''کاری عورت ''

نور وجدان

لائبریرین
میں پھر بھی چاہتی ہوں آپ۔کو میجر۔جو غلطیاں ساخت خیال منظر نگاری کردار نگاری کے حوالے سے لگیں بتائیں۔ ثقراط کی طرح زہر پی کر آب حیات کا ذائقہ چکھ لوں میں بھی ..۔ پی
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
میں پھر بھی چاہتی ہوں آپ۔کو میجر۔جو غلطیاں ساخت خیال منظر نگاری کردار نگاری کے حوالے سے لگیں بتائیں۔ ثقراط کی طرح زہر پی کر آب حیات کا ذائقہ چکھ لوں میں بھی ..۔ پی

ضرور! مگر کل تک ابھی بہت جلدی میں ہوں اور کام ڈھیر باقی ہیں :) :)
 
خوب کہانی ہے۔ سلمان حمید بھائی نے نشاندہی کر دی ہیں، وہ کافی ہیں۔ ایک بات اور نوٹ کی ہے، گو نہایت معمولی ہے۔
شام کو اکثر جرگہ میں بیٹھا کرتا تھا
سر پر دستار باندھے پنچائیت میں بیٹھے
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ صاحبہ، میں نے یہ پوری تحریر ایک ہی نشست میں پڑھ لی ہے ۔ آج وقت نکال کر فاروق بھائی کی نظم اور آپ کی یہ تحریر خاص طور سے پڑھی۔
مرکزی خیال بہت اعلیٰ ہے ۔ بظاہر معمولی لگنے والی جزویات کو روشن کر دینا آپ کے قلم کا خاصہ ہے ۔ بہتری کی گنجائش ہر جگہ ہی ہوتی ہے ۔لیکن بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی تعریف کئے بغیر چارہ نہیں۔
 

سلمان حمید

محفلین
شوق کے ناظے جس طرح آپ لکھتے میں بھی .. غلطیاں تو ہونی ہوتی ... بس اتنا شکر ہے کہ اچھا لگا ..حوصلہ افزائی بھی کی ... کچھ پوئینٹس بھی اٹھائے..بے لاگ تبصرہ ہے ..یہ جو سرخ رنگ کیا ہے اسکی وضا حت فرما دیں ... اور جو سبز ہے وہ بے ادب نے لب و لہجہ کے لیے '' بہت کو بوت '' کیا... غلطی بتائی ..ممنون ...:act-up::act-up::act-up::skywalker::snicker::embarrassed1:
سرخ رنگ سے آپ نے میرے بڑے ہونے پر ایک ایسی لائن کھینچ دی جو کہ شاید میرے لیے ایک تنبیہ ہے کہ میں یہ پار نہیں کر سکتا :(
اگر آپ جیسے احباب بھی روک ٹوک کرتے رہے تو میں بڑا آدمی کب بنوں گا؟ :(
 

نور وجدان

لائبریرین
سرخ رنگ سے آپ نے میرے بڑے ہونے پر ایک ایسی لائن کھینچ دی جو کہ شاید میرے لیے ایک تنبیہ ہے کہ میں یہ پار نہیں کر سکتا :(
اگر آپ جیسے احباب بھی روک ٹوک کرتے رہے تو میں بڑا آدمی کب بنوں گا؟ :(
دکھ یہ ہے میں اتنی بڑی نہیں ۔۔۔آپ کو کون روک سکتا ہے آپ ماشائاللہ بہت اچھے قلم کار ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ صاحبہ، میں نے یہ پوری تحریر ایک ہی نشست میں پڑھ لی ہے ۔ آج وقت نکال کر فاروق بھائی کی نظم اور آپ کی یہ تحریر خاص طور سے پڑھی۔
مرکزی خیال بہت اعلیٰ ہے ۔ بظاہر معمولی لگنے والی جزویات کو روشن کر دینا آپ کے قلم کا خاصہ ہے ۔ بہتری کی گنجائش ہر جگہ ہی ہوتی ہے ۔لیکن بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی تعریف کئے بغیر چارہ نہیں۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں کون سی باتیں آپ کو اچھی لگی
 

