F@rzana
محفلین
شمالی بلوچستان میں وادی ژوب کو افغان نسل کا گہوارہ مانا جاتا ہے۔ قدیم ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں پینتیس مقامات پر پرانی تہذیبوں کے آثار ملے ہیں۔ انہیں میں سے ایک پیریانوں غنڈئی یعنی جنات کا ٹیلہ بھی شامل ہے۔
مقامی آبادی کے مطابق یہاں سے کانسی کے دور کے آثارِ قدیمہ کی چوری کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے لیکن حکومت کے پاس اسے بچانے یا مناسب کھدائی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ژوب شہر کے نواح میں حد نظر تک پھیلے ہوئے میدانی علاقے میں پیریانوں غنڈئی ایک اونچے سے جزیرے کی شکل میں موجود ہے۔
اکثر خطہ خشک ہے البتہ اس ٹیلے کے مغرب میں دریائے ژوب سے تھوڑی بہت کاشت کاری کی جا رہی ہے۔
قریب ہی اس علاقے کے سب سے قدیم کلی اپوزئی کے مٹی کے درجنوں مکانات واقع ہیں۔ یہ ژوب کا سب سے پرانا گاؤں ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ گاؤں ہی اصل قدیمی ژوب ہے۔
حکومت کو تو فی الحال کوئی فکر نہیں لیکن اس گاؤں کے لوگ کافی تشویش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ انہیں پیرانوں غنڈئی میں جاری غیرقانونی کھدائی پر بہت دکھ ہے۔
کھدائی پر کوئی روک ٹوک نہیں جو چاہے جب چاہے یہاں آئے اور قسمت آزمائے۔ ہم نے بھی جب ٹیلے کی زمین کریدی تو چند ہڈیاں ہاتھ آئیں لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کسی جانور کی تھیں یا کسی انسان کی۔
ہماری تو یہ قسمت نہ تھی کہ کو ئی قیمتی چیز ہاتھ آتی لیکن اپوزئی گاؤں کے عبدالحلیم جیسے لوگ کافی کچھ اکٹھا کر چکے ہیں۔ انہیں قدیمی مٹکے، سکے، انسانی ڈھانچے اور زیوارت مل چکے ہیں۔
عبدالحلیم نے بتایا کہ انہیں ان کے باپ داد اس قدیم مقام کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہانہوں نے بہت اشیاء نکال کر اپنے پاس رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہم نے آثارِ قدیمہ کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ چیزیں دکھائی تھیں جنہوں نے انہیں کافی پرانا قرار دیا تھا‘۔
نوادرات کی اس چوری کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان آثار کے کھو جانے کے خوف سے مقامی اپوزئی یونین کونسل کے نائب ناظم عبدالغفور خود میرے پاس آئے اور مجھے یہ مقام دکھانے کی پیشکس کی۔
پیرانوں غنڈئی کی سیر میں عبدالغفور میرے فری گائیڈ ثابت ہوئے انہیں اس کھلی لوٹ مار پر سخت تشویش ہے۔ اس بےہنگم کھدائی سے ٹیلے میں جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں۔
عبدالغفور نے بتایا کہ اس ٹیلے کی مٹی نہ جانے کیوں بہت ذرخیز ہے اور لوگ اپنے کھیتوں اور باغات میں اسے ڈالنے کے لئے بھی لے جا رہے ہیں۔
ٹیلے میں جگہ جگہ ٹوٹے برتنوں کی باقیات شاید اس جانب اشارہ کر رہی تھیں کہ یہ عام لوگوں کی نہ تجربہ کار کھدائی کا شکار ہوچکے ہیں۔
عبدالغفور نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس مقام کو اپنے تحفظ میں لے کر یہاں مناسب طریقے سے کھدائی کرے تاکہ اسے بچایا جا سکے۔
یہ نوادرات دنیا لوٹ کر لے جا رہی ہے لیکن حکومت بلوچستان اس سے بے خبر ہے۔ کوئٹہ میوزیم کے اسحاق علی چنگیزی کا کہنا تھا ان کہ پاس ابھی تک اس مقام سے کوئی آثار قدیمہ نہیں آئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ کانسی کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
نوادرات کے علاوہ اس ٹیلے کی شہرت بھوت پریت کی وجہ سے بھی ہے۔ کلی اپوزئی کے لوگوں کے مطابق انہوں نے جنات کو دیکھا بھی ہے اور ان سے بچاؤ کے لئے ایک مولوی صاحب بھی ہر وقت گاؤں میں دستیاب رہتے ہیں۔
گاوں کے ایک رہائشی عبدالحلیم کا کہنا تھا انہوں نے یہ جن دیکھے ہیں۔
نائب ناظم عبدالغفور نے جنوں کو قابو میں رکھنے کے طریقہ کار پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ مولوی صاحب پہلے سے اس گاؤں میں موجود تھے اور لوگ ان سے دم کروانے کے لئے آتے رہتے ہیں۔
