(مکالماتی نظم)
فلک کی نظریں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا فلک نے زمیں سے جھک کر
نظر اٹھا کر کبھی تو دیکھو
کہ میرے سینے میں اَن گنت یہ الاؤ روشن کیے کس نے
زمانہ اِن کو چمکتا خورشید ، ماہ و انجم کا نام دے کر بہل گیا ہے
دہکتے، سلگتے داغوں میں دل یہ میرا بدل گیا ہے
زمیں نے دل میں پڑی دراڑوں پہ ہاتھ رکھ کر ،
جگر کی نازک کٹی پھٹی سی ، رگوں کو چھو کر ،
فلک کو دیکھا
زمیں کی نظروں میں جانے کیا تھا
فلک کی نظریں بھی جھک گئی ۔