کلیاتِ شیفتہ

نوید صادق

محفلین
خواہاں ہوں بوئے باغِ تنزہ شمیم کا
یا رب ادھر بھی بھیج دے جھونکا نسیم کا

تیرے گدا کو سلطنتِ جم سے کیا، کہ ذوق
ہے کاسہء شکستہ میں جامِ دو نیم کا

نیرنگِ جلوہ، بارقہء ہوش سوز ہے
کیا امتیاز رنگ سے کیجے شمیم کا

تیری نسیم لطف سے گل کو شگفتگی
وابستہ تیرے حکم پہ چلنا نسیم کا

واجب کی حکمت آئے گی ممکن کی عقل میں؟
کتنا دماغ ہے خلل آگیں حکیم کا

دقت سے پہلے عجز سلامت کی راہ ہے
کیسا سپاس دار ہوں عقلِ سلیم کا

میری فنا ہے مشعلہء محفلِ بقا
پروانہ ہوں میں پرتوِ شمعِ قدیم کا

گر تیرے شوق میں ہیں یہی بے قراریاں
لے لوں گا بوسہ پایہء عرشِ عظیم کا

طاعت اگر نہیں تو نہ ہو یاس کس لئے
وابستہء سبب ہے کرم کب کریم کا

جس وقت تیرے لطف کے دریا کو جوش آئے
فوارہء جناں ہو زبانہ جحیم کا

اے شیفتہ عذابِ جہنم سے کیا مجھے
میں اُمتی ہوں نار و جناں کے قسیم کا
 

نوید صادق

محفلین
یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا

پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
پیمانہ دے کے بادہء عنبر شمیم کا

کیا ڈھونڈتی ہے قوم، کہ آنکھوں میں قوم کی
خلدِ بریں ہے طبقہء اسفل جحیم کا

اس شوخِ کج ادا سے نہ آئی موافقت
کیونکر گلہ نہ ہو مجھے طبعِ سلیم کا

شکوے یہ اب جو ہوتے ہیں باہم، نئے نہیں
انداز ہم میں، اُن میں یہی ہے قدیم کا

اس وقت ہم گنے گئے احبابِ خاص میں
آیا جو تذکرہ کبھی لطفِ عمیم کا

بدمستیاں کبھی، کبھی مستوری و عفاف
دستور ہے طبیعتِ نا مستقیم کا

اُس رشکِ گُل کو بسترِ گل سے ہے احتراز
ممنون ہوں عدو کے مزاجِ سقیم کا

اے جانِ بے قرار ذرا صبر چاہیے
بے شک ادھر بھی آئے گا جھونکا نسیم کا

جس کی سرشت صاف نہ ہو آدمی نہیں
نیرنگ و عشوہ کام ہے دیوِ رجیم کا

اب جستجو ہے ان کو ہماری تو کیا حصول
باقی نہیں اثر بھی عظامِ رمیم کا

عاشق بھی ہم ہوئے تو عجب شخص کے ہوئے
جو ایک دم میں خون کرے سو ندیم کا

ہم نے کئے قواعدِ وحشت جو منضبط
اہلِ جنوں میں ہم کو لقب ہے حکیم کا

ہے کارنامہ جب سے بیاض اپنی شیفتہ
تقویمِ سالِ رفتہ ہے دیواں کلیم کا
 

نوید صادق

محفلین
جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا

شیشہ اتار، شکوے کو بالائے طاق رکھ
کیا اعتبار زندگئ بے ثبات کا

لڑتے ہو جب رقیب سے کرتے ہو مجھ سے صلح
مشتاق یاں نہیں کوئی اس التفات کا

گر تیرے تشنہ کام کو دے خضر مرتے دم
پانی ہو خشک چشمہء آبِ حیات کا

یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا
ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا

کہتے ہیں جان، جانتے ہیں بے وفا مجھے
کیا اعتبار ہے انہیں دشمن کی بات کا

واعظ جنوں زدوں سے نہیں باز پرسِ حشر
بس آپ فکر کیجئے اپنی نجات کا

جوشِ سرشکِ خوں کے سبب سے دمِ رقم
نامہ نہیں رہا یہ ورق ہے برات کا

اے مرگ آ ، کہ میری بھی رہ جائے آبرو
رکھا ہے اس نے سوگ عدو کی وفات کا

ایسے کے آگے شیفتہ کیا چل سکے جہاں
احسان ایک عمر رہے، ایک رات کا
 

نوید صادق

محفلین
کیا فائدہ نصیحتِ نا سود مند کا
کیا خوب پند گو بھی ہے محتاج پند کا

جب میں نہیں پسند تو پھر اور آ چکے
عاشق ہوں اس کی خاطرِ مشکل پسند کا

اے بادِ صبح تا بہ کجا اھتزازِ گل
گوشہ الٹ دے یار کے منہ سے پرند کا

اُس ماہ وش کو غیرِ سیہ رو سے کام کیا
ہے فیض اپنے اخترِ بختِ نژند کا

اس کوچے میں ہے عزتِ خسرو گدا سے کم
کیوں ناز مستمند سہے ارجمند کا

نالہ تو نارسا نہیں کیوں کر گلہ کروں
میں شکوہ سنج ہوں ترے کاخِ بلند کا

دیوان کو ہمارے، بتوں کی نگاہ میں
اے شیفتہ وہ رتبہ ہے جو بید و ژند کا
 

نوید صادق

محفلین
کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ ساز کا
ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا

لگتی نہیں پلک سے پلک جو تمام شب
ہے ایک شعبدہ مژہء نیم باز کا

دشمن پئے صبوح جگاتے ہیں یار کو
یہ وقت ہے نسیمِ سحر اھتزاز کا

ایمن ہیں اہلِ جذبہ کہ رہبر ہے ان کے ساتھ
سالک کو ہے خیال نشیب و فراز کا

پھنسنے کے بعد بھی ہے وہی دل شگفتگی
کیا خوب جال ہے نگہِ جاں نواز کا

تقویٰ مرا شعار ہے ، عصمت سرشتِ دوست
پھر مجھ سے کون سا ہے سبب احتراز کا

بارے عجیب بات تو پھیلی جہان میں
پایا کسی نے گو ثمر افشائے راز کا

ساقی کے ہیں اگر یہی الطاف، کیا عجب
ارض و سما میں ہوش نہ ہو امتیاز کا

پیرِ مغاں نے رات کو وہ کچھ دکھا دیا
ہرگز رہا نہ دھیان بھی حسنِ مجاز کا

دیتا ہے داغِ رشک پرندِ سپہر کو
جلوہ تمہاری معجزِ گوہر طراز کا

پانی وضو کو لاؤ، رخِ شمع زرد ہے
مینا اٹھاؤ وقت اب آیا نماز کا

یکتا کسی کو ہم نے نہ دیکھا جہان میں
طولِ امل جواب ہے زلفِ دراز کا

جورِ اجل کو شوخئ بے جا کہا کیا
تھا مست شیفتہ جو کسی مستِ ناز کا
 

نوید صادق

محفلین
نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
نہ شوقِ شعرِ تر و بذلہ ہائے رنگیں کا

