کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

مغزل

محفلین
کیا خوب شراکت ہے بلال میاں خوب ، سلامت رہو اسلاف کو یادرکھنا تہذیب کے استمرار کی علامت ہے اللہ آپ کی اس کاوش کے نتیجے میں آپ کے ہاں برکتیں عطا فرمائے آمین۔
 
ابھی جناب مزمل شیخ بسمل نے اقبال کا شعر نقل کیا، اور پوچھا کہ اس میں غلطی کی نشان دہی کریں۔
میری طرف سے لاعلمی پر مبنی سکوت ہے۔

اسمائے عام جیسے:
گدھا، گھوڑا، بھیڑیا، تیر، وغیرہ۔ اور بعض اسمائے خاص بیجان۔ جیسے: لاہور، دہلی وغیرہ کے ساتھ علامتِ مفعول کا استعمال ضروری نہیں۔ مگر اسمائے خاص انسانی میں یہ پابندی ضروری ہے۔
مثلاً ہم کہتے ہیں: تم نے لاہور دیکھا ہے؟ مگر یہ نہیں کہتے کہ: تم نے یعقوب آسی دیکھا ہے؟
اسی طرح: میں نے حقہ چھوڑ دیا۔
مگر یوں: میں نے اپنی بیوی چھوڑ دی۔
یہاں بھی یہی مسئلہ ہے۔ "لیلی چھوڑنا" غلط ہے۔ "لیلی کو چھوڑنا" درست ہوتا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
محمد یعقوب آسی - مزمل شیخ بسمل - محمد اسامہ سَرسَری - محمد بلال اعظم و دیگر صاحبان کا نہایت شکریہ کہ انھوں نے میری دعوت پر اس گفتگو میں حصہ لے کر اسے مفید بنایا۔

ایک چھوٹی سے غلطی مجھ سے ہوئی کہ میں نے "استاد" کا لفظ استعمال کیا جبکہ میری غرض اس لفظ کے خالص کلاسیکل معنی سے نہ تھی۔ میری مراد یہاں ان آفاقی شعراء سے تھی، جو اپنے کام کی وسعت اور گہرائی کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی ادب میں "صفِ اول" کے شعراء میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ غالب، میر اور اقبال کا نام تو ایسے شعراء میں آتا ہے، لیکن فراز و قتیل کا نہیں۔ شاید مومن کا بھی نہیں۔ حتیٰ کہ "استاد" حسرت کا بھی نہیں (جس کی استادی میں کوئی کلام نہیں)۔ استادی والے معاملے پر تو سیر حاصل گفتگو ایک دوسرے دھاگے میں ہو چکی ہے۔ میں سمجھا کہ سیاق و سباق سے واضح ہو گا کہ میری "استاد" سے کیا مراد ہے، کیونکہ میں نے اپنے پیغام میں ایک انگریز شاعر کا نہ صرف نام لکھا، بلکہ کلام کا بھی حوالہ دیا (جس میں قافیہ تک شعری ضرورت کے تحت لیا گیا ہے!)۔ توضیح کے بعد اس غلطی پر معذرت۔

میں نے جب اپنا اختلافی پیغام لکھا، تو میرا ذہن ایک مخمصے سے بھی دوچار تھا۔ ایک تنقیدی مضمون پر اختلافی رائے کا آنا کوئی اچھنبے کی بات تو نہیں ہوتی، لیکن اردو محفل کے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنا شاید کسی روایت کا بھی حصہ نہیں۔ عموماً ہم سب کی کوشش ہوتی ہے، کہ ہماری کسی بات سے کسی کو دکھ نہ پہنچے۔ مگر دوسری طرف علم و ادب میں سچائی کی تلاش کا بھی ایک مقام ہے۔ سچائی کے بغیر ادب کس کام کا؟ پھر یہ بھی نظر میں رہے، کہ نئے لکھنے والوں کے کام میں بہتری خالی خولی تعریفوں سے تو نہ آئے گی۔ بڑوں کی جانب سے چھوٹے
بھائیوں بہنوں کی رہنمائی بھی تو لازم ہے!

مزید براں یہ کہ ایک تنقیدی مضمون میں، جس میں مخالفین کو نہایت بے دردی سے رگید دیا گیا ہو، ذاتی پسند نا پسند سے اوپر اٹھ کر، اپنی رائے کو منطق اور دلیل کے ساتھ بیان کیا جانا لازم ہے۔ اپنے ممدوح کی خرابیوں کو محاسن میں شامل کروانے کے لیے محض چند تعریفی بیانات سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے مثالیں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ اور بتانا پڑتا ہے کہ ممدوح کی فلاں خوبی اس کے فلاں کام میں نظر آتی ہے۔آپ خود سوچیئے، کیا کوئی ایسا تنقیدی مضمون کسی مؤقر ادبی رسالے کی زینت بن سکتا ہے؟ کیا ہماری تمام تر تعریفوں کے باوجود اسے مدیر کی میز تک بھی پہنچنا نصیب ہو گا؟

ایک بار پھر کہتا چلوں، کہ میرا مقصد ہرگز، ہرگزکسی کی حوصلہ شکنی یا دل آزاری تھا اور نہ ہے۔ مگر میرے سامنے اگر ایک بچہ انگارے اٹھانے لگے، تو کیا اسے نہ روکوں؟ اگر نوجوانی ہی میں تربیت نہ ہوئی، تو پھر آگے جا کر کیا حاصل ہو گا؟

اس ساری بحث کے بعد بھی اب تک کسی نے فراز کے کلام سے میرے بیان کیے گئے شعری حوالوں کے مقابلے میں کچھ پیش نہ کیا۔ میرے خیال میں ہم مزید انتظار بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا کچھ سامنے نہ آئے گا۔
 
Top