ڈاکٹر دعا گو ص 164 تا 205

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ڈاکٹر دعا گو ص 164 تا 205

" میں بڑی دیر سے برداشت کر رہا ہوں۔" فیاض بولا۔ " تم مستقل طور پر مس فٹزواٹر کی توہین کئے جا رہے ہو!"
عمران کچھ نہ بولو۔ وہ سوچ رہا تھا۔ پتہ نہیں جولیا اب کیا کر گزری ہے! کہاں تو فیاض اسے پھانسی پر چڑھا دینا چاہتا تھا اور کہاں اب یہ خوش فعلیاں! وہ سمجھتا تھا کہ جولیا پر اس کی نظر پڑتے ہی مہابھارت شروع ہو جائے گی۔

کمرے کی فضا پر خاموشی مسلط تھی۔ اتنے میں چائے آ گئی لیکن نرس نہیں آئی تھی۔ سلیمان ٹرانی دھکیلتا ہوا قریب آیا۔
عمران بڑی الجھن میں تھا۔ سوچ رہا تھا کہ کہیں جولیا یہیں رہ پڑنے پر نہ تل جائے۔ ایسی صورت میں بڑی دشواریاں پیش آئیں گی۔
چائے کے دوران میں اس نے فیاض سے کہا۔ " ان محترمہ کا وارنٹ کہاں ہے۔"
"وارنٹ ۔۔ کیا بک رہے ہو!" فیاض نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"مارتھا کی زہر خورانی کے سلسلے میں۔۔"
"کمال ہے بھئی ۔۔ ارے میں صرف پوچھ گچھ کرنا چاہتا تھا!"
"اوہو ۔۔ " عمران سیٹی بجانے کے سے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر رہ گیا۔
" کیا قصہ تھا ۔۔!" جولیا نے پیالی میں چمچہ چلاتے ہوئے پوچھا۔
"کچھ بھی نہیں!" فیاض جلدی سے بولا۔ " میں نے ان سے آپ کے بارے میں پوچھا یہ حضرت پتہ نہیں کیا سمجھ بیٹھے ۔۔ وارنٹ لا حول ولا قوۃ ۔۔"
بوکھلاہٹ میں ہو وہ انگریزی جملے کے اختتام پر عربی ہی بول گیا تھا۔

عمران نے طویل سانس لی اور سلیمان سے نرس کے متعلق پوچھا ۔۔ اس نے بتایا کہ وہ باورچی خانے ہی میں چائے پیئے گی۔
چائے پی کر فیاض رخصت ہو گیا۔ اور جولیا نے بے تحاشہ قہقہے لگانے شروع کر دیئے۔ کچھ کہے بغیر ہنستی ہی چلی گئی۔ پھر بولی۔ " سمجھ میں نہیں آتا اس گدھے کو سپرنٹنڈنٹ کس نے بنا دیا ہے۔"
"اے تم میرے سامنے میرے کسی دوست کی توہین نہیں کر سکتیں۔"
"تمہارے سارے دوست تم سے زیادہ گدھے ہیں۔"
"تم بھی دشمن تو نہیں۔"
"مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں نے مارتھا کے کمرے میں کوئی غیر معمولی بات تو نہیں دیکھی تھی۔ بالکل اس انداز سے گفتگو کرتا رہا تھا جیسے اسے تمہارے خاندان کی عورتوں پر شبہ ہو! خصوصیت سے ثریا کے متعلق۔ کہ وہ صراحی کی طرف تو نہیں گئی تھی۔"
"اسے پوچھنا ہی چاہیے۔ فرض ٹھہرا۔"
"اور تم اسے اپنا دوست کہہ رہے ہو؟"
"تو پھر رحمان صاحب کو باپ بھی نہ کہوں جنہوں نے میری گرفتاری کی تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں۔"
"اچھا؟" جولیا نے حیرت سے کہا۔۔" پھر۔۔!"
"دفتر خارجہ سے پھٹکار پڑی۔۔ سیدھے ہو گئے۔۔"
"دعاگو کا کیا قصہ تھا۔۔"
"وہی جو تم سن چکی ہو۔۔ اس سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا!"
فون کی گھنٹی بجی۔
عمران نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔دوسری طرف سے رحمان صاحب بول رہے تھے۔
"آپریشن کیسا رہا۔"
"ٹھیک ہے جناب!" عمران نے جواب دیا۔
"اگر تم فلیٹ سے باہر نکے تو اچھا نہ ہو گا۔۔"
"جی۔۔ نہیں نکلوں گا۔۔"
"تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکو گے!"
"میں جانتا ہوں کہ آپ کا محکمہ اس وقت میرے فلیٹ میں بہت دلچسپی لے رہا ہے۔"
"ہوں بس!" دوسرے طرف سے رحمان صاحب غرائے اور سلسلہ منقطع ہو گیا۔
عماران نے ٹھنڈی سانس لی۔ ریسیور کریڈل پر ڈال دیا اور جولیا کی طرف دیکھ کر پھر ایک ٹھنڈی سانس لی۔
"کون تھا؟" جولیا نے پوچھا۔
"ساری دنیا کا باپ۔۔"
"یعنی تمہارا باپ۔۔" جولیا مضحکانہ انداز میں ہنس پڑی۔
عمران مایوسی سے سر ہلاتا ہوا لیٹ گیا۔
"یہ زخم کب ٹھیک ہو گا۔" جولیا نے پوچھا۔
"مت بور کرو۔۔"
"وہ لڑکی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی!" جولیا نے چبھتے ہوئے زہریلے لہجے میں کہا۔ جس کے لئے تم تین بجے رات گولی کھانے گئے تھے۔!"
"تم اتنی بے درد کیوں ہو جولیا۔۔ میں اس معصوم لڑکی کے لئے سچ مچ مغموم ہوں۔"
"مغموم ہو۔۔ مغموم۔۔!" جولیا ایک دم بھڑک اٹھی۔ "تم۔۔ جھوٹے ہو۔ سو سو فیصدی جھوٹے۔۔ تم اسے اپنا آلہ کار بنانا چاہتے تھے۔۔ اور بس۔۔!"
"چلو یہی سہی! کیا میں اپنی اسکیمیں فیل ہوتے دیکھ کر مغموم نہیں ہو سکتا!
جولیا برا سے منہ بنائے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ پھر یک بیک بولی۔ " اچھا اس نرس کو رخصت کر دو۔۔ اس می موجودگی قطعی ضروری نہیں ہے۔"
"یہ سول سرجن کی طرف سے مجھ پر مسلط کی گئی ہے۔۔ سول سرجن نہیں بلکہ رحمٰن صاحب کی طرف سے!"
"میں کچھ نہیں جانتی۔۔"
"پھر میری دیکھ بھال کون کرے گا۔"
"دیکھ بھال۔۔ دیکھ بھال۔۔ سلیمان اور جوزف کافی ہیں۔"
"اوہ تو مرتے وقت بھی اسی ناہنجار حبشی کی شکل سامنے رہے گی۔۔ کیوں۔۔؟" عمران نے بے بسی سے کہا۔
جولیا کچھ کہنے ہی والی تھی کہ باورچی خانے سے مختلف قسم کی آوازوں کا طوفان سا امنڈ پڑا۔
سلیمان اور جوزف کی آوازیں۔۔ اور سریلی سے نسوانی چیخیں بھی انکا ساتھ دے رہی تھیں۔۔
عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔۔!
 

