کلام میں موسیقیت کیسے اور کیونکر لائی جاتی ہے؟

الف عین

لائبریرین
تابش میاں سے متفق ہوں
اس کے علاوہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عام طور پر حروف کا اسقاط بھی نہ کیا جائے، اجازت ہونے پر بھی۔ جو الفاظ ساقط حروف کے ساتھ ہی فصیح تر ہیں، ان کو اسی طرح استعمال کیا جائے جو، تو، کہ، نہ، کا، کی، کے، کے دوسرے حروف کے اسقاط سے ہی روانی بہتر ہوتی ہے اور بحر مترنم ہو تو اشعار کی روانی ہی ترنم کہلاتی ہے
قابل اجمیری کی اسی غزل کی تقطیع کریں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں حروف گرائے گئے ہیں؟
 

بافقیہ

محفلین
مجھے قابلؔ کی شاعری میں جو موسیقیت نظر آئی، اس کا جواب نہیں
ایک نمونۂ کلام
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے

انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آگئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاؤ ، ہم جہاں تک آگئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آگئے

قابل اجمیری
تابش بھائی! خوب ہے۔
 

بافقیہ

محفلین
واہ اچھے اشعار ہیں...
ہمیں بھی جو مزہ اساتذہ متقدمین کے کلام میں آتا ہے متاخرین میں نہیں...
مثلاً میر صاحب اور داغ بھیا!!!
عمران بھائی! بالکل۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔ اور شاید میں غلط بھی ہوں۔ کہ متقدمین کے اشعار سے لطف اٹھانے والوں کو متاخرین میں لطف کم ہی آتا ہے۔
 

بافقیہ

محفلین
عمران بھائی! بالکل۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔ اور شاید میں غلط بھی ہوں۔ کہ متقدمین کے اشعار سے لطف اٹھانے والوں کو متاخرین میں لطف کم ہی آتا ہے۔
کل ہم دو دیوانے مستانے بیٹھے تھے کہ یہ شعر زبان پر آگیا:۔

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
۔
اور کئی ایک اشعار۔۔۔
ہم اتنے اچھل رہے تھے گویا کہ قارون کی دولت ہاتھ آگئی۔ ویسے بھی اقلیم سخن سے آشنائی، گنج قارون سے کم تھوڑی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
عمران بھائی! بالکل۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔ اور شاید میں غلط بھی ہوں۔ کہ متقدمین کے اشعار سے لطف اٹھانے والوں کو متاخرین میں لطف کم ہی آتا ہے۔
غلط صحیح کی کیا بات۔۔۔
اپنا اپنا ذوق ہے۔۔۔
جو خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے۔۔۔
اس میں ہمارا کیا قصور؟؟؟
 
مجھے قابلؔ کی شاعری میں جو موسیقیت نظر آئی، اس کا جواب نہیں
ایک نمونۂ کلام
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے

انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آگئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آگئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا
تم وہاں تک آتو جاؤ ، ہم جہاں تک آگئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آگئے

قابل اجمیری

اپنا اپنا نقطہ نظر ہے مگر میرے خیال میں علاقائی اور لوک شاعری میں جو موسیقیت ہے وہ اپنی مثال آپ ہے نمونہ کلام ملاحظہ ہو

خواجہ فرید ؒ کے ہاں ایک ملتانی راگنی کی کیفیت کا یوں ہلکا سا عکس ملتا ہے:

سب صورت وچ وسدا ڈھولا ماہی
رنگ برنگے اس دے ڈیرے
آپے رانجھن آپے ہیر تے آپے کھیڑے
لک چھپ بھید نہ ڈسدا ڈھولا ماہی
آپےے ہجر تے آپے میلہ
آپے قیس تے آپے لیلٰے
 
آخری تدوین:
مزید راگ کے مطابق بھی بول لکھ جاتے ہیں

مادھو لعل حسین کی ایک کافی میں راگ آساوری کے بنیادی جذبے یا کیفیت کو دیکھیے:

اک دن تینو سپنا تھیسن بابل دالیاں گلیاں دو
اُڈ گئے بھور پھلاں تے آکے سن پتراں سن ڈالیاں دو
جت تن لاگے سوئی تن جانے ہور گلاں کرن سکھا لیاں دو
 

آصف اثر

معطل
موسیقیت کو عموما آلاتِ موسیقی کے تحت سمجھا جاتاہے، جب کہ ترنم بغیر آلات کے پیدا ہوتا ہے۔
1۔ میرے خیال میں تقریبا ہر بحر میں اپنا ایک ترنم ہوتاہے، جو ہر شخص کے لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے، جو وہبی بھی ہوسکتا ہے اور کسبی بھی۔ ترنم اگرچہ اکتساب اور کسب سے اپنی انتہا کو پہنچ سکتا ہے لیکن بعض لوگوں کو یہ کچھ زیادہ ہی ودیعت کیا گیا ہوتا ہے۔ البتہ ترنم کے لیے موسیقی کے ساز و سُر کیسے وضع کیے جاتے ہیں یہ فی الحال سمجھ سے باہر ہے۔
مثلا علامہ اقبال کی معروف غزل ”کبھی اے حقیقتِ منتظر“ کو کئی گلوکاروں نے اپنے اپنے ترنم میں پڑھا ہے، میں نے غالبا 9 مختلف طرز میں سنی ہے۔
2۔ ایسا ہونا ضروری نہیں، بلکہ غیر متوازن الفاظ کو ”لے“ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتاہے۔
3۔ علامہ صاحب کی درجہ بالا نظم اس کی نفی کرتی ہے۔
 
Top