کہے فقیر۔۔۔ یدِ بیضا لیئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں۔

فرخ

محفلین
”آپ نے دیکھا ہوگا کہ مساجد میں ہم بڑی لمبی دعائیں مانگتے ہیں۔ گزشتہ باسٹھ سال سے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے لیکن حالات میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ دوسری طرف ہم نماز ِ استسقا کے بعد جب کسی کھلی جگہ جا کربارش کیلئے دعا مانگتے ہیں اور رب کے حضور اپنی مادری زبان میں گڑگڑاتے ہیں تب زبان میں ایسا اثر پیدا ہوتا ہے کہ اِدھر دعا مانگی جاتی ہے اور اُدھرچند منٹ بعد بارش ہونے لگتی ہے۔ وجہ کیاہے؟ باسٹھ سال سے مانگی جانے والی دعائیں رٹی رٹائی دعائیں ہیں مکینیکل دعائیں جیسے ٹیپ ریکارڈر بج رہاہو۔اس میں نہ دل اور نہ دماغ رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن نماز استسقا میں ہماری دعا کا انداز مکینیکل نہیں ہوتا بلکہ ہم مکمل یکسوئی سے دعامانگ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا دل اور دماغ مکمل طور پر رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ایسی کیفیت میں جب ہم رب کے حضورگڑگڑاتے ہیں تو ہماری دعافوراً قبول ہوجاتی ہے۔“
قبولیت دعا کا یہ نسخہ روحانی سکالر سید سرفراز اے شاہ کی کتاب ”کہے فقیر“ میں درج ہے۔ یہ کتاب نہیں بلکہ ان نشستوں کااحوال ہے جو ہر اتوار کو 212جہانزیب بلاک لاہور میں منعقد ہوتی ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہے تو دیکھ ان کو
ید ِ بیضا لئے بیٹھ ہیں اپنی آستنیوں میں!
سید سرفراز شاہ صاحب درویش توہیں، مستجاب الدعوات اور صاحب ِ کشف مگر خرقہ پوش نہیں خوش پوش و خوش گفتار مرد قلندر جن کی باتوں میں شہد کی ملاوٹ ہوتی ہے اور گلوں کی خوشبو، ہر لفظ میں جہان معنی پوشیدہ اور ہر بات سبق آموز و نصیحت آمیز۔
اس نیاز مند پر شاہ صاحب کی مہربانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ”کہے فقیر“ کا انمول نسخہ عطا ہوا جس کی ایک ایک سطردل کو تہ گداز، آنکھوں کو نم اور دماغ کو تر و تازہ کرتی اورفکروعمل کے نئے دریچے کھول دیتی ہے۔
”آپ کے گھر میں ملازم ہیں۔ ایک ملازم کام اچھا کرتاہے ۔ جاب شروع کرنے سے قبل وہ اپنی تنخواہ اور جاب کی Terms and conditions اچھے طریقے سے طے کرتاہے۔ آپ اس کے کام سے خوش ہیں۔ مہینے کے اختتام پر وہ آپ کے پاس آتا اور تنخواہ کا تقاضہ کرتا ہے ۔چھٹی ہونے پر آپ کے پاس آ کربتاتا ہے کہ میں کل چھٹی پر چلا جاؤں گا، یونیفارم لینے کا وقت آیا تو آپ کے پاس آ کر اس کا سوال کرتا ہے۔ وہ آپ سے کچھ زیادہ نہیں مانگ رہا بلکہ صرف اس خیر کا تقاضہ کر رہا ہے کہ جو ملازمت کے آغاز میں طے ہوچکی ہے… ایک ملازم اور بھی ہے جب آپ نے اسے ملازم رکھا توکہنے لگا آپ جتنی تنخواہ چاہیں دیدیں آپ نے کہا علیحدہ سرونٹ کوارٹر نہیں وہ بولا کوئی بات نہیں کسی دوسرے ملازم کے ساتھ شیئر کرلوں گا یا کسی کونے میں بستر ڈال لوں گا۔ کھانا دیا تو کھا لیا نہیں دیا تو آپ کو احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ بھوکا ہے۔ کپڑے دینا بھو ل گئے تووہ پرانے کپڑوں کو دھو کر اورپیوندلگا کر پہنتا رہا۔ سال ہا سال تک کبھی چھٹی اورتنخواہ میں اضافے کا تقاضہ نہ کیا کہ آپ رات ایک بجے بھی اس کے کوارٹر میں گھنٹی بجا کر کام کے لئے آواز دیتے ہیں تو وہ آنکھیں ملتا ہوا نہیں بلکہ مستعدی اور چستی سے آتا اور جی سر کہتا ہے۔