شمشاد

لائبریرین
پھر وہ باورچی خانے کی طرف جھپٹا۔ جولیا پیچھے تھی۔
باورچی خانے میں خاصی ابتری نظر آئی۔ جوزف سلیمان پر چڑھا بیٹھا گھونسوں سے اس کی تواضع کر رہا تھا! سلیمان کے حلق سے ادھوری گالیاں پھسل رہی تھیں اور نرس دور کھڑی چیخے جا رہی تھی۔۔!
"ابے او۔۔ مردود۔۔" عمران دہاڑا۔ "یہ کیا ہو رہا ہے۔ چھوڑ اسے ورنہ ٹھوکریں ماروں گا۔۔"
"نہیں باس تم دخل نہ دو۔۔" جوزف غرایا۔" یہ نطفہ حرام مجھے عورت کے سامنے چھیڑتا ہے۔۔ مار ڈالوں گا۔۔"
"نہیں سنا۔۔ دیکھ جوزف میں اس کی پروا نہیں کروں گا کہ زخمی ہوں۔۔"
"جوزف اچھل کر الگ ہٹ گیا اور سلیمان نے ہڈی کاٹنے والا چھرا بیگ سے نکال لیا۔
"خبردار۔۔ اور سلیمان۔۔ ناہنجار۔۔!"
"مار ڈالوں گا سالے کو۔۔ آپ نہ بولئے۔"
عمران نے آگے بڑھ کر داہنے ہاتھ سے اسے دھکا دیا اور وہ میز سے جا ٹکا۔
"کھال کھینچ لوں گا۔" عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
سلیمان چھرا مٹھی میں دبائے کھڑا ہانپتا رہا۔
عمران نے نرس کو اشارہ کیاکہ وہ بھی کمرے میں جائے۔
جب وہ چلی گئی تو عمران نے سلیمان کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے کہا "موقع محل بھی دیکھا کر۔۔!"
"بس صاحب جائیے۔۔ مجھے زیادہ بور نہ کیجئے۔۔ سالے کو اگر کھانے میں جمال گوٹہ نہ دیا تو کچھ بھی نہ کیا۔"
"ہاں۔۔ اب قائدے کی بات کی تو نے۔۔ اگر یہ دیکھو کہ مقابل تم سے تگڑا ہے تو ہمیشہ لپٹ جھپٹ سے گریز کرو۔۔! جمال گوٹہ ۔۔ اب تو نے ظاہر کی ہے اپنی ذہانت۔۔ بس اب چل چولہے ہانڈی میں۔۔"
اسے سمجھا کر پھر خواب گاہ میں آیا۔ یہاں نرس اور جولیا ایک دوسرے سے کچھ سمجھنے کی کوشش میں مشغول نظر آئیں۔
جوزف پشت کے کمرے میں بیٹھا ہانپ رہا تھا! عمران کو دیکھ کر اس نے سر اٹھایا اسے گھورتا رہا لیکن کچھ بولا نہیں۔۔!
"اپنی سزا سنو!" عمران غرایا۔ "ایک ہفتہ تک تم پر اس گھر کا کھانا پانی حرام ہے۔"
"کیوں؟"
"بس میری مرضی۔۔ اس کے خلاف ہوا تو کھال اتار دوں گا! سمجھے۔ یہاں کا پانی بھی نہ پینا ایک ہفتے تک۔۔!"
"اچھا۔۔!" اس نے غصیلی آواز میں کہا اور دوسری طرف منہ پھیر لیا۔
یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اس قسم کی جھڑپیں آئے دن ہوتی رہی تھیں۔۔ عمران پھر خوابگاہ میں واپس آیا۔
"یہ تم نے کیوں اپنی مٹی پلید کر رکھی ہے!" جولیا نے اس سے کہا۔
"ہزاروں بار یہی جملہ سن چکا ہوں۔۔ اب کوئی نئی بات کہو۔۔"
"یہ فلیٹ قصاب کی دکان معلوم ہوتا ہے۔"
"بہر حال کچھ معلوم تو ہوتا ہے۔ جو بالکل کچھ نہ معلوم ہونے سے بہتر ہے۔"
"میں اب یہیں رہوں گی۔"
"بس پھر دیکھنا کہ یہ فلیٹ آئندہ کیا معلوم ہو گا۔"
"میں سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں۔۔"
"میں کب غیر سنجیدہ ہوں۔۔"
"اور۔۔ براہ کرم آپ لیٹ جائیے جناب!" نرس نے کہا۔
"شکریہ!" عمران مسہری پر دراز ہوتا ہوا بولا۔۔ لیکن وہ پرائیویٹ فون سے منسلکہ ٹیپ ریکارڈ پر بلیک زیرو کا پیغام سننے لے کئے بے چین تھا! سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح یہ خواہش پوری کرے۔
اتنے میں سلیمان نے آ کر کہا۔ " صاحب آدھے گھنٹے کی چھٹی دیجیئے۔"
"کیوں؟"
"جمال گوٹہ لینے جا رہا ہوں۔"
"ابے کیوں شامت آئی ہے۔۔"
.نہیں صاحب میں تو نہیں مانوں گا۔"
"اچھی بات ہے۔ دفع ہو جاؤ۔۔"
"سلیمان کے جانے کے بعد عمران نے جولیا سے پوچھا۔ " تم کب جاؤ گی؟"
"لیکن میرے جانے کے بعد جوزف تو موجود ہی رہے گا۔۔" جولیا نے زہریلے لہجے میں کہا اور معنی خیز نظروں سے نرس کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ اس کا مطلب سمجھ گئی تھی اور اس کے کان کو لویں تک سرخ ہو گئی تھیں۔
عمران کھنکار کو بولا۔ " اس کم بخت کو بھی نکال باہر کروں گا۔۔"
"میں یہیں رہوں گی۔"
"گرو گھنٹال کے مزاج کے خلاف ہوا تو۔۔"
"میری نجی زندگی میں کوئی بھی دخیل نہیں ہو سکتا!" جولیا جھلا کر بولی۔
"تمہاری مرضی!" عمران نے بے بسی سے کہا۔۔ اگر اسے ذرہ برابر بھی موقع مل جاتا تو وہ اپنے نجی ہی فون پر بلیک زیرو سے رابطہ قائم کر کے اسے سچویشن سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا کہ وہ ایکس ٹو کی آواز میں جولیا کو مخاطب کرے اور اس سے کہے کہ وہ عمران کے فلیٹ سے چلی جائے۔
"کیا سوچنے لگے۔۔" جولیا نے چھیڑا۔۔
"یہ سوچ رہا ہوں کہ شادی ہی کر لینے میں عافیت ہے۔"
"صرف سوچ ہی سوچ کر کیوں رہ جاتے ہو۔۔"
"کوئی معقول لڑکی نہیں مل سکی۔"
"کیسی لڑکی چاہیے؟
"میری پسند کی فہرست طویل ہے۔۔ مجملا ایسی لڑکی ہونی چاہیے۔۔۔۔!"
جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی جوزف اجازت طلب کر کے کمرے میں گھس آیا۔
"اب میں کیا کروں باس۔" اس نے جماہی لے کر کہا۔ "بقیہ تین بوتلیں بھی گھر ہی میں رکھی ہیں۔۔ پیئوں یا نہ پیئوں۔۔۔"
"کیا بکواس کر رہا ہے!" جولیا نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔
"میرے علاوہ یہاں اور سب پاگل ہیں!" عمران بڑبڑایا اور پھر جوزف سے بولا۔ " پیو۔۔۔ شراب پر کوئی پابندی نہیں ہے!"
"تھینکس باس!" اس نے ایڑیاں بجائیں اور ڈرائنگ روم کی طرف مڑ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ عمران نے ریسیور اٹھایا! دوسری طرف سے کوئی غیر ملکی " مسٹر عمرا، مسٹر عمران" کی ہانک لگائے جا رہا تھا!
"عمران اسپیکنگ!" عمران نے انک بھوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ شاید وہ آواز پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
"ڈوہرنگ۔۔" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"ہلو ہاؤ ڈو یو ڈو۔۔۔"
"او کے۔۔ بوائے۔۔! ابھی تمہارے باپ سے تمہارا نمبر معلوم کیا تھا! کیسے ہو؟ تمہارے باپ نے بتایا کہ دوبارہ آپریشن ہوا ہے۔ " بہت لاپروا ہو تم۔۔۔ آرام کرو۔۔"
"شکریہ! میں آرام ہی کر رہا ہوں۔۔"
"کلارا تم سے ملنا چاہتی ہے۔۔"
"ارے باپ رے!" عمران نے نرس اور جولیا کی طرف دیکھتے ہوئے اردو میں کہا۔
"کیا کہا۔۔۔ دہراؤ۔۔"
"کچھ نہیں چھینک آنے والی تھی۔۔"
"کلارا بھی ٹھیک ہے۔۔ تم اپنی رہائش گاہ کا محل و وقوع بتاؤ۔ کلارا وہیں آئے گی۔ وہ تمہیں بہت پسند کرنے لگی ہے۔"
عمران اسے اپنے فلیٹ کا محل و وقوع سمجھانے لگا!
پھر وہ ریسیور رکھ کر ایسے انداز میں کراہا جیسے دم ہی تو نکل رہا ہو۔۔"
"کیوں کیا بات۔۔" نرس نے بوکھلا کر پوچھا۔
"کچھ نہیں۔۔"
"زخم میں تکلیف تو نہیں۔۔"
"نہیں۔۔"
"کوئی آ رہا ہے کیا۔۔" جولیا نے پوچھا۔ " تم کسی کو گھر کا پتہ بتا رہے تھے۔"
"کلارا ڈوہرنگ مزاج پرسی کے لئے آ رہی ہے۔۔"
"کیوں آ رہی ہے۔۔ میرا خیال ہے کہ تمہاری اس سے ملاقات محض اتفاقیہ تھی!"
"تھی تو اتفاقیہ ہی۔۔ لیکن دوسرے اتفاقات بھی پیش آ سکتے ہیں۔۔"
"میں نہیں سمجھ سکتی کہ تم کیا کرتے پھر رہے ہو!"
"میں تو آرام کر رہا ہوں۔" عمران نے بڑی معصومیت سے کہا۔
جولیا خاموش ہو کر اسے گھورنے لگی۔
"تم آرام نہیں کر رہے بلکہ آہستہ آہستہ جہنم رسید ہو رہے ہو۔" وہ کچھ دیر بعد غرائی۔۔
"چلو یہی سمجھ لو! چین تو لینے دو کسی طرح۔۔"
جولیا پھولی بیٹھی رہی۔ پھر تھوڑی دیر بعد اٹھی۔ وینٹی بیگ اٹھایا اور کچھ کہے سنے بغیر باہر چلی گئی۔
عمران نے حالانکہ اطمینان کی سانس لی لیکن حقیقتا مطمئن نہیں ہو گیا تھا۔ جولیا سے اچھی طرح واقف تھا! کسی مسئلے پر بظاہر سپر ڈال دینے کے باوجود بھی وہ داؤ گھات سے باز نہیں آتی تھی۔
کچھ دیر بعد اس نے جوزف کو آواز دی۔ اس کے آنے پو بولا " تم دروازے پر ٹھہرو۔۔ اگر جولیا دوبارہ اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو کال بل کا بٹن دبا دینا۔"
جوزف تفہیمی انداز میں سر ہلا کر واپس چلا گیا۔
"یہ کون صاحبہ تھیں۔۔" نرس نے عمران سے پوچھا۔
"نامعقول تھیں نا۔۔" خود عمران پوچھ بیٹھا۔
"جج۔۔ جی۔۔ بھلا میں کیا جانوں۔" وہ ہنس پڑی۔
"یہ دنیا بری واہیات جگہ ہے۔۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ "اگر یہاں کسی پر کوئی احسان کرو۔۔ تو وہ فورا ہی اسکا بدلہ چکا دینا چاہتا ہے۔۔ اس صاحبہ کو کل ہی میں نے بہت بور کیا تھا لہٰذا اب وہ بھی۔۔!"
"بہت بے تکلف معلوم ہوتی ہیں۔۔"
"معلوم نہیں ہوتیں بلکہ ہیں۔۔" عمران نے دردناک لہجے میں کہا۔
"ویسے آپ کو انہیں منہ نہیں لگانا چاہیے۔۔۔ کیوں؟ میں نے یہی محسوس کیا ہے۔"
"تمہارا خیال کسی حد تک درست ہے۔"
"اب کوئی دوسری صاحبہ بھی آ رہی ہیں۔"
"ہاں ! کیا تم اس سلسلے میں فکر مند ہو۔"
"نہیں۔۔ لیکن آخر اس عورت نے میرے ساتھ توہین آمیز برتاؤ کیوں کیا تھا۔"
"نہیں تو۔۔" عمران نے حیرت سے کہا۔ " میں نے نہیں محسوس کیا ورنہ۔۔"
"آخر وہ مجھے یہاں سے بھگا دینے پر کیوں تل گئی تھی۔۔"
"بھگا تو نہیں سکی۔۔ تم نے محسوس نہیں کیا۔۔ فون پر جس لڑکی کی آمد کی اطلاع ملی تھی اس کے متعلق بھی تو وہ بہت کچھ کہتی سنتی رہی تھی۔۔"
"بے حیا معلوم ہوتی ہے۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو اس کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔"
"بب بالکل بالکل۔۔" عمران نے کہا اور آہستہ آہستہ کراہنے لگا۔۔
"کیا بات ہے۔"
"پیاس لگی ہے شائد۔"
"ٹھہرئیے۔ میں پانی لاتی ہوں۔" اس نے کہا اور کمرے سے چلی گئی۔ عمران نے جھپٹ کر فون پر بلیک زیرو کے نمبر ڈائلکئے اور دوسری طرف سے جواب ملنے پر جلدی جلدی کہنے لگا۔
"دیکھو جولیا کو میرے فلیٹ میں آنے سے باز رکھو!۔۔۔۔ ایکس ٹو کی آواز میں تنبیہ کر سکتے ہو۔۔ ہاں ہاں! وہ اب فلیٹ ہی میں مل سکے گی۔۔ ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر گئی ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ریسیور رکھ کر وہ نرس کر طرف متوجہ ہو گیا جو پانی کا گلاس لئے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔۔ اسی وقت کال بل کی آواز بھی گونجی۔۔ عمران نے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا۔ "ذرا دیکھنا تو کون ہے۔"
لیکن دوسرے ہی لمحے میں جوزف کسی کا ملاقاتی کارڈ لئے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔
کارڈ پر نظر پڑتے ہی اس نے ٹھنڈی سانس لی۔۔ کارڈ پر تحریر تھا۔ امام الجاہلین قتیل ادب استاد محبوب نرالے عالم۔
"بلاؤ۔۔" عمران کراہا
اور استاد ایسی سج دھج میں نظر آئے کہ عمران آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ شیروانی کی بجائے پتلون، جیکٹ اور ٹائی میں تھے۔۔ کاندھے سے چنے کا تھیلا لٹک رہا تھا اور ہاتھ میں ٹین کا بھونپو۔۔ جس میں منہ ڈال کر چنا "کڑک" کی آواز لگاتے تھے۔
"سنا ہے گولی لگ گئی ہے؟" انہوں نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
"ٹھیک سنا ہے استاد۔۔ تشریف رکھیئے۔۔!"
لیکن استاد تشریف کہاں رکھتے۔ وہ تو کنکھیوں سے نرس کو دیکھے جا رہے تھے۔
"میں نے کہا استاد۔۔!"
"جی۔ جی ہاں!" استاد چونک کر بولے۔۔" آج میں ارتعاش سیمگان کا مقیم مصلوب ہوں۔۔!
عمران نے سر ہلایا جیسے پورے بات سمجھ میں آ گئی ہو! اکثر استاد پر بڑے بڑے نامانوس الفاظ بولنے کا دورہ پڑتا تھا اور وہ محل استعمال کی پروا کئے بغیر بےتکان اس قسم کے الفاظ لڑھکاتے چلے جاتے تھے۔۔ کبھی کبھی نئے الفاظ بھی ڈھالتے اس قسم کے دورے عموما اسی وقت پڑتے تھے جب آس پاس کوئی عورت بھی موجود ہو۔۔!
"گولی کیسے لگی۔۔"
"بس لگ گئی کسی طرح۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔" آپ سنائیے کیسی گزر رہی ہے۔"
"رات کو کھٹملوں کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔"
"میں آج بہت مغموم ہوں۔" استاد نے کہا۔ "قوم کی بدحالی نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔"
نرس اٹھ کر چلی گئی اور استاد نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ پھر اس طرح چونکے جیسے کوئی خاص بات یاد آئی ہو۔ ادھر اُدھر دیکھ کر آگے جھکے اور آہستہ سے بولے۔ " یہ دوسرے کب آئی"۔
"آتی جاتی ہی رہتی ہیں!" عمران نے لاپرواہی سے کہا۔ پھر بولا " مگر آپ مغموم کیوں ہیں۔ میرے خیال سے تو قوم بھی ٹھیک ٹھاک ہی ہے۔"
"نہیں جناب! یہ بے پردگی۔۔ یہ ٹڈے ٹڈیاں۔۔۔ میں عنقریب حج کرنے چلا جاؤں گا۔"
"ہوا کیا؟۔۔ کوئی خاص حادثہ۔۔"
"جی ہاں۔۔۔ کل رینو میں میٹنی شو دیکھنے چلا گیا تھا۔ دیر ہو گئی تھی۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔۔ ہائے کیا فلم ہے۔ ڈاکٹر نو دیکھی آپ نے سالے لونڈیا کو چوڑی دار پاجامہ پہنا دیتے ہیں۔۔"
"چوری دار پاجامہ نہیں استاد۔۔ اسے جین کہتے ہیں۔۔" عمران نے کہا۔
"چلئے جین ہی سہی۔۔ ہاں تو کھیل شروع ہو چکا تھا۔ دو لڑکیوں کے پاس جگہ ملی جن کے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا۔۔ میرے پاس والی لڑکی اندھیرے میں چمک رہی تھی مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میں اسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہوں۔لہٰذا فلم دیکھنے کی بجائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھتا رہا۔۔ یک بیک وہ اپنی ساتھی سے بولی دیکھ تو کم بخت بار بار پاگلوں کی طرح گھورنے لگتا ہے۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے تم ادھر آ جاؤ۔ یہ بات اتنی اونچی آواز میں کہی گئی تھی کہ میں بھی سن سکوں۔۔ انٹرول میں انہوں نے جگہیں بدل لیں۔۔ دوسری لڑکی بڑی تیز نکلی۔۔ میری طرف منہ کر کے بیٹھ گئی اور اس طرح گھورنے لگی جیسے پھاڑ ہی تو کھائے گی۔۔ پھر کہنے لگی۔ لو دیکھ لو اچھی طرح تاکہ چین سے فلم تو دیکھ سکو۔۔ عمران بھائی میرا تو دم ہی نکل گیا۔ ارے باپ رے!"
"مجھے آپ سے ہمدردی ہے استاد!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
اتنے میں نرس پھر واپس آ گئی اور استاد بولے۔ "انسانی تہذیب کی مہذباتی ارو مسکونی مناکحت بہت ضروری ہے۔ غالب، ذوق، داغ وغیرہ نے مشروباتی انجاریت کی تقلیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی لیکن تجریدی ضابطے کی اشتراقیت مشروتی اعراب کی سند نہیں۔"
"واللہ آپ نے تو نثر ہی میں صنعت مستول الجہاز پیدا کر دی استاد۔۔" عمران نے خوش ہر کو کہا۔
"میں غالب کو بھی للکار سکتا ہوں۔"
"بیشک بیشک۔۔ استاد ذرا چنا کڑک تو سنا دو۔۔"
"استاد نے بھونپو اتھا کر منہ سے لگایا اور شروع ہو گئے۔
پی۔ای۔سی۔ایچ کے حسین۔۔
میرے چنے سے نمکین
بلوے بھائی خیر الدین

پاپڑ ایک آنے کے تین
چنا کڑک۔۔۔

"سناتے رہیے۔۔۔" عمران اٹھتا ہوا بولو " میں ابھی آیا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
وہ پرائیویٹ فون والے کمرے میں آیا اور دروازہ بند کر کے ٹیپ ریکارڈ کا سوئچ آن کر دیا۔ لیکن آواز کا حجم نہیں بڑھایا۔ بلیک زیرو کی آواز سنائی دی " ڈاکٹر دعاگو ہوش میں آ گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ آپ کا حبشی ملازم چھرا نکال کر اس پر جھپٹا تھا۔ پولیس نے باقاعدہ رپورٹ درج کر لی ہے۔۔ اوور اینڈ آل۔۔ پھر آواز آئی۔۔۔ " جوزف کو ہٹا ہی دیجیئے۔۔ ورنہ الجھنوں میں اضافہ ہو جائے گا۔۔!"

