کبھی جنوب کی جانب ، کبھی شمال میں ہوں۔عزیز نبیل

کبھی جنوب کی جانب ، کبھی شمال میں ہوں
کئی دنوں سے ستاروں کی الٹی چال میں ہوں
.........
یہاں سے نکلوں تو پھر راستہ نظر آئے
ابھی تو الجھا ہوا روشنی کے جال میں ہوں
.......
ہتھیلیوں سے لکیریں نکلتی جاتی ہیں
یوں لگ رہا ہے کسی خطّۂ زوال میں ہوں
.......
وہ ایک لمحہ جو آیا نہیں ابھی مجھ تک
میں آج کل اسی لمحے کی دیکھ بھال میں ہوں
........
مجھے بلاتی ہے اک انتظار کی کشتی
مگر میں موج ہوں دریا کی اور اچھال میں ہوں
........
یہ تم نہیں ہو تو پھر کون مجھ میں رہتا ہے
بہت دنوں سے مسلسل اسی خیال میں ہوں
........
خبر نہیں ہے کہ کب تک قیام ہوگا یہاں
رکا ہوا کسی چہرے کے خدّوخال میں ہوں
.........
سبب پتہ نہیں،بس اتنا جانتا ہوں نبیلؔ
بہت اداس ہوں اور موسمِ ملال میں ہوں

( عزیز نبیل ✒ )
 
Top