کن آندھیوں نے زور دکھایا تھا رات بھر ؟ -- ایک غزل احباب کی نظر

احباب کی خدمت میں ایک غزل پیش ہے ... بحر مضارع ہے ..
ہلکے پھلکے مضامین کو باندھنے کی ایک کوشش ہے ... آپ سب کی آراء ، مشوروں اور تجاویز کا منتظر رہونگا ...
-------------------------------------------
یہ کیسی تیرگی ہے کہ خوابوں میں بھی مجھے
عرصے سے تیری شکل و شباہت نہیں ملی

کن آندھیوں نے زور دکھایا تھا رات بھر ؟
کیوں صبح مجھ کو دل کی عمارت نہیں ملی ؟

جب وہ جدا ہوا تو بہت دیر تک مجھے
خود کو سمیٹنے کی بھی فرصت نہیں ملی

دل زخم زخم ہے مرا، اِس پر بھی چارہ گر
لب پر، صدائے حرفِ شکایت نہیں ملی

کل ایسے رُخ دکھائے ہواؤں نے باغ میں
شاخوں پہ حسنِ گل کی عبارت نہیں ملی

اقرار کے مقام پہ آیا وہ جس گھڑی
لب کو یقینِ دل کی شہادت نہیں ملی

سو سو وضاحتوں پہ بھی ابہام ہی رہا
اُس کے بیان میں مجھے لکنت نہیں ملی !

کاشف میاں یہ دنیا ہے اس کا ملال کیا
اچّھا ہوا، نفس کو کفالت نہیں ملی!

سید کاشف
---------------------------------------------
شکریہ
 
غزل کی پسندیدگی کے لیئے شکر گزار ہوں۔
بھائی مطلع کیا ہے لیکن میں اس سے مطمئن نہیں تھا۔ سو اس کے بغیر ہی شیر و شکر کر لی ہے۔ اگر درست کر پایا تو ضرور شامل کرونگا۔ انشا اللہ۔
 
Top