کانچ کے اس شہر میں کوئی بھی شیشہ گر نہیں

La Alma

لائبریرین
کانچ کے اس شہر میں کوئی بھی شیشہ گر نہیں
کیا کریں گے مے کا جو پیمانہ و ساغر نہیں

جس کا ہونا ہے اٹل، ہوتا وہی اکثر نہیں
عہدِ حاضر بھی تو ہر موجود کا مظہر نہیں

ایک نقطے میں کئی عالم سمٹ کر رہ گئے
آنکھ سے بڑھ کر کہیں بھی کثرتِ منظر نہیں

دائروں کی حد میں ہیں، سب ممکناتِ شش جہات
جو بھی ناممکن ہے وہ امکان سے باہر نہیں

اک قیامت کی بلاخیزی ہے اس فریاد میں
گریۂ افلاک ہے یہ، شورشِ محشر نہیں

ہے اسی کے دم سے المٰیؔ زیست کا ہر ایک بوجھ
جان لیجے! جان سے بھاری کوئی پتھر نہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک نقطے میں کئی عالم سمٹ کر رہ گئے
آنکھ سے بڑھ کر کہیں بھی کثرتِ منظر نہیں​

بہت خوب! کیا ہی اعلی شعر ہے۔ یعنی یہ نقطہ singularity والا ہے جس سے مناظر نکل کر کائنات میں پھیل گئے۔ اور پھر اس نقطہ کو آنکھ سے تشبیہ دینا۔ واہ واہ
 

سیما علی

لائبریرین
اک قیامت کی بلاخیزی ہے اس فریاد میں
گریۂ افلاک ہے یہ، شورشِ محشر نہیں
اک قیامت کی بلاخیزی ہے اس فریاد میں
گریۂ افلاک ہے یہ، شورشِ محشر نہیں
واہ واہ
ڈھیروں داد. ہر شعر لاجواب ۔جیتی رہیے۔المی صاحبہ ۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ۔

ہے اسی کے دم سے المٰیؔ زیست کا ہر ایک بوجھ
جان لیجے! جان سے بھاری کوئی پتھر نہیں
کیا اچھا کہا ہے!

گراں بارِ خاطر نہ ہو تو دو اشعار کے بارے میں بطور نقد و نظر کچھ عرض کروں گا۔
کانچ کے اس شہر میں کوئی بھی شیشہ گر نہیں
کیا کریں گے مے کا جو پیمانہ و ساغر نہیں
کانچ کے شہر میں تو ہر چیز کانچ کی بنی ہوئی ہوتی ہے چنانچہ اس میں کسی بھی شیشہ گر کا نہ ہونا قرینِ حقیقت نہیں۔ بلکہ کانچ کے شہر میں تو میں شیشہ گروں کا ہونا لازم آتا ہے۔ میری ناقص رائے میں اسے یوں کرلیجیے:
پتھروں کے شہر میں کوئی بھی شیشہ گر نہیں
کیا کریں گے مے کا جو پیمانہ و ساغر نہیں
پتھروں کا شہر کہنے سے اہلِ شہر کی بے حسی اور خود غرضی کا رویہ بھی ظاہر ہوتا ہے جس سےشعر کے معنی میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔

اک قیامت کی بلاخیزی ہے اس فریاد میں
گریۂ افلاک ہے یہ، شورشِ محشر نہیں
فلک فریاد نہیں کرتا بلکہ فلک سے تو فریاد کی جاتی ہے۔ اردو اور فارسی شاعری میں فلک قدرت اور قسمت کا استعارہ ہے ۔اس لیے فلک یا آسمان سے فریاد اور شکوہ وغیرہ کیا جاتا ہے۔ اس مصرع کو یوں کردیکھیے:
اک قیامت کی بلاخیزی ہے اس فریاد میں
گریۂ آفاق ہے یہ ، شورشِ محشر نہیں
 

La Alma

لائبریرین
ایک نقطے میں کئی عالم سمٹ کر رہ گئے
آنکھ سے بڑھ کر کہیں بھی کثرتِ منظر نہیں​

بہت خوب! کیا ہی اعلی شعر ہے۔ یعنی یہ نقطہ singularity والا ہے جس سے مناظر نکل کر کائنات میں پھیل گئے۔ اور پھر اس نقطہ کو آنکھ سے تشبیہ دینا۔ واہ واہ
قدر افزائی کے لیے ممنون ہوں۔
 

La Alma

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ۔

ہے اسی کے دم سے المٰیؔ زیست کا ہر ایک بوجھ
جان لیجے! جان سے بھاری کوئی پتھر نہیں
کیا اچھا کہا ہے!
سپاس گزار ہوں۔
کانچ کے شہر میں تو ہر چیز کانچ کی بنی ہوئی ہوتی ہے چنانچہ اس میں کسی بھی شیشہ گر کا نہ ہونا قرینِ حقیقت نہیں۔ بلکہ کانچ کے شہر میں تو میں شیشہ گروں کا ہونا لازم آتا ہے۔ میری ناقص رائے میں اسے یوں کرلیجیے:
پتھروں کے شہر میں کوئی بھی شیشہ گر نہیں
کیا کریں گے مے کا جو پیمانہ و ساغر نہیں
پتھروں کا شہر کہنے سے اہلِ شہر کی بے حسی اور خود غرضی کا رویہ بھی ظاہر ہوتا ہے جس سےشعر کے معنی میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔
کہیں کسی شے کی بہتات ہوتی ہے لیکن اسکی تراش خراش کر کے اسے ایک خوبصورت سانچے میں ڈھالنے والا کوئی صورت گر نہیں ہوتا۔ کثرت کے باوجود اس شے کے ضائع ہونے کا احتمال رہتا ہے۔
فلک فریاد نہیں کرتا بلکہ فلک سے تو فریاد کی جاتی ہے۔ اردو اور فارسی شاعری میں فلک قدرت اور قسمت کا استعارہ ہے ۔اس لیے فلک یا آسمان سے فریاد اور شکوہ وغیرہ کیا جاتا ہے۔ اس مصرع کو یوں کردیکھیے:
اک قیامت کی بلاخیزی ہے اس فریاد میں
گریۂ آفاق ہے یہ ، شورشِ محشر نہیں
حشر تو تب ہی اٹھے گا جب کوئی خلافِ معمول واقعہ ہو گا ۔ حتٰی کہ افلاک بھی چیخ اٹھیں گے۔
بہرحال یہ تو ان اشعار کا پس منظر تھا۔ اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو آپکےنکات بھی قابلِ غور ہیں۔ رہنمائی فرماتے رہیے گا۔ بہت نوازش۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
خوبصورت غزل، ماشاللہ!
ڈھیروں داد قبول کیجیے۔۔
بہت عمدہ!
ایک نقطے میں کئی عالم سمٹ کر رہ گئے
آنکھ سے بڑھ کر کہیں بھی کثرتِ منظر نہیں
 
Top