.
کیس فائل نمبر 1001 ۔ کرسی کا پایہ
کیس انچارج ۔ کرنل قیصرانی اور کیپٹن باجو
موجودہ وقت منگل جنوری 30, 2007
سی آئ ڈی کرنل قیصرانی اور کیپٹن باجو، قدرت فرنیچر اسٹور میں داخل ہوئے۔ کیپٹن باجو نے اپنی پرانی نایاب کرسی کو مرمت کیلئے اس اسٹور میں دیا تھا۔ اور کرنل قیصرانی کے پاس آجکل کوئ کیس نہیں تھا تو وہ بھی کیپٹن کےساتھ اس کرسی کو لینےآگئے۔ قطار میں کچھ لوگ تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت کاونٹر کلرک سےموسم کی بات کررہی تھی۔
کرنل قیصرانی کی نظر کاونٹر کے پیچھےبنے ہوئے کمرے پر پڑی۔ کمرے کا شیشہ یک طرفہ تھا یعنی کمرے میں سےلوگ باہردیکھ سکتےتھےمگر باہر کے لوگ کمرے کےاندر نہیں۔ کمرے سے بلند آوازوں اُٹھ رہی تھیں۔ آوازیں " تُو تُو میں میں" میں تبدیل ہوئیں اور اب ایسا لگا کہ وہ باقاعدہ کُشتی لڑ رہے ہوں۔
کرنل قیصرانی ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ دخل اندازی کرے کہ ایک لکڑی کےچٹکنےآواز آئ اور کیسی بھاری چیز کےفرش پرگرنے کا دھماکا ہوا۔
کرنل قیصرانی اور کیپٹن باجونےایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کاونڑ کےدروازے کی طرف بڑھنے کے لیےجگہ بنانے کی کوشش کی مگر بڈھی، جس نےشاید بہرے ہونے کی بنا پراُن آوازوں کونہیں سننا تھا نے کرنل اور کیپٹن کو کاونٹر کےدروازے کی طرف جانےسے روک دیا۔ “ اے جوان تم اپنی باری کا انتظار کرو اور لڑکی، مردوں کی طرح نہیں بھاگتے، شرم کرو “۔ کیپٹن کے پاس ان فضولیات کے لیے وقت نہیں تھا اس نےبڈھی کو ایک طرف دھکیلا اور کاونٹر کےدو فٹ دروازے کو کھولےبغیراس کے اوپر سےچھلانگ لگا کرآفس کی طرف بھاگی دروازہ آفس کے پیچھے تھا۔ لیکن اس بڈھی نےدیر کرادی تھی۔ اس بڑھیا کی وجہ سے قیمتی 20 سیکنڈ ضائع ہوچکےتھے۔ جب کرنل اور کیپٹن آفسں کےدروازے تک پہونچےتو کُھلے کمرے میں تین آدمی کھڑے تھے۔کرنل اور کیپٹن آفس میں داخل ہوئے قدرت ، اسٹور کا مالک زمین پرتھا۔ اس کا سر کسی آلہ کی ضرب سے کھل گیا تھا۔ فرش پرخون بہہ رہا تھا۔ کیپٹن نے زمین پر بیٹھ کرقدرت کی نفس دیکھی۔ اسٹور کا مالک کا اللہ مالک ہوچکا تھا۔ کمرے میں ایک کرسی تھی جس میں سے ایک پایہ غائب تھا۔
کرنل اور کیپٹن آفس سے باہر آئے۔ گلی کی طرف کا دروازہ کُھلا تھا۔ لیکن اس کمرے کی حالت یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ کوئ اس کو چھوڑ کرگیا ہو۔
ایک آدمی نے چلا کر کہا ۔وہ اُس دروازے سےگیا ہے۔
