قیصرانی
لائبریرین
وہ پاگلوں کی طرح کار ڈرائیو کر رہی تھی۔ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا ہوا تھا نتھنے غصے کی زیادتی کی وجہ سے پھول پچک رہے تھے۔ پیشانی پر سلوٹیں تھیں۔۔۔ اور آنکھیں سرخ۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کار ہی سے اس کی شان میں کوئی گستاخی سرزد ہوئی ہو۔ اسی لئے رگڑے ڈال رہی ہو بیچاری کو۔۔۔!
سڑک خطرناک تھی۔ پہاڑی علاقوں کی سڑکیں عام طور پر ایسی ہی ہوتی ہیں۔ چکر دار۔۔۔۔ جن کی ایک جانب ہیبت ناک گہرائیاں ہوتی ہیں۔
لیکن وہ تو اس طرح ڈرائیو کر رہی تھی جیسے کسی میدان میں تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑ رہی ہو۔
خوش شکل بھی رہی ہوگی لیکن اس وقت تو غضب ناکی نے خدوخال کی بناوٹ ہی بگاڑ کر رکھ دی تھی۔۔۔ بال کھلے ہوئے تھے اور ایک سرکش لٹ بار بار اڑ کر چہرے پر آ رہتی۔۔۔ جین اور جیکٹ میں ملبوس تھی۔! سینے پر کارتوسوں کی پیٹی تھی اور ہولسٹر میں ریوالور موجود تھا۔!
سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی بستی میں ہوا۔۔۔ قہوہ خانے کے سامنے اس نے گاڑی روکی تھی۔
انجن بند کر کے نیچے اتری۔۔۔ چند لمحے خاموش کھڑی قہوہ خانے کے صدر دروازے کو گھورتی رہی۔ پھر آندھی اور طوفان کی طرح قہوہ خانے میں داخل ہوئی تھی۔! چوبی فرش پر اس کے وزنی جوتے ایسے دھمک پیدا کر رہے تھے جیسے دوسروں کا سکون غارت کرنا اس کے بنیادی حقوق میں شامل ہو۔
اسے دیکھتے ہی ایک آدمی کاؤنٹر کے پیچھے سے نکلا تھا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تھی۔
"چلی جاؤ۔۔۔ خدا کے لئے اس وقت چلی جاؤ۔!" اس نے خوف زدہ انداز میں سرگوشی کی تھی۔!
"بکواس بند کرو۔۔۔!" وہ پیر پٹخ کر دھاڑی۔۔۔ "مجھے بتاؤ کہ وہ بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔!"
"تمہارے لئے بھی خطرہ ہے۔۔۔ چلی جاؤ۔۔۔!" اس نے مڑ کر کاؤنٹر کی طرف دیکھا تھا۔
لڑکی کی نظر بھی ادھر ہی اٹھ گئی۔۔۔!
"کاؤنٹر کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟" اس نے آہستہ سے پوچھا تھا۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ ریوالور کے دستے پر جا ٹکا تھا۔
"میں کہتا ہوں چلی جاؤ۔۔۔!"
"کیا تمہاری شامت آئی ہے۔۔۔! میں نے پوچھا تھا کہ کاؤنٹر کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟"
"وہ دونوں رک گئے ہیں۔ عقبی کمرے میں ہیں۔۔۔!"
"کون دونوں۔۔۔!"
"طارق اور جواد۔۔۔! میں کہتا ہوں یہاں سے چلی جاؤ۔!"
"میں نے پوچھا تھا کہ وہ بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔!"
"رب العزت کی قسم۔۔۔! میں نہیں جانتا۔۔۔ وہی دونوں جانتے ہوں گے۔ ان کے ساتھ تھے۔۔۔ نہ جانے کیوں یہاں رک گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے۔۔۔ تمہارے ہی لئے رکے ہوں۔۔۔ چلی جاؤ۔۔۔ پھر کہتا ہوں چلی جاؤ۔۔۔!"
اس نے پھر خوف زدگی کے ساتھ کاؤنٹر کی طرف دیکھا تھا۔
"تو وہ جانتے ہوں گے کہ بابا کو کہاں لے جایا گیا ہے۔۔۔!" لڑکی نے سوال کیا۔
"جب ساتھ تھے تو ضرور ہی جانتے ہوں گے۔۔۔!"
"اور تم مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔!"
"فی الحال عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے۔!"
"اور تم ان لوگوں کے مقابلے میں بابا کے ہمدرد ہو۔۔۔!"
"یقیناً ہوں۔۔۔!" وہ آہستہ سے بولا "لیکن تمہارے علاوہ اور کسی کے سامنے اعتراف کی جرآت نہیں رکھتا۔!"
"اچھی بات ہے تو پھر ہٹ جاؤ میرے راستے سے۔۔۔! میں انہی دونوں سے معلوم کروں گی۔!"
"تم سمجھتی کیوں نہیں۔۔۔!" اس نے چاروں طرف دیکھ کر بے بسی سے کہا۔ اس دوران میں قہوہ خانے کی ساری میزیں خالی ہو گئی تھیں۔ لوگ خطرے کی بو سونگھتے ہی ایک ایک کر کے کھسک گئے تھے۔!
"اچھی بات ہے۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔۔!" لڑکی نے آہستہ سے کہا۔ وہ کنکھیوں سے کاؤنٹر کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ کاؤنٹر کے پیچھے دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا۔۔۔ اور اس آدمی کی شکل صاف نظر آئی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا اور پھر وہ تیزی سے باہر آ گیا۔
لڑکی صدر دروازے کی طرف مڑی ہی تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا کر دھاڑا۔۔۔!
"ٹھہرو۔۔۔!"
لڑکی پلٹ پڑی لیکن اس کا ریوالور ہولسٹر سے نکل آیا تھا اور اس کی نال آواز دے کر روکنے والے کے سینے کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
قہوہ خانے کا مالک تھوک نگل کر رہ گیا۔
کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے آدمی نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے۔ لڑکی اس کے دل کا نشانہ لئے آہستہ آہستہ کاؤنٹر کی طرف بڑھتی رہی قہوہ خانے کا مالک جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے۔
"بابا کہاں ہیں۔۔۔؟" لڑکی نے کاؤنٹر کے قریب پہنچ کر تیز قسم کی سرگوشی کی۔!
