کرپشن: چوراہوں پر پھانسی گھاٹ

تاریخ: 28 نومبر 2014
کرپشن: چوراہوں پر پھانسی گھاٹ
تحریر: سید انور محمود

چینی بھی عجیب قوم ہےہر وہ کام کرجاتی ہے جو ہم سوچتے رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال چینی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہے۔ اس وقت چین کی آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے،امپورٹ ایکسپورٹ کے لحاظ سے دنیاکا سب بڑا ملک ہے اور معیشت کے لحاظ سے بھی مضبو ط ترین ملک ہے۔اس ترقی کا راز یہ ہے کہ چین میں کرپٹ لوگوں کے لئے کو ئی جگہ نہیں۔ 2011ء میں چین کے ریلوے کے وزیر لی ژونگ نے کچھ غیر قانو نی بھرتیاں کیں اور اپنے سرکاری عہدہ سے نا جا ئز مراعات اور مالی فوائد حاصل کئے، اس پر مقدمہ چلا یا گیا اورجرم ثابت ہونے پر اسے پھانسی کی سزا سنا ئی گئی، بغیر کسی تاخیر کے سزا پر عمل ہوا۔ چین میں دوسابق نائب میئرز کو پھانسی دی گئی، ان دونوں پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت لینے کے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔چینی عدالت عظٰمی اور سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں میئر حضرات نے مشرقی چین میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے دو شہروں میں تعمیراتی اور مختلف قسم کے دیگر منصوبوں میں دخل اندازی کی اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو دلانے کے لیے انہوں نے لاکھوں ڈالر رشوت لی۔

شایدچین کے کرپشن اور دہشت گردی کی سزاوں کے اوپر عمل ہونے سے متاثر ہوکر 100لفظوں کی کہانی، "انتباہ" میں مبشر علی زیدی نے لکھا کہ "چین کے ایک شہر کے بیچ چوراہے پر پھانسی گھاٹ دیکھ کر میں لرز گیا۔ اس سال یہاں کتنے مجرموں کو لٹکایا گیا ہے؟ میں نے چینی میزبان سے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ایک کو بھی نہیں۔ اس نے بتایا۔ گذشتہ سال؟ گذشتہ سال بھی نہیں، اس سے پہلے بھی کبھی نہیں۔ پھر اس چوراہے سے پھانسی گھاٹ کو ہٹاتے کیوں نہیں؟ وہ ہنسا۔ کہنے لگا، اس چوراہے کے اطراف سرکاری دفاتر قائم ہیں۔ سرکاری ملازم آتے جاتے اسے دیکھتے ہیں اور انھیں یاد رہتا ہے کہ کرپشن کی سزا موت ہے"۔ چین میں کرپشن کرنے والے ایک وزیر کو پھانسی کی سزا دئے کر آیئندہ کرپشن کی راہ میں ایسی رکاوٹ ڈال دی گئی ہے جسے عبور کرنے کےلیے بہت مشکل سے ہی کوئی سوچے گا۔ بدقسمتی سےپاکستان میں اُلٹی گنگا بہتی ہے جو بڑا رشوت خور ہوتا ہے اسے بڑا عہدہ دیا جاتا ہے۔

موجودہ حکومت جو گذشتہ ایک سال سے حکمراں ہے اور بڑئے بڑئے وعدئے جن میں سے ایک کرپشن کا خاتمہ تھا کچھ نہیں کرپائی ہے۔ ابتدا تو بجلی چوروں کو پکڑنے سے کی تھی مگر بڑئے بڑئے چوروں کو چھیڑنے کی ہمت نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت نےسوائے کرپشن کے کچھ نہیں کیا، 2012ء کے آخر میں پہلے 28 نومبر کو ورلڈ جسٹس پراجیکٹ نے سال 2012ء کی رپورٹ جاری کی تھی جس میں پاکستان کو 97 ممالک کی فہرست میں ساتواں بدعنوان ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ صرف ایک ہفتے بعد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، جو دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے اپنی5 دسمبر کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ 2012ء میں نشاندہی کی تھی کہ پاکستان 175 ممالک کی فہرست میں بدعنوانی کے حوالے سے 47ویں نمبر سے 33ویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔

پاکستان میں کرپشن کا امربیل کی طرح بڑھنے کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہمارئے ملک میں زیادہ تر کرپشن حکومت کی چھتری کے نیچے ہوتا ہے، پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کے دونوں وزراعظم آجکل عدالتوں میں اپنے خلاف ہونے والے کرپشن کے الزامات کو بھگت رہے ہیں، مگر اُنہیں اس بات کا پورا یقین ہوگا کہ اُنکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ سرکاری عملداری میں تو کرپشن نے ہر جگہ جھنڈے گاڑھے ہوئے ہیں، ہمارئے سرکاری ملازمین جن کا شاید دنیا کے کرپٹ ترین اُن ملازمین میں ہوتا ہے جو شاید ہی کسی اور ملک میں پائے جاتے ہوں۔ ہمارے ہاں بڑے عہدیدار سے لیکر چھوٹے سے اہلکار تک سب اپنی اپنی بساط کے مطابق کرپشن کے زریعےاپنا اپنا حصہ وصول کررہے ہیں۔اس کرپشن زدہ ماحول میں یقینا کچھ ایسے ایماندار لوگ بھی ہوتے ہیں جو بےایمانی کے کام نہیں کرنا چاہتے تو انہیں کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ اس ملک میں کرپشن کی صورت حال نے دہشت گردی اور لاقانونیت کو جنم دیا اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ غیرملکی سرمایہ کار تو بھاگا ہی اپنے ملک کے صنعت کار بھی دوسرئے ممالک جانے لگے۔

سیاست جسکے بارئے کہا جاتا تھا کہ یہ ایک عبادت ہے عملا پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔سیاست کو سیاست دانوں نے ایک منافع بخش کاروبار بنادیا ہے اور جس کی وجہ سے موروثی سیاست کا وجود عمل میں آیااور اب یہ کاروبار جوتمام کاروبار سے زیادہ منافع بخش ہے خاندان در خاندان چل رہا ہے۔سیاست جو اب ایک پیشہ بن گیا ہے اُس میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ صرف لوٹ مار ہی لوٹ مار ہے، پیسہ ہی پیسہ ہے۔ہمارا سیاستدان جب سیاست کے کاروبارمیں سرمایہ کاری کرتا ہے تو کرپشن کے زریعے اس سے کئی گنا زیادہ وصول کرتا ہے۔آجکل جو کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوںمیں پہنچتے ہیں وہ قوم کی خدمت کرنے کی بیوقوفی ہرگز نہیں کرتے بلکہ جو کروڑوں لگائے تھے اُنکواربوں میں وصول کرتے ہیں۔ ہمارے کرپٹ حکمرانوں نے ایسی پالیسی بنائی ہوئی ہے کہ اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں کے فنڈز ممبران اسمبلی کے حوالے کردیے جاتے ہیں کہ جتنی چاہو کرپشن کرو۔ جبکہ دنیا بھر کے دیگر جمہوری ممالک میں ایسے ترقیاتی کام بلدیاتی حکومتوں اور خودمختار اداروں کے ذریعے انجام پاتے ہیں لیکن ہمار ے سرکاری ملازمین اور سیاستدان ایک دوسرے کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن چکے ہیں، اور یہ ہی وجہ ہے کہ کرپش کے تمام ریکارڈ بھی ناقابل شکست سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

ملک بھر میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آئے دن امن و امان کا مسلئہ ہوتاہے، اربوں روپے کی بجلی چوری اور ناجائز کنڈہ گردی کرپشن کی ایک مثال ہیں ۔ یہ بھی سنا جارہا ہے کہ ملک میں چلنے والے کارخانوں کی ایک بڑی اکثریت گیس اور بجلی چوری پر ہی چل رہے ہیں، اور یہ بات تو آپ سب جانتے ہی ہونگے کہ زیادہ تر ایسے کارخانے اور فیکٹریاں سیاستدانوں کی ملکیت ہیں، جہاں سرکاری ملازمین اُن کے دست راست ہیں۔جب حکومت نے ایسے کچھ کارخانوں پر چھاپے مارے ہیں تو یہی پتہ چلا کہ یہاں تو آوئے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے، ہر طرف ہی کرپشن کا کینسرپھیلا ہواہے۔ اب اگرحکومت نے واقعی ایسا کوئی نیک کام کرہی لیا ہے اورکرپشن کی اس غلاظت کو ختم کرنے کیلئے کچھ بڑوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت یا بیوقوفی کر ہی لی ہے تو بہادری کے ساتھ کم از کم ان بڑئے لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچائے، اگران بڑئے لٹیروں کو سزا ملے تو باقی چھوٹے چھوٹے لٹیریوں پر ہاتھ ڈالنا قطعی مشکل نہیں ہوگا لیکن بڑئے یا چھوٹے کو کیفر کردار تک پہنچانے کی امید کم ہے، لیکن اگر ایسا ہوا تو پھرحکومت چوراہوں پر پھانسی گھاٹ ضرور بنوادئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سو (100) لفظوں کی کہانی بشکریہ روز نامہ جنگ
 
Top