ندیم جاوید عثمانی
محفلین
کُتیا
کہتے ہیں گھر انسانوں سے بستے ہیں اور اگر ان میں انسان نہ بسیں تو پھر گھر نہیں خالی دیواریں رہ جاتی ہیں۔۔۔۔جبکہ میں سمجھتی ہوں کہ بعض مرتبہ انسانوں کے رہنے بسنے کے باوجود بھی دیواریں،دیواریں ہی رہتیں ہیں کبھی گھر نہیں کہلاتیں۔۔۔ میں جب شادی ہوکر اس گھر میں آئی تو شروع شروع میں مُجھے اس گھر کی بناوٹ پر ہنسی آتی تھی۔
جو اپنے اندر اک عجب طرح کی تکونیت لئیے ہوئے تھا اوریہی رائے اس گھر کے افراد کے بارے میں قائم کی جاسکتی تھی۔ایسا لگتا تھا یہاں رشتے بھی کسی تکونیت کے گرد محوسفرہیں۔ اورکبھی کبھی میں سوچتی کہ شاید اس گھر کی بُنیاد ہی تکونیت پر تھی۔
اس گھر میں افراد کی کُل تعداد بھی تین تھی، یعنی میں تھی، میرے شوہر ماجد اورسُسر۔۔۔۔ شادی کے بعد نجانے کتنے دنوں تک میرا شروع شروع میںیہاںدل ہی نہیں لگتا تھا۔یہ دُونوں باپ بیٹے اپنے کاموں پر چلے جاتے تومیں اپنے رُوز مرہ کے کاموں میں لگ جاتی اور بھلا تین افراد والے گھر کا کام ہی کتنا ہوتا ہے لہذا جب اپنے کاموں سے فارغ ہوتی تو پھر سارے دن بوکھلائی بوکھلائی گھر میں ادھر سے اُدھر چکر کاٹتی پھرتی۔ شام میں جب تک ماجد اور میرے سُسر واپس اپنے اپنے کام پر سے آتے تب تک میری زُبان تالو سے لگ کرخشک ہو چُکی ہوتی تھی۔مُجھے تو یہ خوف رہنے لگا تھا کسی دن میں باتیں کرنا ہی نہ بُھول جاؤنگی!
شام میں ماجد کے آتے ہی میری زُبان اپنی پوری رفتار سےچلنے لگ جاتی اُسے میں نہ صرف دن بھر کی روداد سُناتی بلکہ وہ غیرضروری باتیں بھی اُس کے گُوش گُذار کردیتی جو نہ بھی بتاتی تو ماجد کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھلا اُس کواس بات سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کے میں نے سالن کو کتنی بار آکردیکھا، چولہے کی آنچ کو کتنی بار کم زیادہ کیا مگر شاید وہ بھی میرے دن بھر گھر میں اکیلے رہ رہ کر خاموشی کی اُلجھن کو سممجھ چُکا تھا لہذا میری ہر بات کو مُسکراتے ہوئے پُوری توجہ سے ایسے سُنتا جیسے کہ اس سے ضروری تو اور کوئی بات ہو گی ہی نہیں۔
اور پھر ایکدن جب میرے سُسر کام پر سے واپس آئے تو اُنکے پیچھے پیچھے بُھوری چلی آرہی تھی "اس کا نام
مُجھے بعد میں میرے سُسرنے ہی بتایا"
شام میں جب ماجد کوپتا چلا کہ تواُنھوں نے کافی ناک بھُوں چڑھائی شاید اُن کومیرے سُسر کا بُھوری کو یُوں گھر میں رکھ لینے کا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا حالانکہ
شروع شروع کے نجانے کتنے دنوں تک مُجھےخُود کو اس نئی بِن بُلائی مہمان سے اُلجھن آتی رہی مگر پھر آہستہ آہستہ میں بُھوری کی عادی ہُوتی چلی گئی۔ گو کہ بُھوری بُول نہیں سکتی تھی مگر مُجھے اس بات کا اطمینان کہ وہ کم از کم میری باتیں سُن تو سکتی تھی۔
اور اب مُجھے اپنے دن بھر کی روداد سُنانے کو ماجد کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ میں اپنے گھر کے کام نمپٹاتی جاتی اور اس کے ساتھ ساتھ میری زُبان بھی مُسلسل چلتی رہتی اور بُھوری بھی نہایت فرمانبرداری سے سر جُھکائے میری سب باتیں ایسے سُنتی جیسے شام میں گھرواپسی پر ماجد کوسُننا پڑتی تھی اور شاید اب اسی وجہ سےماجد کارویہ بھی بُھوری کے ساتھ بہتر ہوگیا تھا اور کبھی کبھی تومیں ماجد کی آنکھوں میں احساس تشُکر کےرنگ دیکھائی دیتے تھے جیسے وہ بُھوری کا شُکر گُذار ہو کہ جس کی وجہ سے اُسے اب میری بے سُروپا باتوں سے نجات مل چُکی تھی۔
کے آنے کے سبب اس گھر میں تعلقات کی جو تکونیت ختم ہوئی تھی وہ ایکدن واپس اپنی جگہ پر آگئی جب میرے سُسر کا انتقال ہوا۔ اُن کےبڑھاپے کا وقت توتھاہی اور کوئی نہ کوئی بیماری بھی اُنھیں گھیرے ہی رکھتی تھی مگر اک بات تھی میرے سُسر نے کبھی اپنی بیماری کو وجہ بنا کر نہ کبھی مُجھے نہ ماجد کوبلاوجہ پریشان نہیں کیاتھا اُن کا تو دم بھی نجانے رات کے کس پہر نکل گیا مُجھے اور ماجد کو تو صُبح اُس وقت پتا چلا جب میں اُن کوناشتے کے لئیے اُٹھانے گئی تھی۔
آہستہ آہستہ زندگی اپنے معُمول پر آگئی اب گھر میں پھر سے تین کی گنتی شُمار ہونے لگی تھی میں، ماجد اور بُھوری!
