کیچڑ کا چولہا اور وزیر کا منہ

Dilkash

محفلین
دل پشوری۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔بشکریہ آج پشاور

کیچڑ کا چولہا اور وزیر کا منہ

میں آج گھر پہنچا تو دیکھا کہ بیگم کیچڑ سے کھیل رہی ہے‘ میں ڈر گیا‘ میں نے کہا ہو نہ ہو کچھ نہ کچھ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا یہ کیا کر رہی ہو گھر کے پچھلے برآمدے میں؟ اس نے کہا دیکھتے نہیں مٹی کا چولہا بنا رہی ہوں‘ کھانا تو کھانا اور پکانا ہے۔ میں نے کہا بیگم! خدا خدا کرو‘ اس اکیسویں صدی میں تم بجلی‘ گیس چھوڑ کر مٹی کے چولہے بنا کر کھیل رہی ہو۔

اس نے کہا بجلی‘ گیس تم لا دو‘ میں یہ سب چھوڑ دوں گی۔ میں نے کہا گیس ناپید و گم ہو چکی ہے‘ تم بجلی کا ہیٹر ہی جلا کر کام چلاؤ‘ بلا سے بل ہزاروں میں آئے‘ ہم اکیسویں صدی میں پھر سے پتھر کے زمانے Stone age میں تو داخل نہیں ہوں گے۔ اس پر اس نے ترنت جواب دیا‘ پھر ہیٹر کے لئے بجلی بھی تم ہی لا دو۔

اس نے کہا یہ فلسفہ بگھارنا چھوڑو اور چپ چاپ جا کر ٹال سے لکڑیاں خرید کر لاؤ‘ میں نے کہا لکڑیاں تو میں خریدنا بھول گیا ہوں پھر لکڑی تو بجلی اور گیس دونوں سے مہنگی ہے‘ پھر اسے کاٹنا اور چولہے کے برابر کرنا‘ یہ کس کے بس کی بات ہے‘ اب تو شہر میں لکڑی کے ٹال بھی ختم ہو گئے ہیں۔

اس نے کہا کہیں سے کوئلے ہی لا دو‘ میں نے کہا کوئلے حد درجہ گراں ہیں پھر ان کو جلانے کے لئے بھی لاکھ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں‘ پہلے کھلی جگہ میں کوئلے منقل یا ہُلّے میں رکھو‘ اوپر مٹی کا تیل ڈالو پھر کوئلے بھڑک اٹھیں تو انتظار کرو کہ اس میں سے گیس ختم ہو تو پھر اس پر سبزی ترکاری رکھو‘ اس دوران آنکھیں پونچھتے رہو‘ کوئلوں کا دھواں بڑا خراب ہوتا ہے آنکھیں جلنے لگتی ہیں۔ اس نے کہا تو پھر تم بتاؤ کہ میں کیا کروں؟ میں نے کہا چلو چل کر KFC سے کھانا کھاتے ہیں۔ خیر ہم چلے گئے جب بل آیا تو ہوش اڑ گئے‘ چار آدمیوں کا کھانا دو ہزار روپے کا بل‘ میں نے کہا بیگم یہ بھی نہیں چلے گا دہی کھا کر اوپر سے پانی پی لیا کریں گے یا کچی سبزیاں مولیاں گاجریں کھائیں گے اور اپنے آپ کو گھاس کھانے پر آمادہ کریں گے اور پوری طرح سٹون ایج میں داخل ہو جائیں گے۔

ہم خرما ہم ثواب ملے اور خرمے پر یاد آیا ہم بہت سا خرما بھی کھا سکتے ہیں دودھ کے ساتھ مگر پھر وہی سوال کہ دودھ گرم کیسے کریں گے؟ اس نے زچ ہو کر کہا تم جانو اور تمہارا کام‘ پلاٹ بیچو‘ سونا بیچو اور کھانا باہر جا کر کھایا کرو۔ میں نے کہا ناممکن‘ تم مٹی کا چولہا بناؤ میں جا کر لکڑیاں لاتا ہوں اور بجلی و گیس کا وزیر ملے تو اس کا منہ نوچ کر واپس آتا ہوں۔

اس نے کہا پھر تم واپس آنے سے رہے‘ وزیر آج کل بنکروں Bunkers میں رہتے ہیں اور ان کا منہ نوچنے سے روکنے کے لئے زبردست سیکیورٹی کا اہتمام ہوتا ہے‘ سو اس وقت ہمارے ملک میں یہی حال چل رہا ہے۔ گھر میں مہمان آتا ہے تو زبردست سردی میں اس کی تواضع ٹھنڈے کوکاکولا سے کرتے ہیں یا آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ بجلی ہے نہ گیس اس لئے چائے سے معذرت۔ وہ پہلے ہی ان حالات کا ستایا ہوا ہوتا ہے اس لئے فورا سمجھ جاتا ہے اور بے تکلف ہو تو کہہ دیتا ہے کہ ہمارے گھر آؤ گے تو اسی قسم کی تواضع کی جائے گی۔

مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آ رہا ہے‘ والدہ مجھے ایک روپے کی لکڑی لانے کے لئے جب کہتی تو مجھے بخار چڑھ جاتا کیونکہ یہ لکڑیاں محلے کے دکاندار سے چار پھیروں میں گھر پہنچانی پڑتی تھیں اور ایک ہفتے سے زیادہ کام آتی تھیں‘ اب لکڑی لینے گیا تو دو سو روپے من‘ جسے سن کر ہوش اڑ گئے‘ میں اسی طرح ناکام صرف گاجروں اور ٹھپروں کا لفافہ لئے اور دوسرے تھیلے میں دہی اور دودھ ڈالے گھر آ گیا‘ دہی میں نمک اور کالی مرچ ڈالی‘ دو چار گاجریں چبائیں اوپر سے دہی کے دو چار چمچ لئے۔ پھر حکم ہوا کہ پھل فروٹ لے آیا کرو‘ مالٹے لینے بازار گیا تو باقی کے ہوش اڑ گئے‘ سو روپے درجن مالٹے‘ میں نے کہا لنڈورے ہی بھلے۔

اب کھانا دوسروں کے گھر میں دعوت و ضیافت‘ سو آج کل ایک طرح سے ہم نے کھانا پینا بند کر رکھا ہے‘ جی چاہتا ہے کہ کم از کم پانی تو گرما گرم پیوں مگر وہ بھی میسر نہیں۔ میں نے اس ساری دلیل بازی کے بعد بیوی کے ساتھ مل کر اینٹوں کے اوپر کیچڑ تھوپنا شروع کر دیا کہ جب بھوک سے دم نکلنے لگے تو ایک آدھ وقت دو سو روپے من کی لکڑی لے کر دال پکا لیا کریں گے۔ مٹی کا چولہا تھوپتے ہوئے اپنا بچپن یاد آیا پھر خیال آیا کہ کیوں نہ مٹی کے ایک پیڑے سے اپنا منہ تھوپ لوں اور جا کر وزیر بجلی و گیس کا منہ اور مونچھیں چوم لوں۔

Dated : 2010-01-25 00:00:00
 

شمشاد

لائبریرین
میں بھی رات میں اپنی خاتون خانہ سے یہی بات کر رہا تھا کہ ایسا زمانہ آنے کو ہے۔ کہ شہر چھوڑ کر گاؤں چلتے ہیں، وہاں کم از کم یہ گیس اور بجلی، تیل اور پیٹرول کی شکایت تو نہ ہو گی کیونکہ یہ سب چیزیں تو وہاں ہیں ہی نہیں۔
 

آفت

محفلین
پتھر کا زمانہ آج کے زمانے سے بہتر ہی رہا ہو گا کم از کم اس وقت سیاست دان تو نہ ہوتے ہوں گے ۔
 
Top