شمیمِ زلف یہی ہے تو وحشتِ دل نے
کب انتظار کیا موسمِ ریاحیں کا

بناتِ نعش نے کس واسطے بٹھا رکھیں
نہیں ستارہ گہر خاندانِ پرویں کا

ازل کو دیکھتے ہی ہم سخن کو سمجھے تھے
کہ مشتری نہیں اس گوہرِ نو آئیں کا

نما نما ہے نہایت خلافِ شیوہء عشق
غلط ہے شوق ہمیں گریہ ہائے رنگیں کا

وہ طرفہ حال کہ جس سے جماد رقص کرے
نہ رنگ بھی متغیر ہو اہلِ تمکیں کا

ہزار مرتبہ فرہاد جانِ شیریں دے
وہی ہے حقِ نمک عشوہ ہائے شیریں کا

عجیب حال میں ہے شیفتہ معاف کرو
جو کچھ قصور بھی ہو اس غلامِ دیریں کا
 

نوید صادق

محفلین
ہائے اس برقِ جہاں سوز پر آنا دل کا
سمجھے جو گرمئ ہنگامہ جلانا دل کا

ہے ترا سلسلہء زلف بھی کتنا دل بند
پھنسنے سے پہلے بھی مشکل تھا چھٹانا دل کا

دیکھتے ہم بھی کہ آرام سے سوتے کیوں کر
نہ سنا تم نے کبھی ہائے فسانہ دل کا

ہم سے پوچھیں کہ اسی کھیل میں کھوئی ہے عمر
کھیل جو لوگ سمجھتے ہیں لگانا دل کا

عاقبت چاہِ ذقن میں خبر اس کی پائی
مدتوں سے نہیں لگتا تھا ٹھکانا دل کا

کس طرح دردِ محبت میں جتاؤں اس کو
بھید لڑکوں سے نہیں کہتے ہیں دانا دل کا

ہم یہ سمجھے تھے کہ آرام سے تم رکھو گے
لائیے تم کو ہے منظور ستانا دل کا

ہم بھی کیا سادے ہیں کیا کیا ہے توقع اس سے
آج تک جس نے ذرا حال نہ جانا دل کا

جلوہ گاہِ غم و شادی، دل و شادی کم یاب
کیوں نہ ہو شکوہ سرا ایک زمانہ دل کا

شکل مانندِ پری اور یہ افسونِ وفا
آدمی کا نہیں مقدور بچانا دل کا

شیفتہ ضبط کرو ایسی ہے کیا بے تابی
جو کوئی ہو تمہیں احوال سنانا دل کا
 

نوید صادق

محفلین
ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
گیرا مگر نہیں ہے نفس عندلیب کا

اب وہ ہے جلوہ ریز لباسِ سپاس میں
جو عہدِ کودکی میں گلہ تھا ادیب کا

اچھا جو اس کو سونگھے تو آ جائے اس کو غش
اچھا اثر ہے زلفِ معنبر کی طیب کا

تیری گلی سے آگے نہ ہرگز ہوا چلے
کوچے سے تیرے پاؤں نہ اٹھے غریب کا

مصروف ہے بہت وہ ہمارے علاج میں
ہم بھی ذرا علاج کریں گے طبیب کا

تسلیم سے وفاق، رضا سے ہے اتفاق
نے چرخ کا گلہ، نہ گلہ ہے نصیب کا

ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا

ہو جائے کاسہ لیس شگرفانِ میکدہ
جس کو کہ اشتیاق ہے حالِ عجیب کا

سنتے ہی نام دشمنِ صد سالہ ہو گیا
پوچھا جو مجھ سے نام کسی نے حبیب کا

اس رشکِ گل نے لی ہے جو بلبل تو شیفتہ
دیکھے چمن میں شور کوئی عندلیب کا
 

نوید صادق

محفلین
محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا

حال لکھتا ہوں جانِ مضطر کا
رگِ بسمل ہے تار مسطر کا

آنکھ پھرنے سے تیری، مجھ کو ہوا
گردشِ دہر دور ساغر کا

شعلہ رو یار، شعلہ رنگ شراب
کام یاں کیا ہے دامنِ تر کا

شوق کو آج بے قراری ہے
اور وعدہ ہے روزِ محشر کا

نقشِ تسخیرِ غیر کو اس نے
خوں لیا تو مرے کبوتر کا

میری ناکامی سے فلک کو حصول؟
کام ہے یہ اُسی ستم گر کا

اُس نے عاشق لکھا عدو کو لقب
ہائے لکھا مرے مقدر کا

آپ سے لحظہ لحظہ جاتے ہو
شیفتہ ہے خیال کس گھر کا
 

نوید صادق

محفلین
سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا

تھا کیا ہجوم بہرِ زیارت ہزار کا
گل ہو گیا چراغ ہمارے مزار کا

جور و جفا بھی غیر پر اے یارِ دل شکن
کچھ بھی خیال ہے دلِ امیدوار کا

کھلنے لگے ہیں از سرِ نو غنچہائے زخم
یہ فیض ہے صبا کے دمِ مشک بار کا

گر چاہتے ہو جامہ نہ ہو چاک ناصحو
منگوا دو پیرہن مجھے اس گل عذار کا

ہر کوچہ میں کھلی ہے جو دکانِ مے فروش
کیا فصل ہے شراب کی، موسم بہار کا؟

گھبرا کے اور غیر کے پہلو سے لگ گئے
دیکھا اثر یہ نالہء بے اختیار کا

وہ آتے آتے غیر کے کہنے سے تھم گئے
اب کیا کروں علاج دلِ بے قرار کا

آزاد ہے عذابِ دو عالم سے شیفتہ
جو ہے اسیر سلسلہء تاب دار کا!
 