بحرحال اس وقت گاؤں کو جنوں سے نہیں بلکہ ٹیلے کو چوروں سے زیادہ خطرہ ہے۔ سب اس کے منتظر ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں کب حرکت میں آتی ہے۔
“بشکریہ بی بی سی “
مقامی آبادی کے مطابق یہاں سے کانسی کے دور کے آثارِ قدیمہ کی چوری کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے لیکن حکومت کے پاس اسے بچانے یا مناسب کھدائی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ژوب شہر کے نواح میں حد نظر تک پھیلے ہوئے میدانی علاقے میں پیریانوں غنڈئی ایک اونچے سے جزیرے کی شکل میں موجود ہے۔
اکثر خطہ خشک ہے البتہ اس ٹیلے کے مغرب میں دریائے ژوب سے تھوڑی بہت کاشت کاری کی جا رہی ہے۔
قریب ہی اس علاقے کے سب سے قدیم کلی اپوزئی کے مٹی کے درجنوں مکانات واقع ہیں۔ یہ ژوب کا سب سے پرانا گاؤں ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ گاؤں ہی اصل قدیمی ژوب ہے۔
حکومت کو تو فی الحال کوئی فکر نہیں لیکن اس گاؤں کے لوگ کافی تشویش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ انہیں پیرانوں غنڈئی میں جاری غیرقانونی کھدائی پر بہت دکھ ہے۔
کھدائی پر کوئی روک ٹوک نہیں جو چاہے جب چاہے یہاں آئے اور قسمت آزمائے۔ ہم نے بھی جب ٹیلے کی زمین کریدی تو چند ہڈیاں ہاتھ آئیں لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کسی جانور کی تھیں یا کسی انسان کی۔
ہماری تو یہ قسمت نہ تھی کہ کو ئی قیمتی چیز ہاتھ آتی لیکن اپوزئی گاؤں کے عبدالحلیم جیسے لوگ کافی کچھ اکٹھا کر چکے ہیں۔ انہیں قدیمی مٹکے، سکے، انسانی ڈھانچے اور زیوارت مل چکے ہیں۔
عبدالحلیم نے بتایا کہ انہیں ان کے باپ داد اس قدیم مقام کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہانہوں نے بہت اشیاء نکال کر اپنے پاس رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہم نے آثارِ قدیمہ کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ چیزیں دکھائی تھیں جنہوں نے انہیں کافی پرانا قرار دیا تھا‘۔
نوادرات کی اس چوری کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان آثار کے کھو جانے کے خوف سے مقامی اپوزئی یونین کونسل کے نائب ناظم عبدالغفور خود میرے پاس آئے اور مجھے یہ مقام دکھانے کی پیشکس کی۔
پیرانوں غنڈئی کی سیر میں عبدالغفور میرے فری گائیڈ ثابت ہوئے انہیں اس کھلی لوٹ مار پر سخت تشویش ہے۔ اس بےہنگم کھدائی سے ٹیلے میں جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں۔
عبدالغفور نے بتایا کہ اس ٹیلے کی مٹی نہ جانے کیوں بہت ذرخیز ہے اور لوگ اپنے کھیتوں اور باغات میں اسے ڈالنے کے لئے بھی لے جا رہے ہیں۔
ٹیلے میں جگہ جگہ ٹوٹے برتنوں کی باقیات شاید اس جانب اشارہ کر رہی تھیں کہ یہ عام لوگوں کی نہ تجربہ کار کھدائی کا شکار ہوچکے ہیں۔
عبدالغفور نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس مقام کو اپنے تحفظ میں لے کر یہاں مناسب طریقے سے کھدائی کرے تاکہ اسے بچایا جا سکے۔
یہ نوادرات دنیا لوٹ کر لے جا رہی ہے لیکن حکومت بلوچستان اس سے بے خبر ہے۔ کوئٹہ میوزیم کے اسحاق علی چنگیزی کا کہنا تھا ان کہ پاس ابھی تک اس مقام سے کوئی آثار قدیمہ نہیں آئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ کانسی کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
نوادرات کے علاوہ اس ٹیلے کی شہرت بھوت پریت کی وجہ سے بھی ہے۔ کلی اپوزئی کے لوگوں کے مطابق انہوں نے جنات کو دیکھا بھی ہے اور ان سے بچاؤ کے لئے ایک مولوی صاحب بھی ہر وقت گاؤں میں دستیاب رہتے ہیں۔
گاوں کے ایک رہائشی عبدالحلیم کا کہنا تھا انہوں نے یہ جن دیکھے ہیں۔
نائب ناظم عبدالغفور نے جنوں کو قابو میں رکھنے کے طریقہ کار پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ مولوی صاحب پہلے سے اس گاؤں میں موجود تھے اور لوگ ان سے دم کروانے کے لئے آتے رہتے ہیں۔
بحرحال اس وقت گاؤں کو جنوں سے نہیں بلکہ ٹیلے کو چوروں سے زیادہ خطرہ ہے۔ سب اس کے منتظر ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں کب حرکت میں آتی ہے۔
“بشکریہ بی بی سی “