"کریما" سعدی شیرازی

فارسی سیکھنے کا شوق عرصہ دراز سے دل میں اٹھکیلیاں کراتا رہا ، لیکن اپنی سستی وکاہلی کے سبب اسے عمل کا جامہ پہنانے سے ہنوز قاصر ہوں ۔
"کریما" سعدی شیرازی کی تصنیف ، فارسی پڑھنے کیلئے انتہائی ابتدائی کتاب ہے ، لیکن اس کے باوجود میں اسے کسی شرح کے بغیر پڑھنے سے قاصر ہی ہوں ، فارسی جاننے والوں سے مشور ہ کے بعد پہلے اسی کتاب سے آغاز کا ارادہ کیا ہے نجانے کب تک اس ارادے پر قائم رہتی ہوں ، بہرحال… آغاز تو اللہ اللہ کر کے ہو ہی چکا ۔
تو سوچا کیوں نہ حاصل مطالعہ محفل پر بھی شئیر کیا جائے کہ کسی اور کا بھلا ہو یا نہ ہو ہمیں اساتذہ کی آراء ضرور میسر آجائیں گی اور شاید اس بہانے ہی ا س کے مطالعہ میں باقاعدگی آجائے ۔
کریما کے مطالعہ کیلئے بنیادی انحصار اردو شرح " گوہر بے بہار " پر ہے اس کے علاوہ ایک دو اور تراجم بھی زیر مطالعہ ہیں ۔


در حمد باری تعالیٰ

کریما بہ بخشائے پر حال ما
کہ ہستم اسیر کمند ہوا

اے کریم رحم کر میرے حال پر
کیونکہ میں ہوس کی کمند کا اسیر ہوں
کریما :میں لفظ کریم منادیٰ ہے اور اس کے آخر کا الف ندائیہ ہے ، اس الف کا ترجمہ منادیٰ سے پہلے کر لیا جاتا ہے جیسا کہ کریما کا ترجمہ اے کریم
بہ بخشائے : بمعنی رحم فرما ، بخشش کر ، بخشودن مصدر سے امر کا صیغہ ہے ۔
بر :بمعنی اوپر یا پر اور حال ما مرکب اضافی ہے یعنی مرکب ہے مضاف اور مضاف الیہ سے ، اردو محاورہ میں مضاف الیہ کا ترجمہ پہلے اور مضاف کا ترجمہ اس کے بعد کیا جاتا ہے اور اگر ان دونوں کے اول میں حرف جر ہو تو اس کا ترجمہ مضاف و مضاف الیہ کے ترجمہ کے بعد ہوتا ہے ، چنانچہ" برحال ما" کا ترجمہ ہوا " ہمارے حال پر" یا " میرے حال پر "
اس جگہ " ما" بمعنی "من " ہے اور اس کا استعمال درست ہے ۔

نداریم غیر اَز تو فریاد رس
توئی عاصیاں را خطا بخش وبس

ہم تیرے سوا کوئی فریاد رس نہیں رکھتے
تو ہی ہے گنہگاروں کی خطا بخشنے والا اور بس
نداریم : جمع متکلم نفی مضارع معروف کا صیغہ ہے داشتن مصدر سے ۔
غیر از تو: بمعنی ٰ تیرے سوا
فریاد رس : اسم فاعل ترکیبی ہے بمعنیٰ فریاد کو پہنچنے والا۔
توئی : بمعنیٰ "تو ہی " ہے کیونکہ جب لفظ تو اور یائے خطابی دونوں ایک ہی جگہ آتے ہیں تو حصر اور تاکید کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔
عاصیاں : عاصی کی جمع بمعنیٰ گنہگاراں
" را" علامت اضافت ہے
خطا بخش : اسمِ فاعل ترکیبی ہے ، خطا سے مراد گناہ ، خطا بخش یعنی گناہ کا بخشنے والا ۔
و: عاطفہ بمعنی اور
بس: بمعنیٰ کفایت میکنی تو وحاجت ِ دیگرے نیست ، تو کافی ہے ۔

نگہ دار ما را ز راہِ خطا
خطا درگذار و صوابم نما

تو ہم کو خطا کی راہ سے محفوظ رکھ
خطا کو معاف کردے اور راہ راست مجھ کو دکھا
اس جگہ لفظ "نگہ " مفعول بہ ہے لفظ دار کا اور دار صیغہ واحد حاضر فعل امر ہے ۔ داشتن سے اور یہ نگہدار اسم فاعل ترکیبی نہیں ہے ۔
مارا: بمعنیٰ ہم کو ، مجھ کو
زراہ خطا: بمعنیٰ خطا کی راہ سے
در گذار : بمعنی معاف فرما۔اس میں لفظ "در " زائدہ ہے اور" گذار " گذاشتن سے امر کا صیغہ ہے ۔
و: بمعنی اور
صواب : راہ راست ، مقابل خطا
م: مفعولی بمعنی مجھ کو
نما : بمعنی دکھا ،نمودن سے امر کا صیغہ ہے ۔

 
آخری تدوین:
بہت اچھی کاوش ہے آپکی ۔ اللہ آپ کو ثابت قدم رکھے ۔
اس جگہ لفظ "نگہ " مفعول بہ ہے لفظ دار کا اور دار صیغہ واحد حاضر فعل امر ہے ۔ داشتن سے اور یہ نگہدار اسم فاعل ترکیبی نہیں ہے ۔
مارا: بمعنیٰ ہم کو ، مجھ کو
زراہ خطا: بمعنیٰ خطا کی راہ سے
در گذار : بمعنی معاف فرما۔اس میں لفظ "در " زائدہ ہے اور" گذار " گذاشتن سے امر کا صیغہ ہے ۔
و: بمعنی اور
صواب : راہ راست ، مقابل خطا
م: مفعولی بمعنی مجھ کو
نما : بمعنی دکھا ،نمودن سے امر کا صیغہ ہے ۔
آپ کی لکھی ہوئی تشریح مجھے فارسی سے زیادہ مشکل لگ رہی ہے ۔ :)
 
