کیری لوگر کا قانون اور وزیر خارجہ کی وضاحت.. قومی مفادات کے منافی کوئی شرط ہمیں قبول

امریکی صدر باراک اوبامہ نے کیری لوگر بل پر دستخط کر دیئے جس کے بعد یہ بل امریکی قانون کا حصہ بن گیا ہے‘ تاہم امریکی خارجہ امور کمیٹی کے مطابق بل کے ساتھ منسلک کیا گیا وضاحتی بیان قانون کا حصہ نہیں ہو گا۔ اس بل کے قانون بننے سے پاکستان کیلئے 7.5 ارب امریکی ڈالر کے امدادی پیکیج کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور اب پاکستان کو سالانہ 1.5 ارب ڈالرغیرفوجی امداد ملے گی۔ بل پر دستخط کرتے ہوئے صدر اوبامہ نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور کیری لوگر بل پاکستانی عوام کے ساتھ طویل المیعاد تعلقات کی علامت ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیری لوگر کے قانون کے حوالے سے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے عوض ہم نے پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور انہوں نے امریکی حکام کے سامنے وہ تمام تحفظات رکھے تھے جن کا قومی اسمبلی کے ایوان میں کیری لوگر بل پر بحث کے دوران اظہار ہوا تھا۔ ان کے بقول کیری لوگر کے قانون میں پاکستانی حکومت پر کوئی شرائط عائد نہیں کی گئیں‘ بلکہ اس قانون کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد کے بارے میںامریکی حکومت‘ امریکی کانگریس کے روبرو جوابدہ ہو گی جبکہ یہ امداد سکولوں‘ صحت‘ سڑکوں‘ جیسے ترقیاتی کاموں کے انفراسٹرکچراور غربت کے خاتمہ کیلئے بروئے کار لائی جائیگی جو پاکستان کے کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں استعمال ہو گی۔
قانون کا درجہ پانے والے جس کیری لوگر بل کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ یہ بل ہماری آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے‘ اس میں وہ تمام شرائط اور شقیں موجود ہیں جن پر ملک کی عسکری قیادت اور خود حکومتی حلقے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ وزیر خارجہ کے ایک اہم حکومتی ساتھی وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بھی اس بل کی بعض شقوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کر چکے ہیں کہ اس بل کی ایک شق کے تحت پاکستان کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ ایک دہشت گرد ریاست ہے جبکہ اس بل کی بنیاد پر پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کی مانیٹرنگ کیلئے امریکی انسپکٹر جنرل پاکستان میں تعینات کیا جائیگا۔ وزیر خارجہ قومی اسمبلی کے روبرو اپنی جذباتی تقریر میں ارکان اسمبلی کو باور کرا رہے تھے کہ متذکرہ بل میں امریکہ نے پاکستان کو سٹریٹجک پارٹنر تسلیم کیا ہے۔ اسکی ماتحت کی حیثیت ہرگز نہیں۔ انہوں نے جذبات ابھارنے کیلئے یہ اعلان بھی کیا کہ ہمارا اقتدار رہے نہ رہے اور حکومت رہے نہ رہے‘ ہم پاکستان کے سٹریٹجک اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ جبکہ کیری لوگر بل میں موجود شرائط پر بالخصوص ملک کے عسکری حلقوں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے‘ اس کے مطابق متذکرہ شرائط تسلیم کرنے کی صورت میں ملک کے سٹریٹجک اثاثوں پر ہی زد پڑیگی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی‘ جن کی وزارت کے ذریعے کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد بروئے کار لائی جانی ہے‘ اپنے تحفظات میں اسی امر کی نشاندہی کی ہے کہ اس امداد کے عوض پاکستان کو خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرنا پڑیگا اور اس صورت میں امریکہ کسی بھی وقت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں غیرمحفوظ قرار دے کر ان کی حفاظت کی آڑ میں ان پر قبضہ جما سکتا ہے اور ہمیں جوہری صلاحیتوں سے محروم کر سکتا ہے جبکہ پاکستان کا خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرنا اپنے مکار دشمن بھارت کو خود ہی یہ نادر موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے کہ وہ جہاد کشمیر کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈلوا کر کشمیر پر اپنا تسلط مضبوط بنائے اور ہمیں کشمیر کو بھول جانے کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ اگر کیری لوگر بل کی بنیاد پر ہماری شہ رگ کشمیر پر ہمارا اصولی اور دیرینہ موقف کمزور ہوتا ہے تو ملک کی آزادی اور خودمختاری پر اس سے بڑی اور کیا زد پڑیگی۔ جبکہ امریکی امداد کی مانیٹرنگ کے نام پر پاکستان میں تعینات امریکی انسپکٹر جنرل ہمارے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کا کوئی موقع بھی کیوں ہاتھ سے جانے دیں گے۔