سلمان حمید

محفلین
دکھ یہ ہے میں اتنی بڑی نہیں ۔۔۔آپ کو کون روک سکتا ہے آپ ماشائاللہ بہت اچھے قلم کار ہیں
میرا بڑا بھائی کہتا ہے کہ تجھے تیرے دوستوں نے ہی واہ واہ کر کے بگاڑا ہے ورنہ تیرے جیسے شاعروں کے شعر کوئی رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے بھی نہیں لکھتا :(
بگاڑنے والی بات تو ٹھیک ہی کہتا ہے اور اب جب کہ اتنے برسوں میں کسی رکشے یا ٹرک والے نے پورا شعر کیا ایک مصرعہ بھی مستعار لینے کے لیے رابطہ نہ کیا تو اس کی دوسری بات پر بھی یقین آنے لگا ہے :biggrin::biggrin::biggrin:
 
آخری تدوین:
تحریر کے نوے یعنی آخری منظر کو سب سے پہلے پڑھا۔ اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ نہیں تھی بس پیج سکرول کرتے کرتے ہاتھ نوے منظر پر رکا اور اور پورا منظر پڑھ ڈالا۔ پھر پہلے سے شروع کیا اور وقت کی کمی کے باعث تین قسطوں میں تحریر کو مکمل پڑھا۔
چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا اس حوالے سے۔

1۔ تحریر اول سے آخر تک بہت لحاظ اور مروت کے ساتھ لفظوں سے سجائی گئی ہے۔ جو کہ ایک مثبت بات بھی ہے اور منفی بھی۔ عام طور پر منظر کشی میں بہت زیادہ توانائی صرف کرنے والے لکھاری مقصدیت کی عدم موجودگی کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ آپ کی تحریر ان دونوں باتوں کے درمیان اور اوسط درجے کی ہے۔ بس اتنا خیال رہے کہ آپ نمرہ احمد نہ بن جائیں۔ :) :) :)
2۔ ایک عنصر آپ کی تحریروں میں یہ بھی دیکھا کہ آپ کے متعدد منظروں میں اکثر ایسے بھی ہوجاتے ہیں جو تحریر کے آخر تک ربط نہیں بنا پاتے۔ مثلاً اس تحریر کی مقصدیت اپنی جگہ ہے لیکن شہباز کا کیا ہوا؟ وہ کہاں گیا؟ اس چیز کا بہت دھیان چاہیے کہ پہلا منظر مکمل تحریر میں آخر تک بالواسطہ یا بلاواسطہ ربط میں رہے۔ شہباز ایک بہت اہم کردار کے طور پر رونما ہوا اور ہاتھ کے ہاتھ ختم بھی ہوگیا۔ یہ بات ناقابل ہضم ہے۔
3۔ میرے نزدیک عنوان کا بھی تحریر سے کوئی ربط نہیں بن پارہا۔ کاری کی رسم تحریر کا آخری حصہ ہے۔ تحریر کے مقصد سے اس عنوان کا بلاواسطہ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
4۔ مناظر میں باہمی ربط بہت کمزور ہے۔ اکثر تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ سارے مناظر الگ الگ کہانیوں کے حصے ہیں جنہیں زبردستی جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
5۔ منظر کشی ثانوی چیز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تحریر سے پہلے کہانی کا ایک مکمل خاکہ اول سے آخر تک آپ کے ذہن میں ہو۔ پھر لکھتے وقت محاکات کے جو جوہر آپ دکھا سکتی ہیں ان میں عرق ریزی کیجیے۔
6۔ اپنی تحریر کو وقت دیجیے۔ اس کے ساتھ گفتگو کیجیے۔ پانچ سے آٹھ مرتبہ پڑھیے۔ خود نقد و نظر کیجیے۔ اس سے تنقیدی شعور بالیدگی کو پہنچ کر تخلیق کو سنوارنے میں انتہائی کار آمد ثابت ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ املائی اغلاط کو کوشش کریں کہ کم سے کم ہوں۔ استعارات کوئی زیادہ نامانوس اور اجنبی نہ ہوں۔ لکھنا کسی صورت نہ چھوڑیے۔ اور جو لکھ دیا اسے پبلیسائز کرنا فرض یا واجب نہ سمجھیے۔ بہت کچھ صرف لکھنا برائے لکھنا بھی ہوتا ہے۔ تحاریر میں ایک اجمالی مقصدمتعین کیجیے جس سے آپ کے قاری کو علم ہوجائے کہ آپ کی تحریر کس نوعیت کی ہوتی ہے تاکہ آپ کا قاری متعین ہوسکے۔ یہ سب سے ضروری امر ہے۔ بکھرے مضامین اور ہر تحریر یکسر مختلف موضوع پر ہو تو نہ آپ کا قاری متعین ہوسکتا ہے نہ آپ کو یکسوئی حاصل ہوسکتی ہے۔

