کیری لوگر بل سن سن کر کان پک گئے ہیں لیکن اس کے اند ر کیا ہے ابھی تک نظر سے

ندیم عامر

محفلین
کیری لوگر بل سن سن کر کان پک گئے ہیں لیکن اس کے اند ر کیاہے یہ ابھی تک نظر سے نہیں گزرا یہ ایک بی بی سی کی تحریر پڑھی ہے کیہیں وہ بھی تو یہی نہیں؟(اگر کچھ معلوما ت ہے تو شیئر کریں)
امریکی امداد: پہلے کشکول فوج کے پاس تھا
احمد رضا

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی



امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو مجموعی طور پر گیارہ ارب ڈالر دیے
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کی امداد کے لیے امریکی پارلیمینٹ کے منظور کردہ کسی بل پر فوجی قیادت نے اعتراض کیا ہے اور یہ بھی کہ وہ پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کی شدید مخالفت کے بعد پارلیمینٹ میں زیر بحث آیا ہے۔

ماضی میں نہ تو کبھی ایسا ہوا اور اگر کہیں کوئی احتجاج ہوا بھی تو حکومت نے اسے درخور اعتناء نہیں سمجھا کیونکہ اس سے پہلے زیادہ تر امریکی امداد فوجی حکومتوں کو عطا ہوئی جنہیں اقتدار میں آنے کے لیے عوامی مینڈیٹ کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

آئیے ذرا تاریخ پر نظر ڈالیں:

امریکہ نے پاکستان کی امداد کے لیے پہلا معاہدہ 1954ء میں کیا تھا جس کے تحت پاکستان نے اگلے دس سالوں کے دوران تین ارب بیس کروڑ ڈالر امریکی امداد حاصل کی۔ امداد کا بڑا حصہ ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں ملا۔

اس معاہدے کے تحت امریکی فوج نے راولپنڈی میں واقع پاکستان فوج کے ہیڈ کوارٹرز میں اپنا فوجی امدادی مشاورتی گروپ قائم کرکے فوج کے لیے ملٹری اسسٹینس پروگرام (میپ) شروع کیا تھا۔ امریکہ کے اس پروگرام میں پاکستان کی فوج کے یونٹوں کو میپ اور نان میپ یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

نان میپ یونٹ وہ تھے جو کشمیر اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں تعینات تھے۔ 1954ء کے معاہدے کے تحت امریکہ نے صرف میپ یونٹوں کی امداد کرنا تھی اور اس کا مقصد ان یونٹوں کی جدید خطوط پر تربیت کرنا بتایا گیا تھا۔

اسی معاہدے کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ اسکے بعد جنرل ایوب خان نے امریکہ کو پاکستان میں اپنا پہلا خفیہ فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ پشاور میں قائم اس فوجی اڈے کے ذریعے امریکی حکام حریف ملک سوویت یونین کی دفاعی تنصیبات کی خفیہ نگرانی کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے مشہور امریکی یو ٹو طیارے استعمال ہوتے تھے۔

پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1959ء میں اس اڈے کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی تو امریکی بیس کمانڈر نے جواب دیا تھا کہ وزیر موصوف کو (اڈے کے) کیفے ٹیریا کا دورہ کرنے پر خوش آمدید کہا جائے گا وہاں انہیں کافی اور سینڈویچ بھی پیش کیے جائیں گے۔

امریکہ نے 1960ء میں اپنے اس خفیہ اڈے کی موجودگی کا اعتراف اس وقت کیا تھا جب سوویت یونین نے اسی اڈے سے پرواز بھرنے والے ایک یو ٹو طیارے کو مار گرایا تھا اور اسکے پائلٹ کو گرفتار کرلیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ہی امریکہ کو بغیر پائلٹ کے اڑنے والے ڈرون طیارے بنانے کا خیال آیا۔

1954ء میں ہوئے امریکی امداد کے اس پہلے معاہدے کے خلاف مشرقی پاکستان میں کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور وہاں کی صوبائی اسمبلی کے 162 ارکان نے اپنے دستخطوں سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں اس معاہدے کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔

1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد امریکہ نے دونوں ملکوں کی امداد میں بڑی حد تک کمی کردی تھی۔ 1979ء میں پاکستان میں جوہری پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف کو جواز بناکر امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ نے خوراک کے سوا پاکستان کی تمام امداد روک دی لیکن اسکے بعد افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے داخلے کے بعد پاکستان کی امداد نہ صرف بحال کردی گئی بلکہ اس میں تیزی سے اضافہ کیا جس کا اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے اپنے آمرانہ اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مؤثر طور پر استعمال کیا۔

امریکہ نے افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کو نکالنے کے لیے مجاہدین کی تربیت اور اسلحے کی فراہمی کے لیے دل کھول کر مدد کی اور 1980ء سے 1990ء کے دوران جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر کی رقم دی۔

افغان جنگ کے دوران ہی جب امریکی انتظامیہ پاکستان کی فوجی حکومت کے لیے بھاری رقوم بھیج رہی تھی، امریکہ کے اندر پاکستان کے جوہری پلانٹ پر پائی جانے والی تشویش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس نے امریکہ کے غیرملکی قانون میں ایک ترمیم کی منظوری دے دی جسے پریسلر ترمیم کا نام دیا گیا۔

ریپبلکن پارٹی کے ایک سنیٹر کے نام سے منسوب اس ترمیم کے تحت امریکی صدر کو پابند کیا گیا کہ وہ ہر سال امداد دینے سے پہلے اس بات کی تصدیق کریں گے کہ پاکستان جوہری ہتھیار تیار نہیں کررہا۔

پریسلر ترمیم کے تحت امریکی صدر 1989ء تک اس بات کی تصدیق کرتے رہے کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں بنارہا اور اسکے نتیجے میں پاکستان کو امداد ملتی رہی لیکن 1990ء میں اس وقت کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے یہ تصدیق کرنے سے انکار کردیا کہ پاکستان جوہری بم نہیں بنارہا جس کا فوری نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی زیادہ تر معاشی اور تمام فوجی امداد معطل ہوگئی اور امریکہ نے پاکستان کے خریدے ہوئے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی بھی روک دی۔

1991ء سے 2000ء تک وقتاً فوقتاً جو امداد ملی اس کی مجموعی مالیت 50 کروڑ ڈالر تھی۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکی ترجیحات بدلیں تو پاکستان میں دو سال پہلے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر آنے والی ایک اور فوجی حکومت اپنے قدم جماچکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی نہ صرف ایک نئی عدلیہ آگئی تھی اور اس نے ان کے فوجی انقلاب کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں آئین میں ترمیم کرنے کی مشروط طور پر اجازت بھی دے دی تھی۔

جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے ایک بار پھر پاکستان کی فوجی حکومت کے لیے امداد بحال کردی۔ امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو مجموعی طور پر گیارہ ارب ڈالر دیے جس میں آٹھ ارب ڈالر فوجی امداد کی مد میں دیے گئے۔
 
Top