کیری لوگر بل کے ساتھ شامل کئے گئے متعلقہ امریکی سینیٹروں کے محض وضاحتی بیان سے تو اس بل میں عائد شرائط کے اثرات ختم یا کم نہیں ہونگے‘ جبکہ امریکی خارجہ امور کمیٹی کے اپنے بقول متذکرہ وضاحتی بیان کیری لوگر قانون کا حصہ نہیں ہے۔ ہمارے سینئر سرکاری عہدیداران‘ قانونی و آئینی ماہرین اور سابق سفارت کاروں کی جانب سے بھی اسی رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ وضاحتی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی متذکرہ وضاحتی نوٹ سے کیری لوگر بل کے تحت کی جانے والی قانون سازی متاثر ہو گی۔ اس لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ محض اس وضاحتی بیان کی بنیاد پر جس میں پاکستان پر عائد کی جانے والی شرائط کو چھیڑا تک نہیں گیا اور صرف امریکہ پاکستان سٹریٹجک پارٹنر شپ کو مستحکم بنانے کا رسمی اعلان کیا گیا ہے جبکہ یہ پارٹنر شپ بھی امریکہ کے اپنے فائدے میں ہے‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیسے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی زد نہیں پڑیگی۔
چونکہ یہ بل قومی اسمبلی میں بحث کیلئے پیش ہو چکا ہے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ کیری لوگر بل کی کونسی شرائط تسلیم کرنی ہیں اور کونسی نہیں کرنی‘ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے فورم پر ہی ہو گا جس کے حتمی فیصلے سے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کر دیا جائیگا۔ اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ وزیر خارجہ پارلیمنٹ کا حتمی فیصلہ لے کر امریکہ جاتے مگر وہ متذکرہ بل پر قومی اسمبلی میں بحث کے دوران ہی جس رازدارانہ انداز میں امریکہ روانہ ہوئے اور پھر اس بل پر امریکی صدر اوبامہ کے دستخط ثبت ہونے تک وہاں موجود رہے‘ اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ کیری لوگر بل کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دینے گئے تھے اور بل میں وضاحتی بیان شامل کرانے کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور متعلقہ امریکی سنیٹروں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کا ’’سٹیج پلے‘‘ کیری لوگر بل کے حوالے سے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کیا گیا۔
اب جبکہ صدر اوبامہ کے دستخطوں کے بعد کیری لوگر بل قانون کا درجہ بھی حاصل کر چکا ہے‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ اس میں موجود شرائط کو تسلیم کرنے نہ کرنے کا حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کریگی۔ وزیر خارجہ کے بقول اگر انہوں نے امریکی حکام کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ آمروں سے ملنے کی عادت ترک کرکے اب جمہوری رہنمائوں سے تعلقات قائم کرنے کی عادت ڈالیں تو انہوں نے کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان پر عائد کی جانے والی وہی شرائط کیوں قبول کرلیں جو امریکہ بالعموم جرنیلی آمروں سے قبول کرانے کا عادی ہے۔ اگر حکومت آج بھی دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں امریکی مفادات کے تحفظ کی جنگ میں اسکی فرنٹ لائن اتحادی ہے‘ تو دور آمریت کی اور موجودہ سلطانی ٔ جمہور کی پالیسیوں میں بھلا کیا فرق ہے۔ جبکہ وزیر خارجہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے محض سٹریٹجک پارٹنر قرار پانے پر ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
اندریں حالات کیری لوگر بل کی شرائط ملکی و قومی مفادات کی بنیاد پر ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہو سکتیں‘ بے شک کیری لوگر بل کو اب امریکی قانون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے‘ مگر اس پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کی جائے‘ اس پر ہر رکن پارلیمنٹ کو ملکی و قومی مفادات کے حوالے سے اظہار خیال کا موقع دیا جائے اور پارلیمنٹ کے حتمی فیصلہ سے پہلے اس بل کے تحت کسی قسم کی امریکی امداد قبول نہ کی جائے‘ یہی ہمارے قومی مفادات اور قومی غیرت کا بھی تقاضہ ہے۔
دہشت گردوں سے غیرملکی اسلحہ کی برآمدگی
گزشتہ روز لاہور میں ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات میں حملہ آوروں سے پکڑا جانیوالا تمام اسلحہ غیرملکی ساخت کا ہے‘ میڈیا رپورٹس کے مطابق کلاشنکوف‘ رائفلز‘ ہینڈ گرنیڈز اور میگزین کے رائونڈ تمام غیرملکی ساخت کے ہیں۔ دریں اثناء کمشنر لاہور خسرو پرویز نے کہا کہ لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے۔
