ڈاکٹر وحید احمد ::::::اُس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی::::::‎Dr. Waheed Ahmed

طارق شاہ

محفلین


"کولاژ"
اُس نے مُٹھی کے گُلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پُھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے

اُس نے پاؤں دھرے گھاس کے فرش پر
پاؤں کا دُودِھیا پَن سوا ہوگیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہوگیا

اُس نے دیکھا اماوس بھری رات کو
رات کے سنگ خارا میں روزن ہُوا
نُور جوبن ہُوا، چاند روشن ہُوا

اُس نے اِک بیضوی سا اِشارہ کیا
سوچ کی مستطیلیں پگھلنے لگیں
خواہشوں کی تکونیں بھڑکنے لگیں

جب سلیٹ آسماں کی تپکنے لگی
اس نے بارش لکھی پور کے چاک سے
دستِ نمناک سے، لمسِ بیباک سے

اُس نے رحلِ دَہن پر سُخن جو رکھا
ہر سماعت کے پردے کو جزداں کِیا
شاملِ جاں کیا، جُزوِ اِیماں کِیا

اُس کو چُھو کر ہوا جو مُسافر ہُوئی
بانس بن سارا مُرلی منوہر کِیا
سیپ گوپی ہُوئی، رقص جوہر ہُوا

وقت تہہ دار کاغذ کا پُتلا ہُوا
برج اُس کے اِشاروں پہ چلنے لگے
رات دِن اُنگلیوں پہ نِکلنے لگے

گیلے ساحِل نے جب اُس کے پاؤں چکھے
اُس کے نمکیں لَبوں میں فتوُر آگیا
بحر کو ذائقے کا شعوُر آگیا

اُس نے بھادوں کے ابٹن سے چہرہ رنگا
قوسِ رنگیں کو گردن پہ زیبا کِیا
نرم سورج کی بندیا کو ٹکیا کِیا

میں نے چُٹکی سفوفِ شفق سے بَھری
پِھر پڑھا اُس کی آنکھوں کی تحرِیر کو
بھر دِیا کامنی مانگ کے چیر کو

ہم نے شاخِ شَبِستاں سے لمحے چُنے
اُس نے اُجلی کلائی کو گجرا دِیا
میں نے بحرِ تمنّا کو بجرا دِیا

وحید احمد

 
Top