میرے سُسر کے انتقال کے ٹھیک چارماہ بعد ہی ایک قیامت اورٹوٹی جس نے میرا گھر، میری سبھی خُوشیوں کوتہہ خاک کردیا۔ اُس دن دوپہر سے ہی شہر کے حالات بُہت زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ رہ رہ کر میرا دل بیٹھا جارہا تھا پتا نہیں کیسے کیسے وسوسے اور پریشان کُن سوجوں سے میرا دل بیھٹا جارہا تھا۔ میں اور بھُوری دُونوں ہی نجانے کتنی بار دروازے پر جاکر جا کر گلی کا جائزہ لے چُکے تھے، ماجد کی واپسی کے معُمول کے حساب سے تو دو گھنٹے مزید اُوپر ہُوچکے تھے لیکن اُس کا دُور دُور تک پتا نہیں تھا۔
اور دن بھر سے جو سُوچیں مُجھے ڈرا رہی تھیں وہ اُس وقت اپنی تمام تربَدصورتی کے ساتھ سامنے آگئیں جب ایک ایمبولنس میں ماجد کی لاش آئی جانے گولی کس کی بنُدوق سے نکلی تھی اورکیوں چلائی گئی تھی مُجھے صرف اتنا پتا تھا کہ اُس ایک گولی نے میری پوری
زندگی کو بربادکرگئی تھی
وقت کتنا بھی کٹھن ہوآخرکار گُذرہی جاتا ہے بڑے سے بڑا دُکھ اور گھاؤ کو بھرتا ہوا یہ اپنی رفتار برقرار رکھتا ہے۔آہستہ آہستہ زندگی پھر ایک بار اپنے معُمول پر آگئی تھی اور میں جو کبھی تنہا گھر سے باہر نہیں نکلی تھی اب ماجد کے انتقال کے بعد اک بنگلے پر جاکرمُجھے کام کرنا پڑرہا تھا۔
اس گھر کی تکونیت ماجد کے بعد بھی ویسے ہی قائم تھی اب گھر میں میں،بُھوری اورمیری تنہائی تھی۔
جتنا وقت میں کام پر رہتی میری جان بھُوری میں اٹکی رہتی تھی ماجد کے انتقال کے بعد تو ویسے بھی میں بُھوری کے بہُت قریب آگئی تھی اب لے دے کر اک وہی تو میرا سہارا رہ گئی تھی جس کے ساتھ بات کرکے میں اپنے سارے دُکھ درد بانٹ لیاکرتی تھی۔
جب تک ماجد زندہ تھا اُس کویہی شکوہ رہتا تھا کہ میں نیند کی اتنی کچی ہُوں کہ بستر پر پڑتے ہی سو جاتی ہوں اور اب کبھی مُجھ کو اُس کی یہ بات یاد آتی تو اک ٹیس سی اُٹھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ماجد کے انتقال کے بعد میں نیند کی اتنی کچی ہوگئی تھی کہ اک ہلکی سی آہٹ سے بھی میری نیند ٹوٹ جاتی تھی
اس کی وجہ صرف مردوں کا وہ رویہ اور آنکھوں کی وہ چمک تھی جو ماجد کے انتقال کے بعد اُن کی آنکھوں میں سماگئی تھی۔ سُورج ڈھلتے ہی نجانے کتنی نگاہوں کے چاند چڑہھ کر میرے آنگن میں اُترنے کی کوشش کرتے
اورزندگی میں پہلی بار مُجھے اس چیز کا ادراک ہوا کہ شب خون مارنے والے بھڑیوں کو دروازوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کُھلے ہیں یا بند کسی کی متاع کو چُوری کرنے کے لئیے یہ ہمیشہ چُور دروازے ڈھُونڈ ہی لیتے ہیں
یا پھر شاید وہ نظریہ بھُوک سے بہُت اچھی طرح آگاہ تھے اوراُن کو معلوم تھا کہ اس گھر میں اک عرصے سے بُھوکی عُورت رہ رہی ہے جب کبھی میں بازار یا راستے سے گُذرتی توطرح طرح کے کھانوں کی
خوشبوؤں میں بسے ہوئے فقرے سُننے کوملتے۔ کہ کبھی تو اس کی بُھوک چَمکے گی!
اور کبھی کبھی تو واقعی مُجھے بھی یہ لگتا تھا کہ ماجد کی مُوت کے بعد اپنی بُھوک پر میں جو صبرکا پھتر رکھ چُکی تھی اک روز سرک کر گر نہ جائے
اورپھر اپنی ان سُوچوں پر لعنت بھیج کر اپنےاُس صبر کے پھتر کو اور مظبوطی سے کس لیتی تھی۔
ماجد کے انتقال کے بعد مُجھے عجیب عجیب ڈراؤنے سے خُواب آنے لگے تھے اور ایک خُواب تو کُچھ دِنوں کے وقفے سے لازمی ہی نظر آتاتھا۔
میں دیکھتی کہ اک عجب سی ویران جگہ سے گُذررہی ہوں پتا نہیں کدھر سے ایک کتُوں کا غول نکل آتا ہے لال لال شعلہ بارآنکھیں۔ مُنہ سے رال بہتی ہوئی آہستہ آہستہ میری طرف بڑھتے ہیں۔ میں گھبرا کر بھاگتی ہوں تو وہ بھی میرے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں آخر اک اک کرکے سارے کُتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں مگر ایک جس نے ابھی تک میری دُوڑ سے ہار نہیں مانی تھی مُسلسل میرے پیچھے بھاگتا چلا آتا ہے۔ اچانک میں اُس ویران سی جگہ نکل کر ایک بازار میں آجاتی ہوں جہاں نجانےکتنے لُوگ جمع ہیں۔ وہ کُتا اب بھی مُسلسل میرے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا اور شاید ایک لُوگوں کے ہاتھ اک نیاتماشہ آگیا تھا۔ کوئی مُجھے بچانے کے بجائے میری اور اُس کُتے کے بیچ دُوڑ کو یہ سُوچ کر دیکھ رہے ہوتے کے بس میں اب میں ہار مانوں گی اور اُن کو بیچ سڑک پر ایک دلفریب تماشہ دیکھنے کومل جائے گا!