کرنل نے پچھلےدروازے کی طرف دوڑ لگائ۔
کیپٹن باجو نےاپنی توجہ کمرے میں موجود آدمیوں کی طرف کی۔
" میں کیپٹن باجو ہوں ۔سی آی ڈی“ ۔کیپٹن باجو نےاپنا موجودگی کا اعلان کیا۔
" تم کون ہو؟ " ۔ کیپٹن باجو نےایک ملازم کی طرف اشارہ کیا۔ اوریہاں کیا ہوا؟“۔
“ میرا نام شبیر ہے۔ میں یہاں ملازم ہوں۔ میں کمرے کی دوسری طرف تھا۔ اور فرنیچر کو باکس سے نکال رہا تھا۔ میں نےصرف حالات کا اس وقت نوٹس لیا جب وہ آدمی بند آفس سےدروازہ کھول کر پچھلےدروازے کی طرف دوڑا اور میں نےاس کو دروازے سے باہرگلی میں جاتے دیکھا“۔
کیپٹن باجو نے باکس پرنظر ڈالی۔ باکس آدھا کھلاتھا۔
“اور تم“ ۔ کیپٹن باجونےدوسرے کی طرف اشارہ کیا۔ تم نے کچھ سنا اور دیکھا۔
“ میرا نام زاکر ہے۔ میں بھی یہاں کام کرتا ہوں۔ میں آج جلد آیا تھا“۔ زاکر نے کہا
“ میں نےاُسں آدمی کو قدرت کےساتھ آتےدیکھا۔ایک بلند قدو قامت کا شخص جسےمیں نےپہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی مالک سے تُوتکار ہو رہی ہے۔ لیکن میں ان کی گفتگوسن نہ سکا۔ اس نےاپنےشور کو کم کرنےوالے ہیڈ سٹ کی طرف اشارہ کیا میری لیتھ مشین چل رہی تھی اور دوسرے میں لکڑی چھیل رہا تھا۔ سوری“
کیپٹن باجو نے زاکرکا اوپر سے نیچے تک جائزہ کیا اور مشین کےقریب فرش پر نظرڈالی۔
" اور تم کون ہو؟ کیا تم بھی یہاں کام کرتےہو؟“۔ کیپٹن باجو نےاپنی توجہ آخری آدمی کی طرف کی۔
“میں شعب ہوں ۔ میں نے کچھ تھوڑا سننا لیکن صاف نہیں تھا۔ قدرت اور وہ آدمی آفس میں چلےگےاور دروازہ بند کرلیا۔ میں اس کرسی پر وارنش کرنے کے کام میں لگ گیا۔ میں نےایک بھاری لمبے آدمی کو کمرے سےنکلتےدیکھا جوایک گہرے رنگ کی جیکٹ اور جین پہنا تھا۔ وہ تیزی سےدروازے کی طرف بھاگا۔ اور وہ جو کرسی کا پایا کو زمین پر پڑا ہے اس کے ہاتھ سےگرا “۔
ہوا میں وارنش کی بو موجود تھی۔
کرنل قیصرانی نے واپس آ کر علان کیا ؟ “ قاتل اس کمرے میں موجود ہے“
“ وہ کیسے۔ میرا بہی یہ ہی قیاس تھا“ ۔ کیپٹن باجو نےمسکرا کر کہا۔
“ نکڑ پرایک فقیر بیٹھا ہے۔ اس نے اس گلی میں کسی کو آتےیا اس گلی سے کسی کونکلتے نہیں دیکھا۔ گلی کا دوسرا حصہ بند ہے۔ اسلئےاس گلی سےنکلنے کا ایک ہی راستہ ہے“۔ کرنل نے قہقہ لگایا۔
“ اگر یہ بات ہے۔ تو مجھے پتہ ہے کہ قتل کس نے کیا ہے“ کیپٹن نے کرنل کو قہقہ لگانےمیں مات دےدی۔
تینوں میں سےایک آدمی نے جب یہ سننا تو دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ کیپٹن باجو نےاپنی ٹانگ آگے بڑھادی۔ قاتل منہ کے بل زمین پرگرا۔ کرنل نےاس کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال دی۔
