کبھی ساحل تو کبھی سیل ِ خطر ٹھہرے گی : از سیدہ سارا غزل ہاشمی

کبھی ساحل تو کبھی سیل ِ خطر ٹھہرے گی
بحر ِ ہستی میں اگر موج ِ سفر ٹھہرے گی

ورطہء شب سے نکل آئی اگر کشتیء صبح
ساحل ِ نور پہ ٹھہرے گی اگر ٹھہرے گی

سینہء حسن میں پوشیدہ ہے جو آگ ابھی
تیشہء عشق سے گلرنگ سحر ٹھہرے گی

کشتیء جاں کو سلامت نہ اگر لے کے گئی
بیکلی دل کے سمندر کا بھنور ٹھہرے گی

ہم سر ِ شام چراغوں میں تجھے دیکھیں گے
اب کسی گل پہ نہ تارے پہ نظر ٹھہرے گی

دل کی فریاد کو لازم ہے خموشی ہی غزل
ورنہ اس دہر میں یہ کار ِ ہنر ٹھہرے گی

سیدہ سارا غزل ہاشمی
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوبصورت شعر ہے یہ۔

ہم سر ِ شام چراغوں میں تجھے دیکھیں گے
اب کسی گل پہ نہ تارے پہ نظر ٹھہرے گی
 

زلفی شاہ

لائبریرین
ورطہ شب سے اگر نکل آئی اگر کشتی صبح
ساحل نور پہ ٹھہرے گی اگر ٹھہرے گی
بہت ہی خوبصورت غزل کا لاجواب شعر۔ سیدہ بہنا ! بہت ساری داد قبول فرمائیے۔
 
غزل پسند کرنے کے لئے سر خلیل الرحمن، سر صبیح الدین شعیبی، بھیا سید زلفی، سر شمشاد صاحب، بھیا الف نظامی کا بیحد شکریہ
 
Top