میری پیرمُسلسل بھاگنے سے اب جواب دے رہے ہیں میں اُس سے بجچنے کو ابھی رفتار تیز ہیں کرتی ہوں کہ سامنے سے آتے ٹِرک پر میری نگاہ ہی نہیں پڑتی۔ وہ تیز رفتاری سے مُجھے کُچلتا ہوا گُذر جاتا ہے۔ میں ادھ مری حالت میں سڑک کے کنارے پڑی ہوں اور وہ لُوگ جو پہلے بازار میں بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے میرے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں نہ افسوس تھا نہ کوئی دُکھ کا رنگ بلکہ مُجھے تو لگ رہا
ہر شخص جیسے میری حالت پر ہنس رہا ہو۔ تبھی مجمعے میں سے ایک شخص کی آواز اُبھری جو شاید ابھی آیا تھا اور اس کھیل کو دیکھنے سے محروم رہ گیا تھا۔ "کیا ہوا" اس پر دُوسرے شخص نے جواب دیا "کُچھ نہیں یار اس کے پیچھے کُتا لگا ہوا تھا اُس سے بچنے کے چکر میں ٹِرک کے نیچھے آگئ۔ اس پر پہلا آدمی شُوخی بھرے لہجے میں بولا"لو بھائی ٹرک کے نیچے آنے سے تو اچھا تھا کُتے کے نیچے آجاتی اورپھر وہ ایکدوسرے کو ہاتھ مار کر ہنسنے لگتے ہیں! اُس شخص کے جملے میں اتنی تضحیک وحقارت تھی کہ میری رہی سہی سانس بھی ٹوٹ جاتی ہے اور پھر میں دم توڑدیتی ہوں۔
جب کبھی یہ خُواب آتا خُوف وگبھراہٹ سے میری آنکھ کھُل جاتی تھی۔
کُچھ دِنوں سے میں مِحسوس کررہی تھی کہ بھُوری کے معمولات میں تبدیلی آتی جارہی تھی۔ میں نے جب سے کام پر جانا شروع کیا تھا میری عادت ہوگئی تھی کہ شام کو گھر واپس آنے پر میں تُھوڑی دیر کے لیئے باہر جانے کی اجازت دے دیتی تھی کہ دن بھر گھر میں رہ رہ کر وہ بھی اُکتا جاتی ہوگی۔ اور اب تو یہ لگتا تھا کہ جیسے وہ بھی میری واپسی کی راہ دیکھتی ہو کہ کب میں واپس آؤں اوروہ باہر نکلے
اور اب بُھوری کا باہر جاکر گھر واپس آنے کا وقفہ بتدریج بڑھتا جارہا تھا پتا نہیں کہاں کہاں بھٹکتی پھرتی تھی اور اُس کے دیر سے واپس آنے پر کبھی میں سرزش یا کُچھ بُولتی تو وہ بنا کوئی اظہار کئیے بڑی عجیب سی نظروں سے مُجھے گھُورتی ہوئی ایک کونے میں جاکر بیٹھ جاتی۔ اُس کی نظروں میں میرے لئیے اک عجب سا تمسخر جھلکنے لگا تھا جیسے کہہ رہی ہوکہ خُود تو اس گھر میں رہ کر بُھوکی مر رہی ہو اور اگر میں باہر جاکر اپنا پیٹ بھر آتی ہوں تو تُم سے میری یہ خُوشی برداشت نہیں ہوتی!
مگر پھر پتا نہیں کیوں بھُوری کے باہر جانے کے معمُول میں خوُد ہی فرق آگیا اب اگر جاتی بھی تو تھوڑی دیر میں ہی واپس آجاتی میں محسوس کررہی تھی کہ دن بہ دن اُس کی طیبعت میں اُکتاہٹ آتی جارہی تھی۔ اب اگر میں کام کرتے ہوئے حسب عادت اُس سے باتیں کررہی ہوتی تو مُجھے صاف محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ میری باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی نجانے میری کتنی باتوں کو سُن ان سُنی کرجاتی یا میں بُول رہی ہوتی اور وہ دُوسری جانب مُنہ کر کے بیٹھ جاتی جیسے کہہ رہی ہو خُدا کے لئیے چُب ہوجاؤ مُجھے تمہاری یہ فضول باتیں سُننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
اور پھر ایکدن مُجھ پر یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ بُھوری کہ اس روئیے اور اُکتاہٹ کی وجہ کیا تھی۔ شاید کسی دن وہ اپنی بُھوک کے ہاتھوں مُجبورہوئی ہوگی اور اُس نے باہر اتنا کھالیا جو اب اُس کے بڑھتے ہوئے پیٹ کی صُورت میں نمُودار ہونا شِِِِِروع ہوگیاتھا!