نوید صادق

محفلین
اُس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا

بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جاتا تھا ہمارے بھی گھر آیا

کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لختِ جگر آیا

گو کچھ نہ کہا، پر ہوئے دل میں متاثر
شکوہ جو زباں پر مری آشفتہ تر آیا

بے طاقتئ شوق سے میں اٹھ ہی چکا تھا
ناگاہ وہ بے تاب مری قبر پر آیا

بے قدر ہے مفلس شجرِ خشک کی مانند
یاں درہم و دینار میں برگ و ثمر آیا

حالِ دلِ صد چاک پہ کٹتا ہے کلیجہ
ہر پارہ اک الماس کا ٹکڑا نظر آیا

دیکھے کہ جدائی میں ہے کیا حال، وہ بدظن
اس واسطے شب گھر میں مرے بے خبر آیا

کیا دیر ہے اے ساقئ گلفام سحر ہے
کیا عذر ہے اے زاہدِ خشک، ابرِ تر آیا

احوال میں ہیں شیفتہ کی مختلف اقوال
پوچھیں گے، وہاں سے جو کوئی معتبر آیا
 

نوید صادق

محفلین
جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا

کب ہمیں حاجتِ پرہیز پڑی
غم نہ کھایا تھا کہ سم یاد آیا

نہ لکھا خط کہ خطِ پیشانی
مجھ کو ہنگامِ رقم یاد آیا

شعلہء زخم سے اے صید فگن
داغِ آہوئے حرم یاد آیا

ٹھیرے کیا دل کہ تری شوخی سے
اضطرابِ پئے ہم یاد آیا

خوبئ بخت کہ پیمانِ عدو
اس کو ہنگامِ قسم یاد آیا

کھل گئی غیر سے الفت اس کی
جام مے سے مجھے جم یاد آیا

وہ مرا دل ہے کہ خود بینوں کو
دیکھ کر آئینہ کم یاد آیا

کس لئے لطف کی باتیں ہیں پھر
کیا کوئی اور ستم یاد آیا

ایسے خود رفتہ ہو اے شیفتہ کیوں
کہیں اس شوخ کا رم یاد آیا
 

نوید صادق

محفلین
قبر پر وہ بتِ گل فام آیا
بارے مرنا تو مرے کام آیا

دو قدم یاں سے وہ کوچہ ہے مگر
نامہ بر صبح گیا، شام آیا

مر گئے پر نہ گیا رنج کہ وہ
گور پر آئے تو آرام آیا

خیر باد اے ہوسِ کام کہ اب
دل میں شوقِ بتِ خود کام آیا

شمع کی طرح اٹھے ہم بھی جب
دشمنِ تیرہ سر انجام آیا

جب مری آہ فلک پر پہنچی
تب وہ مغرور سرِ بام آیا

جلد منگواؤ شرابِ گل رنگ
شیفتہ ساقئ گل فام آیا
 

نوید صادق

محفلین
اس سے میں شکوے کی جا شکرِ ستم کر آیا
کیا کروں تھا مرے دل میں سو زباں پر آیا

قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا

وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا
ہم بھی کیا خوب ہیں، سچ مچ ہمیں باور آیا

