ایسے میں اسلامی بینک بجائے سیدھا قرض دینے کے مطلوبہ املاک یا اثاثہ جات خرید کر، اسکی قیمت بڑھا کر رینٹ فری مومنین کو فراہم کر دیتے ہیں۔ اور یوں اس خود ساختہ زائد قیمت سے انکا سود بھی نکل آتا ہے اور بینک کے خرچے بھی۔ کان کو ادھر سے پکڑیں یا ادھر سے۔ پیچھے تو محض ایک ہی نظام کارفرما ہے۔
غیر سودی بینکاری کی فقہی نوعیت کیا ہے اور اس کے بنیادی ڈھانچے میں سودی بینکاری کی نسبت کون سے بنیادی فرق مد نظر رکھے جاتے ہیں، اس پر بہت تفصیلی مباحث ہوچکے ہیں۔ اس وقت ان پر بات کرنا مقصود نہیں۔
البتہ آپ کی مندرجہ بالا بات کے بارے میں دو نکات پیش خدمت ہیں:
پہلی بات یہ کہ آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ سودی اور غیر سودی بینکاری نظام میں یہ فرق رکھا گیا ہے کہ غیر سودی بینکاری میں "منافع" کے حصول لیے اثاثہ ضروری قرار دیا گیا ہے اور غیر سودی بینکاری میں محض "زر" پر ہی منافع لینا روا رکھا جاتا ہے۔
اب یہ بات کہ "اتنی چھوٹی سی بات" سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اور اس پر "کان کو اِدھر اُدھر سے پکڑنے" تک بات لے جانا اس لیے بے معنی ہے کہ اثاثے پر منافع شریعتِ اسلامیہ میں"بیع" ہے اور محض "زر" پر منافع سود۔
اس سلسلے میں بنیادی استدلال قرآن پاک کی آیت مبارکہ سے ہے: أحل اللّٰہ البیع وحرم الربا۔ علم تفسیر کے طلباء اس آیت کے مفہوم سے واقف ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جب غیر سودی بینکاری پر بات کی جاتی ہے تو مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ"کاروبار" کو سود سے پاک کرنے پر غور۔
اب اگر اس کے ساتھ کچھ اور قباحتیں مثلاً "سرمایہ دارانہ سوچ یا سرمایہ دارانہ نظام" وغیرہ پائی جائیں تو وہ الگ چیزیں ہیں جن کا براہ راست غیر سودی بینکاری کے ساتھ تعلق نہیں۔ سو ان دونوں کو جمع کرنا بےجا خلطِ مبحث ہے۔
یہ عرض کردوں کہ یہ وضاحت صرف مسئلہ کی نوعیت تک ہے۔ اب اگر غیر سودی بینک، دی جانے والی ہدایات پر عمل نہ کریں تو اس کی ذمہ داری مسئلہ پر یا بتانے والوں پر عائد نہیں کی جاسکتی۔