آپ کس ملازم کواپنے دل کے قریب محسوس کریں گے؟ اگر کوئی شخص آخر الذکر ملازم کی طرح رب تعالیٰ کی بندگی کر رہا ہے، زبان پر کوئی گلہ شکوہ نہیں، جومل گیا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے جو نہیں ملااس کا ذکر نہیں کرتاکوئی تقاضہ نہیں سوائے اس کے کہ ”یااللہ تو مجھے اپنے محبت کرنے والے بندوں میں شامل فرمالے اور مجھے روز ِ قیامت ان لوگوں میں سے اٹھا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں“ ذرا سوچیں یہ شخص اللہ تعالیٰ کے قریب نہیں ہوگا؟ یہی رویہ اس کا آپ کے ساتھ ہے تو آپ کی رحمتیں آپ پر نازل نہ ہوں گی؟ یہی حصول قرب کا طریقہ ہے۔ ہم گلے شکوے سے اپنی زبان بند کرلیں“
”عموماً دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی کوئی صاحب مشکل میں آئے فوراً کسی عامل، کسی صاحب ِ دعا یا لوٹا پھیرنے والے کے پاس گئے اورکہا دعا کردیجئے کہ رب تعالیٰ اس مشکل کو مجھ سے ٹال دے حالانکہ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اگر ہم مشکل وقت میں یہ تگ و دوکرتے ہیں تو اچھے وقتوں میں بھی کسی عامل یا پیر صاحب کے پاس جا کر کہیں کہ ذرا حساب کتاب کرکے دیکھیں کہ کسی نے مجھ پر جادو تو نہیں کردیا کہ مجھ پراتنا اچھاوقت آ گیا ہے اگر ہم اپنے اچھے وقت کو اپنے اچھے اعمال اورتدبیرکا نتیجہ گردانتے ہیں اور ساراکریڈٹ خود لیتے ہیں تو برے وقت میں کیوں نہیں سوچتے کہ یہ بھی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان پر کوئی مشکل نہیں آتی ماسوائے اس کے اپنے ہاتھ کے“
نیک اور متقی لوگوں میں تین صفات بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔ (1) درگزر اور معاف کرنے کی صفتہو، (2)اپنی ضرورت پس پشت ڈال کردوسروں کے کام آنے کی صفت (3) دسترخواں وسیع رکھنے کی صفت، ان خصوصیات کے حامل لوگ تقویٰ اورعلم کی راہ پر بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی سنت کی ادائیگی اور ان کے قرب کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنا دسترخوان وسیع کرلیں۔ اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیاکریں اور دوسروں کو معاف کردیا کریں ۔ بغیر ماتھے پر بل ڈالے حتیٰ کہ اگر کوئی معافی مانگنے آ جائے تو ہم کہہ دیں کہ ”مجھے تو یاد نہیں کہ آپ سے کوئی غلطی بھی ہوئی ہوگی۔ “
”ہم ان خصوصیات اور صفات کو اپنا لیں گے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے گا اور جسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے علم اسے ہی عطا ہوتا ہے۔“
”کہے فقیر“ سیدسرفرازشاہ صاحب کی ایسی گفتگو کامجموعہ ہے اللہ سے قرب، رسول اکرم سے عشق اور اللہ کے بندوں سے محبت کا پرچار ہی اللہ والوں کی خصوصیت ہے۔ صاحبزادہ خورشیدگیلانی مرحوم نے اپنی کتاب ”روح تصوف“ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  کا ایک قول نقل کیا تھا۔
امیر ابو العلا فرمایا کرتے تھے اگر کوئی شخص ہماری محفل میں اس صحرانوردکی طرح سکون محسوس کرتا ہے جو انتہائی گرمی کے موسم میں کسی درخت کے سائے میں پہنچ کر اپنے تن بدن کی راحت محسوس کرتا ہے تو اسے ہماری صحبت مبارک ورنہ وہ دوسری جگہ چلاجائے کیونکہ ہمارے ہاں کشف و کرامت کی دنیا نہیں بلکہ عالم الوندی ہے“ شاہ صاحب کی محفل میں خدا گواہ ہے اسی راحت اور سکون کااحساس ہوتا ہے۔ ”کہے فقیر“ پڑھ کر دیکھئے

(ارشاد عارف)
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=53785
 
Top