ڈر اور خوف کیا ہیں....؟ تجزیہ نگار حاضر ہوں

فاروقی

معطل
دوستو میں کل ایک ناول کا مطالعہ کر ہا تھا ............جس میں ایک کردار کو رات کے اندھیرے اور تنہائی سے بڑا ڈر لگتا ہے .............تو مجھے ایک خیال سوجھا....کہ ہم لوگ روزانہ کتنی خبروں کے تجزیئے کرتے ہیں .....اور کھال سے بال نکال دیتے ہیں.......(فقرہ شاید تھوڑا غلط ہوگیا ہے .....بہر حال آپ اسے درست ہی سمجھیے گا...........)

تو کیوں نا تجزیہ نگار یہاں حاضر ہوں اور اس چیز کا تجزیہ کیا جائے کہ ،ڈر ،خوف، انسان کو کیوں محسوس ہوتا ہے ....کسی کو اندھیرے سے ڈر محسوس ہوتا ہے تو کسی کو تنہائی اور ویرانی سے ،کسی کو جنوں اور بھوتوں سے تو کسی کو انجانے دشمن سے..،..کوئی آنے والے وقت سے خوف زدہ ،تو کوئی بیتے ہوئے ماضی کی یادوں سےڈرتا ہے ....کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ انسان در کو اپنے اندر سے نکال سکے........نیز یہ ڈر ،خوف کیا ہے . . کس چیز سے جنم لیتا ہے....اس کی اصل کیا ہے ........انسان تو اشرف المخلوقات ہے پھر یہ ڈر اور خوف کیا معنی........؟
امید ہے تجزیہ نگار اس چیز یا احساس کا تجزیہ کریں گے .......اور اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا ....... اور یوں یہ بحث بے مقصد نہیں بلکہ کام کی بحث بن جائے گی..........

 

تعبیر

محفلین
میں ایک ڈر یا خوف کو بہت ضروری سمجھتی ہوں اور مجھےوہ بہت پسند بھی ہے اور وہ ہے خوف خدا۔
یہی وہ خوف ہے جو ہمیں گناہوں سے روکتا ہے
 

arifkarim

معطل
میں ایک ڈر یا خوف کو بہت ضروری سمجھتی ہوں اور مجھےوہ بہت پسند بھی ہے اور وہ ہے خوف خدا۔
یہی وہ خوف ہے جو ہمیں گناہوں سے روکتا ہے

قرآن کریم میں خشیعت الہی کا بکثرت ذکر ہے۔ جو دل خدا کے خوف سے بھرپور ہوگا وہی دل خدا تعالی کی طرف سے مکمل حفض و امان میں ہوگا۔ یقنیا یہ خدا کا خوف اور اسکے آگے اپنے اعمال کی جوابدہی ہی ہے جو انسان کو جانور سے انسان بناتی ہے۔ جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ یقینا درندہ ہے اور اپنے رب کا ناشکرہ!
 

شمشاد

لائبریرین
آپ بات کو دوسری طرف لے گئے۔ خوف خدا بہت اچھی بات ہے۔

فاروقی بھائی کے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اندھیرے میں جانے سے خوف محسوس ہوتا ہے، بہت سے لوگ تنہائی سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو اپنے گھر میں رہتے ہوئے رات کے وقت اپنی چھت پر جانے سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ آخر یہ خوف یہ ڈر ہے کیا؟

اجالے میں نظر آنے والی چیزوں کا خوف مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک خوفناک کُتا آپ کے راستے میں آ گیا تو خوف محسوس ہو گا کہ کہیں کاٹ نہ لے۔ ایسے ہی ویران جگہ پر سفر کرتے ہوئے چور ڈاکو کا خوف رہتا ہے۔ بعض لوگوں کو سفر میں بلا وجہ ہی ایکسیڈنٹ کا خوف رہتا ہے، وغیرہ۔
 

محسن حجازی

محفلین
خوف کی وجوہات پر میں نے ماضی میں کافی غور و خوض کیا ہے۔ ان فکر کا نچوڑ کچھ یوں ہے:

الف) خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے اور یوں عمل اکتساب کی اضافی پیداوار یا by product ہے۔
ذیلی منطقی نتیجہ - اگر خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے، تو عدم خوف آمدہ تجربات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔(مزید اکتساب)
ب) خوف کا تعلق تعدد مشاہدہ سے بھی ہے۔ (یہ نکتہ پہلے سے مربوط ہے، کہ مشاہدہ اور اکتساب باہم مربوط ہیں)

اب ان خشک اور لپٹی ہوئی باتوں کی وضاحت کرتا ہوں۔

مجھے 2002 میں سکوٹر پر ایک خطرناک حادثے سے دو چار ہونا پڑا جس کے نتیجے میں میری کالر بون ٹوٹ گئی اور عمل جراحی سے گزرنے کے بعد مجھے تین مہینے بستر پر گزارنا پڑے۔ یہ دور وہ تھا جب میں تازہ تازہ انٹر سے نکلا تھا ( شمشاد بھائی تب آمد بھی ہوا کرتی تھی :grin: ) اس تجربے نے مجھ میں سڑکوں کے بارے میں بہت خوف بھر دیا اور مجھے ڈرائیو کرنے سے خوف آنے لگا۔ یہاں تک کہ اسلام آباد میں اپنی موٹرسائیکل خریدنے کے بعد بھی مجھے کہیں آنے جانے میں بہت خوف آتا تھا کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح بات ٹل جائے۔ جس سے خریدی تھی اس نے بھی یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ تم چھوٹے بھائی کی طرح ہو یہ 125 سی سی کی موٹرسائیکل نرا شیطانی چرخہ ہے دھیان سے چلانا۔ میرے پس منظر میں ایک حادثہ بھی تھا سو مجھے چالیس سے اوپر چلانے میں بہت خوف محسوس ہوتا تھا۔
سابقہ حادثے میں ایک بغلی گلی سے اچانک کوئی نکل آیا تھا اور میں اس میں جا لگا تھا، اب یہاں اسلام آباد میں بھی جہاں کوئی سڑک ملتی ہوئی نظر آتی خوف طاری ہو جاتا کہ کوئی آگے سے نہ آ جائے۔

یہ حصہ تو وہ ہوا کہ خوف عموما سابقہ تجربات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اب میں نکتہ الف کی ذیلی شق میں اخذ کردہ نتیجے کی طرف آتا ہوں۔
آمدہ تجربات سے خوف پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور وہ ایسے کہ میں سڑک پر دو سال چلاتا رہا اور مجھ پر کھلا یا یوں کہہ لیجئے کہ میں نے سیکھا کہ ٹریفک قوانین کی پابندی، سڑک پر اپنا حق چھوڑ دینے کی عادت اور تحمل سے حادثات کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک مجھ پر یہ خوف طاری نہیں ہوا۔

اب آئیے نکتہ ب کی طرف کہ خوف تعدد مشاہدہ سے بھی مربوط ہے۔ اس کے لیے ہمیں آئنی سٹائین کی طرح ایک مائیڈ گیم کھیلنا ہوگی۔

فرض کیجئے کہ آپ کو ایک جگہ سے ملازمت کی پیشکش آتی ہے۔ آپ مقررہ وقت پر انٹرویو کے لیے پہنچتے ہیں، کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کی نظر سامنے بیٹھے شخص پر پڑتی ہے۔ اس کے آٹھ ہاتھ اور بارہ ٹانگیں ہیں! وہ کسی مکڑی کی طرح براجمان ہے! آپ خوف سے یقینی طور پر چیخ اٹھیں گے۔ کیوں کہ اب تک جو انسان آپ نے دیکھ رکھے ہیں، وہ ایسے نہیں ہیں۔ اسی دوران وہ آپ کے لیے کافی منگواتا ہے۔ کافی لے کر آنے والا شخص بھی بارہ ٹانگوں پر مکڑی کی طرح چلتا آ رہا ہے اور آٹھوں مختلف ہاتھوں میں کپ، تھرماس، چمچ، خالی کپ، بسکٹ وغیرہ تھامے ہوئے ہے۔ آپ پھر خوف سے چیخ اٹھتے ہیں۔ سامنے بیٹھا شخص مسکراتا ہے اور آپ کو تسلی دیتا ہے کہ گھبرائیے مت، یہاں ایک ہزار ملازمین ہیں، سبھی اسی طرح کے ہیں۔ آپ کا خوف مزید انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

اب مزید آگے چلئے۔ تنخواہ اس قدر بھاری ہے کہ آپ سب دیکھتے ہوئے بھی کام کرنے کے کو تیار ہیں۔ آپ کو کام کرتے چھے ماہ بیت گئے آپ دیکھتے ہیں کہ یہ بارہ ٹانگوں اور آٹھ ہاتھوں والے لوگ خطرناک نہیں ہیں تعدد مشاہدہ یعنی بار بار کا مشاہدہ خوف ختم کر دیتا ہے۔ مزید باریکی میں یوں کہ بارہا کا مشاہدہ اکتساب کو جنم دیتا ہے جو نتیجے کے طور پر خوف سے نجات پر منتنج ہوتا ہے۔

اب مزید آگے چلئے۔ آپ اپنے ایک دوست کو کہتے ہیں کہ آج ہم باہر نہیں مل سکیں گے بہت کام ہے، سو میرے دفتر ہی آ جاؤ۔ وہ جونہی داخل ہوتا ہے، آپ کو پانچ سات عجیب الخلقت لوگوں میں گھرا دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے۔ جبکہ آپ ان لوگوں میں بیٹھ کر بھی نہیں چیخ رہے۔ کیوں؟ تعدد مشاہدہ۔ آپ کا روز کامشاہدہ ہے، وہ پہلی بار دیکھ رہا ہے۔

تعدد مشاہدہ کی آخری مثال ہے بچھو۔ مجھے بچھو کی ساخت سے بہت خوف آتا ہے بدن مین سنسنی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ اس خوف سے نجات پانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ میرے ہر طرف بچھو ہی بچھو ہوں اور میں عادی ہو جاؤں یا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں چشم تصور سے بچھو کو دیکھوں، اس پر ہاتھ پھیروں، اس کے ڈنک کو کو چھیڑوں تو میرا خوف کم ہو جائے گا۔
ابھی تک اس خوف کے لیے میں نے اتنا کیا ہے کہ بچھو کی ساخت کم سے کم اتنی خوف زدہ نہیں کرتی تاہم اب میں یہ ذہنی مشق کرتا ہوں کہ ایک ایسا بچھو جس کا وزن پانچ کلو سے اوپر اور طوالت دو فٹ سے زیادہ ہے، اسے رینگتا ہوا دیکھ رہا ہوں، وہ میرے کمرے میں ہے۔ یقین مانئے خوف سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن کب تک؟ چند دنوں میں عادت ہو جائے گی۔

اسی طرح مجھے اپنی ملازمت کے بارے میں کئی خدشات لاحق تھے، ان پر بھی اسی قسم کی ذہنی مشقوں سے نجات حاصل کی۔ اگر آپ بھی کسی خوف میں مبتلا ہیں تو یہ نسخہ آزما سکتے ہیں۔

تاہم پیش کردہ آرا کی صحت پر مجھے قطعی کوئی اصرار نہیں۔
 

فاروقی

معطل
خوف کی وجوہات پر میں نے ماضی میں کافی غور و خوض کیا ہے۔ ان فکر کا نچوڑ کچھ یوں ہے:

الف) خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے اور یوں عمل اکتساب کی اضافی پیداوار یا By Product ہے۔

بقول آپ کے خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے ............لیکن آپ ایک چھوٹے بچے کے خوف کو کس جگہ فٹ کریں گے......؟.ایک ایسا بچہ جیسے ابھی شعور نہیں ہے........جب شعور نہیں تو سابقہ تجربات کہاں یاد رہیں گے.........اکثر بچے سوتے ہوئے ڈر جاتے ہیں .......کوئی بڑی عمر کا ڈرے تو ہم غلط ملط کھانے کا نتیجہ یا اس کی سوچ قرار دے دیتے ہیں .......تو ہم بچے کے ڈر کو کس چیز کا نام دیں.............کیا ایک بچہ بھی لاشعوری طور پر شعور رکھتا ہے .......کہ ان دیکھی چیزوں سے خوف محسوس کرتا ہے.......؟

محسن حجازی نے کہا:
بار بار کا مشاہدہ خوف ختم کر دیتا ہے

آپ کا مطلب ہے کہ جس چیز سے انسان خوفزدہ ہو جس عمل سے خوف زدہ ہو اس عمل بار بار کرنے سے سوچنے سے اس کا خوف دور کیا جا سکتا ہے........؟
مثلا ایک آدمی شیر سے خوف زدہ ہے ......(جیسا کہ آپ نے بچھو کی مثال دی ) اب اگر وہ خیالوں میں یا بقول آپ کے مشق کے ذریعے .............کہ شیر میرے پاس ہے .....ارد گرد گھوم پھر رہا ہے ......... کبھی مجھے سونگتا ہے کبھی درندگی سے میری طرف دیکھتا ہے..........جیسی مشقوں سے کیا ڈر خوف دور کیا جا سکتا ہے ........؟میرے خیال سے جو جس چیز کا خوف اپنے اندر محسوس کرتا ہے ......وہ تو اس کا تصور کرنے سے رہا..........اور اگر ایسی کوئی مشق کرے گا بھی تو اس میں اسے کیا توجہ حاصل ہو پائے گی........مثلا کوئی اندھیرے سے ڈرتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ کبھی ایسی مشق کی کوشش کرے گا جس سے اسے ڈر محسوس ہوتا ہو............
 

جیا راؤ

محفلین
آپ کا مطلب ہے کہ جس چیز سے انسان خوفزدہ ہو جس عمل سے خوف زدہ ہو اس عمل بار بار کرنے سے سوچنے سے اس کا خوف دور کیا جا سکتا ہے........؟
مثلا ایک آدمی شیر سے خوف زدہ ہے ......(جیسا کہ آپ نے بچھو کی مثال دی ) اب اگر وہ خیالوں میں یا بقول آپ کے مشق کے ذریعے .............کہ شیر میرے پاس ہے .....ارد گرد گھوم پھر رہا ہے ......... کبھی مجھے سونگتا ہے کبھی درندگی سے میری طرف دیکھتا ہے..........جیسی مشقوں سے کیا ڈر خوف دور کیا جا سکتا ہے ........؟میرے خیال سے جو جس چیز کا خوف اپنے اندر محسوس کرتا ہے ......وہ تو اس کا تصور کرنے سے رہا..........اور اگر ایسی کوئی مشق کرے گا بھی تو اس میں اسے کیا توجہ حاصل ہو پائے گی........مثلا کوئی اندھیرے سے ڈرتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ کبھی ایسی مشق کی کوشش کرے گا جس سے اسے ڈر محسوس ہوتا ہو............

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ایک مریض علاج سے اس لئے بھاگتا ہے کہ وقتی طور پر اسے تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔ مگر اس کا علاج سے انکار علاج یا طریقہ علاج کے غلط ہونے کی دلیل نہیں !

انسان کا دماغ بھی اس کے جسم کی طرح کام کرتا ہے۔۔۔ مثال کے طور پر الرجی کا طریقہ علاج دیکھئیے... اس میں وہی چیز (Allergen) کہ جس سے آپ کو الرجی ہے کچھ ماہ کے فرق سے بار بار آپ کے جسم میں داخل میں کی جاتی ہے تا کہ آپ کا جسم اس کا عادی ہو جائے بالآخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ allergen آپ کے جسم کے لئے نیا نہیں رہتا اور جسم اس کے خلاف کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کرتا۔۔۔۔


خوف یا پسند، نا پسند کے متعلق آپ کا شعور، لا شعور بھی اسی اصول کے تحت کام کرتا ہے۔۔۔۔۔
 

محسن حجازی

محفلین
بقول آپ کے خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے ............لیکن آپ ایک چھوٹے بچے کے خوف کو کس جگہ فٹ کریں گے......؟.ایک ایسا بچہ جیسے ابھی شعور نہیں ہے........جب شعور نہیں تو سابقہ تجربات کہاں یاد رہیں گے.........اکثر بچے سوتے ہوئے ڈر جاتے ہیں .......کوئی بڑی عمر کا ڈرے تو ہم غلط ملط کھانے کا نتیجہ یا اس کی سوچ قرار دے دیتے ہیں .......تو ہم بچے کے ڈر کو کس چیز کا نام دیں.............کیا ایک بچہ بھی لاشعوری طور پر شعور رکھتا ہے .......کہ ان دیکھی چیزوں سے خوف محسوس کرتا ہے.......؟



آپ کا مطلب ہے کہ جس چیز سے انسان خوفزدہ ہو جس عمل سے خوف زدہ ہو اس عمل بار بار کرنے سے سوچنے سے اس کا خوف دور کیا جا سکتا ہے........؟
مثلا ایک آدمی شیر سے خوف زدہ ہے ......(جیسا کہ آپ نے بچھو کی مثال دی ) اب اگر وہ خیالوں میں یا بقول آپ کے مشق کے ذریعے .............کہ شیر میرے پاس ہے .....ارد گرد گھوم پھر رہا ہے ......... کبھی مجھے سونگتا ہے کبھی درندگی سے میری طرف دیکھتا ہے..........جیسی مشقوں سے کیا ڈر خوف دور کیا جا سکتا ہے ........؟میرے خیال سے جو جس چیز کا خوف اپنے اندر محسوس کرتا ہے ......وہ تو اس کا تصور کرنے سے رہا..........اور اگر ایسی کوئی مشق کرے گا بھی تو اس میں اسے کیا توجہ حاصل ہو پائے گی........مثلا کوئی اندھیرے سے ڈرتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ کبھی ایسی مشق کی کوشش کرے گا جس سے اسے ڈر محسوس ہوتا ہو............


چھوٹے بچے بالکل بھی کورے نہیں ہوتے۔ 'خود' کا احساس دو چار روز کے بچے کو بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح خوف بنیادی طور پر انجانی چیز سے ہوتا ہے۔ مثلا چھوٹا بچہ بلی سے ڈر جاتا ہے۔ یا ایسا بھی ہوتا ہےکہ اگر باپ کی داڑھی نہیں اور بچہ کسی داڑھی والے کی گود میں جاتا ہے تو وہاں ڈر کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ بات وہی کہ بچے کا یہ مشاہدہ نہیں تھا۔ اس کے خیال میں انسان ایسے نہیں ہوتے لیکن جب ایک داڑھی والا سامنے دیکھا تو سہم گیا۔
کچھ خوف، احساسات اور چیزیں built in ہوتی ہیں مثلا چھوٹے شیرخوار کا خوراک حاصل کرنا وغیرہ۔ سو یہ سمجھنا غلط ہے کہ نومولود بالکل ذہنی طور پر کورے ہوتے ہیں۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
بہت اچھی اور تعمیری بحث ہورہی ہے، میرے خیال میں اردومحفل کو ایسی ہی تعمیری مباحث کی ضرورت ہے۔

محسن صاحب کا تجزیہ بہت اعلٰی معیار کا ہے۔ لیکن ہمارے سماج میں کچھ ایسے خوف بھی ہیں جن کا تعدد مشاہدہ سے علاج نہیں ہوسکتا۔ بلکہ چشم تصوّر کرنے سے خوف اور زیادہ بھیانک صورت اختیار کرسکتا ہےجیسے ایک مڈل کلاس کے سفید پوش فردکا اپنی سفید پوشی چھن جانے کا خوف جوان بیٹیوں کے رشتے نہ آنے کا خوف دِہاڑی پر گھر چلانے والے کو دِہاڑی نہ لگنے کا خوف وغیرہ وغیرہ وغیرہ

اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری قوم کاواقعی ہر لمحہ کرب میں گزر رہا ہے اور ظلم کی انتہا کہ کوئی نفسیاتی مدد یا ڈھارس ملنے کی بھی کہیں سے امید نہیں۔
 

طالوت

محفلین
میں نے کہیں (غالبا بی بی سی اردو) پر ایک تحقیقی رپورٹ کی خبر پڑھی تھی ۔۔ جس میں خوفناک فلموں سے ڈرنے یا نا ڈرنے سے متعلق بیان کیا گیا تھا۔۔
کہ کچھ لوگ ایسی فلمیں دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں جب کہ کچھ کی گھگھی بندھ جاتی ہے ۔۔ اس میں دونوں صورتوں یعنی خوف یا بے خوفی کی وجہ ایک ہارمونز کو بتایا گیا تھا جس کی کمی یا زیادتی خوف یا بے خوفی کو پیدا کرتی ہے
وسلام
 

arifkarim

معطل
میں نے کہیں (غالبا بی بی سی اردو) پر ایک تحقیقی رپورٹ کی خبر پڑھی تھی ۔۔ جس میں خوفناک فلموں سے ڈرنے یا نا ڈرنے سے متعلق بیان کیا گیا تھا۔۔
کہ کچھ لوگ ایسی فلمیں دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں جب کہ کچھ کی گھگھی بندھ جاتی ہے ۔۔ اس میں دونوں صورتوں یعنی خوف یا بے خوفی کی وجہ ایک ہارمونز کو بتایا گیا تھا جس کی کمی یا زیادتی خوف یا بے خوفی کو پیدا کرتی ہے
وسلام

قیامت کے روز انسان پر جو خوف اور وحشت طاری ہوگی، اسکا تعلق کسی ہارمون، پچھلے مشاہدات، یا موجودہ حالات سے ہرگز نہ ہوگا، بلکہ وہ خوف یقینا ان اعمال کی وجہ سے ہوگا، جو کہ انسان اس دنیا میں کر چکا ہے!
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی جی آپ بحث کو دوسری طرف لے گئے۔ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ ڈر اور خوف جو ہم دنیاوی طور پر محسوس کرتے ہیں، اس پر بحث ہو رہی ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں محسن حجازی صاحب سے بالکل سو فیصد متفق ہوں، ہم مشاہدات اور ذہنی مشقوں سے خوف پر قابو پا سکتے ہیں۔
خوف انسان کی فطرت میں شامل کیا گیا ہے، ہر انسان کے اندر خوف موجود ہوتا ہے، اور کسی کے خوف کی وجوہات الگ الگ ہوتی ہیں، میرا ڈیڑھ سالا بچہ جو بل کو دیکھ کر ڈر جاتا تھا اور اتنا روتا تھا کہ ہچکی بندھ جاتی تھی پھر میں نے ایک طریقہ استعمال کیا کہ اسے کھلونا بلی لا کر دی اس سے بھی وہ ڈرتا تھا مگر میں نے آہستہ آہستہ اسے باور کرایا کہ یہ کچھ نہیں کہتی تب اس نے اس سے کھیلنا شروع کر دیا، اب وہ جاندار بلی سے بھی کم ڈرتا تھا اور پھر کچھ دنوں بعد ایک دن میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اسنے ایک بلی ( جاندار جو کہ اکثر گھر میں رہتی تھی) کو پونچھ سے پکڑ رکھا ہے اور اسے گھسیٹ رہا ہے اور ہنس رہا ہے۔
میرا تجربہ ہیکہ اگر آپ کو رات کے وقت چھت پر جانے سے ڈر لگتا ہے تو آپ کچھ دن خیالوں میں چھت پر جائیں پھر جب آپ کا خوف کچھ کم ہو تو کسی کو ساتھ لیکر چھت پر جائیں اور کچھ دیر وہاں گذاریں آپ دیکھیں گے کے آپ کا خوف نہ ہونے کے برابر رھ گیا ہے پھر آپ یہ ہمت اکیلے کریں چند ہی دنوں میں آپکا خوف دور ہوجائے گا۔
ہمیں جنوں اور بھوتوں سے بھی خوف اسی لیئے آتا ہیکہ ہم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔
میرا خیال اور ذاتی تجزیہ ہیکہ انسان کے اندر خوف قدرت کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے جو کہ ایک حس ہے اور وہ اسے غلط اور نقصان پہنچانے والی حرکات سے روکتی ہے یہ خوف ہی جسکی وجہ سے ہم اللہ سے ڈرتے ہیں اور قیامت کے حساب سے خوف زدہ ہو کر نیک اعمال کی طرف رجوع کرتے ہیں، خوف انسان میں ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیئے اللہ نے انسان کو گناہوں کے عذاب سے ڈرایا ہے ، سوچیں کہ اگر انسان میں خوف نہ ہوتا تو پھر دنیا کیسی ہوتی۔
بلاوجہ اور خوف کی زیادتی انسان کی زندگی کو نہایت مضحکہ خیز بنا دیتی سو ہم محسن کی بتائی ہوئی مشقوں اور مشقی مشاہدات سے اپنے خوف کو قابو میں کر سکتے ہیں، مگر یہ نہ کہ کتے سے ڈر ہے تو خوف کو ختم کرنے کے لیئے اسے گلے لگانے دوڑ پڑیں :)۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بات اور کہ کیا وہم بھی خوف کی ہی ایک قسم ہے؟ مثلاً کسی کو یہ وہم ہے کہ کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو کچھ نہ کچھ ہو گا یا اسی طرح کے وہم، تو کیا یہ بھی خوف یا ڈر کی ہی کوئی قسم ہے؟
 

arifkarim

معطل
ایک بات اور کہ کیا وہم بھی خوف کی ہی ایک قسم ہے؟ مثلاً کسی کو یہ وہم ہے کہ کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو کچھ نہ کچھ ہو گا یا اسی طرح کے وہم، تو کیا یہ بھی خوف یا ڈر کی ہی کوئی قسم ہے؟

میرے خیال میں وہم کا خوف سے وہی تعلق ہے، جیسا کہ الرجی کا تعلق جلد سے ہے۔ وہم ایک قسم کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس میں انسان ایسی چیزوں سے خوف کھاتا ہے، جسکی اکثر کوئی خاص لاجیکل وجہ نہیں ہوتی۔ مثلا اگر کوئی شیر راستے پر سے گزر جائے تو خوف کا آنا لازمی بات ہے، لیکن بلی تو انسانوں کیلئے بے ضرر ہے،،، صرف ایک خیال کی بناء پر کہ کالی بلی منحوس ہوتی ہے، اپنے اندر خوف محسوس کرنا ایک جہالت سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ یہ ہندووں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں!

وہم کا تعلق شبہ سے بھی ہوسکتا یے، جیسے بعض لوگوں کو بار بار ہاتھ دھونے کی عادت ہوتی ہے، کیونکہ انہیں ''شبہ'' ہوتا ہے کہ ایک بار ہاتھ دھونے سے ہاتھ صاف نہیں ہوئے، اسلئے صرف اپنے آپ کو تسلی دینے کیلئے بار بار واش روم کا رخ کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر دوسری اشیاء کو ہاتھ نہ لگایا جائے، تو ہاتھ ایک ہی بار میں صاف ہو جاتے ہیں!
 
Top