اور اسی کے بعد ہی میرے اور بُھوری کے تعلق میں اک تناؤ کی سی فضاء قائم ہوگئی پتا نہیں اُس کی یہ حالت دیکھ کر مُجھے حقیقت میں غصہ آتا تھا یا یہ کسی اور جلن کے سبب تھا۔ اب میں نے بُھوری سے بات کرنا بُہت ہی کم کردیا تھا۔
آخرکار وقت کے ساتھ ساتھ میرے غصے اور جنجھلاہٹ میں خوُد بہ خود کمی آنے لگی یا شاید میں یہ بات سمجھ چُکی تھی کہ ضروری نہیں اس سب میں غلطی بھُوری کی رہی ہو۔ ہوُسکتاہے وہ تو اپنے بچاؤ کی خاطر بھاگ رہی ہو مگر شاید کوئی ٹرک عین وقت پر نہ پُہنچ سکا ہوگا اور وہ کسی کے ہتھے چڑھ گئی ہوگی ورنہ آج شاید کہانی مُختیلف ہوتی اور جب میں سُوچتی کہ اگر واقعی کوئی ٹرک آجاتا اور بُھوری کو کُچھ ہوجاتااس خیال کے ساتھ ہی مُجھے ایک جُھر جھری سی آجاتی تھی میں اب کسی بھی حال میں بھُوری کو کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی
یہ اُس رُوز کی بات ہے جہاں میں کام کرتی تھی اُن لوُگوں کو کسی تقریب میں جانا تھا تو میں اپنے رُوز کے معمول سے کہیں پہلے گھر واپس آگئی تھی۔ میں باورچی خانے میں بیٹھی رات کے کھانے کے لئیے تیاری کر رہی تھی۔بھُوری بھی باہر نکلی ہوئی تھی کہ اچانک باہر کسی گاڑی کے انتہائی زُور سے بریک لگانے کی آواز آئی بڑی سڑک میرے گھر سے کُچھ فرلانگ ہی تھی لہذا باہر سے آتی ہوئی آوازوں کو میں باآسانی سُن سکتی تھی۔ اچانک مُجھے دھیان آیا کہ بھُوری گھر میں نہیں ہے اوراس خیال کا آنا تھا کہ مُجھے گھبراہٹ شروع ہوگئی میں نے جلدی سے آنگن میں پڑی چارپائی سے اپنی چاڈر اُٹھائی اوربُھوری کو دیکھنے کے لئیے باہر نکل آئی گھبراہٹ میں مُجھے باہر کی کُنڈی لگانے کا بھی دھیان نہیں رہا۔
باہر نکلتے ہی میری نظرسب سے پہلے سڑک پر ہی گئی جہاں اب ایک مجمع لگ چُکا تھا۔ پتا نہیں کیوں میرا دل بیٹھا جارہا تھا اور میرے ذہن میں بس اک یہ خیال آرہا تھا کہ آج شاید بُھوری کام آگئی ہے۔
میں جیسے جیسے ممجعے کے قریب ہورہی تھی میرے پیروں کی سکت ختم ہوتی جارہی تھی ایسا لگتا تھا میرے پاؤں من من بھاری ہوگئے ہوں جو اُٹھ ہی نہیں پارہے تھے
اور جیسے ہی میں مجمعے کہ قریب پُہچی وہاں سے اُٹھتی ہوئی آوازیں اور جًملے میرے شک کو یقین میں بدل رہے تھے اب میری مجمعے میں داخل ہونے کی ہمت نہیں رہی تھی
اچانک ممجعے میں سے ایک لڑکے کی شرارت بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی
لو بھائی آج تو کہاوت ہی اُلٹی ہوگئی آج کُتیا کے بجائے کُتا ٹرک کے نیچے آگیاہے!
یہ جمُلہ میرے کان میں کیا مُجھے لگا میرے قِدموں میں کسی نے بجلی بھردی ہو۔
میں مجمعے کوچیرتی ہوئی جیسے ہی لوُگوں کے بیچ میں پُہنچی تو میری نظربیچ سڑک پہ کُچلے ہوئے کُتے پر پڑی اور ذرا پاس ہی بھُوری کھڑی ہانپ رہی تھی!
مگر اُس کی آنکھوں میں فتح کی چمک کو واضح طُور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ مجمعے سے ایک شخص نے دُوسرے آدمی سے پُوچھا "ارے بھائی تمہارا پان کا کیبن تو بالکل ہی سامنے ہے ہوا کیا تھا؟
اس پر دوسرے شخص نے بھُوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بس بھائی یہ اس کُتیا کے پیچھے اندھا دُھند بھاگا چلا آرہا تھا کہ رُوڈ کے کنارے پُہنچتے ہی کُتیا واپس دُوسری جانب کو مڑ گئی اورشاید کُتے کو اس بات کی توقع نہیں رہی تھی کے سیدھی سمت میں بھاگتی ہوئی یہ کُتیا ایسی بھی کوئی حرکت کرے گی تو بس جیسے ہی کُتیا مُڑ کر دُوسری جانب ہوئی کُتا فُوراَ نہیں رُک سکا اور سامنے سے آتے ہوئے ٹرک کے ینچے آگیا!
جیسے جیسے یہ تفصیل بتاتے ہوئے شخص کی آواز میرے کانوں میں پڑ رہی تھی میرے اندر تک اک عجب سَکون و اطیمنان اُترتا جارہا تھا!
میں نے مُسکرا کر بُھوری کی طرف دیکھا اور اُسے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا وہ بڑی فاتحانہ انداز میں چلتی ہوئی میرے ہمراہ ہولی۔
اب میں اور بُھوری دُونوں گھرکی جانب چل رہے تھے اور آج میں جب سڑک عبور کررہی تھی تو پتا نہیں آج پہلی بار میں نے نظروں کی وہ تپش اور چُبھن محسوس نہیں کی جو یہاں سے گُذرتے ہوئے مُجھے ہمیشہ محسوس ہوتی تھی۔
نظریں توخیر ابھی بھی اُٹھی ہوئی تھیں اور وہ مُسلسل گھور بھی رہی تھیں مگر اب خُوفزدہ، بدحواس نظریں میرے جسم پر نہیں بلکہ دُور سے آتے ہوئے تیز رفتار ٹرک پر لگی ہوئی تھیں!!
