کہو، وہ چاند کیسا تھا؟ فاخرہ بتول

راجہ صاحب

محفلین

کہو، کیا جل رہا ہے پھر جہاں میں آشیاں اس کا ؟
نہیں ، جب دل سلگتا ہے تو اٹھتا ہے دھواں اس کا

بھلا کیوں پھول کی پہچان بنتی ہے مہک اسکی ؟
سنو ، سورج کی کرنوں سے ہی ملتا ہے نشاں اس کا

کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟
سنو ، دل کی زمیں اس کی نظر کا آسماں اس کا

بھلا کب دنی پڑتی ہے وضاحت سامنے سب کے ؟
پتہ جب پوچھتی ہیں آکے ہم سے دوریاں اس کا

خطا دونوں کی تھی لیکن سزا کیوں ایک نے پائی؟
سنو تنہا تھا دل اپنا مگر سارا جہاں اس کا

سنو ، اس بیوفا کی یاد تو آتی نہیں ہو گی ؟
سنو ، دل رک سا جاتا ہے جو آتا دھیاں اس کا

سنو، وہ ہر جگہ جاکر تمہیں بدنام کرتا ہے !
کہا، یہ جاں سلامت ہے ، رہے جاری بیاں اسکا

بچھڑ کر کیا کبھی سوچا اسے ملنے کے بارے میں ؟
سنو، دھرتی کے ہم باسی ، فلک پر ہے مکاں اس کا​
 

راجہ صاحب

محفلین
ساون کیسے تڑپاتا ہے بول سہیلی بول
کیسے سوچیں بکھراتا ہے بول سہیلی بول؟

باتوں میں بہلانے کی ہر کوشش ہے بیکار
وہ ہرجائی یاد آتا ہے بول سہیلی بول؟

اس نے خواب جو دکھلایا تھا اکثر راتوں کو
چھاجوں پانی برساتا ہے بول سہیلی بول

بول تو، ہونٹوں کی یہ لالی مدہم کس نے کی
کاجل پھیل سا کیوں جاتا ہے بول سہیلی بول؟

ساجن کے آنے کی جب کوئی امید نہیں
کاگا چھت پر کیوں آتا ہے بول سہیلی بول؟

گھاؤ دل پر کھا کر بھی جو لب ناں کھول سکے
کیوں وہ پتھر کہلاتا ہے بول سہیلی بول؟

تھک کر تو نے بھی مٹی کو اوڑھ لیا پگلی !
بول مِرا دل گھبراتا ہے بول سہیلی بول​
 

راجہ صاحب

محفلین

جو دل میں ہے سچ بتلانا؟
اپنا پیار ، نہیں افسانہ

کیوں شمع پر جان لٹائے ؟
اس کو کہتے ہیں پروانہ

چنچل آنچل کیا کہتا ہے ؟
اب نہ چلے گا کوئی بہانہ

بولو من کو کیا بھاتا ہے ؟
اپنے ساجن سے شرمانا

دیکھوں دنیا کیا کہتی ہے ؟
کام ہے اس کا شور مچانا

ساجن ، ہر پل کیا سوچو ہو ؟
دیکھو پھر سے کھو مت جانا

ساتھ کہاں تک دے پاؤ گے؟
جب تک جیون کا پیمانہ

راہ کٹھن ہے ، تھک جاؤ گے
پیار نے سیکھا کب پچھتانا؟​
 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)

ہجر کا موسم ٹھہر گیا ہے



اس نے پوچھا تھا
سارے سپنے ٹوٹ گئے کیا؟
میں نے کہا ،
کچھ کچھ باقی ہیں
اس نے پوچھا ،
خود سے باتیں کرنے کی عادت ہے کب سے ؟
تحفہ دیا ہے میں نے بتایا ،تنہائی نے
نین کٹورے، گال گلابی، روپ سنہرا ، کیا کر ڈالا؟
میں نے کہا دل کے آنگن میں ،
ہجر کا موسم ٹحہر گیا ہے ۔
 