بھارت کے افغانستان میں سولہ قونصل خانے کام کر رہے ہیں‘ قونصل خانوں کا اصل کام اس شہر میں موجود اپنے شہریوں کے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے‘ بھارتی قونصل خانے افغانستان کے قصبہ نما شہروں تک میں قائم ہیں اور اکثر شہروں میں ایک بھی بھارتی شہری موجود نہیں ہے۔ ان قونصل خانوں کا مقصد سوائے پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کے اور کچھ نہیں۔ امریکی میڈیا بھی بھارت کے قونصل خانوں کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی رپورٹیں شائع کر چکا ہے۔ 30 مارچ کو مناواں پولیس سنٹر پر حملے کے دوران ہجرت اللہ نامی دہشت گرد گرفتار ہوا تھا‘ اس کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا‘ اسے دہشت گردی کی تربیت بھی بھارتی قونصل خانوں میں موجود ’’را‘‘ کے ٹریننگ سنٹر میں دی گئی۔
ہمارے حکمران دبے دبے انداز میں بھارت کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث قرار دیتے ہیں حالانکہ بھارت نے ممبئی حملوں میں پاکستان کو براہ راست ملوث کرتے ہوئے آسمان سرپر اٹھا لیا تھا۔ بعدازاں بھارت پاکستان کے اس میں ملوث ہونے والے ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ دوسری جانب بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں لیکن حکومت نہ جانے کس مصلحت کے تحت معاملات عالمی سطح پر اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ پاکستانی ذمہ داروں کی اسی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر بھارت کو مزید کارروائیوں کا حوصلہ ملتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا معاملہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھائے اور بارڈرز پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جائیں تاکہ کم از کم مشرقی بارڈر سے تو بھارتی اسلحہ اور دہشت گرد پاکستان میں داخل نہ ہو سکیں۔ ادھر بھارتی منتری چدمبرم نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے پھر ممبئی ایسا واقعہ ہوا تو ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا‘ ان سے کون کہے پدم جی! جو کھیل آپ نے گزشتہ روز لاہور میں کھیلا ہے اور آج پشاور میں کاش ہمارے کوئی نیتا بھی بھارت سے کہہ سکتے چدم جی! اس کھیل سے باز آجائو‘ ورنہ ہمیں بھی غوری یا غزنوی بننا پڑیگا اور آپکو نانی یاد آجائیگی۔
صدر کا تقریر نویس … مارک سیگل
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر امریکہ میں پاکستان کے لابسٹ مارک سیگل نے لکھی تھی۔ یہ وہی تقریر ہے جس میں مسئلہ کشمیر کا تذکرہ موجود نہیں تھا۔ 5 صفحات پر مشتمل تقریر لکھنے کا معاوضہ 25 ہزار ڈالر (20 لاکھ روپے) ادا کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ مارک سیگل سے تقریر لکھوانے کی سفارش پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کی تھی۔
صدر، وزیر اعظم اور دیگر بڑے عہدیدار تقریریں خود نہیں دوسروں سے لکھواتے ہیں۔ تقریر میں بات اسی شخصیت کی ہوتی ہے جو تقریر لکھواتا ہے۔ صدر صاحب پاکستان کو درپیش ہر مسئلے اور بحران سے آگاہ ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اس اہم ترین مسئلے کا ذکر نہ ہونے سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مارک سیگل نے جو کچھ لکھ دیا ہمارے صدر صاحب نے درست تسلیم کرکے اسے پڑھ کر سنا دیا۔ کسی امریکی کو پاکستان سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔ اسے اپنے معاوضے سے دلچسپی تھی جو ایک ہاتھ تقریر تھماتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے وصول کر لیتا ہے۔ صدر صاحب کو دنیا کے سب سے بڑے فورم سے مخاطب ہونے کا موقع ملا تھا۔ مسئلہ کشمیر کا اسی فورم پر بہترین طریقے سے ذکر ہو سکتا تھا جو ایک امریکی تقریر نویس کے اپنے مخصوص ایجنڈے اور پاکستانی وفد میں موجود صدر کے ساتھیوں کا اس تقریر کا مطالعہ نہ کرنے کے باعث گول ہو گیا۔ صدر مملکت کے ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک دانشور اور انگریزی دان موجود تھا جبکہ سفیر صاحب کو بھی انگریز ی پر عبور حاصل ہے جس کا وہ برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان سب میںایک بھی اس قابل نہیں تھا کہ صدر کیلئے تقریر لکھ دیتا؟یہ فریضہ دو چار مل کر بھی انجام دے سکتے تھے جس سے ایک طرف پاکستان کو درپیش مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کا ذکر ہوتا اور 20 لاکھ روپے کی ادائیگی سے بھی بچ جائے۔


یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے
 
Top