ندیم جاوید عُثمانی
کہتے ہیں گھر انسانوں سے بستے ہیں اور اگر ان میں انسان نہ بسیں تو پھر گھر نہیں خالی دیواریں رہ جاتی ہیں۔۔۔۔جبکہ میں سمجھتی ہوں کہ بعض مرتبہ انسانوں کے رہنے بسنے کے باوجود بھی دیواریں،دیواریں ہی رہتیں ہیں کبھی گھر نہیں کہلاتیں۔۔۔ میں جب شادی ہوکر اس گھر میں آئی تو شروع شروع میں مُجھے اس گھر کی بناوٹ پر ہنسی آتی تھی۔
جو اپنے اندر اک عجب طرح کی تکونیت لئیے ہوئے تھا اوریہی رائے اس گھر کے افراد کے بارے میں قائم کی جاسکتی تھی۔ایسا لگتا تھا یہاں رشتے بھی کسی تکونیت کے گرد محوسفرہیں۔ اورکبھی کبھی میں سوچتی کہ شاید اس گھر کی بُنیاد ہی تکونیت پر تھی۔
اس گھر میں افراد کی کُل تعداد بھی تین تھی، یعنی میں تھی، میرے شوہر ماجد اورسُسر۔۔۔۔ شادی کے بعد نجانے کتنے دنوں تک میرا شروع شروع میںیہاںدل ہی نہیں لگتا تھا۔یہ دُونوں باپ بیٹے اپنے کاموں پر چلے جاتے تومیں اپنے رُوز مرہ کے کاموں میں لگ جاتی اور بھلا تین افراد والے گھر کا کام ہی کتنا ہوتا ہے لہذا جب اپنے کاموں سے فارغ ہوتی تو پھر سارے دن بوکھلائی بوکھلائی گھر میں ادھر سے اُدھر چکر کاٹتی پھرتی۔ شام میں جب تک ماجد اور میرے سُسر واپس اپنے اپنے کام پر سے آتے تب تک میری زُبان تالو سے لگ کرخشک ہو چُکی ہوتی تھی۔مُجھے تو یہ خوف رہنے لگا تھا کسی دن میں باتیں کرنا ہی نہ بُھول جاؤنگی!
شام میں ماجد کے آتے ہی میری زُبان اپنی پوری رفتار سےچلنے لگ جاتی اُسے میں نہ صرف دن بھر کی روداد سُناتی بلکہ وہ غیرضروری باتیں بھی اُس کے گُوش گُذار کردیتی جو نہ بھی بتاتی تو ماجد کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھلا اُس کواس بات سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی کے میں نے سالن کو کتنی بار آکردیکھا، چولہے کی آنچ کو کتنی بار کم زیادہ کیا مگر شاید وہ بھی میرے دن بھر گھر میں اکیلے رہ رہ کر خاموشی کی اُلجھن کو سممجھ چُکا تھا لہذا میری ہر بات کو مُسکراتے ہوئے پُوری توجہ سے ایسے سُنتا جیسے کہ اس سے ضروری تو اور کوئی بات ہو گی ہی نہیں۔
اور پھر ایکدن جب میرے سُسر کام پر سے واپس آئے تو اُنکے پیچھے پیچھے بُھوری چلی آرہی تھی "اس کا نام
مُجھے بعد میں میرے سُسرنے ہی بتایا"
شام میں جب ماجد کوپتا چلا کہ تواُنھوں نے کافی ناک بھُوں چڑھائی شاید اُن کومیرے سُسر کا بُھوری کو یُوں گھر میں رکھ لینے کا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا حالانکہ
شروع شروع کے نجانے کتنے دنوں تک مُجھےخُود کو اس نئی بِن بُلائی مہمان سے اُلجھن آتی رہی مگر پھر آہستہ آہستہ میں بُھوری کی عادی ہُوتی چلی گئی۔ گو کہ بُھوری بُول نہیں سکتی تھی مگر مُجھے اس بات کا اطمینان کہ وہ کم از کم میری باتیں سُن تو سکتی تھی۔
اور اب مُجھے اپنے دن بھر کی روداد سُنانے کو ماجد کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ میں اپنے گھر کے کام نمپٹاتی جاتی اور اس کے ساتھ ساتھ میری زُبان بھی مُسلسل چلتی رہتی اور بُھوری بھی نہایت فرمانبرداری سے سر جُھکائے میری سب باتیں ایسے سُنتی جیسے شام میں گھرواپسی پر ماجد کوسُننا پڑتی تھی اور شاید اب اسی وجہ سےماجد کارویہ بھی بُھوری کے ساتھ بہتر ہوگیا تھا اور کبھی کبھی تومیں ماجد کی آنکھوں میں احساس تشُکر کےرنگ دیکھائی دیتے تھے جیسے وہ بُھوری کا شُکر گُذار ہو کہ جس کی وجہ سے اُسے اب میری بے سُروپا باتوں سے نجات مل چُکی تھی۔
کے آنے کے سبب اس گھر میں تعلقات کی جو تکونیت ختم ہوئی تھی وہ ایکدن واپس اپنی جگہ پر آگئی جب میرے سُسر کا انتقال ہوا۔ اُن کےبڑھاپے کا وقت توتھاہی اور کوئی نہ کوئی بیماری بھی اُنھیں گھیرے ہی رکھتی تھی مگر اک بات تھی میرے سُسر نے کبھی اپنی بیماری کو وجہ بنا کر نہ کبھی مُجھے نہ ماجد کوبلاوجہ پریشان نہیں کیاتھا اُن کا تو دم بھی نجانے رات کے کس پہر نکل گیا مُجھے اور ماجد کو تو صُبح اُس وقت پتا چلا جب میں اُن کوناشتے کے لئیے اُٹھانے گئی تھی۔
آہستہ آہستہ زندگی اپنے معُمول پر آگئی اب گھر میں پھر سے تین کی گنتی شُمار ہونے لگی تھی میں، ماجد اور بُھوری!
