ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 106

نایاب

لائبریرین
KarBala%20-%2000108.gif
 

نایاب

لائبریرین
(214)

حسین۔ ہمیشہ کے لئے اس کی پیاس بجھ گئی ۔ ( خون سے چلو بھر کر آسمان کی جانب اچھالتے ہوئے ) ان سب بدعتوں کا گواہ خدا ہے ۔ اب کون ہے جو ظالموں سے اس خون کا بدلہ لے ۔
( حضرت سجاد چارپائی سے اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے میدان کی جانب چلتے ہیں ۔)
زینب۔ ارے بیٹا ۔ تم میں تو کھڑے ہونے کی بھی تاب نہیں مہینوں سے تو آنکھیں نہیں کھولیں ۔ تم کہاں جاتے ہو ۔ ؟
سجاد۔ بستر پر مرنے سے میدان میں مرنا بہتر ہے ۔ جب سب جنت کو سدھار چکے تو میں یہاں کیوں پڑا رہوں ۔ ؟
حسین۔ بیٹا خدا کے لئے باپ کے اوپر رحم کرو ۔ واپس آ جاؤ ۔ رسول کی تم ہی ایک نشانی رہ گئے ہو ۔ تمہارے ہی اوپر عورتوں کی حفاظت کا بار ہے ۔ آہ ۔ اور کون ہے جو اس فرض کو ادا کرے گا ۔ تم ہی میرے جان نشین ہو ۔ان سب کو تمہارے حوالے کرتا ہوں ۔ خدا حافظ ۔ اے زینب ، اے کلثوم ، اے سکینہ ، تم سب میرا سلام قبول کرو کہ یہ آخری ملاقات ہے ۔
( زینب روتی ہوئی حسین سے لپٹ جاتی ہیں ۔ )
حسین۔ زینب :
مر کر بھی نہ بھولوں گا میں احسان تمہارے
بیٹوں کو بھلا کون بہن ہے بھائی پہ وارے
پیارا نہ کیا ان کو جو تھے جان سے پیارے
بس ماں کی محبت کے یہ انداز ہیں سارے
فاقے میں ہمیں برچھیاں کھانے کی رضا دو

(215)

بس اب یہی الفت ہے کہ جانے کی رضا دو ۔
ہمشیرہ کا غم ہے کس بھائی کو گوارہ
آباد رہے لیکن اسد اللہ کا پیار ا
رنج اور مصیبت سے کلیجہ ہے دوپارا
کس سے کہوں جیسا مجھے صدمہ ہے تمہارا
اس گھر کی تباہی کے لئے روتا ہے شبیر
تم چھٹتی نہیں ماں سے جدا ہوتا ہے شبیر
( ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں )
یارب ہے یہ سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے
بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے
سب ہیں مرے دریا کے گہر تیرے حوالے
( میدان کی طرف جاتے ہیں ۔)
شمر۔ ( فوج سے ) خبردار ۔ خبردار ۔ حسین آئے ۔ سب کے سب سنبھل جاؤ اور سمجھ لو اب میدان تمہارا ہے ۔
( حضرت حسین فوج کے سامنے کھڑے ہو کر کہتے ہیں )
بیٹا ہوں علی کا و نواسا رسول کا
ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج
باپ ایسا صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج
بیٹا ہوں علی کا و نواسا رسول کا
لڑنے کو اگر حیدر و صفدر نہ نکلتے
بت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے ۔
بیٹا ہوں علی کا و نواسہ رسول کا
 
Top