طارق شاہ
محفلین
غزل
بہادرشاہ ظفر
کیا کہیں اُن سے، بُتوں میں ہم نے کیا دیکھا نہیں
جو یہ کہتے ہیں! سُنا ہے، پرخُدا دیکھا نہیں
جب سے دیکھا ہے تِرے ابرُو کو ہم نے مہ جبِیں
ماہ کو تو آسماں پر آنکھ اُٹھا دیکھا نہیں
پہلے ہی سے حُسن کا اپنے ہے تجھ کو اِک غرور
آئینہ ، تُو نے ابھی اے خود نُما دیکھا نہیں
خوف ہے روزِ قیامت کا تجھے اِس واسطے
تُو نے اے زاہد کبھی دن ہجر کا دیکھا نہیں
یوں تو ہیں سروِ گُل اندام اوربھی اے رشکِ گُل
تجھ سا پر رنگیں ادا، گلگوں قبا دیکھا نہیں
تُو جو کرتا ہے ملامت دیکھ کر میرا یہ حال
کیا کروں میں، تُو نے اُس کو ناصحا دیکھا نہیں
ہم نہیں واقف، کہاں مسجد کدھر ہے بت کدہ
ہم نے اُس گھر کے سِوا گھر دوسرا دیکھا نہیں
چشم پوشی دیدہ ودانستہ کی ہے اے ظفر
ورنہ اُس نے اپنے در پر کیا تمہیں دیکھا نہیں
بہادرشاہ ظفر
بہادرشاہ ظفر
کیا کہیں اُن سے، بُتوں میں ہم نے کیا دیکھا نہیں
جو یہ کہتے ہیں! سُنا ہے، پرخُدا دیکھا نہیں
جب سے دیکھا ہے تِرے ابرُو کو ہم نے مہ جبِیں
ماہ کو تو آسماں پر آنکھ اُٹھا دیکھا نہیں
پہلے ہی سے حُسن کا اپنے ہے تجھ کو اِک غرور
آئینہ ، تُو نے ابھی اے خود نُما دیکھا نہیں
خوف ہے روزِ قیامت کا تجھے اِس واسطے
تُو نے اے زاہد کبھی دن ہجر کا دیکھا نہیں
یوں تو ہیں سروِ گُل اندام اوربھی اے رشکِ گُل
تجھ سا پر رنگیں ادا، گلگوں قبا دیکھا نہیں
تُو جو کرتا ہے ملامت دیکھ کر میرا یہ حال
کیا کروں میں، تُو نے اُس کو ناصحا دیکھا نہیں
ہم نہیں واقف، کہاں مسجد کدھر ہے بت کدہ
ہم نے اُس گھر کے سِوا گھر دوسرا دیکھا نہیں
چشم پوشی دیدہ ودانستہ کی ہے اے ظفر
ورنہ اُس نے اپنے در پر کیا تمہیں دیکھا نہیں
بہادرشاہ ظفر