“ کیا تم کواس پر شبہ تھا“۔ کرنل نے کیپٹن سے پوچھا۔
“ ہاں۔ اور یہ کیس بہت آسان تھا“۔ کیپٹن باجو نےمسکرا کر کہا۔
" وہ کیسے؟" ۔ کرنل نے کہا۔
" تم میری رپورٹ پڑھنا"۔ کیپٹن بولی۔
آفس میں کرنل قیصرانی نے کیپٹن باجو کی رپورٹ پڑھی اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
“ آپ اسمارٹ ہیں کیپٹن“ ۔
" میں تو ہمیشہ سے ہوں۔تم کو یہ معلوم کرنےمیں اتنا عرصہ لگا کرنل، سر، بدھو“۔
“ کیا کہا؟“۔ کرنل نے سوال کیا۔
“ کرنل ، سر، میں نے ، یعنی میں نے، میرا مطلب ہے کہ آپ مہاتماگوتم بدھو لگتے، نہیں نہیں میرا مطلب، میں یہ کہنا چاہ رہی تھی۔ وہ یہ کہ۔۔۔“۔
“ جی، جی میں اچھی طرح سمجھ گیا کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں“۔ کرنل نے کیپٹن باجو کو آنکھ ماری۔
“ شکریہ۔ سر“ کیپٹن نےسر جھکا کر کے کہا۔ مگر دل میں ہنستے ہوئے کہا بُدھو سر ۔
۔۔۔۔
کیس فائل نمبر 1001 ۔ کرسی کا پایہ
کیس انچارج ۔ کرنل قیصرانی اور کیپٹن باجو
موجودہ وقت منگل جنوری 30, 2007
سی آئ ڈی کرنل قیصرانی اور کیپٹن باجو، قدرت فرنیچر اسٹور میں داخل ہوئے۔ کیپٹن باجو نے اپنی پرانی نایاب کرسی کو مرمت کیلئے اس اسٹور میں دیا تھا۔ اور کرنل قیصرانی کے پاس آجکل کوئ کیس نہیں تھا تو وہ بھی کیپٹن کےساتھ اس کرسی کو لینےآگئے۔ قطار میں کچھ لوگ تھے۔ سب سے آگے ایک بوڑھی عورت کاونٹر کلرک سےموسم کی بات کررہی تھی۔
کرنل قیصرانی کی نظر کاونٹر کے پیچھےبنے ہوئے کمرے پر پڑی۔ کمرے کا شیشہ یک طرفہ تھا یعنی کمرے میں سےلوگ باہردیکھ سکتےتھےمگر باہر کے لوگ کمرے کےاندر نہیں۔ کمرے سے بلند آوازوں اُٹھ رہی تھیں۔ آوازیں " تُو تُو میں میں" میں تبدیل ہوئیں اور اب ایسا لگا کہ وہ باقاعدہ کُشتی لڑ رہے ہوں۔
کرنل قیصرانی ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ دخل اندازی کرے کہ ایک لکڑی کےچٹکنےآواز آئ اور کیسی بھاری چیز کےفرش پرگرنے کا دھماکا ہوا۔
کرنل قیصرانی اور کیپٹن باجونےایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کاونڑ کےدروازے کی طرف بڑھنے کے لیےجگہ بنانے کی کوشش کی مگر بڈھی، جس نےشاید بہرے ہونے کی بنا پراُن آوازوں کونہیں سننا تھا نے کرنل اور کیپٹن کو کاونٹر کےدروازے کی طرف جانےسے روک دیا۔ “ اے جوان تم اپنی باری کا انتظار کرو اور لڑکی، مردوں کی طرح نہیں بھاگتے، شرم کرو “۔ کیپٹن کے پاس ان فضولیات کے لیے وقت نہیں تھا اس نےبڈھی کو ایک طرف دھکیلا اور کاونٹر کےدو فٹ دروازے کو کھولےبغیراس کے اوپر سےچھلانگ لگا کرآفس کی طرف بھاگی دروازہ آفس کے پیچھے تھا۔ لیکن اس بڈھی نےدیر کرادی تھی۔ اس بڑھیا کی وجہ سے قیمتی 20 سیکنڈ ضائع ہوچکےتھے۔ جب کرنل اور کیپٹن آفسں کےدروازے تک پہونچےتو کُھلے کمرے میں تین آدمی کھڑے تھے۔کرنل اور کیپٹن آفس میں داخل ہوئے قدرت ، اسٹور کا مالک زمین پرتھا۔ اس کا سر کسی آلہ کی ضرب سے کھل گیا تھا۔ فرش پرخون بہہ رہا تھا۔ کیپٹن نے زمین پر بیٹھ کرقدرت کی نفس دیکھی۔ اسٹور کا مالک کا اللہ مالک ہوچکا تھا۔ کمرے میں ایک کرسی تھی جس میں سے ایک پایہ غائب تھا۔
کرنل اور کیپٹن آفس سے باہر آئے۔ گلی کی طرف کا دروازہ کُھلا تھا۔ لیکن اس کمرے کی حالت یہ ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ کوئ اس کو چھوڑ کرگیا ہو۔
ایک آدمی نے چلا کر کہا ۔وہ اُس دروازے سےگیا ہے۔
کرنل نے پچھلےدروازے کی طرف دوڑ لگائ۔
کیپٹن باجو نےاپنی توجہ کمرے میں موجود آدمیوں کی طرف کی۔
" میں کیپٹن باجو ہوں ۔سی آی ڈی“ ۔کیپٹن باجو نےاپنا موجودگی کا اعلان کیا۔
" تم کون ہو؟ " ۔ کیپٹن باجو نےایک ملازم کی طرف اشارہ کیا۔ اوریہاں کیا ہوا؟“۔
“ میرا نام شبیر ہے۔ میں یہاں ملازم ہوں۔ میں کمرے کی دوسری طرف تھا۔ اور فرنیچر کو باکس سے نکال رہا تھا۔ میں نےصرف حالات کا اس وقت نوٹس لیا جب وہ آدمی بند آفس سےدروازہ کھول کر پچھلےدروازے کی طرف دوڑا اور میں نےاس کو دروازے سے باہرگلی میں جاتے دیکھا“۔
کیپٹن باجو نے باکس پرنظر ڈالی۔ باکس آدھا کھلاتھا۔
“اور تم“ ۔ کیپٹن باجونےدوسرے کی طرف اشارہ کیا۔ تم نے کچھ سنا اور دیکھا۔
“ میرا نام زاکر ہے۔ میں بھی یہاں کام کرتا ہوں۔ میں آج جلد آیا تھا“۔ زاکر نے کہا
“ میں نےاُسں آدمی کو قدرت کےساتھ آتےدیکھا۔ایک بلند قدو قامت کا شخص جسےمیں نےپہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی مالک سے تُوتکار ہو رہی ہے۔ لیکن میں ان کی گفتگوسن نہ سکا۔ اس نےاپنےشور کو کم کرنےوالے ہیڈ سٹ کی طرف اشارہ کیا میری لیتھ مشین چل رہی تھی اور دوسرے میں لکڑی چھیل رہا تھا۔ سوری“
کیپٹن باجو نے زاکرکا اوپر سے نیچے تک جائزہ کیا اور مشین کےقریب فرش پر نظرڈالی۔
" اور تم کون ہو؟ کیا تم بھی یہاں کام کرتےہو؟“۔ کیپٹن باجو نےاپنی توجہ آخری آدمی کی طرف کی۔
