کچھ باتیں میرے شہر گوجرانوالہ کے بارے میں


اچھی بات ہے کہ گوجرانوالہ کے نئے سی پی او غلام محمود ڈوگر اشتہاری مجرموں کے بارے میں ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ جیسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ مقامی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔ ادھر ہم تھے کہ لفظ ’’آہنی ہاتھوں‘‘ سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ دیر بعد کسی پولیس افسر کے منہ سے یہ لفظ نکلا ہے۔ محکمہ پولیس میں ابھی تک ذوالفقار چیمہ اکیلے ہی دلبری اور دلیری کے وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہیں۔ وہی اول، وہی دوم۔ وہی سوم۔ چیمبر کے صدر ثروت اکرام نے سی پی او کی توجہ ٹریفک کیطرف مبذول کروائی۔ جی ٹی روڈ پر ہر دم رکی ہوئی ٹریفک گوجرانوالہ کا ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے ریلوے ٹریک پر بنایا گیا اوورہیڈ برج ہی ٹریفک کے لئے بھاری مسئلہ بن گیا ہے۔ اس برج کے خالی دروں کو لیز پر دیا گیا تھا۔ یہی لیز شہریوں کیلئے عذاب ثابت ہوئی ہے۔ دکانداروں نے آدھی سڑک پر دکانداری سجا رکھی ہے۔ باقی آدھی سڑک پر ٹریفک بھی گزرتی ہے اور سامان بھی لوڈ، ان لوڈ ہوتا ہے۔ بھٹو دور میں بنایا گیا یہ پل اپنی معیاد پوری کر چکا ہے۔ ان دروں کی لیز کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ ان پندرہ بیس دکانداروں نے بیس لاکھ کی آبادی والے پورے شہر کو یرغمال نبا رکھا ہے۔ ہر شہری کو دن میں ایک آدھ بار جی ٹی روڈ سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ ایک پھیرے میں کم از کم ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ مسئلے کا صرف ایک حل ہے کہ اس پل کو مسمار کر کے جی ٹی روڈ کو کشادہ کر دیا جائے۔ ایک دو انڈر پاس بنا دیئے جائیں۔ ان دکانداروں نے اپنی دکانوں میں لمبی سرنگیں کھودی ہوئی ہیں۔ یہ سرنگیں ریلوے ٹریک کے نیچے تک ہیں۔ ریلوے افسران نے آنکھیں بند رکھی ہیں۔ کیا کسی ٹرین حادثہ کی صورت میں ہی ان سرنگوں میں جھانکا جائے؟ ڈی سی او موقعہ پر پہنچیں انہیں کیا مجبوری ہے؟ کیا ضروری ہے کہ ہر مسئلے پر جناب چیف جسٹس کو ہی پکارا جائے۔ مشرف دور میں کمپنی باغ ایک شہری کو ’آنوں ٹکوں‘ کے عوض 33 سال کیلئے لیز پردے دیا گیا۔ میکڈونلڈ اور پیزا ہٹ سے لاکھوں روپے ماہوار کرایہ پر معاملات طے پا رہے تھے کہ میرے کالم پر از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس چودھری افتخار نے اس پارک کو سیاستدانوں کی دست برد سے بچا لیا۔ میں بات دہرا رہا ہوں کیا ضروری ہے کہ ہر معاملے پر چیف جسٹس کو ہی پکارا جائے؟ نصف ارب روپے سے زائد لاگت سے گوندلانوالہ روڈ کی تعمیر شروع کی جا رہی ہے۔ یہاں سے شیٹ مارکیٹ بیرون شہر منتقل کئے بغیر یہ تعمیر محض قومی سرمایہ کا ضیاع ہو گی۔ یہ سڑک چند ماہ میں ہی دوبارہ ٹوٹ پھوٹ جائیگی۔ پچھلے دنوں میاں شہباز شریف گوجرانوالہ میڈیکل کالج کی کلاسوں کے آغاز پر منعقد ہونے والی تقریب میں تشریف لائے۔ اس تقریب میں ن لیگ کے مقامی زعماء کا تقریری مقابلہ تھا۔ بڑھ چڑھ کر میاں شہباز شریف کی کامیابیاں بتائی جا رہی تھیں۔ ایم این اے خرم دستگیر کی تقریر اول رہی۔ ان کی تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ پہلوانوں کے شہر میں انگریزی سمجھنے والے بھلا کتنے ہونگے لیکن یہ تقریر شہریوں کیلئے نہیں تھی۔ ’’کچھ شعر فقط ان کو سنانے کیلئے ہیں‘‘ رہے مقامی شہری تو ان کے ساتھ ان دنوں خرم دستگیر ٹی وی چینلوں کے ذریعے رابطے میں ہیں۔ وہاں موصوف خاصی صاف شفاف اور اردو بولتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں خیر رہی، نام گوجرانوالہ میڈیکل کالج ہی رہنے دیا گیا ورنہ شہر اقبال سیالکوٹ میں نئے میڈیکل کالج کا نام حکیم الامتؒ کی بجائے ایک مقامی ایم این اے کے والد کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ ’کتنے سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ‘ کتنی بری بات ہے کہ اس پر پورے سیالکوٹ سے صرف ایک اکیلے آصف بھلی کی احتجاجی آواز ہی سنائی دی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمارے کمشنر صاحب بہادر سعید واہلہ قطعاً ’’تعلیم دوست‘‘ ثابت نہیں ہوئے۔ ان کے پیشرو بڑے تعلیم دوست افسر تھے۔ اپنا زیادہ وقت ڈویژنل پبلک سکول میں گزارتے۔ اپنا دفتر بھی بڑے ٹھسے سے وہیں جمایا ہوا تھا۔ لوگ کچھ کہیں ہم ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ کمشنر سعید واہلہ کا شاید اس سکول کے پاس سے بھی گزر نہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ سکول کے بورڈ آف گورنرز کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔ اس سکول میں ایف اے تک کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس لئے بورڈ آف گورنرز میں ایف اے سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد کا داخلہ بند تھا۔ شاید پڑھے لکھے لوگوں کے بورڈ آف گورنرز میں آ جانے سے اس تعلیمی ادارے کو ’’اپھارہ‘‘ ممکن تھا۔ اسی لئے سخت حفاظی تدابیر اختیار کی گئیں۔ غور طلب بات ہے، کیا مولانا اسماعیل سلفی، مجتہد مفتی جعفر حسین، جسٹس دین محمد، الطاف گوہر اور دیوان غالب کا منظوم پنجابی ترجمہ کرنے والے پروفیسر اسیر عابد کے شہر کے ایک باوقار تعلیمی ادارے کے بورڈ آف گورنرز کیلئے میٹرک، ایف اے فیل پاس ’’علمی شخصیات‘‘ کا ڈھونڈ نکالنا مناسب ہے؟ اور ہمارے ذمے تو صرف بات کا پہنچا دینا ہے(القرآن)
ربط
http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/14-Feb-2011/117133
 

محمدصابر

محفلین

اچھی بات ہے کہ گوجرانوالہ کے نئے سی پی او غلام محمود ڈوگر اشتہاری مجرموں کے بارے میں ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ جیسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ مقامی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔ ادھر ہم تھے کہ لفظ ’’آہنی ہاتھوں‘‘ سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ دیر بعد کسی پولیس افسر کے منہ سے یہ لفظ نکلا ہے۔ محکمہ پولیس میں ابھی تک ذوالفقار چیمہ اکیلے ہی دلبری اور دلیری کے وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہیں۔ وہی اول، وہی دوم۔ وہی سوم۔ چیمبر کے صدر ثروت اکرام نے سی پی او کی توجہ ٹریفک کیطرف مبذول کروائی۔ جی ٹی روڈ پر ہر دم رکی ہوئی ٹریفک گوجرانوالہ کا ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے ریلوے ٹریک پر بنایا گیا اوورہیڈ برج ہی ٹریفک کے لئے بھاری مسئلہ بن گیا ہے۔ اس برج کے خالی دروں کو لیز پر دیا گیا تھا۔ یہی لیز شہریوں کیلئے عذاب ثابت ہوئی ہے۔ دکانداروں نے آدھی سڑک پر دکانداری سجا رکھی ہے۔ باقی آدھی سڑک پر ٹریفک بھی گزرتی ہے اور سامان بھی لوڈ، ان لوڈ ہوتا ہے۔ بھٹو دور میں بنایا گیا یہ پل اپنی معیاد پوری کر چکا ہے۔ ان دروں کی لیز کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ ان پندرہ بیس دکانداروں نے بیس لاکھ کی آبادی والے پورے شہر کو یرغمال نبا رکھا ہے۔ ہر شہری کو دن میں ایک آدھ بار جی ٹی روڈ سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ ایک پھیرے میں کم از کم ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ مسئلے کا صرف ایک حل ہے کہ اس پل کو مسمار کر کے جی ٹی روڈ کو کشادہ کر دیا جائے۔ ایک دو انڈر پاس بنا دیئے جائیں۔ ان دکانداروں نے اپنی دکانوں میں لمبی سرنگیں کھودی ہوئی ہیں۔ یہ سرنگیں ریلوے ٹریک کے نیچے تک ہیں۔ ریلوے افسران نے آنکھیں بند رکھی ہیں۔ کیا کسی ٹرین حادثہ کی صورت میں ہی ان سرنگوں میں جھانکا جائے؟ ڈی سی او موقعہ پر پہنچیں انہیں کیا مجبوری ہے؟ کیا ضروری ہے کہ ہر مسئلے پر جناب چیف جسٹس کو ہی پکارا جائے۔ مشرف دور میں کمپنی باغ ایک شہری کو ’آنوں ٹکوں‘ کے عوض 33 سال کیلئے لیز پردے دیا گیا۔ میکڈونلڈ اور پیزا ہٹ سے لاکھوں روپے ماہوار کرایہ پر معاملات طے پا رہے تھے کہ میرے کالم پر از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس چودھری افتخار نے اس پارک کو سیاستدانوں کی دست برد سے بچا لیا۔ میں بات دہرا رہا ہوں کیا ضروری ہے کہ ہر معاملے پر چیف جسٹس کو ہی پکارا جائے؟ نصف ارب روپے سے زائد لاگت سے گوندلانوالہ روڈ کی تعمیر شروع کی جا رہی ہے۔ یہاں سے شیٹ مارکیٹ بیرون شہر منتقل کئے بغیر یہ تعمیر محض قومی سرمایہ کا ضیاع ہو گی۔ یہ سڑک چند ماہ میں ہی دوبارہ ٹوٹ پھوٹ جائیگی۔ پچھلے دنوں میاں شہباز شریف گوجرانوالہ میڈیکل کالج کی کلاسوں کے آغاز پر منعقد ہونے والی تقریب میں تشریف لائے۔ اس تقریب میں ن لیگ کے مقامی زعماء کا تقریری مقابلہ تھا۔ بڑھ چڑھ کر میاں شہباز شریف کی کامیابیاں بتائی جا رہی تھیں۔ ایم این اے خرم دستگیر کی تقریر اول رہی۔ ان کی تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ پہلوانوں کے شہر میں انگریزی سمجھنے والے بھلا کتنے ہونگے لیکن یہ تقریر شہریوں کیلئے نہیں تھی۔ ’’کچھ شعر فقط ان کو سنانے کیلئے ہیں‘‘ رہے مقامی شہری تو ان کے ساتھ ان دنوں خرم دستگیر ٹی وی چینلوں کے ذریعے رابطے میں ہیں۔ وہاں موصوف خاصی صاف شفاف اور اردو بولتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں خیر رہی، نام گوجرانوالہ میڈیکل کالج ہی رہنے دیا گیا ورنہ شہر اقبال سیالکوٹ میں نئے میڈیکل کالج کا نام حکیم الامتؒ کی بجائے ایک مقامی ایم این اے کے والد کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ ’کتنے سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ‘ کتنی بری بات ہے کہ اس پر پورے سیالکوٹ سے صرف ایک اکیلے آصف بھلی کی احتجاجی آواز ہی سنائی دی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمارے کمشنر صاحب بہادر سعید واہلہ قطعاً ’’تعلیم دوست‘‘ ثابت نہیں ہوئے۔ ان کے پیشرو بڑے تعلیم دوست افسر تھے۔ اپنا زیادہ وقت ڈویژنل پبلک سکول میں گزارتے۔ اپنا دفتر بھی بڑے ٹھسے سے وہیں جمایا ہوا تھا۔ لوگ کچھ کہیں ہم ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ کمشنر سعید واہلہ کا شاید اس سکول کے پاس سے بھی گزر نہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ سکول کے بورڈ آف گورنرز کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔ اس سکول میں ایف اے تک کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس لئے بورڈ آف گورنرز میں ایف اے سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد کا داخلہ بند تھا۔ شاید پڑھے لکھے لوگوں کے بورڈ آف گورنرز میں آ جانے سے اس تعلیمی ادارے کو ’’اپھارہ‘‘ ممکن تھا۔ اسی لئے سخت حفاظی تدابیر اختیار کی گئیں۔ غور طلب بات ہے، کیا مولانا اسماعیل سلفی، مجتہد مفتی جعفر حسین، جسٹس دین محمد، الطاف گوہر اور دیوان غالب کا منظوم پنجابی ترجمہ کرنے والے پروفیسر اسیر عابد کے شہر کے ایک باوقار تعلیمی ادارے کے بورڈ آف گورنرز کیلئے میٹرک، ایف اے فیل پاس ’’علمی شخصیات‘‘ کا ڈھونڈ نکالنا مناسب ہے؟ اور ہمارے ذمے تو صرف بات کا پہنچا دینا ہے(القرآن)
ربط
http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/14-Feb-2011/117133
پرانی خبر ہے پرانا اوور ہیڈ برج مسمار کر دیا گیا ہے اب تو شہباز شریف سٹائل اوور ہیڈ بھی بن رہا ہے جس کے لئے ایم این اے خرم دستگیر کے غیر قانونی آبائی پلازے اور پٹرول پمپ کی قربانی دینے کی بجائے اوور ہیڈ برج کے ڈیزائن اور لمبائی کی قربانی دی گئی ہے۔ سعید واہلہ کو اللہ تعالی جنت میں جگہ عطا فرمائیں۔ ان کی اور بیرسٹر نبیل ڈی سی او کی ٹیم نے گوجرانوالہ شہر کو خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لوگ اب انہیں یاد کر رہے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ واقعی ہردل عزیز تھے ان کے جانے کے بعد کرائم ریٹ بہت ہی بڑھ گیا۔ صبح سیر کرتے ہوئے ڈی آئی جی ہاؤس کے سامنے گزرتا ہوں۔ اس روڈ پر پہلے خواتین کی بہت بڑی تعداد سیر کے لئے آیا کرتی تھی۔ لیکن انہیں چھیڑنے والے صبح صبح ہی گھروں سے نکلتے تھے۔ اور عین ڈی آئی جی ہاؤس کی دیواروں کے نیچے چھیڑتے تھے۔ :( اب تو یہ تعداد آدھی بھی نہیں رہ گئی پھر بھی مردوں سے زیادہ ہے۔ اور باقی رہ جانے والی خواتین وہی ہیں جن سے ٹھیک طرح چلا بھی نہیں جاتا۔
 
Top