محمد شکیل خورشید
محفلین
صبح سےرات روز کرتا ہوں
یہ خرافات روز کرتا ہوں
روز تکتا ہوں شیشہِ دل میں
یہ ملاقات روز کرتا ہوں
مان کر اس کی ضد کی ساری بات
میں اسے مات روز کرتا ہوں
ان کی مدحت سے بات کر کے شروع
کچھ مناجات روز کرتا ہوں
اپنے دل میں تمہاری یادوں کے
اجتماعات روز کرتا ہوں
روز کرتا ہوں گفتگو ان سے
ایک ہی بات روز کرتا ہوں
مان کر دل کی ، ذہن سے اے شکیل
اختلافات روز کرتا ہوں
اک نئی غزل احباب و اساتذہ بالخصوص
محترم الف عین
صاحب کی نذر
یہ خرافات روز کرتا ہوں
روز تکتا ہوں شیشہِ دل میں
یہ ملاقات روز کرتا ہوں
مان کر اس کی ضد کی ساری بات
میں اسے مات روز کرتا ہوں
ان کی مدحت سے بات کر کے شروع
کچھ مناجات روز کرتا ہوں
اپنے دل میں تمہاری یادوں کے
اجتماعات روز کرتا ہوں
روز کرتا ہوں گفتگو ان سے
ایک ہی بات روز کرتا ہوں
مان کر دل کی ، ذہن سے اے شکیل
اختلافات روز کرتا ہوں
اک نئی غزل احباب و اساتذہ بالخصوص
محترم الف عین
صاحب کی نذر