میرے سُسر کے انتقال کے ٹھیک چارماہ بعد ہی ایک قیامت اورٹوٹی جس نے میرا گھر، میری سبھی خُوشیوں کوتہہ خاک کردیا۔ اُس دن دوپہر سے ہی شہر کے حالات بُہت زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ رہ رہ کر میرا دل بیٹھا جارہا تھا پتا نہیں کیسے کیسے وسوسے اور پریشان کُن سوجوں سے میرا دل بیھٹا جارہا تھا۔ میں اور بھُوری دُونوں ہی نجانے کتنی بار دروازے پر جاکر جا کر گلی کا جائزہ لے چُکے تھے، ماجد کی واپسی کے معُمول کے حساب سے تو دو گھنٹے مزید اُوپر ہُوچکے تھے لیکن اُس کا دُور دُور تک پتا نہیں تھا۔
اور دن بھر سے جو سُوچیں مُجھے ڈرا رہی تھیں وہ اُس وقت اپنی تمام تربَدصورتی کے ساتھ سامنے آگئیں جب ایک ایمبولنس میں ماجد کی لاش آئی جانے گولی کس کی بنُدوق سے نکلی تھی اورکیوں چلائی گئی تھی مُجھے صرف اتنا پتا تھا کہ اُس ایک گولی نے میری پوری
زندگی کو بربادکرگئی تھی
وقت کتنا بھی کٹھن ہوآخرکار گُذرہی جاتا ہے بڑے سے بڑا دُکھ اور گھاؤ کو بھرتا ہوا یہ اپنی رفتار برقرار رکھتا ہے۔آہستہ آہستہ زندگی پھر ایک بار اپنے معُمول پر آگئی تھی اور میں جو کبھی تنہا گھر سے باہر نہیں نکلی تھی اب ماجد کے انتقال کے بعد اک بنگلے پر جاکرمُجھے کام کرنا پڑرہا تھا۔
اس گھر کی تکونیت ماجد کے بعد بھی ویسے ہی قائم تھی اب گھر میں میں،بُھوری اورمیری تنہائی تھی۔
جتنا وقت میں کام پر رہتی میری جان بھُوری میں اٹکی رہتی تھی ماجد کے انتقال کے بعد تو ویسے بھی میں بُھوری کے بہُت قریب آگئی تھی اب لے دے کر اک وہی تو میرا سہارا رہ گئی تھی جس کے ساتھ بات کرکے میں اپنے سارے دُکھ درد بانٹ لیاکرتی تھی۔
جب تک ماجد زندہ تھا اُس کویہی شکوہ رہتا تھا کہ میں نیند کی اتنی کچی ہُوں کہ بستر پر پڑتے ہی سو جاتی ہوں اور اب کبھی مُجھ کو اُس کی یہ بات یاد آتی تو اک ٹیس سی اُٹھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ماجد کے انتقال کے بعد میں نیند کی اتنی کچی ہوگئی تھی کہ اک ہلکی سی آہٹ سے بھی میری نیند ٹوٹ جاتی تھی
اس کی وجہ صرف مردوں کا وہ رویہ اور آنکھوں کی وہ چمک تھی جو ماجد کے انتقال کے بعد اُن کی آنکھوں میں سماگئی تھی۔ سُورج ڈھلتے ہی نجانے کتنی نگاہوں کے چاند چڑہھ کر میرے آنگن میں اُترنے کی کوشش کرتے
اورزندگی میں پہلی بار مُجھے اس چیز کا ادراک ہوا کہ شب خون مارنے والے بھڑیوں کو دروازوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کُھلے ہیں یا بند کسی کی متاع کو چُوری کرنے کے لئیے یہ ہمیشہ چُور دروازے ڈھُونڈ ہی لیتے ہیں
یا پھر شاید وہ نظریہ بھُوک سے بہُت اچھی طرح آگاہ تھے اوراُن کو معلوم تھا کہ اس گھر میں اک عرصے سے بُھوکی عُورت رہ رہی ہے جب کبھی میں بازار یا راستے سے گُذرتی توطرح طرح کے کھانوں کی
خوشبوؤں میں بسے ہوئے فقرے سُننے کوملتے۔ کہ کبھی تو اس کی بُھوک چَمکے گی!
اور کبھی کبھی تو واقعی مُجھے بھی یہ لگتا تھا کہ ماجد کی مُوت کے بعد اپنی بُھوک پر میں جو صبرکا پھتر رکھ چُکی تھی اک روز سرک کر گر نہ جائے
اورپھر اپنی ان سُوچوں پر لعنت بھیج کر اپنےاُس صبر کے پھتر کو اور مظبوطی سے کس لیتی تھی۔
ماجد کے انتقال کے بعد مُجھے عجیب عجیب ڈراؤنے سے خُواب آنے لگے تھے اور ایک خُواب تو کُچھ دِنوں کے وقفے سے لازمی ہی نظر آتاتھا۔
میں دیکھتی کہ اک عجب سی ویران جگہ سے گُذررہی ہوں پتا نہیں کدھر سے ایک کتُوں کا غول نکل آتا ہے لال لال شعلہ بارآنکھیں۔ مُنہ سے رال بہتی ہوئی آہستہ آہستہ میری طرف بڑھتے ہیں۔ میں گھبرا کر بھاگتی ہوں تو وہ بھی میرے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں آخر اک اک کرکے سارے کُتے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں مگر ایک جس نے ابھی تک میری دُوڑ سے ہار نہیں مانی تھی مُسلسل میرے پیچھے بھاگتا چلا آتا ہے۔ اچانک میں اُس ویران سی جگہ نکل کر ایک بازار میں آجاتی ہوں جہاں نجانےکتنے لُوگ جمع ہیں۔ وہ کُتا اب بھی مُسلسل میرے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا اور شاید ایک لُوگوں کے ہاتھ اک نیاتماشہ آگیا تھا۔ کوئی مُجھے بچانے کے بجائے میری اور اُس کُتے کے بیچ دُوڑ کو یہ سُوچ کر دیکھ رہے ہوتے کے بس میں اب میں ہار مانوں گی اور اُن کو بیچ سڑک پر ایک دلفریب تماشہ دیکھنے کومل جائے گا!