درثنائے پیغمبر ﷺ

زباں تا بود در دہاں جائگیر
ثنائے محمد ﷺ بود دلپذیر

زباں جب تک منہ میں قائم ہے ؐ
محمد ﷺ کی تعریف دل پسند رہے گی
تا: کلمہ غایت متضمن معنی شرط ، بمعنی جب تک ، جس وقت تک ۔
بود: بودن سے فعل مضارع ہے ، جس کے معنی ہونا اور رہنا ہیں ۔
در دہاں : منہ میں ، دہاں کا مخفف دہن بھی مستعمل ہوتا ہے ۔
جائگیر: جگہ لینے والی ، ثابت قدم ۔ اسم فاعل ترکیبی ہے ۔ مرکب ہے لفظ جائی سے جو اسم ہے اور لفظ گیر سے جو کہ گرفتن سے فعل امر ہے ، اور اس کو اسم فاعل سماعی بھی کہا جاتا ہے ۔
دلپذیر : دل کی قبول کی ہوئی ، دل پسند۔ اسم مفعول ترکیبی ہے لفظ دل اور بذیرفتن سے امر کے صیغہ پذیر سے مرکب ہے ۔


حبیبِ خدا اشرف ِ انبیاء
کہ عرش ِمجید ش بود متکا

محبوب خدا پیغمبروں سے زیادہ بزرگ و معزز
کہ عرش اعظم ان کا تکیہ گاہ بنا
حبیب : بمعنی محبوب ودوست
خدا : فارسی میں اسم ذات ہے جس کی عربی لفظ اللہ ہے
اشرف : بزرگ تر، بہت بزرگ
انبیاء نبی کی جمع بمعنی پیغمبر خدا
کا ف: وصفی
عرش : اللہ رب العزت کا تخت
مجید : بمعنی اعظم بزرگ
ش: اصل میں مضاف الیہ ہے " متکا " کا ۔ یعنی اصل میں "متکا ش " تھا شعر کی وجہ سے تقدیم و تاخیر ہو گئی ۔
بود : اس جگہ بمعنی بودہ است ہے ۔
متکا : یعنی تکیہ گا ہ و مسند۔

سوارِ جہانگیر یکراں براق
کہ بگذشت از قصر نیلی رواق

براق تیز رفتار کے ایسے جہانگیر سوار
کہ گزر گئے نیلی چھت والے محل سے

جہانگیر : جہاں کے لینے والے ۔ گرفتن سے اسم فاعل ترکیبی ہے ۔
یکراں : خوبصورت اور تیز رفتار گھوڑا ۔ اور وہ سرخ گھوڑا جس کی گردن اور دم کے بال سفید ہوں اور اس کو بھی کہتے ہیں جس پر ایک سوار کے سوا اور کوئی سوار نہ ہو۔
براق: وہ چوپایہ جس پر شب معراج میں محمد ﷺ سوار ہوئے تھے ، اس کا قد خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔
بگذشت: اوپر گئے ، گذشتن سے ماضی کا صیغہ ہے ۔
قصر: محل
رواق: چھت سائباں
قصرنیلی رواق سے اس جگہ آسماں مراد ہے ۔
 
خطاب بہ نفس
نفس سے خطاب


چہل سال عمر عزیزت گذشت
مزاج تو از حال ِ طفلی نہ گشت

(اگرچہ ) چالیس سال تیری عزیز عمر کے گذر گئے
(لیکن ) تیرا مزاج لڑکپن کی حالت سے نہ بدلا
چہل سال : چالیس سال ، کنایہ ہے لمبی عمر سے ۔
عمر عزیز : قابل قدر عمر
گذشت : گزر گئے ۔
طفلی : لڑکپن ، بچپن ، اس کے آخر میں یائے مصدری ہے ۔
نگشت : تبدیل نہ ہوا ، نہ بدلا


ہمہ با ہوا و ہوس ساختی
دمے بامصالح نہ پرداختی

تمام ( عمر ) تو نے ہوا اور حرص کے ساتھ موافقت کی
اور ایک گھڑی ( بھی ) نیکیو ں کے ساتھ مشغول نہ ہوا
ہمہ : ہمہ عمر ، ہمہ وقت ہر دم
با : ساتھ
ہوا: حرص
ہوس : خواہش نفسانی
ساختی : موافقت کرنا
دمے : میں یائے وحدت ہے ، بمعنی ایک دم ایک گھڑی
مصالح : مصلحت کی جمع بمعنی نیکی اور وہ چیزیں جن سے کسی چیز کی درستی ہو ۔
نہ پرداختی : پرداختن سے نفی فعل ماضی ہے ، مطلب مشغول نہ ہوا ، توجہ اور التفات نہ کی ۔

مکن تکیہ بر عمر ِ ناپائدار
مباش ایمن از بازیِ روزگار

ناپائدار زندگی پر بھروسہ مت کر
زمانہ کی بازی سے بے خوف مت ہو
مکن : کردن سے صیغہ واحد حاضر فعل نہی ہے ۔مت کر ، نہ کر
تکیہ : بھروسہ وا عتماد
بر : اوپر
عمرناپائدار: بے ثبات زندگی
مباش: بودن سے صیغہ واحد حاضر فعل نہی ہے ۔
ایمن : بے خوف ، نڈر
از : سے
بازی : کھیل ، مراد گردش ِ روزگار، زمانہ
 
Top