ابراہیم مرزا
محفلین
آداب و دعا !
اک اور خوبصورت غزل ، شاعر کا نام بد قسمتی سے معلوم نہیں ، احباب میں سے کسی کے علم میں تو لازمی آگاہ کریں ۔۔۔
اک اور خوبصورت غزل ، شاعر کا نام بد قسمتی سے معلوم نہیں ، احباب میں سے کسی کے علم میں تو لازمی آگاہ کریں ۔۔۔
کردار مرا کتنے حوالوں پہ کھڑا ہے
اِک لمحہ ہے لیکن کئی سالوں پہ کھڑاہے
اقلیم اُٹھے جاتے ہیں ہر آہ سے میری
اور عرش ِ معلیٰ مرے نالوں پہ کھڑا ہے
تب تاج محل دولتِ شاہی پہ کھڑا تھا
اب تاج محل چاہنے والوں پہ کھڑا ہے
ہر نقطہ ابھی ہے ترے رخسار کا زیور
ہر لمحہ ابھی زہرہ جمالوں پہ کھڑا ہے
ہم تیرے بھروسے پہ نہ ٹھہرے تھے کہیں بھی
پَر تیرا عقیدہ تو مثالوں پہ کھڑا ہے
بوسیدہ ہے کتنی مرے ایماں کی عمارت
شہتیر ِ یقیں مکڑی کے جالوں پہ کھڑا ہے
ٹوٹا ہے کہاں میرے مقدر کا ستارہ
تِل بن کے ابھی تک ترے گالوں پہ کھڑا ہے
اب کوئی مری شب کا نگہبان نہیں ہے
احساس تحفظ مرا تالوں پہ کھڑا ہے
جب اِنکا جواب ایک بھی معلوم نہیں ہے
پھر علم ترا صرف سوالوں پہ کھڑا ہے
اِک لمحہ ہے لیکن کئی سالوں پہ کھڑاہے
اقلیم اُٹھے جاتے ہیں ہر آہ سے میری
اور عرش ِ معلیٰ مرے نالوں پہ کھڑا ہے
تب تاج محل دولتِ شاہی پہ کھڑا تھا
اب تاج محل چاہنے والوں پہ کھڑا ہے
ہر نقطہ ابھی ہے ترے رخسار کا زیور
ہر لمحہ ابھی زہرہ جمالوں پہ کھڑا ہے
ہم تیرے بھروسے پہ نہ ٹھہرے تھے کہیں بھی
پَر تیرا عقیدہ تو مثالوں پہ کھڑا ہے
بوسیدہ ہے کتنی مرے ایماں کی عمارت
شہتیر ِ یقیں مکڑی کے جالوں پہ کھڑا ہے
ٹوٹا ہے کہاں میرے مقدر کا ستارہ
تِل بن کے ابھی تک ترے گالوں پہ کھڑا ہے
اب کوئی مری شب کا نگہبان نہیں ہے
احساس تحفظ مرا تالوں پہ کھڑا ہے
جب اِنکا جواب ایک بھی معلوم نہیں ہے
پھر علم ترا صرف سوالوں پہ کھڑا ہے