میری پیرمُسلسل بھاگنے سے اب جواب دے رہے ہیں میں اُس سے بجچنے کو ابھی رفتار تیز ہیں کرتی ہوں کہ سامنے سے آتے ٹِرک پر میری نگاہ ہی نہیں پڑتی۔ وہ تیز رفتاری سے مُجھے کُچلتا ہوا گُذر جاتا ہے۔ میں ادھ مری حالت میں سڑک کے کنارے پڑی ہوں اور وہ لُوگ جو پہلے بازار میں بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے میرے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں نہ افسوس تھا نہ کوئی دُکھ کا رنگ بلکہ مُجھے تو لگ رہا
ہر شخص جیسے میری حالت پر ہنس رہا ہو۔ تبھی مجمعے میں سے ایک شخص کی آواز اُبھری جو شاید ابھی آیا تھا اور اس کھیل کو دیکھنے سے محروم رہ گیا تھا۔ "کیا ہوا" اس پر دُوسرے شخص نے جواب دیا "کُچھ نہیں یار اس کے پیچھے کُتا لگا ہوا تھا اُس سے بچنے کے چکر میں ٹِرک کے نیچھے آگئ۔ اس پر پہلا آدمی شُوخی بھرے لہجے میں بولا"لو بھائی ٹرک کے نیچے آنے سے تو اچھا تھا کُتے کے نیچے آجاتی اورپھر وہ ایکدوسرے کو ہاتھ مار کر ہنسنے لگتے ہیں! اُس شخص کے جملے میں اتنی تضحیک وحقارت تھی کہ میری رہی سہی سانس بھی ٹوٹ جاتی ہے اور پھر میں دم توڑدیتی ہوں۔
جب کبھی یہ خُواب آتا خُوف وگبھراہٹ سے میری آنکھ کھُل جاتی تھی۔
کُچھ دِنوں سے میں مِحسوس کررہی تھی کہ بھُوری کے معمولات میں تبدیلی آتی جارہی تھی۔ میں نے جب سے کام پر جانا شروع کیا تھا میری عادت ہوگئی تھی کہ شام کو گھر واپس آنے پر میں تُھوڑی دیر کے لیئے باہر جانے کی اجازت دے دیتی تھی کہ دن بھر گھر میں رہ رہ کر وہ بھی اُکتا جاتی ہوگی۔ اور اب تو یہ لگتا تھا کہ جیسے وہ بھی میری واپسی کی راہ دیکھتی ہو کہ کب میں واپس آؤں اوروہ باہر نکلے
اور اب بُھوری کا باہر جاکر گھر واپس آنے کا وقفہ بتدریج بڑھتا جارہا تھا پتا نہیں کہاں کہاں بھٹکتی پھرتی تھی اور اُس کے دیر سے واپس آنے پر کبھی میں سرزش یا کُچھ بُولتی تو وہ بنا کوئی اظہار کئیے بڑی عجیب سی نظروں سے مُجھے گھُورتی ہوئی ایک کونے میں جاکر بیٹھ جاتی۔ اُس کی نظروں میں میرے لئیے اک عجب سا تمسخر جھلکنے لگا تھا جیسے کہہ رہی ہوکہ خُود تو اس گھر میں رہ کر بُھوکی مر رہی ہو اور اگر میں باہر جاکر اپنا پیٹ بھر آتی ہوں تو تُم سے میری یہ خُوشی برداشت نہیں ہوتی!
مگر پھر پتا نہیں کیوں بھُوری کے باہر جانے کے معمُول میں خوُد ہی فرق آگیا اب اگر جاتی بھی تو تھوڑی دیر میں ہی واپس آجاتی میں محسوس کررہی تھی کہ دن بہ دن اُس کی طیبعت میں اُکتاہٹ آتی جارہی تھی۔ اب اگر میں کام کرتے ہوئے حسب عادت اُس سے باتیں کررہی ہوتی تو مُجھے صاف محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ میری باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی نجانے میری کتنی باتوں کو سُن ان سُنی کرجاتی یا میں بُول رہی ہوتی اور وہ دُوسری جانب مُنہ کر کے بیٹھ جاتی جیسے کہہ رہی ہو خُدا کے لئیے چُب ہوجاؤ مُجھے تمہاری یہ فضول باتیں سُننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
اور پھر ایکدن مُجھ پر یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ بُھوری کہ اس روئیے اور اُکتاہٹ کی وجہ کیا تھی۔ شاید کسی دن وہ اپنی بُھوک کے ہاتھوں مُجبورہوئی ہوگی اور اُس نے باہر اتنا کھالیا جو اب اُس کے بڑھتے ہوئے پیٹ کی صُورت میں نمُودار ہونا شِِِِِروع ہوگیاتھا!
