کچھ جرم نئے اور مرے نام لگادو

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ جرم نئے اور مرے نام لگا دو
باقی ہے اگر کوئی تو الزام لگا دو

کیوں کرتے ہو دربارِ عدالت کا تکلف
جو حکم لگانا ہے سر ِ عام لگا دو

افسانہ ہمارا ہے ، قلم سارے تمہارے
عنوان جو چاہو بصد آرام لگا دو

دیوانوں کو پابندِ سلاسل نہ کرو تم
ذہنوں میں بس اندیشہء انجام لگادو

جب آہی گئے برسرِ بازار تو کیا شرم
اوروں کی طرح تم بھی مرے دام لگادو

جل اٹھے توجل جائے گا یہ پردہء شب تار
پابندی چراغوں پہ سر ِ شام لگا دو

غیرت ہی نہیں باقی تو بیکار ہیں ہتھیار
مل جائیں خریدار تو نیلام لگا دو

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۹
ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ بہت اچھے ظہیر بھائی کمال۔۔۔۔۔
دیوانوں والے شعر میں مجھے لگا کہ اندیشہ کا جوڑ کچھ پیوستہ نہیں کہ دیوانگی کو پہنچ جائیں تو سلاسل اور اندیشے بے معنی ہوجاتے ہیں یہاں "افکار" یا تصور یا نظریہ وغیرہ شعر کو ذرا بلند کر تا ۔ تاہم یہ میرا اپنا خیال ہے ۔ ۔ ۔ شعر بلکہ پوری غزل اپنی جگہ بہت حال بہترین ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
جب آہی گئے برسرِ بازار تو کیا شرم
اوروں کی طرح تم بھی مرے دام لگادو
واہ واہ کیاکہنے جناب۔ ایک اور خوبصورت غزل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ بہت اچھے ظہیر بھائی کمال۔۔۔۔۔
دیوانوں والے شعر میں مجھے لگا کہ اندیشہ کا جوڑ کچھ پیوستہ نہیں کہ دیوانگی کو پہنچ جائیں تو سلاسل اور اندیشے بے معنی ہوجاتے ہیں یہاں "افکار" یا تصور یا نظریہ وغیرہ شعر کو ذرا بلند کر تا ۔ تاہم یہ میرا اپنا خیال ہے ۔ ۔ ۔ شعر بلکہ پوری غزل اپنی جگہ بہت حال بہترین ہے۔
عاطف بھائی ۔ آپ کا نکتہ بجا ہے اور مجھے پسند آیا۔ آپ جس زاویے سے شعر کو دیکھ رہے ہیں اس میں اس طرح کا خیال پیدا ہونا بالکل قابلِ فہم ہے۔ تاہم میرا یہ خیال تھا کہ اس شعرکے سیاق و سباق میں دیوانے کا مطلب سرپھرے سے کچھ زیادہ نہیں بنتا۔ چونکہ عشقِ حقیقی یا مجازی کسی بھی قسم کے تلازمات شعر میں موجود نہیں ہیں اس لئے یہاں دیوانے سے قیس و فرہاد یا منصور وغیرہ کا تصور ذہن میں نہ آئے بلکہ پہلے مصرع میں دیوانوں کو پابندِ سلاسل نہ کرنے کا جو مشورہ (ارباب اختیار) کو دیا جارہا ہے اس کے بعد دیوانے سے مراد سرپھرے ، آشفتہ سر اور صاحبِ اختلاف قسم کے لوگ ہی ہوں گے۔ شاید اس کا پوری طرح ابلاغ نہیں ہوپایا شعر میں۔
عاطف بھائی ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے میری درخواست پر اتنی توجہ اور محبت سے اشعار کو دیکھا ۔ مین توقع کرتاہوں کہ آپ یہ محبت اور عنایت جاری رکھیں گے ۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی ۔ آپ کا نکتہ بجا ہے اور مجھے پسند آیا۔ آپ جس زاویے سے شعر کو دیکھ رہے ہیں اس میں اس طرح کا خیال پیدا ہونا بالکل قابلِ فہم ہے۔ تاہم میرا یہ خیال تھا کہ اس شعرکے سیاق و سباق میں دیوانے کا مطلب سرپھرے سے کچھ زیادہ نہیں بنتا۔ چونکہ عشقِ حقیقی یا مجازی کسی بھی قسم کے تلازمات شعر میں موجود نہیں ہیں اس لئے یہاں دیوانے سے قیس و فرہاد یا منصور وغیرہ کا تصور ذہن میں نہ آئے بلکہ پہلے مصرع میں دیوانوں کو پابندِ سلاسل نہ کرنے کا جو مشورہ (ارباب اختیار) کو دیا جارہا ہے اس کے بعد دیوانے سے مراد سرپھرے ، آشفتہ سر اور صاحبِ اختلاف قسم کے لوگ ہی ہوں گے۔ شاید اس کا پوری طرح ابلاغ نہیں ہوپایا شعر میں۔
عاطف بھائی ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے میری درخواست پر اتنی توجہ اور محبت سے اشعار کو دیکھا ۔ مین توقع کرتاہوں کہ آپ یہ محبت اور عنایت جاری رکھیں گے ۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔
جناب کی محبت اور حسن نظر ہے ۔ورنہ ہر کلام میں جتنی انٹرنسک قوت کشش ہوتی ہے وہ اسی سے پتہ چلتی ہے کہ وہ قاری کی توجہ کس گہرائی سے کھینچتی ہے ۔
 
Top