ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ہا ہا ہا ہا !!! بہت خوب راحل بھائی ! آپ نے میرے کندھے پر بندوق رکھ کر میر کا مصرع خود میر ہی کے متھے مار دیا ۔ظہیرؔ بھائی، آداب!
سر تسلیم خم ۔۔۔ آپ کی بات عین مناسب ہے ۔۔۔ لیکن پاؤں (بمعنی پانا) اور پاؤں (بمعنی پیر) کے جدید تلفظ میں بہرحال معمولی فرق تو ہے۔ پاؤں(پانا) میں تو واؤ واضح طور پر معروف سنائی دیتی ہے جبکہ پاؤں(پیر) میں کچھ کچھ مجہول۔ دراصل میرا یہ نکتہ اٹھانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کئی مرتبہ ایسا دیکھا ہے کہ کوئی شاعر پاؤں (بمعنی پیر) کو دعاؤں، خطاؤں وغیرہ کے ساتھ قافیہ لایا تو اساتذہ نے تلفظ کی بنیاد پر ٹوک دیا۔ بس اسی لئے یہ بات کی کہ اگر مستقبل میں قافیہ کے باب میں کبھی کسی کو اس اعتراض کا سامنا ہو تو وجہ ذہن نشین رہے۔
بہرحال، ظاہر ہے کہ آپ کی بات میری رائے سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے کہ مستند ہے آپ کا فرمایا ہواآپ کے مطالعے کا ایک چوتھائی بھی ہمارے پاس ہوتا تو کیا بات تھی
دعاگو،
راحلؔ۔
قافیہ کا نکتہ آپ نے بہت اچھا اٹھایا۔ بیشک پاؤں بمعنی قدم کو دعاؤں ، صداؤں کا قافیہ نہیں بنایا جاسکتا کہ تلفظ میں فرق ہے ۔ لیکن لوگ اب بنارہے ہیں کہ تلفظ میں فرق معمولی سا ہے ۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھئے گا ۔