کاجل کوٹھا سے اقتباس از بابا محمدیحییٰ خان

بَد مستی، منشیات اور جہل سے جبکہ سَر مستی، مُشاہدہ ذات سے اور جذب و کیفیّت، مُشاہدہ حق سے پیدا ہوتے ہیں۔
بس، بَد مستی اور سر مستی و جذب میں فرق کرنا ہی اصل بات ہے۔ ۔۔منشیات کا عادی، شرع اور شریعت کا باغی، عَصری اور دِینی تعلیم سے عاری، بھیک مانگنے والا دَریوزہ گر تو ہوسکتا ہے، راہِ فقر کا فقیر اور دَرِ مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کا دُر ویش نہیں ہو سکتا۔۔۔با ایں ہمہ بعض فقیر، دُرویشوں سے حالتِ جذب اور عالمِ سر مستی میں ایسی حرکات اور باتیں سَرزد ہو جاتی ہیں جو بظاہر دائرہ شریعت سے باہر دِکھائی دیتی ہیں۔۔۔چونکہ ہر انسان کے لئے مُمکن نہیں کہ وہ کسی بات یا حرکت و عمل کا مکمل سیاق و سباق کی روشنی میں احاطۂ فہمی کر سکے، چنانچہ غلط فہمی کا اِمکان بہر طور موجود رہتا ہے۔۔۔
فقیر، دُرویش، مجذوب عام انسان نہیں ہوتے، وہ موجود کہیں ہوتے ہیں۔۔۔رہتے کہیں اور ہیں۔۔۔وہ کہتے کچھ ہیں مطلب، اشارہ کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔وہ گنجلک راہوں کے راہی ہوتے ہیں۔۔۔اشارہ، کنائیہ، استعارہ۔۔۔وہ مستور گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ ابہام، قدم قدم پہ موجود ہوتا ہے۔۔۔ رَمزیں پٹاخے چھوڑتے ہیں۔۔ اُن کی حرکات، باتوں اور عمل پہ اگر دھیان دھرا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ چھپا رہے ہیں۔۔۔ وہ سوال و جواب اور بات ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ سائل اور مسائل کو کسی ایسے مقام پہ لا کے کھڑا کردیتے ہیں کہ آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا یا پھر اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے۔ قطعیّت میں بات نہیں ہوتی، درَیں اور درَوں معنویّت میں ہوتی ہے۔ کسی مصلحت کے تحت کبھی کبھی کوئی ایسی بات بھی کہہ جاتے ہیں کہ مخاطب انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔۔۔ وہ خود ہی موقف اور خود ہی موقوف ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ فقیری ستر چھپانے کی خاطر قول و فعل ہی کچھ کا کچھ کر گزرتے ہیں.....

حَد وِچ اولیاء، بے حَد رَہوے پِیر
ساریاں حَداں جہڑا ٹپّے، اَوہدا ناں فقیر
 
Top