عمران انتظار کرتا رہا۔ شاید کوئی اور پیغام بھی ہو۔ لیکن صرف فیتے کے سرکنے کی آواز آتی رہی۔ ان بے ٹیپ بند کر دیا۔کمرے میں واپس آیا۔ استاد اسی جوش و خروش کے ساتھ "چالو" تھے۔ نرس ہنس رہی تھی! کبھی کبھی وہ بھی بھونپو ہٹا کر دانت نکال دیتے۔۔!
********
آپ کچھ پریشان سے نظر آ رہے ہیں۔" نرس نے کہا۔
"ہام۔۔ نہیں تو!" عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
استاد ابھی تک چنے بیچ رہے تھے۔ بمشکل تمام سلسلہ ختم ہوا۔ عمران خاموش کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔
دفعتًا اس نے استاد سے کہا۔ " آپ ایک عمدہ سا گرم سوٹ سلوا لیجیئے۔"
استاد نے دانت نکال دیئے۔ پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے " پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے۔ دو ابھی کھا رہے ہیں۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلو کے۔"
یہ نکھلو کہاں ہے جناب!" نرس نے پوچھا۔
"لکھنو والے پیار سے لکھنو کو کہتے ہیں!" عمران بولا
"میرے والد کرنل تھے۔۔" استاد ان کی گفتگو پر توجہ دیئے بغیر بولے۔ "عتیق بھائی سب جانتے ہیں۔"
"میں نے کہا تھا سوٹ سلوا لیجیئے۔۔"
"کیوں؟"
"عیش کراؤں گا استاد تمہیں۔" عمران میز سے قلم اٹھا کر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھتا ہوا بولا۔" میرا یہ پرچہ کلف وارڈ کمپنی میں لے جانا۔ وہ ناپ لے کر سوٹ سی دیں بے۔۔ جس دن کہیں جا کر ٹرائی دے دینا۔ اس کے بعد سوٹ میں منگوا لوں گا۔"
"مجھے کتنا ادا کرنا پڑے گا۔۔" استاد نے اکڑ کر پوچھا۔
"فکر نہ کرو۔ اسی رقم کے چنے چبوا دینا مجھے۔"
"ناکوں!" نرس نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا اور استاد اسے صرف دیکھ کر رہ گئے۔
"نہیں بھئی پوچھنا میرا فرض تھا!" استاد نے کہا۔ " ایک بار جمیل صاحب نے کہا تھاکہ تم صرف بیالیس روپے جمع کرلو میں تمہاری شادی کرا دوں گا۔"
"پہلے سوٹ سلواؤ۔ شادی بھی بعد میں ہوتی رہے گی۔۔ اب جاؤ۔"
"یعنی کہ بالکل ابھی چلا جاؤں۔۔"
"یقیناً۔۔ دیر نہ ہونی چاہیے۔۔"
استاد چلے گئے! اب عمران نے جوزف کو آواز دی۔۔ وہ آیا اور ایڑیاں بجا کر اٹین شن ہو گیا۔۔
عمران نے عربی میں کہا۔ "تم نے ڈاکٹر دعاگو پر چھرا نکال لیا تھا۔"
"میں نے!" جوزف کا منہ حیرت سے پھیل گیا۔ پھر وہ ہنسنے لگا۔۔
"مذاق کرتے ہو باس۔۔"
"میں سنجیدہ ہوں۔۔ اس نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ وہ مجھ سے ملنے آیا تھا۔
میرے ملازم جوزف نے چھرا نکال کر اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔۔"
"جھوٹا ہے وہ حرامی! میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں تھا اس کی طرف۔۔"
"لیکن پولیس کو کیسے یقین دلاؤ گے۔۔ سڑک پر بھی بہتیرے لوگوں نے اسے یہاں سے نکل کر بھاگتے دیکھا ہو گا۔۔"
"میں کیا بتاؤں باس! پتہ نہیں اس ولد الخبائث نے جھوٹ کیوں بولا۔"
"اسے جہنم میں جھونکو۔۔ یہ بتاؤ اگر پولیس یہاں آ گئی تو۔۔"
"میں کیا بتاؤں باس! گرفتار ہو جاؤں گا۔۔"
عمران نے فون پر بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولا۔ "عمران اسپیکنگ۔
جوزف والا معاملہ معلومہوا۔۔ تم ایک بند وین فوراً بھیج دو۔۔"
ریسیور رکھ کر اس نے جوزف سے کہا۔ "تمہیں ابھی رانا تہور علی والے محل میں جانا ہے"
"بہت اچھا باس! لیکن اگر وہ گرفتار کرنے آئیں تو۔۔"
"نہیں اس کی نوبت نہیں آ سکے گی۔" عمران نے کہا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ فیاض نے جولیا والا معاملہ نپٹ جانے کے بعد اپنے آدمی وہاں سے ہٹا لئے ہوں گے۔ رہ گیا رحمان صاحب کا کوئی آدمی تو اسے اس کے علارہ اور کسی سے سروکار نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اس لئے ہو گا کہ خود اس کی نگرانی کر کے اس کے متعلق ساری اطلاعات رحمان صاحب کو پہنچاتا رہے۔۔!
"جاؤ۔۔ تیاری کرو۔۔" اس نے کچھ دیر بعد جوزف سے کہا۔
فون کی گھنٹی بجی اس نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔ "مسٹر عمران!"
"عمران اسپیکنگ۔۔"
"میں دعاگو ہوں۔۔"
"بڑی اچھی بات ہے۔۔ فرمائیے۔۔"
"کیا تمہیں معلوم ہوا۔۔؟"
"کیا معلوم ہوا۔۔"
"میرے متعلق۔۔"
"بس اتنا ہی جانتا ہوں کہ آپ چیختے ہوئے بھاگے تھے۔ میں نے سوچا کوئی خاص بات نہیں کیونکہ میری کرسیوں میں بھی کھٹمل بکثرت ہیں۔"
"اوہ ۔۔ عمران سنجیدگی سے گفتگو کرو۔۔ میں بڑی مشکلات میں پڑ گیا ہوں مجھے اس پر مجبور کیا گیا تھا کہ میں وہ ڈرامہ اسٹیج کروں۔۔"
"میں بالکل نہیں سمجھا ڈاکٹر۔۔؟"
"مجھے تمہارے نیگرو ملازم کے خلاف رپورٹ درج کرانی پڑی ہے۔"
"کیسی رپورٹ؟"
"یہی کہ وہ مجھ پر چھرا لے کر دوڑا تھا!"
"مائی گڈنس۔۔! عمران متحیرانہ انداز میں چیخا۔" تو اس کا یہ مطلب ہے کہ پولیس اسے گرفتار کر لے گی۔"
"اوہ۔۔ سنو تو سہی۔۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو مجھے شارع عام پر گولی مار دی جاتی۔ اس نے یہی دھمکی دی تھی۔۔!"
"کس نے؟"
"اوہ ۔۔ تم سمجھتے کیوں نہیں۔۔"
"ارے تو سمجھائیے نا جلدی سے۔۔"
"میں نے تم سے کسی نامعلوم آدمی کا تذکرہ کیا تھا۔۔ یاد ہے؟"
"اچھی طرح یاد ہے۔۔"
"فون پر اس آدمی کی طرف سے مجھے دھمکی ملی کہ اگر میں نے تمہارے سلسلے میں وہی کچھ نہ کیا جس کے لئے کہا جا رہا ہے تو مجھے شارع عام پر گولی مار دی جائے گی۔۔"
"سمجھا۔۔!"
"اب میری طرف سے دل صاف ہو گیا نا۔۔"
"بالکل بالکل۔۔"
"لڑکے۔۔ مجھے تم سے بے اندازہ محبت ہو گئی ہے۔ کیونکہ تم مارتھا کے محبوب تھے۔۔ مارتھا۔۔ تم نہیں سمجھ سکتے کہ وہ میرے لئے کیا تھی۔۔"
" وہ تو ٹھیک ہے۔۔ لیکن یہ بتائیے کہ میں کیا کروں۔۔ وہ لوگ یقینی طور پر جوزف کو گرفتار کر لیں گے۔ جوزف جو میرا باڈی گارڈ ہے۔ میں خود زخمی ہوں۔ خطرات کی صورت میں تنہا کیونکر ان کا مقابلہ کر سکوں گا۔"
"اوہ۔۔ غالباً اسی لئے وہ لوگ جوزف کو تمہارے پاس سے ہٹا دینا چاہتے ہیں کہ میدان صاف ہو جائے اور جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں بے دھڑک کر گزریں۔۔"
"اچھی بات ہے جناب!" عمران نے ٹھنڈی سانس لی۔ "تو پھر اب میں بھی اپنا کفن منگوا رکھوں۔"
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے"۔ دعاگو نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔
پھر کچھ دیر بعد ایک بند گاڑی آئی اور جوزف کو لے گئی۔
نرس کے چہرے پر تشویش کے آثار صاف پڑھے جا سکتے تھے۔
"باورچی کہاں گیا؟" اس نے عمران سے پوچھا۔
"اوہ فکر نہ کرو۔۔ تمہیں میرے لئے کھانا نہیں پکانا پڑے گا۔"
"اگر پکانا بھی پڑے تو کیا!" نرس نے لاپروائی سے شانوں کو جنبش دی۔
"اوہ۔۔ شکریہ!" عمران نے بڑے خلوص سے کہا۔
"ایک بات پوچھوں! آپ برا تو نہیں مانیں گے۔"
"قطعی نہیں۔۔ ضرور پوچھو۔۔!"
"آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے آپ کے یہاں۔۔"
"ارے۔۔ وہ کچھ نہیں!" عمران خواہ مخواہ جھینپ کر بولا۔
"اس غیر ملکی لڑکی نے کہا تھا کہ آپ کسی لڑکی کے لئے تین بجے رات کو گولی کھانے گئے تھے۔۔"
"لڑکیوں کی باتوں کا کیا اعتبار۔۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔"
"گولی کیسے لگی تھی۔۔"
"یہی تو مجھے بھی نہیں معلوم۔۔ اندھیرے میں کسی قسم کا ہنگامہ ہوا تھا۔ دریافتِ حال کے لئے میں بھی باہر نکلا بس گولی چھید گئی بازو کو۔۔!"
"اندھیرے میں لگی تھی؟"
"اور کیا۔"
"تب تو وہ کسی دوسرے کے لئے بھی ہو سکتی تھی۔"
"یقیناً ۔۔ یقیناً ۔۔" وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سلیمان واپس آیا تو عمران نے اسے جوزف کے نکل بھاگنے کی اطلاع دی۔
"وہ سمجھتا تھا کہ تم ضرور انتقام لو گے۔۔" عمران نے کہا۔
"آپ نے بھگا دیا اسے۔۔" سلیمان برا سا منہ بنا کر بولا " خیر میں بھی منان کا بیٹا نہیں اگر اس کی درگت نہ بنا دوں۔"
"یقیناً ۔۔ یقیناً۔۔ لیکن تم مجھے ویسے بھی کسی منان کے بیٹے ہرگز معلوم نہیں ہوتے۔"
سلیمان برا سا منہ بنائے ہوئے دوسری طرف جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ کال بل بج اٹھی۔
"دیکھ ۔۔ اب کون ہے؟" عمران پیشانی پر ہاتھ مار کر کراہا۔
سلیمان باہر چلا گیا۔ پھر شاید الٹے پاؤں واپس آیا اور بولا۔ " ایک پولیس انسپکٹر ہے۔"
"بلاؤ!" عمران کراہ کر بولا۔ "گھر دیکھ لیا ہے ان لوگوں نے۔"
پولیس انسپکٹر جس کے ساتھ دو کانسٹیبل بھی تھے اندر داخل ہوا۔۔۔ اور بیٹھنے سے قبل ہی جوزف کے متعلق سوال کر بیٹھا۔
"اور۔۔ وہ تو اس وقت موجود نہیں ہے۔" عمران نے کہا۔ "فرمائیے۔۔ کیا کام ہے۔"
"پولیس ہیڈ کوارٹر میں اس کی ضرورت ہے۔"
"ایک ہفتے کے بعد ہی ملاقات ہو سکے گی۔۔"
"کیوں؟"
"کچھ دیر پہلے ایک ہفتہ کی چھٹی لے کر گیا ہے۔"
"کہاں؟"
"میں نے پوچھا ہی نہیں کہ وہ ایک ہفتہ کی چھٹی کیوں لے رہا ہے اور کہاں جائے گا۔"
"رہتا کہاں ہے؟"
"یہیں۔۔"
"پہلے کہاں رہتا تھا! سب انسپکٹر کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔
"محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض ہی اس کی پچھلی سکونت بھی بتا سکیں گے کیونکہ انہی کی وساطت سے مجھ تک وہ پہنچا تھا۔"
"حیرت کی بات ہے کہ آپ اپنے ملازمین سے اس طرح بے خبر رہتے ہیں!"
"اجی کو پڑے ان چکروں میں۔۔ میں تو ان سے کچھ پوچھتا ہی نہیں۔ پوچھتا ہوں تو مجھے ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں یہ نامعقول جسے سلیمان کہتے ہیں ڈھائی بجے رات کو گھر واپس آیا۔ میں نے پوچھا کہا تھا! کہنے لگا گھاٹم سرئے میں۔۔ ارے بھئی وہاں کیا کر رہا تھا! کہنے لگا زبان سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے یہ کہہ کر کم بخت نے سارے کپڑے اتار دیئے اور ناچنے لگا۔۔ مطلب یہ کہ وہاں شراب کے نشے میں ننگا ہو کر ناچتا رہا تھا۔۔"
"آپ بھی بہک رہے ہیں جناب! میں جوزف کے متعلق پوچھ رہا تھا!"
"وہ کپڑے پہن کر پیتا ہے!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
"اس نے ڈاکٹر دعاگو پر چھرا کیوں تان لیا تھا۔۔؟"
"چھرا تان لیا تھا!" عمران متحیرانہ انداز میں اچھل پڑا۔ "یہ آپ کیا فرما رہے ہیں!"
"کیا یہ غلط ہے؟"
"میں نہیں جانتا۔۔ اوہ۔۔ تو کیا دعاگو اسی لئے اس طرح بھاگا تھا یہاں سے۔"
"اس کا جواب آپ ہی دے سکیں گے" سب انسپکٹر نے خشک لہجے میں کہا۔
"بھئی اس وقت یہاں سول سرجن صاحب بھی موجود تھے!" عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ "اگر آپ مناسب سمجھئے تو ان سے بھی پوچھ گچھ کر لیجیئے گا۔۔"
"یقیناً پوچھوں گا۔ اگر وہ موجود تھے۔۔"
"ہم سبھوں نے کوشش کی تھی کہ دعاگو کے اس طرح بھاگنے کی وجہ معلوم کریں لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
"جوزف اس وقت کہاں تھا!"
"ڈرائنگ روم ہی میں تھا!"
"دعاگو بھی وہیں تھا!"
"جی ہاں!"
سب انسپکٹر تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ " آپ مجھے لکھ کر دے دیجیئے کہ آپ اس کے جرم سے ناواقف تھے۔ اسے ایک ہفتے کی چھٹی دی ہے اور اس کی موجودہ جائے قیام سے واقف نہیں۔۔"
"بہت اچھا جناب!" عمران نے کہا اور میز سے پیڈ اٹھا کر اس پر کچھ لکھنے لگا۔
کچھ دیر بعد انسپکٹر نے آگے جھک کر دیکھا اور بولا۔ " ارے آپ تو پورا بیان ہی لکھنے بیٹھ گئے۔۔"
"میری دانست میں یہی مناسب رہے گا!" عمران نے کمہا۔ " آپ اس کی تصدیق سول سرجن سے بھی کرا سکیں گے۔"
عمران نے قلم ایک جانب ڈالتے ہوئے کاغذ اس کی طرف بڑھا دیا۔ انسپکٹر نے ایک بار پھر اسے پڑھا اور تہہ کر کے جیب میں رکھتا ہوا بولا۔ " اگر اس دوران میں وہ آ جائے تو ہمیں ضرور مطلع کیجیئے گا!"
"یقیناً ۔۔ یقیناً۔۔" عمران سر ہلا کر بولا۔
اس کے جانے کے بعد نرس نے کہا۔ " مجھے یقین نہیں کہ آپ آرام کر سکیں۔۔"
"یقین تو مجھے بھی نہیں ہے۔۔ بےبی!" عمران کراہ کر لیٹتا ہوا بولا۔
کمرے کی فضا پر خاموشی مسلط ہو گئی۔ نرس سچ مچ سلیمان کا ہاتھ بٹانے کچن میں چلی گئی تھی۔ عمران سوچ رہا تھا کہ اسے کس طرح فلیٹ سے کھسکائے۔ اس کی موجودگی میں اس پلان کو عملی جامہ پہنانا قریب قریب ناممکن تھا جو اس کے ذہن میں تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
معاملات الجھتے جا رہے تھے۔ وہ کون تھا؟ وہی شخص جس نے ڈاکٹر دعاگو کو سراغرسانی پر مجبور کیا تھا! جس نے ڈاکٹر دعاگو پر جوزف کے فرضی حملے کے پروپیگنڈے کی اسکیم بنائی تھی۔ غالباً مقصد یہی تھا کہ جوزف جیسے چاق و چوبند باڈی گارڈ کی خدمات سے عمران کو محروم کر دے۔۔ اور اصل مقصد تو تھا ہی عمران کا قتل۔۔ وہ سوچتا رہا اور بور ہوتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ اس کے باپ کا متعین کردہ ایک آدمی بھی فلیٹ کے آس پاس ہی موجود ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ رات کو بھی نگرانی جاری رہے۔ ایسی صورت میں وہ کیا کر سکے گا۔

ٹھوری دیر بعد نرس پھر کمرے میں واپس آئی۔ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ عمران اٹھ بیٹھا اور اسے گھورتا ہوا سخت لہجے میں بولا۔ "میں کہتا ہوں۔ کیا تمہارے دیدوں کا پانی بالکل ہی مر گیا ہے۔"
نرس ہکا بکا رہ گئی!
"ارے تم یہاں اکیلے رہو گی دو مردودؤں کے ساتھ۔۔"
"مم۔۔ میری ڈیوٹی ہے جناب۔۔!"
"جہنم میں گئی ڈیوٹی۔۔ آخر شرافت بھی تو کوئی چیز ہے۔۔ چلو بھئی برقعہ اترا کوئی بات نہیں۔ لیکن یہ نرس کا پیشہ۔۔ لاحول ولا قوۃ۔"
"آپ پتہ نہیں کیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔"
"باتیں کر رہا ہوں۔۔ ارے خون کے آنسو رو رہا ہوں۔۔ یہ بنی ہے قوم کی درگت بہو بیٹیاں نامحرموں کی مرہم پٹی کرتی پھر رہی ہیں۔ زمین نہیں پھٹتی۔۔ آسمان نہیں ٹوٹ پڑتا۔"

غرضیکہ عمران نے جلے تن بوڑھیوں کے سے انداز میں کچھ ایسا زہر اگلا کہ نرس بھی کھوپڑی سے باہر ہو گئی۔۔ فوراً ٹیلیفون پر کسی کے نمبر ڈائیل کر کےکہنے لگی کہ وہ اب یہاں کسی قیمت پر نہیں رک سکے گی خواہ کچھ ہو جائے خواہ استغفیٰ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
"اور پھر اپنا نٹنگ بیگ سنبھالتی کھٹ کھٹ کرتی چلی ہی گئی تھی۔۔
عمران اب چت لیٹا اس طرح چھت کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
کلاک نے رات کے بارہ بجائے اور منہ پر سے لحاف ہٹا کر اٹھ بیٹھا۔ سلیمان دوسرے کمرے میں سو رہا تھا۔

اب عمران ڈریسنگ الماری کے سامنے نظر آیا۔ لباس تبدیل کر رہا تھا۔ بائیں ہاتھ میں شدید تکلیف کے باوجود بھی اس نے کسی نہ کسی طرح چمڑے کا جیکٹ پہنا! پتلون کی جیب میں ریوالور ڈال کر آئینے پر الوداعی نظر ڈالتا ہوا بڑبڑایا۔ " اچھا قبلہ والد صاحب اب دیکھوں گا کہ آپ کے شکاری کتے کس طرح بُو سونگھتے ہیں۔۔!"
 

شمشاد

لائبریرین
وہ لباس تبدیل کر چکا تھا! لیکن گھڑی پر نظر ڈال کر پھر کچھ دیر تک وہیں خاموش کھڑا رہا۔ ٹھیک سوا بارہ بجے وہ عمارت کے عقبی زینے طے کر کے نیچے جا رہا تھا! لیکن عقبی زینے استعمال کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ انہیں محفوظ سمجھتا تھا! اس میں دلچسپی لینے والے اتنے احمق نہیں ہو سکتے تھے کہ انہیں نظر انداز کر دیتے۔۔۔ اس کے اندازے کے مطابق نگرانی کرنے والے عقبی گلی میں بھی ہو سکتے تھے۔

جچلے زینے پر رک کر وہ بائیں جانب والی دیوار سے چپک گیا! گلی سنسان پڑی تھی۔۔۔ نیم روشن اور ویران۔۔۔ اس وقت تو کتے بھی نہیں بھونگ رہے تھے۔ عمران نے ریڈیم ڈائیل والی گھڑی پر نظر ڈالی۔ بارہ بجکر پچیس منٹ ہوئے تھے۔ اور اسی طرھ دیوار سے چپکا کھڑا رہا۔

کچھ دیر بعد کسی وزنی گاڑی کے انجن کی آواز سنائی دی اور ایک بڑا سا ٹرک زینوں کے دروازے کے قریب ہی آ رکا۔۔ اس کا پچھلا حصہ دروازے سے صرف دو یا ڈھائی فٹ کے فاصلے پر رہا ہو گا۔۔ اگلی سیٹ سے دو آدمی اترے تھے اور کوئی چیز نیچے اتاری گئی تھی۔۔۔ پھر جب دوبارہ انجن اسٹارت ہونے کی آواز آئی تو عمران بڑی پھرتی سے آگے بڑھا۔۔ دوسرے ہی لمحے میں وہ ٹرک کے پچھلے حصے میں تھا۔

ٹھنڈا گوشت ہاتھوں میں چپک کر رہ گیا! گوشت کا یہ ٹرک ہر رات عقبی گلی والی گوشت کی دوکان کے لئے گوشت اتارا کرتا تھا۔۔۔ عمران کو علم تھا کہ وہ روزانہ ایک مخصوص وقت پر وہاں پہنچتا ہے۔

وہ بڑی سرد رات تھی۔۔۔ اوپر کھلی فضا اور نیچے ٹھنڈے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے۔۔ عمران کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی سانسیں تک منجمد ہو کر رہ جائیں گی۔۔

ٹرک شہر کی سنسان سڑکوں پر دوڑتا رہا۔ عمران نہیں جانتا تھا کہ وہ اب کہاں رکے گا۔ ویسے گوشت کی خاصی بڑی مقدار اب بھی ٹرک میں موجود تھی جس کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ وہ اب بھی کئی دکانوں پر رکے گا۔۔

بہر حال کچھ دیر بعد اس کا خیال صحیح نکلا۔ جیسے ہی ایک پتلی سی گلی میں مڑنے کے لئے رفتار ہلکی ہوئی وہ نیچے کود پڑا۔

ٹرک گلی میں داخل ہو کر ایک جگہ رک گیا تھا۔ عمران سڑک ہی پر کھڑا رہا۔
جگہ سے اس نے اندازہ لگایا کہ دانش منزل یہاں سے تقریباً سات میل دور ہو گی۔۔ پھر اب کیا کیا جائے۔ سڑک سنسان پڑی تھی۔ اس وقت یہاں ٹیکسی ملنا بھی محال تھا۔۔
سردی سے دانت بجنے لگے تھے اور دانت اسی وقت بجتے ہیں جب اعصاب قابو میں نہ ہوں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ذہن کس طرح کار آمد رہ سکتا ہے۔۔ کافی دیر تک اس کی سمجھ میں نہ آ سکا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔

اتنے میں ایک چائے والا نظر آیا جو سماور اور برتنوں کی چھابی لٹکائے گلی میں داخل ہو رہا تھا۔
"شش۔۔ اے چائے والے۔" عمران نے اسے آواز دی۔
وہ مڑا اور مردہ سے چال چلتا ہوا قریب آیا۔۔ غالباً اسے اب گاہک کی توقع نہیں تھی اور وہ لحاف کے خیال میں مگن تھا۔
"ایک کپ چائے۔۔" عمران نے کہا۔ اس نے سماور زمین پر رکھ کر چھابی سے کپ اور ساسر نکالا۔ پھر سماور کی ٹونٹی کھول کر چائے انڈیلی اور کپ اس کی بڑھاتا ہوا بولا۔ " تلچھٹ ہے جناب! شاید اچھی نہ ہو۔ مگر یہ سردی! پتہ نہیں کہاں سے پھٹ پڑی ہے۔"
"سس۔۔ سردی ہی تو۔۔" عمران نے جملہ پورا کئے بغیر پیالی سنبھال لی۔ پھر دو تین گھونٹ لے کر بولا۔ " یار یہاں کہیں آس پاس فون بھی ہو گا۔"
"جی کیوں نہیں بہت ہیں۔۔"
"لیکن اتنی رات گئے۔ شاید ہی کوئی فون کرنے دے۔" عمران نے کہا۔
"ہو سکتا ہے جناب۔" وہ ایک جانب ہاتھ اٹھا کر بولا۔ اُدھر خیراتی زچہ خانہ ہے نا۔۔۔ اس کا دفتر رات بھر کھلا رہتا ہے۔"
"اوہ ۔۔ ہاں!" اب عمران کو بھی یاد آیا کہ یہاں ایک زچہ خانہ بھی ہے۔ اس نے جلدی سے چائے ختم کی اور اسے پیسے دیتا ہوا بتائی ہوئی سمت چل پڑا۔

زچہ خانہ کا دفتر کھلا ہوا تھا۔ فون کرنے کی بھی اجازت مل گئی۔۔۔ کلرک سے گفتگو کرتے وقت بھی اس نے ایکس ٹو کی سی پھنسی پھنسی آوازیں نکالی تھیں اور اب بلیک زیرو سے فون پر بھی اسی آواز میں گفتگو کر رہا تھا۔ محض اس لئے کہ کلرک کے سامنے اپنا نام نہ لینا پڑے۔ وہ بلیک زیرو سے کہہ رہا تھا۔ "نظام پور کے زچہ خانہ کے سامنے وین بھیجو۔۔ نہیں تم خود ہی ڈرائیو کرو تو بہتر ہے۔۔ فوراً۔۔ تیز رفتاری سے آؤ۔۔"
ریسیور رکھ کر اس نے کلرک سے کہا۔ " اگر میں یہاں بیٹھ کر اپنی گاڑی کا انتظار کروں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہو گا۔"
"جی نہیں۔۔ قطعی نہیں۔۔" کلرک نے کہا۔
"شکریہ۔۔" عمران نے بیٹھتے ہوئے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اسے بھی پیش کیا جو زبردستی کی ہنسی کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔
تقریباً بیس منٹ تک انتظار کرنا پڑا۔
بلیک زیرو چھوٹی سی سیاہ رنگ کی وین لایا تھا! عمران نے ایک بار پھر کلرک کا شکریہ ادا کیا اور وین میں جا بیٹھا اور وہ حرکت میں آ گئی۔
"آپ کے زخم کا کیا حال ہے۔" بلیک زیرو نے پوچھا۔
"آج ہی دوبارہ آپریشن ہوا ہے۔"
"اور آپ اس طرح۔۔!"
"اونہہ ۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔" عمران نے کہا۔ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔ " اس جعلی لیفٹیننٹ نے کیا بتایا۔۔؟"
"وہ تو کچھ بولتا ہی نہیں۔ گونگا ہو گیا ہے۔"
"گدھے ہو تم لوگ۔۔۔"
"اگر آپ نے حکم دیا ہوتا تو۔۔۔!"
"تشدد بھی کرتے۔۔۔" عمران نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
بلیک زیرو کچھ نہ بولا۔
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ پھر اس نے کہا۔ "صفدر کو اطلاع دی تھی کہ کئی مشتبہ آدمی آپ کے فلیٹ کے آس پاس دیکھے گئے ہیں! اس کا خیال ہے کہ نگرانی کرنے والے باقاعدہ طور پر ڈیوٹیاں بدل رہے ہیں۔"
"مجھے علم ہے۔!"
"کون ہیں وہ۔"
"کیا نیند میں ہو۔۔؟"
"کیوں؟"
"بالکل کسی بچے کے سے انداز میں پوچھا تھا تم نے۔۔۔ کون ہیں وہ۔۔۔ ارے ان کے علاوہ اور کون ہوں گے جو مجھ پر کئی بار حملے کر چکے ہیں ۔۔ اور پھر ایک آدھ قبلہ والد صاحب کا متعین کردہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپریشن کے بعد میں صرف آرام کروں؟"
"میری دانست میں بھی ان کا خیال درست ہے۔"
"شائد تم باپ کے سائے سے محروم ہو چکے ہو۔۔"
"جی ہاں۔ یہی بات۔۔۔!" اس نے کہا اور ہنس پڑا۔
"اسی لئے ہنس بھی رہے ہو۔۔"
کچھ دیر تک پھر خاموشی رہی۔ وین تیزی سے شہر کی جانب جا رہی تھی۔۔۔ سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ کبھی کبھی ایک آدھ ٹرک قریب سے گزر جاتا۔
"میں نے جولیا کو فون پر فہمائش کر دی تھی۔" بلیک زیرو نے کہا۔۔ لیکن وہ رو رہی تھی۔۔ ہچکیاں صاف سنی تھیں میں نے۔۔ وہ پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ اپنا پن بھی فروخت کر چکی ہے اس محکمے کے ہاتھ۔۔ میں نے کہا یہی بات ہے۔۔ ارے جناب وہ تو استغفیٰ دینے پر آمادہ تھی۔۔ میں نے کہا کہ اس صورت میں اسے گولی مار دی جائے گی۔۔"
عمران کچھ نہ بولا۔
کچھ دیر بعد وین دانش منزل کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی۔ چاروں طرف اندھیرے کی حکمرانی تھی۔
"اب تم جا سکتے ہو۔۔" عمران نے بلیک زیرو سے کہا۔
"وہ ساؤنڈ پروف کمرے میں بند ہے۔"
"اندر اور کون ہے؟"
"کوئی بھی نہیں۔۔"
"ٹھیک ہے۔۔ اب جاؤ۔۔"
"میرا خیال ہے کہ مجھے ٹھہرنا چاہیے۔۔ آپ کا بازو بھی زخمی ہے۔"
"شکریہ! سب ٹھیک ہے!" عمران نے خشک لہجے میں کہا۔ پھر بولا۔ " اسے کھانا دیا گیا یا نہیں۔۔"
"نہیں۔۔"
"کیوں؟"
"شاید اسی طرح اگل دے۔"
"گدھے ہو تم۔۔" اس نے جھلاتے ہوئے لہجے میں کہا اور آگے بڑھ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عمارت میں داخل ہو کر اس نے روشنی کی اور ایک ایسے کمرے میں آیا۔جہاں میک اپ کا سامان رہتا تھا۔۔
کچھ دیر بعد وہ ایک صحت مند بوڑھے کی شکل اختیار کر چکا تھا! مونچھیں اتنی گھنی تھیں کہ دہانہ چھپ گیا تھا۔ آنکھوں پر ایسی عینک لگائی جس سے آنکھوں کی ساخت دیکھنے والے کی سمجھ میں نہ آ سکے۔۔
پھر وہ کچن میں آیا۔ یہاں ڈبوں میں پیکڈ کھانے کی چیزیں موجود تھیں۔۔ بجلی کا چولہا کھول کر دو ایک انڈے فرائی کئے۔ خشک روٹی کے کچھ ٹوسٹ سینکے اور سب کچھ ٹرالی پر رکھ کر ساؤنڈ پروف کمرے کی طرف روانہ ہو گیا۔
ٹرالی باہر ہی رہنے دی۔۔ اور خود دروازہ کھول کر بہ آہستگی اندر داخل ہوا!
قیدی سامنے والے صوفے پر پیر سکوڑے پڑا اونگھ رہا تھا۔ عمران پھر واپس آیا اور ٹرالی بھی اندر دھکیل لے گیا۔ اس بار اس طرح دروازہ بند کیا کہ اس کے علاوہ اور کوئی نہ کھول سکے۔
اب وہ بلند آواز میں کھنکھارا اور قیدی اچھل پڑا۔
"کچھ کھا لیجئے ۔۔ جناب۔۔! عمران نے بڑے ادب سے کہا۔
قیدی کچھ نہ بولا۔۔ صرف اسے گھورتا رہا۔
"فی الحال جو کچھ حاضر ہے کھائیے۔ صبح جو کچھ آپ فرمائیں گے خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔"
قیدی اسے گھورتا ہی رہا۔ اس کی آنکھوں سے بے یقینی مترشح تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ برتاؤ اس کے لئے غیر متوقع رہا ہو۔
پھر عمران ٹرالی اس کے قریب لیتا چلا گیا۔ خود ہی انڈے کے سیندوچ بنائے اور سارڈین کے ٹین کھول کر ایک بڑی سی پلیٹ میں خالی کر دیئے۔
"کھائیے نا۔۔" عمران نے نرم لہجے میں کہا۔
"تم۔۔ تم۔۔ بہت اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو۔۔" قیدی نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
عمران کچھ نہ بولا۔
جب اس نے کھانا شروع کر دیا تو بولا۔ " مجھے بیحد افسوس ہے کہ اس وقت میں آپ کے لئے نرم روٹی نہ مہیا کر سکوں گا۔۔"
"کوئی بات نہیں۔۔" قیدی نے کہا اور ساڑین پر ٹوٹ پڑا۔
عمران اسے تفکر آمیز نظروں سے دیکھتا رہا۔
کچھ دیر بعد قیدی نے سر اٹھا کر کہا۔۔ "ملڑی میں تم جیسے شریف آدمی کہاں ہوتے ہیں۔"
"ملٹری!۔۔" عمران نے حیرت سے دہرایا۔
"کیوں؟ کیا تمہارا تعلق ملٹری سے نہیں ہے۔"
"جی نہیں۔۔ قطعی نہیں۔۔ یہ تو کچھ بدمعاش قسم کے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔"
"کون لوگ" قیدی نے پوچھا۔
"وہی لوگ جنہوں نے مجھے یہاں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔۔۔" عمران نے درد ناک لہجے میں کہا۔۔۔" میں بھی قیدی ہوں۔۔ یہاں قید کئے جانے والوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔"
"کیا نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہیں۔"
"آپ صرف کمپاؤنڈ میں نکل سکتے ہیں۔۔ کمپاؤنڈ سے باہر قدم رکھا اور کسی جانب سے ایک گولی آئی اور کھوپڑی میں سوراخ ہو گیا۔"
"یہ کیسے معلوم ہوا تمہیں؟"
"وہی لوگ کہتے ہیں!" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا "کہتے ہیں کبھی کمپاؤنڈ سے باہر قدم نکال کر دیکھو۔۔"
"مگر تمہیں پکڑا کیوں تھا۔۔؟"
"صاحب اچھا بھلا سڑک پر چلا جا رہا تھا۔ دو آدمیوں نے آ پکڑا۔ ایک نے کہا کہ تم میری جیب کاٹ کر بھاگے ہو۔۔ دوسرے نے میری جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پرس نکالا جو میرا نہیں تھا۔ پھر زبردستی گھسیٹتے ہوئے بولے چلو تھانے۔۔ اور تھانے کی بجائے یہاں لا پھنسایا۔میرے بچے نہ جانے کیا سوچتے ہوں گے۔ عمران کاموش ہو کر سسکیاں لینے لگا۔
"اوہو۔۔ چپ رہو۔۔ چپ رہو!" قیدی نے اسے دلاسہ دیا۔
"کب تک چپ رہوں۔۔ کہاں تک چپ رہوں۔"
"واقعی تم پر بڑا ظلم ہوا ہے۔۔ اس وقت اس عمارت میں کتنے آدمی ہیں۔"
"کوئی بھی نہیں۔۔"
"کمال ہے!" قیدی نے حیرت سے کہا۔ اور اس کے باوجود بھی تم خود کو قیدی سمجھتے ہو۔۔!"
"مجبور ہوں۔ اگر کمپاؤنڈ کے باہر کسی اندیکھی رائفل کی گولی!"
"چھوڑو۔۔" قیدی ہاتھ ہلا کر بولا۔" تجربہ کئے بغیر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ایسا ہو ہی جاتا ہے۔"
"تجربے کی ہمت نہیں رکھتا جناب۔۔ وہ لوگ ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں کہ جو کچھ کہیں گے کر گزریں گے۔"
"تم باہر جانا چاہتے ہو۔۔"
"کیوں نہیں۔۔ میرے بال بچے۔۔"
"میری مدد کرو۔۔ میں تمہیں باہر لے چلوں گا۔۔"
"میں تیار ہوں جناب۔۔"
"یہاں کوئی گاڑی بھی ہو گی۔۔"
"تین تین گاڑیاں ہیں گیراج میں اور ان کی ٹنکیاں بھی بھری ہونگی۔"
"مگر انجن تو مقفل ہوں گے۔۔" قیدی بڑبڑایا۔ "اور پرواہ نہیں۔۔۔ میں انجن کو غیر مقفل کر سکوں گا۔۔ بس تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔"
"تیاری کیسی جناب۔۔۔ کیا میں نے کوئی دولت اکٹھی کر رکھی ہے بس یونہی نکلا چلوں گا۔۔ لیکن گولی۔۔!"
"چلو اٹھو۔۔ مجھے باہر لے چلو۔۔" اجنبی کھانا چھوڑ کر اٹھ گیا۔
"صص۔۔ صاحب پھر سوچ لیجئے۔۔"
"بڑے بزدل ہو۔۔۔ بڑے میاں۔۔۔ اتنی عمر گزار چکنے کے باوجود بھی زندگی سے اتنا پیار۔۔۔ یاد رکھو۔۔۔ صرف وہی لوگ اس طرح مار لئے جاتے ہیں جو موت سے ڈرتے ہیں۔۔"
"مم۔۔۔ میرے خدا میں کیا کروں۔۔" عمران نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"چلو۔۔۔" قیدی اسے دروازے کی طرف دھکیلتا ہوا بولا۔
وہ ساؤنڈ پروف کمرے سے باہر آئے۔
"صاحب پھر سوچ لیجئے۔۔۔" عمران گڑگڑایا۔
"اچھا تم مجھے صرف گیراج تک لے چلو۔۔۔ پھر بحفاظت باہر نکال لے جانا میرا کام ہوگا۔ تم قطعی بے فکر رہو۔"
وہ دونوں گیراج کی طرف چل پڑے۔ کمپاؤنڈ اب بھی سنسان پڑی تھی اور اندھیرا پہلے سے بھی گہرا ہو گیا تھا کیونکہ مطلع ابر آلود تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پھر وہ دونوں بڑی آہستگی سے گیراج کی طرف بڑھتے رہے۔
گیراج کے سامنے پہنچ کر عمران نے دھیرے سے کہا۔ " گاڑی اسٹارٹ کر کے باہر نکالنا مناسب نہ ہو گا۔۔۔ تم گاڑی میں بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کئے بغیر اسے ریورس گیئر میں ڈالو۔ میں آگے سے دھکا لگاتا ہوں۔"
اس طرح گاڑی گیراج سے باہر آئی۔ انجن مقفل نہیں تھا۔ ویسے چابی لگی ہی ہوئی ملی تھی۔
عمران ہی کی تجویز پر اسے اسی طرح پھاٹک تک لایا گیا۔ انجن اسٹارٹ کئے بغیر۔۔
پھاٹک کے قریب پہنچ کر اس کا رخ سٹرک کی جانب کر دیا گیا۔
اب اتنی تیزی سے نکال لے چلو۔۔۔ کک ۔۔۔ کک ۔۔۔۔ کہ۔۔۔!" عمران جملہ پورا نہ کر سکا۔ بری طرح کانپ رہا تھا۔
"بس اب تم چپ چاپ بیٹھو!" قیدی آہستہ سے بولا۔ " بہت خوفزدہ معلوم ہوتے ہو۔"
"دو۔دم نکلا جا رہا ہے۔ مم۔ میرا تو۔۔" عمران کانپتا ہوا بولا۔
پھر انجن اسٹارٹ ہوا اور کار فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے باہر نکل گئی۔ سامنے سنسان سڑک پھیلی ہوئی تھی۔
قیدی ہی کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ کچھ دور نکل آنے کے بعد اس نے قہقہہ لگایا۔
تم تو ڈر کے مارے مرے جا رہے تھے!" اس نے کہا۔ تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر بولا۔ "دیکھو پیچھے کوئی گاڑی تو نہیں ہے۔"
عمران نے مڑ کر دیکھا اور کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔"نہیں۔۔ کوئی گاڑی نہیں ہے!"
"یار تم خواہ مخواہ اتنے دنوں تک وہاں قید رہے!" قیدی نے ہنس کر کہا۔
"مم۔۔ میرے۔۔ گھر ۔۔ چلئے۔۔!"
"نہیں پہلے میں تمہیں اپنے گھر لے چلوں گا۔۔"
"جیسی مرضی جناب کی۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ کار شہری آبادی کو کافی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
کسی نامعلوم منزل کی راہ خاموشی سے طے ہوتی رہی۔ عمران خود بھی زیادہ نہیں بولنا چاہتا تھا۔
آخر کار گاڑی ایک جگہ رک گئی۔ عمران نے کھڑکی کے باہر نظر دوڑائی۔ لیکن اندھیرے کے سوا اور کچھ نہ دکھائی دیا۔
"آؤ۔۔ قیدی دروازہ کھول کر نیچے اترتا ہوا بولا۔ " تھوڑی دیر آرام کر لیں۔"
اوہ تو سفر لمبا بھی ہو سکتا ہے۔ عمران نے سوچا۔
وہ بھی نیچے اتر آیا۔
قیدی کہہ رہا تھا۔ "اب اس گاڑی میں سفر کرنا مناسب نہ ہو گا۔"
"کیوں؟" عمران نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"عقل کے ناخن لو بڑی میاں۔ اگر فی الحال ہم بچ کر نکل آئے ہیں تو تم یہ سمجھتے ہو کہ بچے ہی رہیں گے؟"
"عمران کچھ نہ بولا۔ قیدی اس کا داہنا بازو پکڑے اسے آگے بڑھا رہا تھا۔
وہ ایک ویرانے ہی میں رکے تھے اور یہ راستہ جس پر چل رہے تھے۔ ناہموار بھی تھا اور اس کی دونوں جانب جھاڑیوں کے سلسلے تھے۔
"نیچے دیکھ کر چلنا۔ " قیدی اس سے کہہ رہا تھا۔ "ورنہ ہاتھ پیر توڑ بیٹھو گے۔"
"میں محتاط ہوں۔" عمران نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
تقریباً پندرہ یا بیس منٹ تک چلتے رہنے کے بعد وہ ایک جھونپڑے کے سامنے رکے۔۔ اندر روشنی تھی! قیدی نے کسی کا نام لے کر پکارا۔۔ دروازے پر سے ٹٹر ہٹایا گیا اور کوئی سامنے آیا۔ روشنی اس کی پشت پر تھی اس لئے چہرہ دکھائی نہ دیا۔
"کون ہے۔" اس نے غرائی ہوئی سی آواز میں پوچھا۔
"سکس تھرٹی تھری۔" قیدی نے جواب دیا۔
دفعتاً قیدی کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پڑی اور کہا گیا۔ "ٹھیک ہے دوسرا کون ہے؟"
"اطمینان سے بتاؤں گا۔" قیدی نے کہا۔
"آؤ۔۔!" دوسرا آدمی راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہٹتا ہوا بولا۔
وہ دونوں جھونپڑے میں داخل ہوئے۔ اور عمران نے اندازہ کر لیا کہ وہاں محکمہ جنگلات کا کوئی رکھوالا رہتا ہے۔ کچھ اسی قسم کا سامان وہاں نظر آیا تھا۔
جھونپڑے کا مکین صورت سے اچھا آدمی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ پیشانی پر زخموں کے نشانات تھے۔ جسم کی بناوٹ بتا رہی تھی کہ کڑی محنت کا عادی ہے۔ آنکھوں سے سخت گیری بھی عیاں تھی۔ قیدی کو مسلسل گھورے جا رہا تھا۔
قیدی نے جلدی جلدی اپنی داستان دہرائی اور پُر اشتباہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ چند لمحے گھورتا رہا۔۔ پھر بولا۔ " کیا تم مجھے اس عمارت تک پہنچا سکو گے!"
"مم۔۔ میں ۔۔۔ نن نہیں جناب۔۔ میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے نہ تو وہاں تک جاتے وقت میرے ہوش بجا تھے اور نہ وہاں سے رہائی کے وقت۔"
"تم۔۔ " وہ قیدی کی طرف مڑا۔
"میرا خیال ہے اب شاید میں بھی وہاں تک نہ پہنچ سکوں۔"
"ہوں۔ اچھا۔" اس نے طویل سانس لی اور بولا۔ "میں خود اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکوں گا۔ ہاں۔ تم نے وہ گاڑی کہاں چھوڑی ہے۔"
"سڑک پر۔۔"
"میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں!"
"قیدی عمران کی طرف دیکھ کر بولا۔" چلو!"
"مجھ پر رحم کرو۔۔" عمران ہاتھ جوڑ کر گڑگڑایا۔ "مجھ میں اب چلنے کی سکت نہیں رہ گئی!"
جھونپڑی کے مکین نے اسے تیز نظروں سے گھورا لیکن کچھ بولا نہیں۔ قیدی نے عمران سے کہا۔ "اچھا تم یہیں انتظار کرو۔"
وہ چلے گئے اور عمران ان کے قدموں کی دور ہوتی ہوئی چاپیں سنتا رہا۔ تیز نظروں سے جھونپڑے کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ کار کے نمبر سے وہ کچھ بھی معلوم نہ کر سکیں گے کیونکہ دانش منزل سے تعلق رکھنے والی ساری ہی گاڑیوں کے نمبر جعلی تھے اور ان کا اندراج کہیں بھی نہیں تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موقعہ سے فائدہ اٹھا کر عمران جھونپڑے کی تلاشی ہی لے ڈالتا لیکن اس نے اسے مناسب نہ سمجھا۔ اس نے سوچا ممکن ہے آس پاس کوئی اور بھی موجود ہو۔ وہ جہاں تھا وہیں کھڑا رہا بیٹھا بھی نہیں۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں واپس آ گئے۔ شاید تیز چلے تھے! کیونکہ دونوں ہی ہانپ رہے تھے۔
"اوہو۔۔ تم اب تک کھڑے ہو!" قیدی نے عمران سے کہا۔ "ہمیں رات یہیں بسر کرنی پڑے گی۔ صبح تمہیں تمہارے گھر پہنچا دیں گے۔"
"تم کہاں رہتے ہو۔" دوسرے آدمی نے پوچھا۔
عمران نے آدم پورے کی کسی غیر معروف عمارت کا نام بتایا۔۔ لیکن وہ محسوس کر رہا تھا کہ مخاطب اب بھی اسے شبہ ہی کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔"
پیال کے بستر پر وہ لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد اجننی نے چراغ بھی بجھا دیا۔ عمران دم سادھے پڑا رہا۔ کچھ دیر بعد خراٹے بھی لینے لگا۔ لیکن اس کے حواس خمسہ پورے طرح بیدار تھے۔ قیدی نے اسے مخاطب کر کے پوچھا بھی تھا کہ کیا وہ سو گیا لیکن عمران کے خراٹے بدستور جاری رہے!

پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے دونوں کی کھسر پھسر سنی لیکن باتیں سمجھ میں نہ آ سکیں۔ وہ کان ادھر ہی لگائے رہا۔ اب وہ صرف ایک ہی اور واضح قسم کی آواز سن رہا تھا جو اس جھونپڑے کے مکین ہی کی ہو سکتی تھی۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے ٹرانسمیٹر پر کوئی پیغام نشر کیا جا رہا ہو لیکن جو کچھ بھی کہا جا رہا تھا مخصوص قسم کے کوڈورڈز میں کہا جا رہا تھا۔ اس لئے مفہوم سمجھ میں نہ آ سکا!
عمران خود کو کسی نئے وقوعے کے لئے تیار کرنے لگا۔
"اوور اینڈ آل" کہہ کر وہ آدمی خاموش ہو گیا۔ اور دونوں میں پھر سرگوشیاں ہونے لگیں۔

عمران نے پتلون کی جیب میں پڑا ہوا ریوالور ٹٹولا۔۔ اور پھر اس طرح بڑبڑانے لگا جیسے بعض لوگ سوتے میں بڑبڑاتے ہیں۔
قیدی نے اسے آواز دی اور جواب نہ پا کر ہنسنے لگا۔
"بڑبڑاتا ہے۔" دوسرے آدمی نے کہا۔ عمران کے خراٹے پھر شروع ہو گئے تھے۔
"حیرت ہے۔" کچھ دیر بعد اسی آدمی نے کہا۔ داڑھی بالکل سفید ہے۔۔۔ لیکن سر کے بال۔۔۔ شاید سر میں ایک بھی سفید بال نہ ملے۔"
اب تو عمران کو یقین ہو گیا کہ قلعی کھلنے میں دیر نہ لگے گی۔۔ اس نے دانش منزل میں جو کچھ بھی کیا تھا بہت جلدی میں کیا تھا! بھیس بدلتے وقت صرف یہ بات ذہن میں تھی کہ وہ قیدی کی ہمدردیاں حاصل کر کے اس سے اس کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ معلوم کر لے گا اور اس کے ساتھ نکل بھاگنے کی تجویز تو اس سے گفتگو کرتے وقت ہی ذہن میں گونجی تھی۔ مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ وہ اس طرح اس لوگوں کے کسی نہ کسی ٹھکانے سے بھی واقف ہو جائے گا! اگر یہ اسکیم پہلے ہی سے ذہن میں ہوتی تو میک اپ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہو جاتا۔

بہر حال اب کیا ہو سکتا تھا۔۔ اب تو بچاؤ کی کوئی صورت پیدا کرنی تھی۔ ہو سکتا تھا کہ ٹرانسمیٹر پر نشر کئے جانے والے پیغام میں بھی اس نے اسی کے متعلق کسی کو کچھ بتایا ہو اور اپنے شبہات کا بھی اظہار کر دیا ہو۔

فوری طور پر کوئی تدبیر نہ بن پڑی اور تن بہ تقدیر بدستور خراٹے لیتا رہا۔
اور پھر اسے پرواہ کب تھی۔ وہ تو بے خطر آگ میں کود پڑنے کا قائل تھا۔ یہ بعد میں سوچنا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ فی الحال کچھکرنے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا تھا کیونکہ جس مقصد کے حصول کے لئے یہ تگ و دو کی تھی اس کا ابھی دور دور تک پتہ نہیں تھا۔

دفعتاً وہ اچھل پڑا۔ غالباً کان کے قریب ہی فائر ہوا تھا اور ایک کربناک سی چیخ اندھیرے میں گونجی تھی۔ پھر جھونپڑے کے مکین کی گرج سنائی دی۔ "خبردار بوڑھے تم اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا ورنہ تمہاری کھوپڑی میں بھی سوراخ ہو جائے گا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
عمران اپنے حلق سے ڈری ڈری سی آوازیں نکالنے لگا۔ ویسے جیب سے ریوالور بھی نکل آیا تھا۔۔ اب پوری بات اس کی سمجھ میں آئی۔ قیدی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ غالباً ٹرانسمیٹر پر اس نے صرف پیغام نشر ہی نہیں کیا تھا بلکہ کسی کا جوابی پیغام وصول بھی کیا تھا جس کے مطابق قیدی کو ٹھکانے ہی لگا دیا گیا تھا اور خود اس کا مسئلہ بھی شائد زیر غور تھا۔
"بتاؤ تم کون ہو۔۔" اندھیرے میں پھر آواز گونجی۔
"مم۔۔ میں۔۔ یعنی کہ میں۔۔" عمران ہکلایا۔
"ہاں۔۔ تم۔۔!"
"جی میں۔۔ تصدق حسین خنجر انبالوی ہوں!"
"بکواس بند کرو۔ ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔۔"
"یقین نہ ہو تو وہ شعر سن لیجیئے جو ابھی ابھی ہوا ہے۔ کمال کا شعر ہے۔ سنیئے :

کل اغیار میں بیٹھے تھے تم
"ہاں ہاں کوئی بات بناؤ!"

"شاید تم بھی اسی طرح مرنا چاہتے ہو۔" وہ غرایا۔

عمران چاہتا تو آواز ہی پر فائر کر کے اس کا کام تمام کر دیتا۔۔ لیکن اس نے اتنی محنت اس لئے نہیں کی تھی کہ وہ پھر تاریکیوں میں بھٹکتا رہ جاتا۔۔ پہلے ایک آدمی ہاتھ لگا جس کے توسط سے مجرم یا مجرموں تک پہنچنے کی توقع تھی لیکن اب شاید اس کی لاش ہی وہاں اندھیرے میں موجود تھی۔۔ اور اب دوسرا آدمی یعنی اس قیدی کا قاتل گرفت میں تھا۔ وہ یقینی طور پر کوئی اہم آدمی تھا ورنہ اس اقدام کی جرات ہرگز نہ کرتا۔

"بتاؤ تم کون ہو۔۔ اور اسے کس عمارت میں قید کیا گیا تھا۔" وہ پھر دہاڑا۔

"میں اپنا نام اور تخلص آپ کو بتا چکا ہوں۔ نمونے کا شعر بھی پیش کر دیا ہے۔ رہ گئی وہ عمارت تو وہ اس جھونپڑے سے بہرحال بہتر تھی۔ ٹھائیں ٹھائیں تو نہیں سننی پڑتی تھی۔"
"شائد تم سچ مچ مرنا چاہتے ہو۔۔"
"بھائی اندھیرے میں نہ مارنا۔۔" عمران گھگھیایا۔" چراغ جلا لو تو بہتر ہے۔ اندھیرے میں مرتے وقت دم گھٹنے لگتا ہے اور بڑی الجھن ہوتی ہے۔"
"کیوں شامت آئی ہے۔"
"اندھیرے میں کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ چراغ جلاؤ۔۔ پھر جو کچھ بھی پوچھو گے بتا دوں گا۔"
"اچھا ٹھہرو۔۔"
عمران سنبھل کر بیٹھ گیا۔ ریوالور جیب میں ڈال لیا تھا۔ اور آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا۔
ادھر جیسے ہی اس نے دیا سلائی کھینچی اور روشنیہوئی عمران نے اپنے زخم کی پرواہ کئے بغیر اس پر چھلانگ لگا دی۔ مقابل اس کے لئے قطعی تیار نہیں تھا۔ اس لئے اسے سنبھلنے کی مہلت نہ مل سکی۔ لڑکھڑا کر گرا اور عمارن اسے دبوچ بیٹھا۔۔!
چراغ جل نہیں سکا تھا۔ دیا سلائی اس کے ہاتھ ہی میں بجھ گئی تھی۔ اب وہ عمران کے نیچے دبا ہوا اسے اچھال پھینکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عمران کی کوشش تھی کہ کسی طرح وہ آسانی سے قابو میں آ جائے۔ اسی جد و جہد کے دوران میں اس کے سر کے بال عمران کی گرفت میں آ گئے۔ اس نے انہیں سختی سے مٹھی میں جکڑ لیا اور دھڑا دھڑ اس کا سر زمین سے ٹکرانے لگا۔۔۔ گھٹی گھٹی سے چیخیں اندھیرے میں گونجتی رہیں اور وہ آہستہ آہستہ سست ہوتا گیا۔ پھر بالکل ہی بیحس و حرکت ہو گیا۔

عمران نے اس پر چڑھے چڑھے ہی ٹٹول کر دیاسلائی کی ڈبیہ تلاش کی اور ایک تیلی جلا کر اس کا جائزہ لیا۔ وہ گہری گہری سانس لے رہا تھا۔

جب اچھی طرح اطمینان ہو گیا کہ وہ واقعی بیہوش ہے تو عمران اسے چھوڑ کر ہٹ گیا اور چراغ روشن کر کے قیدی پر نظر ڈالی جو زمین پر اوندھا پڑا تھا۔ گولی اس کی کھوپڑی پر ماری گئی تھی۔

آس پاس خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔۔ مختصر سی تلاشی کے بعد عمران نے محدود دائرہ عمل والا ٹرانسمیٹر برآمد کر لیا جو بیٹری سے چلتا تھا۔
پھر اس نے یہی مناسب سمجھا کہ بیہوش آدمی کو جھونپڑے سے ہٹا دے۔ تلاشی کے دوران میں ایک ٹارچ بھی ہاتھ لگی تھی۔
اس نے بیہوش آدمی کے ہاتھ اور پیر باندھے۔ خود اس کے بازو کا زخم بری طرح دکھ رہا تھا۔ اس کے باوجود بھی اس نے کسی نہ کسی طرح بیہوش آدمی کو پشت پر لاد کر قریبی جھاڑیوں میں پہنچایا اور خود بھی ایک جانب دبک رہا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی نہ کوئی وہاں ضرور آئے گا۔ چونکہ وہاں سے برآمد ہونے والا ٹرانسمیٹر بیس میل کے اندر اندر ہی کارآمد ہو سکتا تھا اس لئے اس پر بھیجے جانے والے پیغام کا یہی مطلب ہو سکتا تھا کہ اس نے قریب ہی کے کسی آدمی کو حالات سے مطلع کیا ہے۔

آدھا گھنٹہ گزر گیا لیکن کسی قسم کی آواز نہ سنائی دی۔ ادھر اس کا قیدی بھی کسمسانے لگا۔ حلق سے آوازیں بھی نکالی تھیں۔ شاید وہ پوری طرح ہوش میں آ چکا تھا۔ عمران نے اس کے شانے پر ریوالور کی نال رکھ کر تھوڑا سا زور صرف کرتے ہوئے کہا۔ " چپ چاپ پڑے رہو بیٹے۔۔۔ اگر ہلکی سی آواز بھی نکالی تو سائیلنسر لگا ہوا کھلونا تمہیں ہمیشہ کے لئے خاموش کر دے گا۔"

پھر وہ ساکت ہی ہو گیا۔ عمران جھونپڑے سے نکلتے وقت دو کمبل لانا نہیں بھولا تھا۔ ایک کود اس کے استعمال میں تھا اور دوسرا اس نے اپنے قیدی پر ال دیا تھا۔
"میں کہاں ہوں۔" قیدی نے کچھ دیر بعد مضمحل سی آواز میں پوچھا۔
"جھونپڑے سے تھوڑے ہی فاصلے پر جھاڑیوں میں۔"
"کیوں؟"
"مجھے ان لوگوں کا انتظار ہے جنہیں تم نے ٹرانسمیٹر پر پیغام بھیجا تھا۔"
"کوئی نہیں آئے گا۔۔ مجھے صرف حکم ملا تھا کہ اسے گولی مار کر تمہیں گرفتار کر لوں۔"
"اچھا فرض کرو تم نے مجھے گرفتار کر لیا۔ پھر۔۔!"
"میں کچھ نہیں جانتا۔"
"تم آخر گرفتار کر کے کرتے کیا۔"
"ان کے دوسرے حکم کا منتظر رہتا۔"
"کن کے۔۔!"
"میں نہیں جانتا۔"
"پچھلے دن میں نے تمہارے ہی جیسے ایک ضدی آدمی کے دونوں کان کاٹ دیئے تھے!"
عمران نے بڑے خلوص سے کہا۔
قیدی کچھ نہ بولا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عمران بھی تھوڑی دیر تک سوچتا رہا۔۔۔ پھر قیدی کے چہرے پر روشنی ڈالتا ہوا بولا۔ " اپنا منہ کھولو۔"
"کک۔۔۔ کیوں؟"
"جلدی کرو۔" عمران غرایا۔
قیدی نے جلدی سے منہ کھول دیا اور عمران اس میں اپنا رومال ٹھونسنے لگا۔ اس کا جسم متحرک تھا۔ لیکن ہاتھ پیر نہیں ہلا سکتا تھا کیونکہ وہ بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ ہاتھ پیر باندے گئے تھے اور وہ بائیں کروٹ پڑا ہوا تھا۔

اب عمران جھونپڑے کی طرف متوجہ ہوا۔ وہاں سے برآمد ہونے والا ٹرانسمیٹر وہیں چھوڑ آیا تھا۔ پیٹ کے بل رینگتا ہوا جھونپڑے میں پہنچا۔ یہاں حالات بدستور تھے۔ ٹرانسمیٹر بائیں ہاتھ میں سنبھال کر پھر اسی طرح واپس ہوا۔۔ داہنے ہاتھ میں ریوالور تھا۔

قیدی کو جیسا چھوڑ کر گیا تھا اسی پوزیشن میں ملا۔ عمران نے اس کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی اور اس نے چندھیا کر آنکھیں بند کر لیں۔

پھر عمران نے ٹرانسمیٹر کا سوئچ آن کر دیا۔۔" سائیں سائیں" کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ کچھ دیر بعد کسی آدمی کی آواز ابھری۔ " سکس تھرٹی ایٹ۔۔ سکس تھرٹی ایٹ اٹ از ہیڈ کوارٹر۔۔۔ سکس تھرٹی ایٹ۔۔۔ ریسپانڈ۔۔۔ سکس تھرٹی ایٹ۔۔۔ ات از ہیڈ کوارترز۔!"

عمران نے پھر سوئچ آف کر دیا اور قیدی کے منہ سے رومال کھینچتا ہوا بولا۔ " کیا یہ کال تمہارے لیے تھی۔"
"وہ کچھ نہ بولا۔۔۔ اور عمران نے اس کی ناک پر ہاتھ رکھ کر کسی قدر دباؤ ڈالا۔
"یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔" قیدی کراہ کر چیخا۔
"بٹن دبائے بغیر آواز کہاں نکلتی ہے۔۔" عمران چہکارا۔ " اب اگر تم نے بولنے میں دیر لگائی تو فکس کر دینے والے بٹن دباؤں گا اور تم بولتے ہی چلے جاؤ گے۔"
"ذرا میرے ہاتھ کھول دو۔ پھر بتاؤں؟" قیدی کسی کٹکھنے کتے کی طرح غرایا۔
"میں تو تمہیں دولہا بھی بنا سکتا ہوں۔ لیکن۔۔۔ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔"
"ہاں وہ کال میرے ہی لئے تھی پھر!"
"میں ٹرانسمیٹر کا سوئچ آن کرنے جا رہا ہوں۔ تم اپنے ہیڈ کوارٹر سے گفتگو کرو گے اور انہیں بتاؤ گے کہ تم نے اپنے ساتھی کو مار ڈالا۔ اور مجھے بھی بے بس کر چکے ہو۔"
"تم مجھے مجبور نہیں کر سکتے۔"
عمران نے ریوالور کے دستے سے اس کے گھٹنے پر ضرب لگائی اور منہ پر ہاتھ جما دیا۔
وہ مچلنے لگا لیکن کراہ کی آواز نہ نکل سکی۔ کیونکہ منہ پر بھی عمران کی گرفت مضبوط تھی۔ اس نے دوسرے گھٹنے پر بھی ضرب لگائی۔ پھر تو بے تکان اس کے دونوں گھٹنوں اور پنڈلیوں کی ہڈیوں پر قیامت توڑتا رہا۔
کچھ دیر بعد جب اس نے اس کے منہ پر ہے ہاتھ ہٹایا تو وہ دبی دبی سسکیاں لے رہا تھا۔۔۔ شاید اس پر غشی طاری ہو رہی تھی۔
عمران نے پتلون کی جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور اس میں سے ایک پیس نکال کر منہ میں ڈال لیا۔
"چیونگم سے شوق کرو گے؟" اس نے جھک کر اُس کے کان میں کہا۔ " اس غریب الوطنی میں اس سے زیادہ خاطر نہ کر سکوں گا۔"
"وہ کچھ نہ بولا۔ پھر بے حس و حرکت ہو گیا تھا۔۔ عمران نے ٹرانس میٹر کا سوئچ آن کر دیا لیکن آواز کا حجم نہیں بڑھایا۔۔۔ سکس تھرٹی ایٹ کی پکار برابر ہو رہی تھی۔۔۔!
اس بار اس نے سوئچ آف کر کے ٹرانس میٹر کو قیدی کے چہرے کے قریب رکھ دیا۔

ریڈیم ڈائیل والی گھڑی دیکھی چار بج رہے تھے۔ جو کچھ بھی کرنا تھا۔ اجالا پھیلنے سے قبل ہی کر گزرنا تھا۔۔ اب سوچ رہا تھاکہ قیدی کو اتنی بیدردی سے نہ مارنا چاہیے تھا۔ اب تو اس کے بھی امکانات تھے کہ زبان بند رکھنے کے لئے وہ ہوش میں آ جانے کے باوجود بھی خود کو بے ہوش ہی پوز کرتا رہتا۔
تھوڑی دیر بعد اس دو تین چھینکیں آئیں اور وہ آہستہ آہستہ کراہنے لگا۔!
"مجھے بتاؤ۔ تمہاری بوتل جھونپڑے میں کہاں رکھی ہے!" عمران نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔ " مجھے یقین ہے کہ تم اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہو!"
"ہاں۔ آں۔۔۔" وہ کراہا۔ "لکٹری کے صندوق میں۔!"
عمران تیزی سے جھاڑیوں کے باہر رینگ گیا! اور پھر واپسی میں دو منٹ سے زیادہ نہیں صرف ہوئے۔ برانڈی کی آدھی بوتل تھی۔
کارک نکال کر اس کے ہونٹوں سے لگا دی اور اس وقت تک نہیں ہٹائی جب تک کہ قیدی نے اپنے سر کو جھٹکا نہیں دیا۔
"اب تم حواس میں رہ کر عقلمندی کا ثبوت دے سکو گے۔۔" عمران خوش ہو کر بولا۔
قیدی کچھ نہ بولا۔ گہری گہری سانس لے رہا تھا۔
"کیا تمہیں یاد ہے۔ میں نے کیا کہا تھا۔"
"ہاں۔۔!" آواز کسی زخمی بھیڑیئے کی غراہٹ سے مشابہ تھی۔
"میں ٹرانس میٹر کا سوئچ آن کرنے جا رہا ہوں۔ کال ہونے پر تم وہی کہو گے جو میں کہہ چکا ہوں! سمجھے۔"
قیدی کچھ نہ بولا۔ عمران نے ٹرانس میٹر کا سوئچ آن کر دیا۔
کچھ دیر بعد پھر سکس تھرٹی ایٹ کی پکار ہوئی اور قیدی بھرائی ہوئی آواز میں بولا " اٹ از سکس تھرٹی ایٹ۔۔ میں نے اس کا کام تمام کر دیا۔ دوسرا میرا قیدی ہے۔۔۔ اوور۔۔"
"تم اسے وہیں رکھو۔۔ کچھ دیر بعد انتظام کیا جا سکے گا۔۔ اوور اینڈ آل۔"
آواز پھر نہیں آئی۔۔ عمران نے سوئچ آف کر کے پوچھا۔۔" اور پیو گے!"
"غوں۔۔" اس نے غصیلی آواز حلق سے نکالی۔ عمران نے پھر بوتل اس کے ہونٹوں سے لگا دی۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر عمران نے کہا۔ " غالباً اب کوئی تمہارے قیدی کے لئے آئے گا۔"
وہ خاموش ہی رہا۔
"کیا وہ سب تمہیں پہچانتے ہیں۔" عمران نے پوچھا۔
"ہاں۔"
"خیر اب تم یہ بتاؤ۔۔۔ پھانسی کا پھندہ پسند کرو گے۔۔۔ یا سرکاری گواہ بننا۔"
"میں موت سے نہیں ڈرتا۔"
"شادی سے پہلے میں بھی نہیں ڈرتا تھا۔" عمران نے کہا۔ " لیکن شادی کے بعد سے نہ صرف موت سے ڈرنے لگا ہوں بلکہ مختلف قسم کے ہدایت نامے بھی پڑھنے لگا ہوں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ تم پھانسی کا پھندا نہیں پسند کرو گے۔"
وہ پھر کچھ نہ بولا۔
"میں بھی کیوں نہ تمہاری کھوپڑی میں گولی ہی مار دوں۔" تھوڑی دیر بعد عمران نے کہا۔
"بکے جاؤ۔۔۔ مجھے کسی بات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔"
"اگر میں شروع ہو جاؤں۔۔۔" عمران بڑبڑایا۔ " اس بار تمہارے دانتوں کی مضبوطی آزماؤں گا۔"
"نن۔۔۔ نہیں۔۔" قیدی بوکھلائے ہوئے انداز میں بولا۔۔ "تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔"
"مجھے کون روکے گا۔"
"میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم کیا چاہتے ہو۔"
"ہیڈ کوارٹر کا پتہ بتاؤ۔"
"میں نہیں جانتا۔۔۔ یقین کرو۔۔ ہمیشہ ٹرانسمیٹر ہی پر ان سے گفتگو ہوتی ہے۔"
"محکمہ جنگلات سے تمہارا کیا تعلق ہے۔"
"واچ مین ہوں۔"
"مگر تم تو پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتے ہو۔۔۔"
"اس ملازمت سے قبل ہی سے میرا ان سے تعلق رہا ہے۔ ان کی ہدایت پر میں نے یہ ملازمت اختیار کی تھی۔"
"ان کے ہاتھ کس طرح پڑے تھے۔"
"لمبی کہانی ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
"میں سننا پسند کروں گا۔"
"میں ایک مقامی فرم میں کیشیر تھا۔ ایک بار نہ جانے کیسے پچاس ہزار کا گھپلا ہو گیا جس کی ایک پائی بھی میری ذات پر صرف نہیں ہوئی تھی۔۔ آڈیٹر نے اسے چیک کر لیا اور مجھے جیل بھجوا دینے کی دھمکی دی۔ ان دنوں میں بیحد شریف یا دوسرے لفظوں میں بزدل تھا ڈر گیا۔۔ پھر آڈیٹر ہی نے تجویز پیش کی کہ میں ایک گروہ کے لئے کام کروں جو اسمگلنگ کرتا ہے اس طرح یہ کمی پوری کر دی جائے گی۔ میں تیار ہو گیا تھا۔ پھر جب اچھی طرح دلدل میں پھنس چکا تو معلوم ہوا کہ اسمگلرز نہیں بلکہ غیر ملکی ایجنٹ تھے اور میں ملک و قوم سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہوں۔۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ پوری طرح ان کی گرفت میں تھا۔"
"ہیڈ کوارٹر کہاں ہے۔"
یقین کرو دوست۔۔ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔۔ ذرا بوتل ادھر بڑھانا۔۔"
"ضرور۔۔ ضرور۔۔" عمران نے بوتل اس کے ہونٹوں سے لگا دی۔
دو تین گھونٹ لے کر اس نے سر کو جھٹکا دیا اور عمران نے بوتل ہٹا لی۔
"تمہارے ذمے کیا کام ہے۔"
"محکمہ جنگلات کے ایک آفیسر سے کچھ پیغامات ملتے ہیں۔ جنہیں میں کوڈورڈز میں بذریعہ ٹرانسمیٹر ہیڈ کوارٹر تک پہنچا دیتا ہوں۔"
"کیا کبھی کسی غیر ملکی سے بھی سابقہ پڑا ہے۔"
"کبھی نہیں۔"
"یہ آدمی جسے تم نے گولی مار دی ہے۔ کون تھا؟"
"محکمہ جنگلات کا وہی آفیسر جس کے پیغامات ہیڈ کوارٹر تک پہنچاتا تھا۔"
"اور ہیڈ کوارٹر کے پیغامات اس تک۔۔ کیوں؟"
"ہاں۔۔"
"کیا تم جانتے ہو کہ اس نے لیفٹیننٹ بن کر ایک آدمی کے اغوا کا پروگرام بنایا تھا۔"
"اس نے پروگرام نہیں بنایا تھا بلکہ یہ پروگرام میرے توسط سے اسے ہیڈ کوارٹر کی طرف سے ملا تھا۔"
"کوڈ ورڈز کی ٹریننگ تمہیں کہاں سے ملی تھی!"
"اسی آڈیٹر سے جس نے مجھ پر غبن کا کیس کرنے کی دھمکی دی تھی۔"
"وہ اب کہاں مل سکے گا۔"
اسی فرم میں۔"
"نام بتاؤ۔۔"
"تم پہلے یہ بتاؤ کہ اب میرا کیا حشر ہو گا۔"
"عقلمندی سے کام لینے کا وعدہ کرو تو تمہاری گردن بچانے کا وعدہ میں بھی کر لوں گا۔"
"میں تیار ہوں۔"
"ہوں؟" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ " کیا مجھے یہاں رک کر ہیڈ کوارٹر کے کسی آدمی کا انتظار کرنا چاہیے۔"
"فضول ہے۔" قیدی نے کہا۔ " کوئی نہیں آئے گا۔"
"پھر تم مجھے ان تک کس طرح پہنچاتے۔۔"
"وہ جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عمران نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اس نے کسی قسم کی آواز سنی تھی۔۔ کوئی جھاڑیوں کے باہر چل رہا تھا۔
عمران نے جھانک کر دیکھا۔ تاروں کے چھاؤں میں ایک دراز قد آدمی نظر آیا۔ جو جھونپڑے کی طرف جا رہا تھا۔
عمران نے آخری بار جھونپڑے کا چراغ نہیں بجھایا تھا۔
اس نے اس آدمیکو جھونپڑے میں داخل ہوتے دیکھا اور خود بھی تیزی سے باہر رینگ گیا!
ریوالور کا دستہ مضبوطی سے اس کی مٹھی میں جکڑا ہوا تھا۔
جھونپڑے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔ اس نے دروازے سے جھانکا۔ آنے والے کی پشت اس کی طرف تھی اور وہ قیدی کی لاش پر جھکا ہوا تھا۔
پھر جیسے ہی وہ سیدھا ہونے لگا عمران تیزی سے پیچھے ہٹ کر پھر زمین پر لیٹ گیا۔
وہ جھونپڑے کے باہر آ چکا تھا۔۔ پھر اس نے آہستہ سے آواز دی۔ " سکس تھرٹی ایٹ۔ تم کہاں ہو۔"
لیکن یہ آواز۔۔؟ عمران می کھوپڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ یہ تو کسی عورت کی انتہائی سریلی آواز تھی۔ اس نے پھر سکس تھرٹی ایٹ کو پکارا۔ آواز اتنی بلند تھی کہ جھاڑیوں تک ضرور پہنچی ہو گی جہاں سکس تھرٹی ایٹ رسیوں سے جکڑا پڑا تھا۔
دفعتاً عمران نے حلق سے بھرائی ہوئی سی آواز نکالی۔ " اندر چلو۔۔ اندر چلو۔"
"تم کہاں ہو۔۔" پھر پوچھا گیا۔
"اندر چلو۔۔" عمران نے پھر اسی لہجے میں کہا۔
اور وہ جھونپڑے میں چلی گئی۔
ان لوگوں کے طریق کار کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمران نے سوچا کہ وہ سکس تھرٹی ایٹ سے ذاتی طور پر شاید ہی واقف ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی اس کی شکل تک نہ دیکھی ہو۔۔
جیسے ہی وہ جھونپڑے میں داخل ہوا۔ وہ چونک کر مڑی۔
دراز قد اور خوش شکل عورت تھی۔ ہاتھ پیر خاصے مضبوط معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ بمشکل پچیس یا چھبیس کی رہی ہو گی۔۔ جیکٹ اور چست پتلون میں ملبوس تھی۔
"قیدی کہاں ہے؟" اس نے پوچھا اور عمران نے اطمینان کی سانس لی۔ وہ حقیقتاً سکس تھرٹی ایٹ سے واقف نہیں تھی۔
"یور آئیڈنٹٹی؟" عمران نے سخت لہجے میں پوچھا۔
"نائین سیون فور۔۔ فار ہیڈ کوارٹرز۔۔"
"فار یا فرام۔۔" عمران نے آنکھیں نکالیں۔
"فار؟" وہ اسے گھورتی ہوئی غرائی۔
"تنہا۔۔۔ آئی ہو۔۔!"
"ہاں۔۔ قیدی کہاں ہے۔ اسے بیہوش کر کے گاڑی تک پہنچا دو۔"
"وہ۔ وہاں جھاڑیوں میں پڑا ہے۔ یہاں رکھنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔"
"اسے یہاں لاؤ۔۔"
"بہت بہتر۔۔ تم بیٹھ جاؤ۔۔ عمران نے اسٹول کی طرف اشارہ کیا اور خود باہر نکل گیا۔
وہ جھاڑیوں میں واپس آیا اور قیدی سے بولا۔ "کوئی عورت آئی ہے۔ قیدی کو یہاں سے لے جانے کے لئے۔ وہ تمہیں صورت سے نہیں پہچانتی۔ اس لئے میں خود کو بحثیت سکس تھرٹی ایٹ پیش کیا ہے اور تمہیں قیدی کی صورت میں اس کے سامنے لے جاؤں گا۔"
"اس سے فائدہ!" اس نے آہستہ سے کہا۔ " میرا دعویٰ ہے کہ اس طرح ہیڈ کوارٹر تک ہرگز نہ پہنچ سکو گے۔" عمران چند لمحے اس پر غور کرتا رہا پھر بولا۔ "پھر تم کیا کہنا چاہتے ہو۔۔"
 

شمشاد

لائبریرین
"میں اس زندگی سے تنگ آ گیا ہوں! انہوں نے مجھے فریب دے کر پھانسا تھا۔ عرصہ سے خواہش تھی کہ کسی طرح ان کا بیڑہ غرق ہو اور اس میں میرا نمایاں حصہ ہو۔! مجھے اپنی جگہ ہی پر رہنے دو اور مجھ سے رابطہ قائم رکھو۔ اس طرح ان چوہوں کو ان کے بلوں سے نکالا جا سکے گا۔۔ اس عورت کو جہاں چاہو لے جاؤ مجھ سے پوچھا جائے گا تو کہہ دوں گا کہ کوئی عورت یہاں سرے سے آئی ہی نہیں۔ ایک بوڑھا آدمی تھا جو قیدی کو ہیڈ کوارٹر کے حوالے سے لے گیا۔"
"تجویز معقول ہے۔ لیکن ۔۔ اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم ہمارا ہی ساتھ دو گے۔"
"فی الحال میں کسی طرح بھی یقین نہ دلا سکوں گا۔"
"اچھی بات ہے۔۔ فی الحال میں بھی جو کچھ کر رہا ہوں مجھے کرنے دو۔"
عمران نے اسے اٹھا کر پیٹھ پر لادا اور جھونپڑے میں لے آیا۔ عورت اٹھتی ہوئی بولی۔ "اسے گاڑی تک پہنچا دو۔"
"او کے مادام۔۔" عمران دروازے کی طرف مڑتا ہوا بولا۔ قیدی اس کی پشت پر لدا ہوا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد وہ سڑک پر آئے۔ خود عورت ہی نے رہنمائی کی تھی لیکن عمران اس راستے سے نہیں آیا تھا۔ کافی وقت صرف ہوا تھا یہاں تک پہنچنے میں۔ گاڑی ایک چھوٹی سے وین تھی۔ عمران نے عورت سے کہا کہ وہ ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھے وہ پچھلا دروازہ کھول چکا تھا۔ قیدی زمین پر تھا۔ عورت اگلی سیٹ پر جا بیٹھی۔ عمران نے جلدی سے اس کے ہاتھ پیر کھول دیئے اور اس طرح دروازہ بند کیا کہ آواز پیدا ہو۔!
قیدی آزاد ہو چکا تھا۔ اب عمران تیزی سے جھپٹا اور ڈرائیور کی سیٹ کے برابر والا دوسرا دروازہ کھول کر عورت کے پاس بیٹھ گیا۔
"کیا مطلب۔۔" عورت نے چونک کر کہا۔
"چلو۔۔"
"تم!" اس نے حیرت سے کہا۔ "مجھ سے یہ نہیں کہا گیا۔"
"دیکھو ہنی۔۔ عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ "یہ جو چیز تمہاری کمر میں چبھ رہی ہے پینتالیس کیکیر کے ریوالور کی نال ہے۔ لہٰذا جدھر کہوں چپ چاپ چلی چلو۔ ورنہ۔۔۔ یہ خالی بھی نہیں ہے۔!"
 

شمشاد

لائبریرین
پھر اس نے سکس تھرٹی ایٹ کو آواز دے کر کہا۔ " اس لاش کو اٹھا لاؤ ساتھ لے جاؤں گا۔!"
"تت۔۔ تم۔۔ کون ہو۔۔" عورت ہکلائی۔
ریوالور کی نال بدستور عورت کی کمر سے لگی ہوئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وین کے پچھلے دروازے کے کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز آئی۔
"گڈ۔۔!" عمران بلند آواز میں بولا۔ "اب اپنا نام بھی بتاتے جاؤ۔"
"راجن چودھری۔۔" باہر سے آواز آئی۔
"گٹ گوئینگ۔۔۔ بے بی۔" عمران نے ریوالور کی نال سے دباؤ ڈال کر کہا۔
"انجن اسٹارٹ ہوا۔۔ اور وین چل پڑی۔
عمران اسے مختلف سڑکوں پر گاڑی موڑنے کی ہدایت دیتا ہوا سیدھا دانش منزل لایا اور اسی طرح کمر سے ریوالور لگائے ہوئے نیچے اترنے کا حکم دیا۔
کچھ دیر بعد وہ ساؤنڈ پروف کمرے میں پہنچ چکی تھی۔۔ لیکن اس کے چہرے پر ذرہ برابر بھی خوف نہیں ظاہر ہو رہا تھا۔
"بیٹھ جاؤ۔۔" عمران نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور وہ بڑے پروقار انداز میں چلتی ہوئی صوفے کی طرف بڑھی۔
عمران سوچ رہا تھا کہیں بساط کا یہ مہرہ بھی فضول ہی نہ ثابت ہو۔!
"اب بتاؤ۔۔؟" عمران نے کہا۔
"کیا بتاؤ۔" وہ غصیلے انداز میں غرائی۔
"تم کس کے لیے کام کر رہی ہو۔۔"
"تمہیں کس نے بھیجا تھا۔۔"
"تمہارا دماغ صحیح ہے یا نہیں۔۔" اس نے آنکھیں نکال کر کہا۔ کسی نے بھیجا ہے یا تم زبردستی پکڑ لائے ہو۔ میں ایک سنسان سڑک سے گزر رہی تھی تم نے ہاتھ اٹھا کر گاڑی رکوائی۔ پھر قریب آئے اور ریوالور نکال لیا۔ تمہارے ساتھ تین آدمی اور بھی تھے انہوں نے ایک لاش اٹھا رکھی تھی۔ لاش انہوں نے میری وین میں رکھ دی اور تم ریوالور کے زور سے میرے قریب بیٹھ گئے اور ڈرائیو کرنے پر مجبور کرتے ہوئے یہاں تک لائے۔ پتہ نہیں تم کیا چاہتے ہو!"
عمران نے ٹھنڈی سانس لی اور احمقانہ انداز میں منہ چلانے لگا۔ سفید گھنی داڑھی تو کبھی کی چہرے سے الگ ہو چکی تھی۔ اور وہ اب اپنی اصلی صورت میں اس کے سامنے موجود تھا۔
"میں کہتی ہوں مجھے جانے دو۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔؟" وہ دانت پیس کر بولی۔
"یہ وین کس کی ہے؟" عمران نے پوچھا۔
"میری ہے۔۔ اور کس کی ہوتی۔۔"
"کیا کام کرتی ہو۔۔"
"بکواس بند کرو۔ بالکل اجڈ معلوم ہوتے ہو۔۔ معزز خواتین سے گفتگو کرنے کا سلیقہ نہیں ہے تمہیں۔"
"کوئی معزز خاتون ہی یہ کمی بھی پوری کرا دے گی۔" عمران نے مسکرا کر کہا۔ "پھر بھی اپنے سوال کا جواب ضرور چاہوں گا۔"
"کیا میں کوئی گری پڑی عورت ہوں کہ کام کاج کرتی پھروں۔"
"یہ بات بھی معقول ہے۔" عمران سر ہلا کر بولا۔
"میں پھر کہتی ہوں مجھے جانے دو۔۔۔"
"معزز خواتین کی بے حد عزت کرتا ہوں اس لئے کافی اعزاز و اکرام کے ساتھ واپس کروں گا۔ مطمئن رہو۔۔۔ یہ بتؤ کہ ان لوگوں کے چکر میں کیسے پھنسی تھیں۔۔"
"کن لوگوں کے ؟"
"جن کا حکم سن کر تم کو یہ بھلا دینا پڑتا ہے کہ تم ایک معزز خاتون ہو!"
"تم یقیناً نشے میں ہو!"
"معزز خواتین کو دیکھ کر بغیر پئے بھی اکثر بہک جاتا ہوں۔۔ تم اس کی پروا نہ کرو۔۔"
"شاید تمہاری شامت ہی آ گئی ہے۔۔ کیا تم نے کبھی سمیہ رضی الدین کا نام سنا ہے۔"
"غالباً۔۔ وہ جو بہت مشہور سوشل ورکر ہیں۔۔ خان بہادر رضی الدین کی بیگم صاحبہ!"
"میں سمیعہ رضی الدین ہوں!"
"گڈ۔۔ تب تو مشکل آسان ہو گئی۔۔ میں رضی صاحب کو فون کر کے یہیں بلائے لیتا ہوں۔"
"کک۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو۔"
"میں اپنا اطمینان کر لینا چاہتا ہوں محترمہ۔۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ " پچھلے دنوں ایک صاحبہ نے خود کو پرائم منسٹر کی بیوی ظاہر کر کے مجھ سے ساڑھے بارہ آنے اینٹھ لئے تھے۔۔!"
"مم۔۔ میں۔ تمہیں یقین دلاتی ہوں۔"
"اگر وہ خود آ کر تصدیق کر دیں تو کیا برائی ہے۔۔ میرے خیال سے سوشل ورکر ہونے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ بارہ بجے رات کے بعد شہر میں وین لئے پھریں جب کے خان بہادر صاحب کے پاس کئی بڑی شاندار کاریں بھی موجود ہیں۔ شاید وہی آپ سے پوچھ سکیں کہ وین گھسیٹتے پھرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔"

وہ خاموش ہو گئی۔ تیکھئے خد و خال کسی قدر ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ کچھ دیر پہلے کی دیدہ دلیری دم توڑتی نظر آ رہی تھی۔
"آپ یہیں تشریف رکھئے محترمہ۔" عمران دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ میں دوسرے کمرے میں جا کر خان بہادر کو فون کروں گا۔۔ نمبر ڈائرکٹری میں دیکھ لوں گا۔۔!"
"ٹھہرو۔۔" وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔
"جلدی کہیے جو کچھ کہنا ہو۔۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔"
عورت تھوک نگل کر رہ گئی۔
عمران استفہامیہ انداز میں اسے دیکھتا رہا۔
انہوں نے مجھے۔۔ ب ۔۔ بلیک میل کیا تھا۔" وہ کچھ دیر بعد بولی۔
"بہت پرانی کہانی ہے۔" عمران نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی۔
"پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔۔ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو!" عورت جھلا گئی۔
"میں یہ قطعی نہیں جاننا چاہتا کہ تمہیں کس سلسلے میں بلیک میل کیا گیا ہے بلیک میلر کا نام اور پتہ بتاؤ۔۔"
"یہی تو میں نہیں جانتی۔۔"
"اچھا اسی کا نام اور پتہ بتاؤ جس کے سلسلے میں بلیک میل کی جاتی رہی ہو؟"
"کیا مطلب۔۔" اس نے پھر آنکھیں نکالیں۔
"کسی بوڑھے کی جوان بیوی بھلا کس سلسلے میں بلیک میل کی جا سکتی ہے؟" عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا۔
"بدتمیز ہو تم۔۔" عورت اچھل کر کھڑی ہو گئی۔"
عمران کے ہونٹوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ تھی اور وہ اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا۔ آخر کار اس نے کہا۔ "اسی دل گردے کی ہو تو بلیک میل کیوں ہوتی رہی ہو۔۔"
وہ پھر بیٹھ گئی۔ اب اس کی نظریں فرش پر تھیں۔
عمران نے کچھ دیر بعد کہا۔ "ہوسکتا ہے اس بلیک میلنگ میں اسی کا ہاتھ ہو جس کے لئے تم بلیک میل کی جا رہی ہو۔۔!"
"ناممکن ہے!" عورت کی زبان سے غیر ارادی طور پر نکلا۔
"کیا عمر ہو گی تمہاری۔"
"تم سے مطلب۔" عورت بہت زیادہ جھلا گئی۔
"ستائیس سال۔۔" عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔" تیس سال تک خود فریبی۔۔۔۔۔۔۔
(ختم شد صفحہ 205)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top