راجہ صاحب

محفلین

کیا ہر پل ہر ساعت ہے ؟
پیار ، جو ایک عبادت ہے

عشق ہے مجبوری یا عادت ؟
دل کی عشق ضرورت ہے

وصل کی صدیوں پل جیسی کیوں ؟
ان کی اپنی قسمت ہے

تنہائی کے خول میں جھانکو ؟
بس فرصت ہی فرصت ہے

ہات پہ تیرے نام کسی کا؟
یہ تو صرف شرارت ہے

کیوں ہیں لوگ وفا سے دور ؟
من میں کھوٹ کدورت ہے

سناٹا ہے کیوں چہرے پر ؟
بوجھل آج طبیعت ہے

کیوں بے تاب ہوئی دھڑکن ؟
بے تابی میں راحت ہے

فرقت کی تعریف بتا
موت جو ایک حقیقت ہے

کہتے کہتے رک سے گئے ؟
آپ سے ایک شکایت ہے

بوجھل بوجھل پلکیں کیوں؟
آنکھوں میں اِک مورت ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین



ہاتھ کا کنگن کاہے اتنا شور مچائے؟
شاید کوئی بھٹکا راہی گھر کو آئے

چوری چوری چندا کیسے چھت پر اترا ؟
جیسے ناری پیشانی سے زلف ہٹائے

بوجھو تو آنچل کو اس نے چوما کیسے؟
جیسے بھنورہ کلی کلی کا روپ چرائے

وہ پلکوں میں اترا چھم سے بولو کیسے ؟
جیسے رانجھا ہیر کی آنکھوں میں مسکائے

جگ نے کیسے جان لیا، ملنے کو آئی؟
گوری تیرے پیر کی جھانجھر شور مچائے

بول سہیلی، پریت کو کیسا پایا تو نے؟
جیسے پل میں کوئی جل میں آگ لگائے

کیسا لگتا ہے سجنا کے گاؤں جاکر؟
گویا دل دونوں ہاتھوں سے نکلا جائے

سچ سچ بولو، پیڑ تلے کیا بات ہوئی تھی؟
بھید ملن کا سوچو کوئی کیوں بتلائے

سکھیوں سے کب بات چھپا سکتا ہے کوئی
پگلا من تو خود سے بھی ہر بات چھپائے​
 

راجہ صاحب

محفلین


ساحل سے ساگر کس پل ٹکرایا ہو گا؟
جس پل آس نراس کو باہم پایا ہو گا

بھنور بھئے کیوں دھیرے دھیرے لب مسکائیں؟
شب، تیرے سپنے میں کوئی آیا ہو گا

سرگوشی سی کرتی ہیں کیوں آج ہوائیں؟
کوئی بھنورہ کلیوں پر منڈلایا ہو گا

بولو ہنستے ہنستے پلکیں بھیگ گئی کیوں ؟
کالی گھٹاؤں سے سورج ٹکرایا ہو گا

لوگ کہانی لکھنے پھر سے بیٹھ گئے کیوں؟
پھر سے کسی نے دھوکہ پیار میں کھایا ہو گا

آن اترے جب دھرتی پر تارے ، تو بولا
تو نے پلکوں کو یکبار اٹھایا ہو گا

آج شرارت پر اترا ہے نٹ کھٹ آنچل؟
اِس کو شوخ ہواؤں نے اکسایا ہو گا

سرخ گلابوں میں خوشبو کو گھولا کس نے؟
دیکھ کے تجھ کو چاند بہت شرمایا ہو گا​
 

راجہ صاحب

محفلین

چپ چپ کیوں ہو ؟
بات نہیں ہے

کیا ہے جیت میں؟
مات نہیں ہے

زیست کٹے گی ؟
رات نہیں ہے

دل کیوں ٹوٹا ؟
دھات نہیں ہے

ہے کیا بات میں ؟
بات نہیں ہے

کیا ہے عشق میں ؟
ذات نہیں ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین


کبھی پڑھ لو سمندر پر لکھا جو نام ہوتا ہے
مگر پانی میں جو بھی نام ہے بے نام ہوتا ہے

نہیں ہوتا تمہیں اب درد ہجراں؟ یہ بھی بہتر ہے
سنو ،یہ درد تو ہرگام ہر دو گام ہوتا ہے

کہو، تم سیپ کے من میں ستارہ گم ہوا کیسے؟
کہا ، مٹی میں جیسے ہر بشر گمنام ہوتا ہے

کہو، کیا گفتگو اب خود سے بھی کرنے سے ڈرتے ہو؟
کہا، ہوتی ہے خود سے گفتگو جب کام ہوتا ہے

سنو جب ہونٹ سل جائیں تو تب اظہار ممکن ہے؟
کہا ، پلکوں کی چلمن میں بھی اِک پیغام ہوتا ہے

کہا، دل ہار کے آنکھیں لہو کرنے سے کیا حاصل؟
بتایا، آرزو کا بس یہی انجام ہوتا ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)