باقی وہی بات جو ہمیشہ کہتا ہوں۔ یعنی یہ میری ناقص رائے ہے۔ قبول و رد محض آپ کا اختیار ہے۔
سلامت رہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ باتوں پر اختلاف ہے .کچھ پر متفق ہوں
'' افسانے '' اور ناول میں یہی فرق ہوتا ہے .افسانہ کی وحدت ، اکائی ہونا اسکی کامیابی ہے ، ناول میں مختلف خیالات اور واقعات کو سی کر ایک موضوع تک لے جانا ہوتا آیا کہ لکھنے والے اسے انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہے بھی یا نہیں . '' کاری عورت '' میں کیا مجھے پچھلے مناظر میں کاری ہونے کے متعلق بات کرنی نہیں چاہیے تھی . میرا خیال ہے نہیں یقنیا وہ افسانہ ہوتا اگر میں شروع سے کاری عورت کا تھیم لے کر چلتی ... ہاں ناول میں آپ نے ایک عمارت دینی ہوتی ہے عمارت چھوٹی ہو یا بڑی مگر ہونی اچھی چاہیے عمارت کی مضبوطی اسکی پلاٹنگ سے آتی ہے پھر اسکی سیمنٹنگ کے بعد میں اس کی دلکشی کس طرح بڑھاتی ہوں وہ مجھ پر یے یا لکھنے والے پر .......منظر کشی کے لیے محنت کی ضروت نہیں ہوتی تخیل کی ہوتی ہے . میں نے محنت نہیں کی زیادہ
لکھ شوق کے لیے رہی ہوں . اور مسلسل میں نہیں لکھ رہی . بس اس لیے پبلک بھی کر دیتی ہوں .

رہی بات شہباز کی وہ اہم کردار نہیں تھا .. اس سے صرف آغاز کرنا تھا اگر میں اس کا منظر بھی آخر میں رکھ دیتی تو وہ کہانی نہیں صحافت ہوجاتی اور ناول کا عنوان کاری عورت تب نا مناسب ہوتا رکھنا ... شہباز کا کردار اتنا ہی تھا ..ہاں سلمان حمید کی بات سے اتفاق کروں گی اس کردار کی اہمیت تب ہوتی جب اس کو فلمایا جاتا ..ایسے بھی لکھا جا سکتا تھا .. مجھے اس بات سے اتفاق ہے

باقی املا کی غلطیاں اور ٹائپو دونوں غلطیاں ہیں .. اگر میں پبلک نہ کروں تو نہ ہی مجھے اپنے لکھے ہوئے کی قدر ہوگی نہ اسکے نقائض سے آگاہی

ایک بہت زبرست مشورہ ... وہ یہ کہ کردار سے باتیں ...کہانی سے باتیں ..منظر نگاری اس لیے کامیاب رہی کیوںکہ میں سمجھ رہی تھا میں خود وہاں موجود تھی ..جب تک لکھنے والے اپنے کلام سے مقالے سے بات نہیں کرتا وہ اپنے خیال احسن طریقے سے نبھا نہیں پاتا ... خوشی ہوئی ایک بہت اچھا اور غیر جانبدرانہ تنصرہ پڑھ کر ...آپ نے خود کہا ا س سب سے اتفاق ضروری نہیں سو مجھے کچھ نقاط بھائے ان کو اپناؤں گی ... مگر کچھ سے اختلاف جو لکھ ڈالا

شہباز کے کردار کو نکال کر کہ مناظر میں ربط نہیں کچھ عجیب لگا . آپ اپنے حسنِ معیار کے مطابق میری فیلیسی غلط کردیں تاکہ میں اس بات کو تہِ دل سے مان کر شکر گزار ہوں ناول کے مختلف خیالات تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک کشادہ گلی کی طرف نہیں جاتے
 
آخری تدوین:

گل زیب انجم

محفلین
کچھ باتوں پر اختلاف ہے .کچھ پر متفق ہوں
'' افسانے '' اور ناول میں یہی فرق ہوتا ہے .افسانہ کی وحدت ، اکائی ہونا اسکی کامیابی ہے ، ناول میں مختلف خیالات اور واقعات کو سی کر ایک موضوع تک لے جانا ہوتا آیا کہ لکھنے والے اسے انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہے بھی یا نہیں . '' کاری عورت '' میں کیا مجھے پچھلے مناظر میں کاری ہونے کے متعلق بات کرنی نہیں چاہیے تھی . میرا خیال ہے نہیں یقنیا وہ افسانہ ہوتا اگر میں شروع سے کاری عورت کا تھیم لے کر چلتی ... ہاں ناول میں آپ نے ایک عمارت دینی ہوتی ہے عمارت چھوٹی ہو یا بڑی مگر ہونی اچھی چاہیے عمارت کی مضبوطی اسکی پلاٹنگ سے آتی ہے پھر اسکی سیمنٹنگ کے بعد میں اس کی دلکشی کس طرح بڑھاتی ہوں وہ مجھ پر یے یا لکھنے والے پر .......منظر کشی کے لیے محنت کی ضروت نہیں ہوتی تخیل کی ہوتی ہے . میں نے محنت نہیں کی زیادہ
لکھ شوق کے لیے رہی ہوں . اور مسلسل میں نہیں لکھ رہی . بس اس لیے پبلک بھی کر دیتی ہوں .

رہی بات شہباز کی وہ اہم کردار نہیں تھا .. اس سے صرف آغاز کرنا تھا اگر میں اس کا منظر بھی آخر میں رکھ دیتی تو وہ کہانی نہیں صحافت ہوجاتی اور ناول کا عنوان کاری عورت تب نا مناسب ہوتا رکھنا ... شہباز کا کردار اتنا ہی تھا ..ہاں سلمان حمید کی بات سے اتفاق کروں گی اس کردار کی اہمیت تب ہوتی جب اس کو فلمایا جاتا ..ایسے بھی لکھا جا سکتا تھا .. مجھے اس بات سے اتفاق ہے

باقی املا کی غلطیاں اور ٹائپو دونوں غلطیاں ہیں .. اگر میں پبلک نہ کروں تو نہ ہی مجھے اپنے لکھے ہوئے کی قدر ہوگی نہ اسکے نقائض سے آگاہی

ایک بہت زبرست مشورہ ... وہ یہ کہ کردار سے باتیں ...کہانی سے باتیں ..منظر نگاری اس لیے کامیاب رہی کیوںکہ میں سمجھ رہی تھا میں خود وہاں موجود تھی ..جب تک لکھنے والے اپنے کلام سے مقالے سے بات نہیں کرتا وہ اپنے خیال احسن طریقے سے نبھا نہیں پاتا ... خوشی ہوئی ایک بہت اچھا اور غیر جانبدرانہ تنصرہ پڑھ کر ...آپ نے خود کہا ا س سب سے اتفاق ضروری نہیں سو مجھے کچھ نقاط بھائے ان کو اپناؤں گی ... مگر کچھ سے اختلاف جو لکھ ڈالا

شہباز کے کردار کو نکال کر کہ مناظر میں ربط نہیں کچھ عجیب لگا . آپ اپنے حسنِ معیار کے مطابق میری فیلیسی غلط کردیں تاکہ میں اس بات کو تہِ دل سے مان کر شکر گزار ہوں ناول کے مختلف خیالات تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک کشادہ گلی کی طرف نہیں جاتے
ماشاء اللہ تبصرہ اور جواب تبصرہ دونوں ہی شاندار ہیں
دونوں کو پڑھتے ہوئے لطف سا آ گیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی اضافہ ہوا کہ اگر یوں نہ ہو تو یوں بھی یو جاتا ہے.
 

حمیر یوسف

محفلین
نور سعدیہ شیخ بہن، قبائلی علاقوں میں ہر وقت عورت کی تذلیل نہیں کی جاتی، بلکہ اسکی عزت بھی کی جاتی ہے۔ہمارے گاؤں دیہات میں عورت پر ہر وقت ہی ظلم نہیں ہوتے بلکہ بعض جگہ وہ اپنے خاندان کے لئے بہت اہم قربانیاں بھی دے رہی ہوتی ہے۔اور پورا کا پورا خاندان اسکا گرویدہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی اس "سبجیکٹ" پر بھی موضوع قلم اٹھائیے۔ ہر جگہ سے یاس و نامیدی کی باتیں نظر آنا اور معاملے کا ایک ہی پہلو ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ کچھ اور مثبت پہلوؤں کو بھی نظر میں رکھ کر قبائلی اور دیہاتی لوگوں کی اچھی باتوں کو بھی بتانا چاہئے۔ ایک پانی بھرا گلاس جتنا خالی ہوتا ہے اتنا ہی بھرا ہوا بھی ہوتا ہے۔