“میں شعب ہوں ۔ میں نے کچھ تھوڑا سننا لیکن صاف نہیں تھا۔ قدرت اور وہ آدمی آفس میں چلےگےاور دروازہ بند کرلیا۔ میں اس کرسی پر وارنش کرنے کے کام میں لگ گیا۔ میں نےایک بھاری لمبے آدمی کو کمرے سےنکلتےدیکھا جوایک گہرے رنگ کی جیکٹ اور جین پہنا تھا۔ وہ تیزی سےدروازے کی طرف بھاگا۔ اور وہ جو کرسی کا پایا کو زمین پر پڑا ہے اس کے ہاتھ سےگرا “۔
ہوا میں وارنش کی بو موجود تھی۔
کرنل قیصرانی نے واپس آ کر علان کیا ؟ “ قاتل اس کمرے میں موجود ہے“
“ وہ کیسے۔ میرا بہی یہ ہی قیاس تھا“ ۔ کیپٹن باجو نےمسکرا کر کہا۔
“ نکڑ پرایک فقیر بیٹھا ہے۔ اس نے اس گلی میں کسی کو آتےیا اس گلی سے کسی کونکلتے نہیں دیکھا۔ گلی کا دوسرا حصہ بند ہے۔ اسلئےاس گلی سےنکلنے کا ایک ہی راستہ ہے“۔ کرنل نے قہقہ لگایا۔
“ اگر یہ بات ہے۔ تو مجھے پتہ ہے کہ قتل کس نے کیا ہے“ کیپٹن نے کرنل کو قہقہ لگانےمیں مات دےدی۔
تینوں میں سےایک آدمی نے جب یہ سننا تو دروازے کی طرف بھاگنے کی کوشش کی۔ کیپٹن باجو نےاپنی ٹانگ آگے بڑھادی۔ قاتل منہ کے بل زمین پرگرا۔ کرنل نےاس کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال دی۔
“ کیا تم کواس پر شبہ تھا“۔ کرنل نے کیپٹن سے پوچھا۔
“ ہاں۔ اور یہ کیس بہت آسان تھا“۔ کیپٹن باجو نےمسکرا کر کہا۔
" وہ کیسے؟" ۔ کرنل نے کہا۔
" تم میری رپورٹ پڑھنا"۔ کیپٹن بولی۔
آفس میں کرنل قیصرانی نے کیپٹن باجو کی رپورٹ پڑھی اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
“ آپ اسمارٹ ہیں کیپٹن“ ۔
" میں تو ہمیشہ سے ہوں۔تم کو یہ معلوم کرنےمیں اتنا عرصہ لگا کرنل، سر، بدھو“۔
“ کیا کہا؟“۔ کرنل نے سوال کیا۔
“ کرنل ، سر، میں نے ، یعنی میں نے، میرا مطلب ہے کہ آپ مہاتماگوتم بدھو لگتے، نہیں نہیں میرا مطلب، میں یہ کہنا چاہ رہی تھی۔ وہ یہ کہ۔۔۔“۔
“ جی، جی میں اچھی طرح سمجھ گیا کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں“۔ کرنل نے کیپٹن باجو کو آنکھ ماری۔
“ شکریہ۔ سر“ کیپٹن نےسر جھکا کر کے کہا۔ مگر دل میں ہنستے ہوئے کہا بُدھو سر ۔
۔۔۔۔
اردومحفل کےدوستوں
یہاں کیپٹن باجو کی رپورٹ میں سے اس واردات سے متعلق ضروری معلومات ہیں۔
کیا باجو کی طرح آپ کو بھی پتہ ہے کہ قاتل کون ہے؟۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں۔ کہ قدرت کا قتل کس نے کیا؟
۔۔۔یہاں کیپٹن باجو کی رپورٹ میں سے اس واردات سے متعلق ضروری معلومات ہیں۔
کیا باجو کی طرح آپ کو بھی پتہ ہے کہ قاتل کون ہے؟۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں۔ کہ قدرت کا قتل کس نے کیا؟