فلک کی نظریں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کہا فلک نے زمیں سے جھک کر
نظر اٹھا کر کبھی تو دیکھو
کہ میرے سینے میں اَن گنت یہ الاؤ روشن کیے کس نے
زمانہ اِن کو چمکتا خورشید ، ماہ و انجم کا نام دے کر بہل گیا ہے
دہکتے، سلگتے داغوں میں دل یہ میرا بدل گیا ہے
زمیں نے دل میں پڑی دراڑوں پہ ہاتھ رکھ کر ،
جگر کی نازک کٹی پھٹی سی ، رگوں کو چھو کر ،
فلک کو دیکھا
زمیں کی نظروں میں جانے کیا تھا
فلک کی نظریں بھی جھک گئی ۔
 

راجہ صاحب

محفلین




دل نے پھر غم کا راگ چھیڑا ہے
کیا کوئی تار اسکا ٹوٹا ہے؟

چاند کو دیکھ کر کبھی سوچا؟
ہاں، یہ اپنی طرح سے تنہا ہے

پھر پکارا ہے پیار سے کس نے؟
آپ نے دن میں خواب دیکھا ہے

اس نے وعدہ کیا تھا ، آیا وہ ؟
سانحہ سا یہی تو گزرا ہے

پہلے ساگر میں آنکھ تھی اور اب؟
اب تو ساگر اسی میں رہتا ہے

تم نے منزل گنوا کے کچھ پایا؟
خوف، جو راستوں سے آتا ہے

بھولنے والے کو بھلا ڈالو
با رہا ہم نے ایسا چاہا ہے

دل جو ٹوٹا تو کیا گماں گزرا ؟
کرچیاں بن کے بھی دھڑکتا ہے

وصل آنکھوں سے کب مٹا بولو ؟
ہجر اِن میںکبھی کا ٹِھہرا ہے

 

راجہ صاحب

محفلین



کہو فلک ، میرے محبوب جیسا کوئی کہیں تھا؟
بتایا اس نے تمھارا ساتھی بہت حسیں تھا

ذرا بتاؤ گے تم نے اس کو کہاں پہ دیکھا؟
جہاں پہ تھا ماہ و شوں کا جمگھٹ وہ بس وہیں تھا

بتاؤکیسا تھا جس کو اس نے بنایا ہمدم؟
کہا حقیقت ہے تم سے بڑھ کر وہ کچھ نہیں تھا

سنو کسی کو وہاں پہ اس نے گلاب سونپا ؟
گلاب ہر ایسے ہاتھ میں تھا جو دلنشیں تھا

کہو، ہواؤں پہ گھر بنانے کا کاہے سوچا؟
کہا، کہ مشکل تھا کام لیکن مجھے یقیں تھا

خبرہے، آندھی نے وہ شجر بھی گرا ہی ڈالا ؟
سنو، وہی تو مِری وفاؤں کا اِک امیں تھا

بتاؤ، دوری کا دشت تم نے چنا ہے کیسے؟
بتایا، سورج جو میرے دل کے بہت قریں تھا


 

راجہ صاحب

محفلین


بول سکھی، کیوں چاہت کا مقسوم جدائی؟
پگلی، روتی اسی لئے تو ہے شہنائی !

بول سکھی، یہ اکھیاں کاہے سپنے دیکھیں؟
پگلی، ان میں آن بسا ہے اِک سودائی

بول سکھی، کیوں شہر میں جاکر بھول گیا وہ؟
پگلی، تیرا پیتم لگتا ہے ہرجائی

بول سکھی، کیوں بیکل بیل سی پھرتی ہوں؟
پگلی، دل ہے تیرا لیکن پریت پرائی

بول سکھی، کیوں دل ہاتھوں سے نکلا جائے؟
پگلی، اس کے کہنے میں تو کیوں تھی آئی

بول سکھی، یہ پیت کا شعلہ بھڑکا کیسے ؟
پگلی، تیرے کاجل نے یہ آگ لگائی

بول سکھی، کیوں پیر نہیں دھرتی پر ٹکتے ؟
پگلی، اس نے پائل جو تجھ کو پہنائی

بول سکھی، وہ کیوں آتا ہے مجھ سے ملنے؟
پگلی، تو نے جگ سے کیونکر بات چھپائی

بول سکھی، بے تال ہوئی ہے کب سے دھڑکن؟
پگلی، اس نے جب سے تیری نیند چرائی

 
Top