اس موضوع پر آپ کو انسپائریشن چاہئے تو میرے خیال سے "مدر انڈیا" جیسی لاجواب فلم دیکھ کر کوئی "اچھا سا" آئیڈیا لیں اور اسکو ہماری ثقافت اور لوک کہانیوں کے تانے بانے میں بن کراسے اپنے قلم کی زینت ضرور بنائے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ بہن، قبائلی علاقوں میں ہر وقت عورت کی تذلیل نہیں کی جاتی، بلکہ اسکی عزت بھی کی جاتی ہے۔ہمارے گاؤں دیہات میں عورت پر ہر وقت ہی ظلم نہیں ہوتے بلکہ بعض جگہ وہ اپنے خاندان کے لئے بہت اہم قربانیاں بھی دے رہی ہوتی ہے۔اور پورا کا پورا خاندان اسکا گرویدہ بھی ہوتا ہے۔ کبھی اس "سبجیکٹ" پر بھی موضوع قلم اٹھائیے۔ ہر جگہ سے یاس و نامیدی کی باتیں نظر آنا اور معاملے کا ایک ہی پہلو ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ کچھ اور مثبت پہلوؤں کو بھی نظر میں رکھ کر قبائلی اور دیہاتی لوگوں کی اچھی باتوں کو بھی بتانا چاہئے۔ ایک پانی بھرا گلاس جتنا خالی ہوتا ہے اتنا ہی بھرا ہوا بھی ہوتا ہے۔

اس موضوع پر آپ کو انسپائریشن چاہئے تو میرے خیال سے "مدر انڈیا" جیسی لاجواب فلم دیکھ کر کوئی "اچھا سا" آئیڈیا لیں اور اسکو ہماری ثقافت اور لوک کہانیوں کے تانے بانے میں بن کراسے اپنے قلم کی زینت ضرور بنائے۔
شکریہ آپ نے تحمل سے پڑھا . مجھے پتا ہے جب ہم ایک رخ کو عیاں کرتے ہیں دوسرا عریاں ہونے کو بے تاب ہوتا ہے . آپ مجھے پیسیمسٹ کہیں مگر سوچ لیں نیلسن منڈیلا بھی پیسی مسٹ تھا . اگر وہ لوگوں کو آگاہ نہ کرتا تو لوگ خواب خرگوش کے مزے لیے سو رہے ہو ں . ایک رئیلسٹ کی طرح معاشرے کی عکاسی قلم کا حق پورا کرتی ہے . سو اس حق کو پورا کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتی ہوں یہ ایک سچی کہانی ہے میں نے اس کا آئینہ دکھایا ہے . میں بھارتی فلمز کی گو کہ شائق نہیں مگر ان میں کچھ نہ کچھ اچھی بھی ہوتی ہے .. جیسے حیدر'' اس کا سارا تھیم اور پلاٹ شیکسپر کے ہیملٹ سے اخذ کردہ ہے

ہمارے ہاں کہانی دو طرح سے ملتی ہیں . ایک وہ جس میں فرد کا معاشرے سے ربط استوار ہوتا ہے اور دوسری وہ جس میں وہ جدا ہوتا ہے . بالکل ہماری پیدائش اور موت کی طرح ...ہمارا اس دنیا میں آنا خوشی کی علامت اور جانا غم کی . قلم کو دونوں باتوں میں سے کسی ایک پہلو پر اٹھایا جاسکتا ہے . بشرطیکہ اس میں کوئی مقصد بھی ہو . ہمیں حادثات سے ڈر لگتا ہے . سچ ہے مجھے بھی لگتا ہے انسانیت ہے .

میں اس طرزَ فکر کو نہیں مانتی اور اس بات کی حامی ہوں جہاں جہاں فیوڈلزم ہے وہاں مرد کو راج ہے اور جہاں ڈیموکریسی وہاں عورت حاوی ہے .پاکستان نام کا جمہوری ہے . باقی آپ کی رائے کا احترام ہے ، میں نے بھی '' کاری عورت '' کا خیال ایک ایسی ہی مووی سے لیا تھا جس سے انسپائر ہو کر قلم اٹھایا ہے .

شکریہ ..
 
Top