اور اسی کے بعد ہی میرے اور بُھوری کے تعلق میں اک تناؤ کی سی فضاء قائم ہوگئی پتا نہیں اُس کی یہ حالت دیکھ کر مُجھے حقیقت میں غصہ آتا تھا یا یہ کسی اور جلن کے سبب تھا۔ اب میں نے بُھوری سے بات کرنا بُہت ہی کم کردیا تھا۔
آخرکار وقت کے ساتھ ساتھ میرے غصے اور جنجھلاہٹ میں خوُد بہ خود کمی آنے لگی یا شاید میں یہ بات سمجھ چُکی تھی کہ ضروری نہیں اس سب میں غلطی بھُوری کی رہی ہو۔ ہوُسکتاہے وہ تو اپنے بچاؤ کی خاطر بھاگ رہی ہو مگر شاید کوئی ٹرک عین وقت پر نہ پُہنچ سکا ہوگا اور وہ کسی کے ہتھے چڑھ گئی ہوگی ورنہ آج شاید کہانی مُختیلف ہوتی اور جب میں سُوچتی کہ اگر واقعی کوئی ٹرک آجاتا اور بُھوری کو کُچھ ہوجاتااس خیال کے ساتھ ہی مُجھے ایک جُھر جھری سی آجاتی تھی میں اب کسی بھی حال میں بھُوری کو کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی
یہ اُس رُوز کی بات ہے جہاں میں کام کرتی تھی اُن لوُگوں کو کسی تقریب میں جانا تھا تو میں اپنے رُوز کے معمول سے کہیں پہلے گھر واپس آگئی تھی۔ میں باورچی خانے میں بیٹھی رات کے کھانے کے لئیے تیاری کر رہی تھی۔بھُوری بھی باہر نکلی ہوئی تھی کہ اچانک باہر کسی گاڑی کے انتہائی زُور سے بریک لگانے کی آواز آئی بڑی سڑک میرے گھر سے کُچھ فرلانگ ہی تھی لہذا باہر سے آتی ہوئی آوازوں کو میں باآسانی سُن سکتی تھی۔ اچانک مُجھے دھیان آیا کہ بھُوری گھر میں نہیں ہے اوراس خیال کا آنا تھا کہ مُجھے گھبراہٹ شروع ہوگئی میں نے جلدی سے آنگن میں پڑی چارپائی سے اپنی چاڈر اُٹھائی اوربُھوری کو دیکھنے کے لئیے باہر نکل آئی گھبراہٹ میں مُجھے باہر کی کُنڈی لگانے کا بھی دھیان نہیں رہا۔
باہر نکلتے ہی میری نظرسب سے پہلے سڑک پر ہی گئی جہاں اب ایک مجمع لگ چُکا تھا۔ پتا نہیں کیوں میرا دل بیٹھا جارہا تھا اور میرے ذہن میں بس اک یہ خیال آرہا تھا کہ آج شاید بُھوری کام آگئی ہے۔
میں جیسے جیسے ممجعے کے قریب ہورہی تھی میرے پیروں کی سکت ختم ہوتی جارہی تھی ایسا لگتا تھا میرے پاؤں من من بھاری ہوگئے ہوں جو اُٹھ ہی نہیں پارہے تھے
اور جیسے ہی میں مجمعے کہ قریب پُہچی وہاں سے اُٹھتی ہوئی آوازیں اور جًملے میرے شک کو یقین میں بدل رہے تھے اب میری مجمعے میں داخل ہونے کی ہمت نہیں رہی تھی
اچانک ممجعے میں سے ایک لڑکے کی شرارت بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی
لو بھائی آج تو کہاوت ہی اُلٹی ہوگئی آج کُتیا کے بجائے کُتا ٹرک کے نیچے آگیاہے!
یہ جمُلہ میرے کان میں کیا مُجھے لگا میرے قِدموں میں کسی نے بجلی بھردی ہو۔
میں مجمعے کوچیرتی ہوئی جیسے ہی لوُگوں کے بیچ میں پُہنچی تو میری نظربیچ سڑک پہ کُچلے ہوئے کُتے پر پڑی اور ذرا پاس ہی بھُوری کھڑی ہانپ رہی تھی!
مگر اُس کی آنکھوں میں فتح کی چمک کو واضح طُور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ مجمعے سے ایک شخص نے دُوسرے آدمی سے پُوچھا "ارے بھائی تمہارا پان کا کیبن تو بالکل ہی سامنے ہے ہوا کیا تھا؟
اس پر دوسرے شخص نے بھُوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بس بھائی یہ اس کُتیا کے پیچھے اندھا دُھند بھاگا چلا آرہا تھا کہ رُوڈ کے کنارے پُہنچتے ہی کُتیا واپس دُوسری جانب کو مڑ گئی اورشاید کُتے کو اس بات کی توقع نہیں رہی تھی کے سیدھی سمت میں بھاگتی ہوئی یہ کُتیا ایسی بھی کوئی حرکت کرے گی تو بس جیسے ہی کُتیا مُڑ کر دُوسری جانب ہوئی کُتا فُوراَ نہیں رُک سکا اور سامنے سے آتے ہوئے ٹرک کے ینچے آگیا!
جیسے جیسے یہ تفصیل بتاتے ہوئے شخص کی آواز میرے کانوں میں پڑ رہی تھی میرے اندر تک اک عجب سَکون و اطیمنان اُترتا جارہا تھا!
میں نے مُسکرا کر بُھوری کی طرف دیکھا اور اُسے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا وہ بڑی فاتحانہ انداز میں چلتی ہوئی میرے ہمراہ ہولی۔
اب میں اور بُھوری دُونوں گھرکی جانب چل رہے تھے اور آج میں جب سڑک عبور کررہی تھی تو پتا نہیں آج پہلی بار میں نے نظروں کی وہ تپش اور چُبھن محسوس نہیں کی جو یہاں سے گُذرتے ہوئے مُجھے ہمیشہ محسوس ہوتی تھی۔
نظریں توخیر ابھی بھی اُٹھی ہوئی تھیں اور وہ مُسلسل گھور بھی رہی تھیں مگر اب خُوفزدہ، بدحواس نظریں میرے جسم پر نہیں بلکہ دُور سے آتے ہوئے تیز رفتار ٹرک پر لگی ہوئی تھیں!!
ندیم جاوید عُثمانی