کریڈیٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ کا حکم

یاز

محفلین
پہلے اسلامی بینکاری تو جائز ہو
وہ تو جائز گردانتے ہیں لوگ، کیونکہ اس کے نام کے ساتھ اسلامی لگا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایسے ایک بینک سے معلومات لیں تو اندازہ ہوا کہ وہ منافع دوسرے بینکوں سے کم دیتے ہیں اور مارک اپ دوسروں سے زیادہ لیتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
کریڈٹ کارڈز یا دیگر کارڈز اس نیت سے لینا کہ ان پہ کچھ ڈسکاؤنٹ وغیرہ ملتا ہے۔ بظاہر تو مجھے درست لگتا ہے۔ کچھ آپ حضرات بھی روشنی ڈالیں۔
میرے پاس ایک کوآپ آؤٹ ڈور سٹور کا کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس پر جو خریداری ہوتی ہے اس پر سالانہ ڈیویڈنڈ ملتا ہے جس سے پھر میں ٹینٹ، سلیپنگ بیگ، ہائیکنگ پینٹ اور دیگر اشیا خریدتا رہتا ہوں
 

شاہد شاہ

محفلین
ہو سکتا ہے کہ سود لینے اور دینے کے لئے بھی کچھ جائز طریقے متعارف کروا دیے گئے ہوں۔ :)
اسلامی سود اور جدید فائننس کے رینٹ میں کافی فرق ہے۔ میرے خیال میں ناجائز رینٹ کو سود کہا گیا ہے۔ اگر بینک آپکو سروس فراہم کرنے کا چارج بذریعہ رینٹ لے رہا ہے تو وہ سود یقیناً نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ رینٹ کو صرف منافع خوری کیلئے استعمال کر رہا ہے تو سود ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسلامی سود اور جدید فائننس کے رینٹ میں کافی فرق ہے۔ میرے خیال میں ناجائز رینٹ کو سود کہا گیا ہے۔ اگر بینک آپکو سروس فراہم کرنے کا چارج بذریعہ رینٹ لے رہا ہے تو وہ سود یقیناً نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ رینٹ کو صرف منافع خوری کیلئے استعمال کر رہا ہے تو سود ہے۔

یہ اسلامی سود کیا ہوتا ہے؟

ویسے ہمیں جب فتویٰ درکار ہوگا تو مناسب فورم پر رجوع کریں گے۔ :)
 

زیک

مسافر
وہ تو جائز گردانتے ہیں لوگ، کیونکہ اس کے نام کے ساتھ اسلامی لگا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایسے ایک بینک سے معلومات لیں تو اندازہ ہوا کہ وہ منافع دوسرے بینکوں سے کم دیتے ہیں اور مارک اپ دوسروں سے زیادہ لیتے ہیں۔
اور بیک گراؤنڈ میں عام بینکوں والی ہی معیشت ہے
 

شاہد شاہ

محفلین
سود کی مختلف ادیان و مذاہب میں مختلف تشریحات ہیں۔ میں نے صرف اسلامی سود کی بات کی ہے۔
کچھ چیدہ چیدہ نکات:
یہودیت میں یہودیوں سے سود لینا منع ہے۔ غیر یہود سے لے سکتے ہیں۔ مغرب میں جب مسیحی سود کی وجہ سے بینکنگ پر مکمل پابندی تھی تو یہودیوں کی ایک بڑی تعداد یہ کام کرتی تھی۔ اسی دور میں ایک معروف یہودی بینکنگ خاندان روتھس شیلڈ وجود میں آیا۔
مغربی مسیحی دنیا میں ۱۶ ویں صدی تک اسلام والا معاملہ تھا۔ یعنی سود ہر شرح کیساتھ ناجائز تھا۔ مگر پھر پروٹیسٹنٹ ریفارم کیساتھ اس میں تبدیلی آئی اور ناجائز سود پر پابندی لگ گئی جبکہ بہت کم شرح والا سود رینٹ کیساتھ جائز ہوگیا۔
اسلام میں سود آج بھی ہر شرح کیساتھ حرام ہے بیشک وہ منافع خوری ہو یا صرف سروسز کی ادائیگی۔ ایسے میں اسلامی بینک بجائے سیدھا قرض دینے کے مطلوبہ املاک یا اثاثہ جات خود خرید کر، اسکی قیمت بڑھا کر رینٹ فری مومنین کو فراہم کر دیتے ہیں۔ اور یوں اس خود ساختہ زائد قیمت سے انکا سود بھی نکل آتا ہے اور بینک کے خرچے بھی۔ کان کو ادھر سے پکڑیں یا ادھر سے۔ پیچھے تو محض ایک ہی نظام کارفرما ہے۔
Interest rates - What religions say
 
ایسے میں اسلامی بینک بجائے سیدھا قرض دینے کے مطلوبہ املاک یا اثاثہ جات خرید کر، اسکی قیمت بڑھا کر رینٹ فری مومنین کو فراہم کر دیتے ہیں۔ اور یوں اس خود ساختہ زائد قیمت سے انکا سود بھی نکل آتا ہے اور بینک کے خرچے بھی۔ کان کو ادھر سے پکڑیں یا ادھر سے۔ پیچھے تو محض ایک ہی نظام کارفرما ہے۔
غیر سودی بینکاری کی فقہی نوعیت کیا ہے اور اس کے بنیادی ڈھانچے میں سودی بینکاری کی نسبت کون سے بنیادی فرق مد نظر رکھے جاتے ہیں، اس پر بہت تفصیلی مباحث ہوچکے ہیں۔ اس وقت ان پر بات کرنا مقصود نہیں۔
البتہ آپ کی مندرجہ بالا بات کے بارے میں دو نکات پیش خدمت ہیں:
پہلی بات یہ کہ آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ سودی اور غیر سودی بینکاری نظام میں یہ فرق رکھا گیا ہے کہ غیر سودی بینکاری میں "منافع" کے حصول لیے اثاثہ ضروری قرار دیا گیا ہے اور غیر سودی بینکاری میں محض "زر" پر ہی منافع لینا روا رکھا جاتا ہے۔
اب یہ بات کہ "اتنی چھوٹی سی بات" سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اور اس پر "کان کو اِدھر اُدھر سے پکڑنے" تک بات لے جانا اس لیے بے معنی ہے کہ اثاثے پر منافع شریعتِ اسلامیہ میں"بیع" ہے اور محض "زر" پر منافع سود۔
اس سلسلے میں بنیادی استدلال قرآن پاک کی آیت مبارکہ سے ہے: أحل اللّٰہ البیع وحرم الربا۔ علم تفسیر کے طلباء اس آیت کے مفہوم سے واقف ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جب غیر سودی بینکاری پر بات کی جاتی ہے تو مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ"کاروبار" کو سود سے پاک کرنے پر غور۔
اب اگر اس کے ساتھ کچھ اور قباحتیں مثلاً "سرمایہ دارانہ سوچ یا سرمایہ دارانہ نظام" وغیرہ پائی جائیں تو وہ الگ چیزیں ہیں جن کا براہ راست غیر سودی بینکاری کے ساتھ تعلق نہیں۔ سو ان دونوں کو جمع کرنا بےجا خلطِ مبحث ہے۔

یہ عرض کردوں کہ یہ وضاحت صرف مسئلہ کی نوعیت تک ہے۔ اب اگر غیر سودی بینک، دی جانے والی ہدایات پر عمل نہ کریں تو اس کی ذمہ داری مسئلہ پر یا بتانے والوں پر عائد نہیں کی جاسکتی۔
 
Top