"تم فائر نہیں کر سکتیں۔!" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"میری بات کا جواب نہ دے کر دیکھو۔۔۔!"
"میں نہیں جانتا۔۔۔!"
"تم جھوٹے ہو۔۔۔؟ بتاؤ۔۔۔!" لڑکی نے کہا اور پھر کسی قدر ترچھی ہو کر فائر کر دیا لیکن شکار وہ آدمی تھا جس نے دروازے کی اوٹ سے لڑکی پر فائر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ پڑا۔
وہ آدمی جس نے ہاتھ اٹھا رکھے تھے بوکھلا کر ایک طرف ہٹ گیا تھا۔
"جیسے ہو۔۔۔ ویسے ہی کھڑے رہو۔۔۔!" لڑکی ڈپٹ کر بولی اور کاؤنٹر کے پیچھے والا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند ہو گیا اور بولٹ سرکنے کی آواز بھی آئی تھی۔
لڑکی اس آدمی کو کور کئے ہوئے کاؤنٹر کے پیچھے آئی اور جھک کر ریوالور اٹھا لیا۔۔۔ ریوالور کے قریب ہی اسے خون کی بوندیں بھی نظر آئی تھیں۔۔۔!
"صدر دروازہ بند کر دو۔۔۔!" لڑکی نے قہوہ خانے کے مالک سے کہا۔
اس نے چپ چاپ تعمیل کی تھی۔
"اب میرے دونوں ہاتھوں میں ریوالور ہیں۔!" لڑکی نے اونچی آواز میں کہا۔ "ایک کا رخ دروازے کی طرف ہے اور دوسرے کا طارق کی طرف۔۔۔ بہتری اسی میں ہے جواد کہ باہر آ جاؤ۔۔۔ اور مجھے بتاؤ کہ تمہارے ساتھی بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"
اس کی آواز سناٹے میں گونج کر رہ گئی۔۔۔ لیکن کہیں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔
"جواد زخمی ہو گیا ہے۔۔۔!" لڑکی نے طارق سے کہا۔ "یہ رہیں خون کی بوندیں، میں تمہیں بھی زندہ نہ چھوڑوں گی ورنہ بابا کا پتہ بتا دو۔!"
"مم۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔!"
"تم دونوں یہاں کیوں رک گئے تھے۔۔۔!"
"بب۔۔۔ بس یونہی۔۔۔!"
قہوہ خانے کا مالک دروازہ بند کر کے وہیں رک گیا تھا۔ لیکن اب اس کے چہرے پر ہیجان یا انتشار کی علامات نہیں تھیں۔ بڑے سکون کے ساتھ اس سچویشن کا تماشائی بنا ہوا تھا۔
"اچھی بات ہے تو مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں بخشوں گی جو بابا کی پریشانی کا باعث بنے ہیں۔!" لڑکی نے طارق سے کہا۔
"تیرے بابا نے غداری کی تھی۔۔۔!" اندر سے کراہتی ہوئی سی آواز آئی۔
"باہر نکل کر بات کیوں نہیں کرتا کتے۔۔۔ اگر تو بابا کی غداری ثابت کر سکا تو میں تجھے معاف کر دوں گی۔!"
"تم پچھتاؤ گی زینو۔۔۔!" طارق بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"دیکھا جائے گا۔۔۔ تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو جواد کو میرے سامنے بلاؤ۔۔۔!"
"مم۔۔۔ میں کیسے بلاؤں۔۔۔!"
"جواد باہر نکل کر بات کرو۔۔۔!" لڑکی دھاڑی۔۔۔ لیکن اس بار اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔
زینو نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے سوچا کہیں وہ فرار نہ ہو گیا ہو۔
"طارق۔۔۔! آگے بڑھو اور دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ۔!" اس نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
"تم ضرور پچھتاؤ گی۔۔۔!" کہتا ہوا دیوار کی طرف مڑ گیا۔ زینو نے ایک ریوالور ہولسٹر میں ڈال دیا اور دوسرے سے طارق کو کور کئے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔ وہ دیوار سے لگا کھڑا تھا۔
اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکال لینے کے بعد اپنے ریوالور کے دستے سے اس کی گردن پر ضرب لگائی تھی۔
طارق لڑکھڑاتا ہوا فرش پر آ رہا۔
"رب العزت کی قسم تو بڑے دل گردے والی ہے۔۔۔!" قہوہ خانے کے مالک نے کہا جو اب کاؤنٹر کے قریب کھڑا ہوا تھا۔
"کیا وہ دوسری طرف سے نکل گیا ہوگا۔!" زینو نے بیہوش طارق پر سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
"ادھر کی کھڑکی کی سلاخیں نہیں ہیں۔!" جواب ملا۔
"اوہ۔۔۔ تب تو ضرور نکل گیا ہوگا۔!"
"میں دیکھوں جا کر۔۔۔!"
"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ میں ادھر ہی ٹھہروں گی۔ کہیں یہ بھی ہوش میں آ کر کھسک نہ جائے۔!"
"مجھے اس کے لئے جواب دہی کرنی پڑے گی۔!"
"ہاں۔۔۔ یہ بات تو ہے۔۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔ میں جا رہی ہوں تم اسے دیکھو۔۔۔ پھر میں کوئی ایسی تدبیر کروں گی کہ تم جواب دہی سے بچ جاؤ۔!"
وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ قہوہ خانے سے تھوڑے فاصلے پر بھیڑ لگ گئی تھی۔! اس نے ان لوگوں پر اچٹتی ہوئی سی نظر ڈالی تھی اور ریوالور والا ہاتھ اٹھا کر بولی تھی "اگر کسی نے ادھر آنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔!"