مجھ سے وہ صلح کو اس شان سے آئے گویا
جنگ کے واسطے دارا سے سکندر آیا

جذبہء شوق کی تاثیر اسے کہتے ہیں
سن کے قاصد کی خبر آپ وہ در پر آیا

خاک ہونے کا مرے ذکر نہ آیا ہو کہیں
آج اس بزم سے کچھ غیر مکدر آیا

اڑ گئے ہوش کہ پیغامِ اجل ہے یہ جواب
کوچہء یار سے زخمی جو کبوتر آیا

دلِ صد چاک میں ہے کاکلِ مشکیں کا خیال
کہ مجھے گریہ جو آیا تو معطر آیا

اے اجل نیم نگہ کی تو مجھے مہلت دے
اہلِ ماتم میں یہ چرچا ہے کہ دلبر آیا

اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا

یہ دیا ہائے مجھے لذتِ آزار نے چین
دل ہوا رنج سے خالی بھی تو جی بھر آیا

آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئے گی
شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستم گر آیا
 

نوید صادق

محفلین
رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا

کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا

میں نے کیا جانئے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
کہ بہت اس سے ستم گر کو پشیماں دیکھا

نہ ہوا یہ کہ کبھی اپنے گلے پر دیکھیں
یوں تو سو بار ترا خنجرِ براں دیکھا

اس طرف کو بھی نگہ تا سرِ مژگاں آئی
بارے کچھ کچھ اثرِ گریہء پنہاں دیکھا

پانی پانی ہوئے مرقد پہ مرے آ کے وہ جب
شمع کو نعش پہ پروانے کی، گریاں دیکھا

قطعہ

غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانبِ باغ
لے گئے کل تو عجب رنگِ گلستاں دیکھا

وَرد میں خاصیتِ اخگرِ سوزاں پائی
نسترن میں اثرِ خارِ مغیلاں دیکھا

ایک نالے میں ستم ہائے فلک سے چھوٹے
جس کو دشوار سمجھتے تھے سو آساں دیکھا

کون کہتا ہے کہ ظلمت میں کم آتا ہے نظر
جو نہ دیکھا تھا سو ہم نے شبِ ہجراں دیکھا

شیفتہ زلفِ پری رو کا پڑا سایہ کہیں
میں نے جب آپ کو دیکھا تو پریشاں دیکھا
 

نوید صادق

محفلین
جفا و جور کا اس سے گلہ کیا
جو پوچھے مہربانی کیا، وفا کیا

وہ بے پروا جوابِ نامہ لکھے
خدا جانے کہ دشمن نے لکھا کیا

دیا کیوں ہونے اس بدخو پہ عاشق
ہمارا دوست کوئی بھی نہ تھا کیا

شمیمِ گل میں بوئے پیرہن ہے
غلط ہے یہ کہ احسانِ صبا کیا

نہ لکھنا تھا غمِ ناکامئ عشق
جوابِ نامہء بے مدعا کیا

ہمیں تھا آپ قصدِ عرضِ احوال
جو وہ خود پوچھتے ہیں پوچھنا کیا

تماشا ہے جلے گر خانہء غیر
وہ کہتے ہیں کہ آہِ شعلہ زا کیا

فنائے عاشقاں عینِ بقا ہے
دیت زندوں کی کیسی، خون بہا کیا

اگر ہے بوالہوس تو قتل کر چک
عدو سے وعدہء شوق آزما کیا

قطعہ

کہا کل میں نے اے سرمایہء ناز
تلون سے ہے تم کو مدعا کیا

کبھی مجھ پر عتابِ بے سبب کیوں
کبھی بے وجہ غیروں سے وفا کیا

کبھی محفل میں وہ بے باکیاں کیوں
کبھی خلوت میں یہ شرم و حیا کیا

کبھی تمکینِ صولت آفریں کیوں
کبھی الطافِ جرات آزما کیا

کبھی وہ طعنہ ہائے جاں گزا کیوں
کبھی یہ غمزہ ہائے جاں فزا کیا

کبھی شعروں سے میرے نغمہ سازی
کبھی کہنا کہ یہ تم نے کہا کیا

کبھی بے جرم یہ آزردہ ہونا
کہ کیا طاقت جو پوچھوں میں "خطا کیا"

کبھی اس دشمنی پر بہرِ تسکیں
پئے ہم جلوہ ہائے دلربا کیا

یہ سب طول اس نے سن کر بے تکلف
جواب اک مختصر مجھ کو دیا کیا

ابھی اے شیفتہ واقف نہیں تم
کہ باتیں عشق میں ہوتی ہیں کیا کیا
 

نوید صادق

محفلین
وہ پری وش عشق کے افسوں سے مائل ہو گیا
مفت میں مشہور میں لوگوں میں عامل ہو گیا

میں نہیں فرہاد، وہ خسرو نہیں، پھر کیا سبب؟
غیر کا مائل جو وہ شیریں شمائل ہو گیا

اشک باری ہم کناری کی ہوس میں رات تھی
قلزمِ گریہ کو اس کا دھیان ساحل ہو گیا

زخم میرے خنجرِ خوں ریز تھے اغیار کو
بے وفائی سے خجل کس وقت قاتل ہو گیا

اہلِ وحشت کو مری شورش سے لازم ہے خطر
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں کے مقابل ہو گیا

رشکِ خسرو بے تصرف، نازِ شیریں بے اثر
سینہء فرہاد مثلِ بے ستوں، سِل ہو گیا

ہے خراشِ ناخنِ غم میں بھی کیا بالیدگی
جو ہلالِ غرہ تھا، سو ماہِ کامل ہو گیا

عید کے دن ذبح کرنا اور بھی اچھا ہوا
حلقہء اسلام میں وہ شوخ داخل ہو گیا

اس کے اٹھتے ہی یہ ہلچل پڑ گئی بس بزم میں
طورِ روزِ حشر سب کو طورِ محفل ہو گیا

ہوش تو دیکھو کہ سن کر میری وحشت کی خبر
چھوڑ کر دیوانہ پن کو قیس عاقل ہو گیا

ہاتھ اٹھایا اس نے قتلِ بے گنہ سے میرے بعد
طالع اغیار سے جلاد عادل ہو گیا

حسن کے اعجاز نے تیرے مٹایا کفر کو
تیرے آگے نقشِ مانی، نقشِ باطل ہو گیا

میرے مرتے دم جو رویا وہ بڑی تسخیر تھی
آبِ چشمِ یار آبِ چاہِ بابل ہو گیا

ہے عدم میں بھی تلاشِ سرمہ و مشک و نمک
شیفتہ تیغِ نگہ سے کس کی گھائل ہو گیا
 

نوید صادق

محفلین
یار کو محرومِ تماشا کیا
مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا

آپ جو ہنستے رہے شب بزم میں
جان کو دشمن کی میں رویا کیا

عرضِ تمنا سے رہا بے قرار
شب وہ مجھے، میں اسے چھیڑا کیا

سرد ہوا دل، وہ ہے غیروں سے گرم
شعلے نے الٹا مجھے ٹھنڈا کیا

مہرِ قمر کا ہے اب ان کو گمان
آہِ فلک سیر نے یہ کیا کیا

ان کو محبت ہی میں شک پڑ گیا
ڈر سے جو شکوہ نہ عدو کا کیا

دیکھئے اب کون ملے خاک میں
یار نے گردوں سے کچھ ایما کیا

حسرتِ آغوش ہے کیوں ہم کنار
غیر سے کب اس نے کنارا کیا

چشمِ عنایت سے بچی جاں مجھے
نرگسِ بیمار نے اچھا کیا

غیر ہی کو چاہیں گے اب شیفتہ
کچھ تو ہے جو یار نے ایسا کیا
 

نوید صادق

محفلین
اس جنبشِ ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا

کچھ تو ہی اثر کر، ترے قربان خموشی!
نالوں سے تو کچھ کام مرا ہو نہیں سکتا

گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلم
کچھ تم سے بجز جور و جفا ہو نہیں سکتا

کھولے گرہِ دل کو ترا ناخنِ شمشیر
یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا

سبقت ہو تجھے راہ میں اس کوچے کی مجھ پر
زنہار یہ اے راہ نما! ہو نہیں سکتا

میں نے جو کہا ہمدمِ اغیار نہ ہو جے
تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا، ہو نہیں سکتا

یہ رازِ محبت ہے نہ افسانہء بلبل
محرم ہو مری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا

کب طالعِ خفتہ نے دیا خواب میں آنے
وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا

وہ مجھ سے خفا ہے تو اسے یہ بھی ہے زیبا
پر شیفتہ میں اس سے خفا ہو نہیں سکتا
 
Top