس کی عمل اس لحاظ سے بہت بُرا اور بھیانک جرم ہے کہ اس نے اپنے لالچ کی خاطر قوم کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جو شخص قوم کے مستقبل کو تباہ کرے وہ زیادہ سے زیادہ سزا کا مستحق ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ مجرم رمضان خاں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔"

جج صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا :

"آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ اسے ایسی سزا ملنی چاہیےی کہ دوسروں کا عبرت حاصل ہو۔ رمضان خاں کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے اور ان لڑکوں کو چھ چھ ماہ کی سزر دی جاتی ہے تاکہ انہیں یہ سبق ملے کہ آئندہ کسی لالچی آدمی کا آلہ کار نہ بنیں۔"

عدالت برخواست ہو گئی اور سپاہی مجرموں کو لے جانے لگے۔ فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں اطمینان کے ساتھ گھر لوٹے۔

چند روز بعد وہ ایک شان دار مکان میں چلے گئے۔ فخرو کپڑے کا کاروبار کرنے لگا۔ کالو خاں نے محلے کی چھوٹی سے دکان چھوڑ دی اور ایک بڑی دُکان میں بیٹھنے لگا۔ سب بہت خوش تھے۔ فخرو تیسرے چوتھے روز شاہ صاحب کے ہاں جا کر اپنے بادشاہ سلامت سے ملاقات کر کے خوش خوش لوٹ آتا تھا۔

(ختم شد)
 
یہ کہانی میں نے کوئی 3 ماہ پہلے شروع کی تھی۔ اور تین ماہ میں شاید چار اقساط ہی پوسٹ کرپایا تھا۔ مگر شمشاد بھائی نے ایک دن یا شاید اس سے بھی قلیل عرصے میں اس کہانی کو مکمل کردیا۔ یہ ان محبت ہے محفل اور محفلین کے لیے جس کا ایک چھوٹا سا حصہ انہوں نے اس کہانی کی صورت پیش کیا ہے۔





 
Top