جو جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔۔۔ وہ چکر کاٹ کر قہوہ خانے کی پشت پر پہنچی۔
کھڑکی کھلی نظر آئی۔ اس کے نیچے دیوار پر خون کی لکیریں تھیں۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ کھڑکی ہی کی طرف سے کمرے میں داخل ہوئی اور کھڑکی بند کر کے سٹکنی لگا دی۔۔۔ یہاں بھی فرش پر کئی جگہ خون کے تازہ دھبے تھے۔! دروازہ کھول کر وہ پھر ہال میں پہنچ گئی۔ طارق بدستور اوندھا پڑا ہوا نظر آیا۔ ابھی تک ہوش میں نہیں آیا تھا۔
"باہر بھیڑ لگ گئی ہوگی۔!" قہوہ خانے کے مالک نے پوچھا۔
زینو نے سر کی جنبش سے اعتراف کیا تھا اور طارق کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
"جاؤ دروازہ بند کر کے بولٹ کر دو۔۔۔!" اس نے کچھ دیر بعد قہوہ خانے کے مالک سے کہا۔! وہ پر تفکر انداز میں دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
واپسی پر زینو سے بولا۔ "مجھے یقین آ گیا ہے کہ طارق نہیں جانتا۔! جواد کو علم تھا جو فرار ہو گیا۔۔۔!"
"مجھ سے بچ کر کہاں جائے گا۔۔۔ یہاں ان کی کوئی گاڑی تو نہیں تھی۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔ یہ دونوں کل صبح تک بستی میں ہی قیام کرنے والے تھے۔ کل ان کے لئے گاڑی آتی!"
"ٹھیک ہے۔۔۔! میں تمہیں کرسی سے باندھ جاؤں گی اور تم جواب دہی سے بچ جاؤ گے۔۔۔!"
"زینو۔۔۔ تم تنہا کچھ نہیں کر سکتیں۔!"
"تو پھر یہاں کون میرا ساتھ دے گا۔!"
قہوہ خانے کا مالک کچھ نہ بولا۔ زینو نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ "اس لئے مجھے ہی سب کچھ کرنا ہے۔!"
"تم کیا کرو گی۔۔۔؟"
"جو کچھ بھی بن پڑے گا۔۔۔! بابا کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔!"
"سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا۔۔۔؟"
"وہ کہہ رہا تھا کہ بابا نے غداری کی تھی۔!"
"میں سوچ بھی نہیں سکتا۔!"
زینو پھر بیہوش آدمی کی طرف دیکھنے لگی تھی۔۔۔ قہوہ خانے کا مالک کہیں سے موٹی ڈور کا ایک لچھا نکال لایا۔ پہلے بیہوش طارق کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔ پھر اس نے خود بھی اپنے ہاتھ پیر بندھوائے تھے اور زینو سے بولا تھا۔ "اب کیا کرو گی۔۔۔!"
"جواد کو تلاش کروں گی۔۔۔!"
"بستی والوں سے ہوشیار رہنا۔۔۔ سرخروئی حاصل کرنے کے لئے وہ تم پر پیچھے سے بھی وار کر سکتے ہیں۔!"
"تم بے فکر رہو۔۔۔!" اس نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
باہر نکلی تھی۔۔۔ بھیڑ اب بھی موجود تھی۔ لیکن کسی نے بھی اس کی طرف بڑھنے کی جرآت نہیں کی تھی۔! وہ اپنی گاڑی میں آ بیٹھی۔۔۔! طارق کی کارتوس کی پیٹی سے سارے کارتوس نکال لائی تھی اور دونوں ریوالور بھی اسی کے قبضے میں تھے۔
گاڑی اسٹارٹ کر کے ایک بار پھر وہ قہوہ خانے کی پشت پر آئی تھی اور گاڑی سے اتر کر کھڑکی کے قریب پہنچی تھی اور زمین پر خون کی بوندوں کی تلاش شروع کر دی تھی۔
پتھریلی اور شفاف زمین پر یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا۔ تھوڑی دور تک خون کی بوندیں نظر آتی رہیں۔۔۔ پھر یک بیک غائب ہو گئی تھیں۔۔۔!
چاروں طرف دور دور تک دیکھ آئی لیکن خون کی ایک بوند بھی کہیں نہ دکھائی دی۔
آخر اس جگہ سے وہ کہاں غائب ہو گیا۔۔۔! آس پاس کوئی ایسی پناہ گاہ بھی نہ دکھائی دی جہاں اس کے چھپ رہنے کا امکان ہوتا۔
وہ پھر گاڑی کی طرف پلٹ آئی۔ اتنے میں قہوہ خانے کی عقبی کھڑکی کھلی تھی اور زینو نے بڑی پھرتی سے ریوالور نکال لیا تھا۔۔۔!
کھڑکی میں ایک چہرہ نظر آیا۔۔۔ بستی ہی کا کوئی فرد تھا۔۔۔۔! چہرہ شناسا لگ رہا تھا۔!
"تم نے اچھا نہیں کیا لڑکی۔۔۔!" وہ بھاری بھرکم آواز میں بولا۔
"دونوں زندہ ہیں۔۔۔! مر نہیں گئے!" زینو نے لاپرواہی سے کہا۔
"اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا۔!"
"اتنا طاقت ور نہیں معلوم ہوتا کہ جلد ہوش میں آ جائے۔!"
"تم جانتی ہو اس کا انجام کیا ہوگا۔!"
"تم ہی بتاؤ اگر نہیں جانتی۔۔۔!"
"پوری بستی پر عذاب نازل ہوگا۔!"
"وہ میرے بابا کو پکڑ کر کہیں لے گئے ہیں۔ طارق اور جواد ان کے ساتھ تھے۔!"
"مجھے معلوم ہے۔۔۔!"
"کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"
"یہ میں نہیں جانتا۔۔۔! وہ بستی ہی سے گذرے تھے اسی لئے سب کو اس کا علم ہے۔۔۔! اور اب جتنی جلد ممکن ہو یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ ورنہ اگر ہوش میں آنے کے بعد طارق نے بستی والوں کو تمہارے خلاف اکسایا تو وہ اس کا کہا ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔!"
"میں چلی جاؤں گی۔۔۔ لیکن یہی بتا دو کہ جواد کہاں غائب ہو گیا۔۔۔!"
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر سامنے والی پہاڑیوں کی طرف انگلی اٹھائی تھی۔
"تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔۔! میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔۔۔!" کہتی ہوئی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور گاڑی تیر کی طرح سڑک کی جانب روانہ ہوئی تھی۔
شائد وہ سمجھ گئی تھی کہ جواد نے کہاں پناہ لی ہوگی۔۔۔ چھینے ہوئے ریوالور اس نے ڈیش بورڈ کے ایک خانے میں رکھ کر اسے مقفل کر دیا تھا۔! کچھ دور۔۔۔ سڑک پر چلنے کے بعد اس نے گاڑی کو بڑی احتیاط سے ایک ڈھلان میں اتارنا شروع کیا تھا اور بالآخر اس میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔۔۔ ایک مسطح جگہ کا انتخاب کر کے گاڑی وہیں روکی اور انجن بند کر دیا۔
بے حد پرسکون نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس مہم کی کامیابی پر پوری طرح یقین ہو۔۔۔! گاڑی کو مقفل کر کے دوسری جانب والی چڑھائی طے کرنے لگی تھی۔۔۔ آنکھیں کسی ایسے درندے کی آنکھوں سے مشابہہ نظر آ رہی تھیں جو شکار کرنے نکلا ہو۔
چٹان کی انتہائی بلندی پر پہنچ کر وہ سینے کے بل لیٹ گئی تھی اور کہنیوں پر زور ڈال کر آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی چٹان کے دوسرے سرے کی جانب بڑھنے لگی۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ ہوا میں خنکی پیدا ہو گئی تھی لیکن چٹان ابھی تک تپ رہی تھی۔
دوسرے سرے پر پہنچ کر اس نے نشیب میں جھانکا۔۔۔ دور دور تک کوئی نہ دکھائی دیا۔ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں تشویش کے آثار ابھر آئے۔۔۔ بڑی دیر تک اسی حالت میں بے حس و حرکت پڑی رہی۔ پھر اس طرف کی ڈھلان میں اترنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ نیچے بائیں جانب والی دراڑ سے ایک آدمی برآمد ہوا اور وہیں ایک بڑے پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
زینو کی آنکھوں میں پہلے ہی کی سی چمک پھر عود کر آئی۔ تنفس کسی قدر تیز ہو گیا۔
اسی طرح کہنیوں کے بل کھسکتے ہوئے اس نے ایک لمبا چکر لیا اور اس کی لاعلمی میں عین اس کے سر پر جا پہنچی۔
"جنبش نہ کرنا اپنی جگہ سے۔۔۔!" اس نے ہولسٹر سے ریوالور نکال کر اس کے سر کا نشانہ لیتے ہوئے کہا۔!
وہ اچھل پڑا اور منہ اٹھا کر آواز کی سمت دیکھنے لگا۔
سب سے پہلے ریوالور کی نال پر ہی نظر پڑی ہوگی۔۔۔! بے حس و حرکت بیٹھا رہ گیا۔!
پھر زینو ایک ہی جست میں اس کے سامنے جا پہنچی تھی۔
"تم آخر ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو۔۔۔!" جواد اپنا زخمی ہاتھ بائیں ہاتھ سے دباتے ہوئے کراہا۔ "ہمیں جو حکم ملا تھا۔۔۔!"
"بس۔۔۔!" زینو غرائی۔ "مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔! میں نے صرف یہ معلوم کرنا چاہا تھا کہ بابا کو کہاں لے جایا گیا ہے۔۔۔؟"
جواد تھوک نگل کر رہ گیا۔!
"لیکن اب اس سے پہلے تمہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ بابا غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔"
"ہمیں یہی بتایا گیا تھا۔۔۔!"
"یہ تو ثبوت نہ ہوا۔۔۔!"
"پھر کیا کہوں۔۔۔!"
"یہی کہ ایسی کوئی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالو جس کا کوئی ٹھوس ثبوت تمہارے پاس نہ ہو۔!"
جواد کچھ نہ بولا۔۔۔ زینو چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر بولی۔ "یقین کرو اگر تم نے زبان نہ کھولی تو میں تمہیں سسکا سسکا کر ماروں گی۔!"
"ہمیں حکم ملا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو انہیں کہکشاں پہنچا دیں۔!"
"اور تم لوگ ان کی بے خبری میں حملہ آور ہوئے تھے۔!"
"پھر کیا کرتے جابر خان کو للکارنا آسان تو نہیں اور میں نے تو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔!"
"ان کے سر پر ضرب کس نے لگائی تھی۔!"
"داراب نے۔۔۔!"
"تم دونوں یہاں کیوں رک گئے تھے۔!"
"اس لئے کہ کسی طرح تمہیں بھی کہکشاں لے جایا جائے۔!"
"تم لوگوں کو یقین تھا کہ اس کا علم ہوتے ہی میں تعاقب کروں گی۔!"
جواد نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔۔۔ اور ہولے ہولے کراہنے لگا۔
زینو چونکی تھی اور بڑی پھرتی سے ایک پتھر کی اوٹ میں چھلانگ لگائی تھی۔ اوپر سے فائر ہوا تھا اور گولی اسی پتھر سے رگڑ کھاتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی تھی۔!
"گھیرو۔۔۔!" کسی نے چیخ کر کہا اور دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سے فضاء گونجنے لگی۔
پھر زینو کے ریوالور سے ایک شعلہ نکلا۔۔۔ ایک چیخ سناٹے میں گونجی اور اس کا شکار اوپر سے لڑھکتا ہوا نیچے چلا آیا۔
دوڑتے قدموں کی آوازیں معدوم ہو گئیں۔ زینو آہستہ آہستہ پیچھے کھسک رہی تھی۔!
"جانے دو۔۔۔ فائر مت کرو۔۔۔!" جواد نیچے سے چیخا۔۔۔!"ورنہ سب مارے جاؤ گے۔!"
کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔۔۔ اور کسی نے بھی اپنی جگہ سے جنبش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
زینو نکلی چلی گئی تھی۔۔۔ مقصد حاصل ہو چکا تھا۔۔۔ وہ یہی تو جاننا چاہتی تھی اس کے باپ کو وہ لوگ کہاں لے گئے ہیں۔!
سڑک خطرناک تھی۔ پہاڑی علاقوں کی سڑکیں عام طور پر ایسی ہی ہوتی ہیں۔ چکر دار۔۔۔۔ جن کی ایک جانب ہیبت ناک گہرائیاں ہوتی ہیں۔
لیکن وہ تو اس طرح ڈرائیو کر رہی تھی جیسے کسی میدان میں تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑ رہی ہو۔
خوش شکل بھی رہی ہوگی لیکن اس وقت تو غضب ناکی نے خدوخال کی بناوٹ ہی بگاڑ کر رکھ دی تھی۔۔۔ بال کھلے ہوئے تھے اور ایک سرکش لٹ بار بار اڑ کر چہرے پر آ رہتی۔۔۔ جین اور جیکٹ میں ملبوس تھی۔! سینے پر کارتوسوں کی پیٹی تھی اور ہولسٹر میں ریوالور موجود تھا۔!
سفر کا اختتام ایک چھوٹی سی بستی میں ہوا۔۔۔ قہوہ خانے کے سامنے اس نے گاڑی روکی تھی۔
انجن بند کر کے نیچے اتری۔۔۔ چند لمحے خاموش کھڑی قہوہ خانے کے صدر دروازے کو گھورتی رہی۔ پھر آندھی اور طوفان کی طرح قہوہ خانے میں داخل ہوئی تھی۔! چوبی فرش پر اس کے وزنی جوتے ایسے دھمک پیدا کر رہے تھے جیسے دوسروں کا سکون غارت کرنا اس کے بنیادی حقوق میں شامل ہو۔
اسے دیکھتے ہی ایک آدمی کاؤنٹر کے پیچھے سے نکلا تھا اور تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تھی۔
"چلی جاؤ۔۔۔ خدا کے لئے اس وقت چلی جاؤ۔!" اس نے خوف زدہ انداز میں سرگوشی کی تھی۔!
"بکواس بند کرو۔۔۔!" وہ پیر پٹخ کر دھاڑی۔۔۔ "مجھے بتاؤ کہ وہ بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔!"
"تمہارے لئے بھی خطرہ ہے۔۔۔ چلی جاؤ۔۔۔!" اس نے مڑ کر کاؤنٹر کی طرف دیکھا تھا۔
لڑکی کی نظر بھی ادھر ہی اٹھ گئی۔۔۔!
"کاؤنٹر کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟" اس نے آہستہ سے پوچھا تھا۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ ریوالور کے دستے پر جا ٹکا تھا۔
"میں کہتا ہوں چلی جاؤ۔۔۔!"
"کیا تمہاری شامت آئی ہے۔۔۔! میں نے پوچھا تھا کہ کاؤنٹر کے پیچھے کون ہے۔۔۔؟"
"وہ دونوں رک گئے ہیں۔ عقبی کمرے میں ہیں۔۔۔!"
"کون دونوں۔۔۔!"
"طارق اور جواد۔۔۔! میں کہتا ہوں یہاں سے چلی جاؤ۔!"
"میں نے پوچھا تھا کہ وہ بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔!"
"رب العزت کی قسم۔۔۔! میں نہیں جانتا۔۔۔ وہی دونوں جانتے ہوں گے۔ ان کے ساتھ تھے۔۔۔ نہ جانے کیوں یہاں رک گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے۔۔۔ تمہارے ہی لئے رکے ہوں۔۔۔ چلی جاؤ۔۔۔ پھر کہتا ہوں چلی جاؤ۔۔۔!"
اس نے پھر خوف زدگی کے ساتھ کاؤنٹر کی طرف دیکھا تھا۔
"تو وہ جانتے ہوں گے کہ بابا کو کہاں لے جایا گیا ہے۔۔۔!" لڑکی نے سوال کیا۔
"جب ساتھ تھے تو ضرور ہی جانتے ہوں گے۔۔۔!"
"اور تم مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔!"
"فی الحال عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے۔!"
"اور تم ان لوگوں کے مقابلے میں بابا کے ہمدرد ہو۔۔۔!"
"یقیناً ہوں۔۔۔!" وہ آہستہ سے بولا "لیکن تمہارے علاوہ اور کسی کے سامنے اعتراف کی جرآت نہیں رکھتا۔!"
"اچھی بات ہے تو پھر ہٹ جاؤ میرے راستے سے۔۔۔! میں انہی دونوں سے معلوم کروں گی۔!"
"تم سمجھتی کیوں نہیں۔۔۔!" اس نے چاروں طرف دیکھ کر بے بسی سے کہا۔ اس دوران میں قہوہ خانے کی ساری میزیں خالی ہو گئی تھیں۔ لوگ خطرے کی بو سونگھتے ہی ایک ایک کر کے کھسک گئے تھے۔!
"اچھی بات ہے۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔۔!" لڑکی نے آہستہ سے کہا۔ وہ کنکھیوں سے کاؤنٹر کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ کاؤنٹر کے پیچھے دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا۔۔۔ اور اس آدمی کی شکل صاف نظر آئی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا اور پھر وہ تیزی سے باہر آ گیا۔
لڑکی صدر دروازے کی طرف مڑی ہی تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا کر دھاڑا۔۔۔!
"ٹھہرو۔۔۔!"
لڑکی پلٹ پڑی لیکن اس کا ریوالور ہولسٹر سے نکل آیا تھا اور اس کی نال آواز دے کر روکنے والے کے سینے کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
قہوہ خانے کا مالک تھوک نگل کر رہ گیا۔
کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے آدمی نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیئے تھے۔ لڑکی اس کے دل کا نشانہ لئے آہستہ آہستہ کاؤنٹر کی طرف بڑھتی رہی قہوہ خانے کا مالک جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے۔
"بابا کہاں ہیں۔۔۔؟" لڑکی نے کاؤنٹر کے قریب پہنچ کر تیز قسم کی سرگوشی کی۔!
"تم فائر نہیں کر سکتیں۔!" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"میری بات کا جواب نہ دے کر دیکھو۔۔۔!"
"میں نہیں جانتا۔۔۔!"
"تم جھوٹے ہو۔۔۔؟ بتاؤ۔۔۔!" لڑکی نے کہا اور پھر کسی قدر ترچھی ہو کر فائر کر دیا لیکن شکار وہ آدمی تھا جس نے دروازے کی اوٹ سے لڑکی پر فائر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ پڑا۔
وہ آدمی جس نے ہاتھ اٹھا رکھے تھے بوکھلا کر ایک طرف ہٹ گیا تھا۔
"جیسے ہو۔۔۔ ویسے ہی کھڑے رہو۔۔۔!" لڑکی ڈپٹ کر بولی اور کاؤنٹر کے پیچھے والا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند ہو گیا اور بولٹ سرکنے کی آواز بھی آئی تھی۔
لڑکی اس آدمی کو کور کئے ہوئے کاؤنٹر کے پیچھے آئی اور جھک کر ریوالور اٹھا لیا۔۔۔ ریوالور کے قریب ہی اسے خون کی بوندیں بھی نظر آئی تھیں۔۔۔!
"صدر دروازہ بند کر دو۔۔۔!" لڑکی نے قہوہ خانے کے مالک سے کہا۔
اس نے چپ چاپ تعمیل کی تھی۔
"اب میرے دونوں ہاتھوں میں ریوالور ہیں۔!" لڑکی نے اونچی آواز میں کہا۔ "ایک کا رخ دروازے کی طرف ہے اور دوسرے کا طارق کی طرف۔۔۔ بہتری اسی میں ہے جواد کہ باہر آ جاؤ۔۔۔ اور مجھے بتاؤ کہ تمہارے ساتھی بابا کو کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"
اس کی آواز سناٹے میں گونج کر رہ گئی۔۔۔ لیکن کہیں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔
"جواد زخمی ہو گیا ہے۔۔۔!" لڑکی نے طارق سے کہا۔ "یہ رہیں خون کی بوندیں، میں تمہیں بھی زندہ نہ چھوڑوں گی ورنہ بابا کا پتہ بتا دو۔!"
"مم۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔!"
"تم دونوں یہاں کیوں رک گئے تھے۔۔۔!"
"بب۔۔۔ بس یونہی۔۔۔!"
قہوہ خانے کا مالک دروازہ بند کر کے وہیں رک گیا تھا۔ لیکن اب اس کے چہرے پر ہیجان یا انتشار کی علامات نہیں تھیں۔ بڑے سکون کے ساتھ اس سچویشن کا تماشائی بنا ہوا تھا۔
"اچھی بات ہے تو مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں بخشوں گی جو بابا کی پریشانی کا باعث بنے ہیں۔!" لڑکی نے طارق سے کہا۔
"تیرے بابا نے غداری کی تھی۔۔۔!" اندر سے کراہتی ہوئی سی آواز آئی۔
"باہر نکل کر بات کیوں نہیں کرتا کتے۔۔۔ اگر تو بابا کی غداری ثابت کر سکا تو میں تجھے معاف کر دوں گی۔!"
"تم پچھتاؤ گی زینو۔۔۔!" طارق بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"دیکھا جائے گا۔۔۔ تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو جواد کو میرے سامنے بلاؤ۔۔۔!"
"مم۔۔۔ میں کیسے بلاؤں۔۔۔!"
"جواد باہر نکل کر بات کرو۔۔۔!" لڑکی دھاڑی۔۔۔ لیکن اس بار اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔
زینو نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے سوچا کہیں وہ فرار نہ ہو گیا ہو۔
"طارق۔۔۔! آگے بڑھو اور دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ۔!" اس نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔
"تم ضرور پچھتاؤ گی۔۔۔!" کہتا ہوا دیوار کی طرف مڑ گیا۔ زینو نے ایک ریوالور ہولسٹر میں ڈال دیا اور دوسرے سے طارق کو کور کئے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔ وہ دیوار سے لگا کھڑا تھا۔
اس کے ہولسٹر سے ریوالور نکال لینے کے بعد اپنے ریوالور کے دستے سے اس کی گردن پر ضرب لگائی تھی۔
طارق لڑکھڑاتا ہوا فرش پر آ رہا۔
"رب العزت کی قسم تو بڑے دل گردے والی ہے۔۔۔!" قہوہ خانے کے مالک نے کہا جو اب کاؤنٹر کے قریب کھڑا ہوا تھا۔
"کیا وہ دوسری طرف سے نکل گیا ہوگا۔!" زینو نے بیہوش طارق پر سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
"ادھر کی کھڑکی کی سلاخیں نہیں ہیں۔!" جواب ملا۔
"اوہ۔۔۔ تب تو ضرور نکل گیا ہوگا۔!"
"میں دیکھوں جا کر۔۔۔!"
"ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ میں ادھر ہی ٹھہروں گی۔ کہیں یہ بھی ہوش میں آ کر کھسک نہ جائے۔!"
"مجھے اس کے لئے جواب دہی کرنی پڑے گی۔!"
"ہاں۔۔۔ یہ بات تو ہے۔۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔ میں جا رہی ہوں تم اسے دیکھو۔۔۔ پھر میں کوئی ایسی تدبیر کروں گی کہ تم جواب دہی سے بچ جاؤ۔!"
وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ قہوہ خانے سے تھوڑے فاصلے پر بھیڑ لگ گئی تھی۔! اس نے ان لوگوں پر اچٹتی ہوئی سی نظر ڈالی تھی اور ریوالور والا ہاتھ اٹھا کر بولی تھی "اگر کسی نے ادھر آنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔!"
جو جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔۔۔ وہ چکر کاٹ کر قہوہ خانے کی پشت پر پہنچی۔
کھڑکی کھلی نظر آئی۔ اس کے نیچے دیوار پر خون کی لکیریں تھیں۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ کھڑکی ہی کی طرف سے کمرے میں داخل ہوئی اور کھڑکی بند کر کے سٹکنی لگا دی۔۔۔ یہاں بھی فرش پر کئی جگہ خون کے تازہ دھبے تھے۔! دروازہ کھول کر وہ پھر ہال میں پہنچ گئی۔ طارق بدستور اوندھا پڑا ہوا نظر آیا۔ ابھی تک ہوش میں نہیں آیا تھا۔
"باہر بھیڑ لگ گئی ہوگی۔!" قہوہ خانے کے مالک نے پوچھا۔
زینو نے سر کی جنبش سے اعتراف کیا تھا اور طارق کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
"جاؤ دروازہ بند کر کے بولٹ کر دو۔۔۔!" اس نے کچھ دیر بعد قہوہ خانے کے مالک سے کہا۔! وہ پر تفکر انداز میں دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
واپسی پر زینو سے بولا۔ "مجھے یقین آ گیا ہے کہ طارق نہیں جانتا۔! جواد کو علم تھا جو فرار ہو گیا۔۔۔!"
"مجھ سے بچ کر کہاں جائے گا۔۔۔ یہاں ان کی کوئی گاڑی تو نہیں تھی۔۔۔!"
"نہیں۔۔۔ یہ دونوں کل صبح تک بستی میں ہی قیام کرنے والے تھے۔ کل ان کے لئے گاڑی آتی!"
"ٹھیک ہے۔۔۔! میں تمہیں کرسی سے باندھ جاؤں گی اور تم جواب دہی سے بچ جاؤ گے۔۔۔!"
"زینو۔۔۔ تم تنہا کچھ نہیں کر سکتیں۔!"
"تو پھر یہاں کون میرا ساتھ دے گا۔!"
قہوہ خانے کا مالک کچھ نہ بولا۔ زینو نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ "اس لئے مجھے ہی سب کچھ کرنا ہے۔!"
"تم کیا کرو گی۔۔۔؟"
"جو کچھ بھی بن پڑے گا۔۔۔! بابا کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔!"
"سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا۔۔۔؟"
"وہ کہہ رہا تھا کہ بابا نے غداری کی تھی۔!"
"میں سوچ بھی نہیں سکتا۔!"
زینو پھر بیہوش آدمی کی طرف دیکھنے لگی تھی۔۔۔ قہوہ خانے کا مالک کہیں سے موٹی ڈور کا ایک لچھا نکال لایا۔ پہلے بیہوش طارق کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔ پھر اس نے خود بھی اپنے ہاتھ پیر بندھوائے تھے اور زینو سے بولا تھا۔ "اب کیا کرو گی۔۔۔!"
"جواد کو تلاش کروں گی۔۔۔!"
"بستی والوں سے ہوشیار رہنا۔۔۔ سرخروئی حاصل کرنے کے لئے وہ تم پر پیچھے سے بھی وار کر سکتے ہیں۔!"
"تم بے فکر رہو۔۔۔!" اس نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
باہر نکلی تھی۔۔۔ بھیڑ اب بھی موجود تھی۔ لیکن کسی نے بھی اس کی طرف بڑھنے کی جرآت نہیں کی تھی۔! وہ اپنی گاڑی میں آ بیٹھی۔۔۔! طارق کی کارتوس کی پیٹی سے سارے کارتوس نکال لائی تھی اور دونوں ریوالور بھی اسی کے قبضے میں تھے۔
گاڑی اسٹارٹ کر کے ایک بار پھر وہ قہوہ خانے کی پشت پر آئی تھی اور گاڑی سے اتر کر کھڑکی کے قریب پہنچی تھی اور زمین پر خون کی بوندوں کی تلاش شروع کر دی تھی۔
پتھریلی اور شفاف زمین پر یہ کام کچھ ایسا مشکل بھی نہیں تھا۔ تھوڑی دور تک خون کی بوندیں نظر آتی رہیں۔۔۔ پھر یک بیک غائب ہو گئی تھیں۔۔۔!
چاروں طرف دور دور تک دیکھ آئی لیکن خون کی ایک بوند بھی کہیں نہ دکھائی دی۔
آخر اس جگہ سے وہ کہاں غائب ہو گیا۔۔۔! آس پاس کوئی ایسی پناہ گاہ بھی نہ دکھائی دی جہاں اس کے چھپ رہنے کا امکان ہوتا۔
وہ پھر گاڑی کی طرف پلٹ آئی۔ اتنے میں قہوہ خانے کی عقبی کھڑکی کھلی تھی اور زینو نے بڑی پھرتی سے ریوالور نکال لیا تھا۔۔۔!
کھڑکی میں ایک چہرہ نظر آیا۔۔۔ بستی ہی کا کوئی فرد تھا۔۔۔۔! چہرہ شناسا لگ رہا تھا۔!
"تم نے اچھا نہیں کیا لڑکی۔۔۔!" وہ بھاری بھرکم آواز میں بولا۔
"دونوں زندہ ہیں۔۔۔! مر نہیں گئے!" زینو نے لاپرواہی سے کہا۔
"اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا۔!"
"اتنا طاقت ور نہیں معلوم ہوتا کہ جلد ہوش میں آ جائے۔!"
"تم جانتی ہو اس کا انجام کیا ہوگا۔!"
"تم ہی بتاؤ اگر نہیں جانتی۔۔۔!"
"پوری بستی پر عذاب نازل ہوگا۔!"
"وہ میرے بابا کو پکڑ کر کہیں لے گئے ہیں۔ طارق اور جواد ان کے ساتھ تھے۔!"
"مجھے معلوم ہے۔۔۔!"
"کہاں لے گئے ہیں۔۔۔؟"
"یہ میں نہیں جانتا۔۔۔! وہ بستی ہی سے گذرے تھے اسی لئے سب کو اس کا علم ہے۔۔۔! اور اب جتنی جلد ممکن ہو یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ ورنہ اگر ہوش میں آنے کے بعد طارق نے بستی والوں کو تمہارے خلاف اکسایا تو وہ اس کا کہا ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔!"
"میں چلی جاؤں گی۔۔۔ لیکن یہی بتا دو کہ جواد کہاں غائب ہو گیا۔۔۔!"
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر سامنے والی پہاڑیوں کی طرف انگلی اٹھائی تھی۔
"تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔۔! میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔۔۔!" کہتی ہوئی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور گاڑی تیر کی طرح سڑک کی جانب روانہ ہوئی تھی۔
شائد وہ سمجھ گئی تھی کہ جواد نے کہاں پناہ لی ہوگی۔۔۔ چھینے ہوئے ریوالور اس نے ڈیش بورڈ کے ایک خانے میں رکھ کر اسے مقفل کر دیا تھا۔! کچھ دور۔۔۔ سڑک پر چلنے کے بعد اس نے گاڑی کو بڑی احتیاط سے ایک ڈھلان میں اتارنا شروع کیا تھا اور بالآخر اس میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔۔۔ ایک مسطح جگہ کا انتخاب کر کے گاڑی وہیں روکی اور انجن بند کر دیا۔
بے حد پرسکون نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس مہم کی کامیابی پر پوری طرح یقین ہو۔۔۔! گاڑی کو مقفل کر کے دوسری جانب والی چڑھائی طے کرنے لگی تھی۔۔۔ آنکھیں کسی ایسے درندے کی آنکھوں سے مشابہہ نظر آ رہی تھیں جو شکار کرنے نکلا ہو۔
چٹان کی انتہائی بلندی پر پہنچ کر وہ سینے کے بل لیٹ گئی تھی اور کہنیوں پر زور ڈال کر آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی چٹان کے دوسرے سرے کی جانب بڑھنے لگی۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ ہوا میں خنکی پیدا ہو گئی تھی لیکن چٹان ابھی تک تپ رہی تھی۔
دوسرے سرے پر پہنچ کر اس نے نشیب میں جھانکا۔۔۔ دور دور تک کوئی نہ دکھائی دیا۔ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں تشویش کے آثار ابھر آئے۔۔۔ بڑی دیر تک اسی حالت میں بے حس و حرکت پڑی رہی۔ پھر اس طرف کی ڈھلان میں اترنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ نیچے بائیں جانب والی دراڑ سے ایک آدمی برآمد ہوا اور وہیں ایک بڑے پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
زینو کی آنکھوں میں پہلے ہی کی سی چمک پھر عود کر آئی۔ تنفس کسی قدر تیز ہو گیا۔
اسی طرح کہنیوں کے بل کھسکتے ہوئے اس نے ایک لمبا چکر لیا اور اس کی لاعلمی میں عین اس کے سر پر جا پہنچی۔
"جنبش نہ کرنا اپنی جگہ سے۔۔۔!" اس نے ہولسٹر سے ریوالور نکال کر اس کے سر کا نشانہ لیتے ہوئے کہا۔!
وہ اچھل پڑا اور منہ اٹھا کر آواز کی سمت دیکھنے لگا۔
سب سے پہلے ریوالور کی نال پر ہی نظر پڑی ہوگی۔۔۔! بے حس و حرکت بیٹھا رہ گیا۔!
پھر زینو ایک ہی جست میں اس کے سامنے جا پہنچی تھی۔
"تم آخر ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو۔۔۔!" جواد اپنا زخمی ہاتھ بائیں ہاتھ سے دباتے ہوئے کراہا۔ "ہمیں جو حکم ملا تھا۔۔۔!"
"بس۔۔۔!" زینو غرائی۔ "مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔! میں نے صرف یہ معلوم کرنا چاہا تھا کہ بابا کو کہاں لے جایا گیا ہے۔۔۔؟"
جواد تھوک نگل کر رہ گیا۔!
"لیکن اب اس سے پہلے تمہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ بابا غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔"
"ہمیں یہی بتایا گیا تھا۔۔۔!"
"یہ تو ثبوت نہ ہوا۔۔۔!"
"پھر کیا کہوں۔۔۔!"
"یہی کہ ایسی کوئی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالو جس کا کوئی ٹھوس ثبوت تمہارے پاس نہ ہو۔!"
جواد کچھ نہ بولا۔۔۔ زینو چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر بولی۔ "یقین کرو اگر تم نے زبان نہ کھولی تو میں تمہیں سسکا سسکا کر ماروں گی۔!"
"ہمیں حکم ملا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو انہیں کہکشاں پہنچا دیں۔!"
"اور تم لوگ ان کی بے خبری میں حملہ آور ہوئے تھے۔!"
"پھر کیا کرتے جابر خان کو للکارنا آسان تو نہیں اور میں نے تو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔!"
"ان کے سر پر ضرب کس نے لگائی تھی۔!"
"داراب نے۔۔۔!"
"تم دونوں یہاں کیوں رک گئے تھے۔!"
"اس لئے کہ کسی طرح تمہیں بھی کہکشاں لے جایا جائے۔!"
"تم لوگوں کو یقین تھا کہ اس کا علم ہوتے ہی میں تعاقب کروں گی۔!"
جواد نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔۔۔ اور ہولے ہولے کراہنے لگا۔
زینو چونکی تھی اور بڑی پھرتی سے ایک پتھر کی اوٹ میں چھلانگ لگائی تھی۔ اوپر سے فائر ہوا تھا اور گولی اسی پتھر سے رگڑ کھاتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی تھی۔!
"گھیرو۔۔۔!" کسی نے چیخ کر کہا اور دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سے فضاء گونجنے لگی۔
پھر زینو کے ریوالور سے ایک شعلہ نکلا۔۔۔ ایک چیخ سناٹے میں گونجی اور اس کا شکار اوپر سے لڑھکتا ہوا نیچے چلا آیا۔
دوڑتے قدموں کی آوازیں معدوم ہو گئیں۔ زینو آہستہ آہستہ پیچھے کھسک رہی تھی۔!
"جانے دو۔۔۔ فائر مت کرو۔۔۔!" جواد نیچے سے چیخا۔۔۔!"ورنہ سب مارے جاؤ گے۔!"
کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔۔۔ اور کسی نے بھی اپنی جگہ سے جنبش کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
زینو نکلی چلی گئی تھی۔۔۔ مقصد حاصل ہو چکا تھا۔۔۔ وہ یہی تو جاننا چاہتی تھی اس کے باپ کو وہ لوگ کہاں لے گئے ہیں۔!