کوئی مُشکل ہو نکل جاتا ہوں آسانی سے۔عارف امام

کوئی مُشکل ہو نکل جاتا ہوں آسانی سے
مَیں ہوں آسودہ زرِ شُکر کی ارزانی سے

آئینہ عکس مرا جزب تو کرتا ہے مگر
ٹُوٹ جاتا ہے تحیر کی فراوانی سے

رقص کرتے میں جو تلووں سے لہو بہتا ہے
کل مصلے پہ بہا تھا مری پیشانی سے

مَیں بگولے کی طرح کرتا رہا اپنا طواف
فائدہ کُچھ تو ہوا دشت کی ویرانی سے

مُجھ کو ہرگز نہیں ملبوسِ دریدہ کا خیال
شرم آتی ہے فقط زخم کی عُریانی سے

عجز و عرفان و یقیں،مستی و جزب و حیرت
سب یہ سامان مِلا بے سروسامانی سے

آتشِ خامہ سے کاغذ نہ سُلگنے لگ جائے
خوف آتا ہے ترے طرزِ سُخن دانی سے

اس لئے پیتا ہے ٹھکرایا ہوا پانی فقیر
آنکھ میں خُون اُترتا ہے اسی پانی سے

ریگِ مقتل پہ عجب تھا وُہ مرا سجدہءِ عشق
چشمِ خنجر نے بھی دیکھا مُجھے حیرانی سے

اب مرا سائیں مرا ہاتھ پکڑ کر لے جائے
تھک گیا ہوں مَیں خُود اپنی ہی نگہبانی سے

حملہ آورہے پھر آسیبِ تکبر مولا
دُور رکھیو مُجھے اس غولِ بیابانی سے

جس کے در پر ھمہ دم رزقِ یقیں بٹتا ھے
بھیک مانگی ھے اسی مردِ خُراسانی سے
عارف امام
 
Top