محسن احمد محسن
محفلین
کج کلاہی کچھ نہیں ہے ہم نشیں کے سامنے
سُر مگیں ہے چاند بھی اُس مہ جبیں کے سامنے
-
اِک فلک پر ہے کھڑا تو بام پر ہے دوسرا
دوسرا بھی کم نہیں ہے چودھویں کے سامنے
-
عرضِ دل ہے منتظر اُس کی توجہ کی مگر
کب کھلا ہے راستہ اُس کی نہیں کے سامنے
-
چشمِ ساقی کہہ رہی ہے مے کشی کو دیکھ کر
یوں لگے ہے بہ رہا ہو غم حزیں کے سامنے
-
گرم رو اُس دشت میں بھی یک بہ یک چلنے لگی
ایک دریا تھا رواں جس سر زمیں کے سامنے
-
گو تلاشی گُل کے ہیں سب گُل صبا کے دوش پر
خار کھلتے جا رہے ہیں گُل نشیں کے سامنے
-
یہ عبادت کا ثمر تھا یا خدائی کا یقیں
آپ کعبہ جھک رہا تھا خم جبیں کے سامنے
-
خاک میں جو مل رہی ہے اِک حیاتِ جاوداں
خاک پھیلے جا رہی ہے خاک بیں کے سامنے
-
جب مکرنے سے رہا تو پھر کیا اقرار بھی
"ہاں" اگر چہ ہے مگر اب ہے "نہیں" کے سامنے
-
سب مراسم توڑ کر، وہ جا رہا ہے چھوڑ کر
خم کھڑا ہے آج محسؔن اِک مکیں کے سامنے
-
محسؔن احمد
سُر مگیں ہے چاند بھی اُس مہ جبیں کے سامنے
-
اِک فلک پر ہے کھڑا تو بام پر ہے دوسرا
دوسرا بھی کم نہیں ہے چودھویں کے سامنے
-
عرضِ دل ہے منتظر اُس کی توجہ کی مگر
کب کھلا ہے راستہ اُس کی نہیں کے سامنے
-
چشمِ ساقی کہہ رہی ہے مے کشی کو دیکھ کر
یوں لگے ہے بہ رہا ہو غم حزیں کے سامنے
-
گرم رو اُس دشت میں بھی یک بہ یک چلنے لگی
ایک دریا تھا رواں جس سر زمیں کے سامنے
-
گو تلاشی گُل کے ہیں سب گُل صبا کے دوش پر
خار کھلتے جا رہے ہیں گُل نشیں کے سامنے
-
یہ عبادت کا ثمر تھا یا خدائی کا یقیں
آپ کعبہ جھک رہا تھا خم جبیں کے سامنے
-
خاک میں جو مل رہی ہے اِک حیاتِ جاوداں
خاک پھیلے جا رہی ہے خاک بیں کے سامنے
-
جب مکرنے سے رہا تو پھر کیا اقرار بھی
"ہاں" اگر چہ ہے مگر اب ہے "نہیں" کے سامنے
-
سب مراسم توڑ کر، وہ جا رہا ہے چھوڑ کر
خم کھڑا ہے آج محسؔن اِک مکیں کے سامنے
-
محسؔن احمد
آخری تدوین: