چھوٹا گناہ

میر انیس

لائبریرین
یہ نہ دیکھو گناہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ نافرمانی کس کی کی ہے (رسول صلٰی اللہ علیہ وَ آلہ وسلم) عربی لغت میں گناہ کو ذنب یا اثم یا معصیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔دین ِاسلام میں قانونِ الٰہی کی مخالفت کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔پس قانونِ الہٰی گویا امرِ الہٰی ہے اور امرِ الہٰی کین مخالفت چاہے کیسی ہی ہو قابلِ مذمت ہے کیونکہ بندے کو حق نہیں کہ اپنے رب کے چھوٹے سے چھوٹے امر کی بھی مخالفت کرے یہ بندہ جب امرِ الٰہی کی مخالفت کرتا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ نعوذباللہ اسکے گناہ سے اللہ کو کوئی بھی نقصان پہنچتا ہو یا اللہ کے مرتبے میں کوئی کمی آتی ہےبلکہ اسکا نقصان اسی بندے کو ہوتا ہےکبھی یہ نقصان قابلِ درک و حس ہوتا ہےکبھی ناقابلِ حس ہوتا ہے۔
دو ایسے باغوں پر غور کریں جو آب و ہوا ،مٹی ،حرارت،درختوں اور پھولوں کے اعتبار سے ایک جیسے ہیںلیکن ایک باغ کا مالی اپنے باغ پر آنے والی آفتوں اور بلائوں پرپوری نظر رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسرے باغ کامالی ان آفتوں اور بلائوں کےمعاملے میں بے خبر ہے یا سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غافل رہتا ہےجس کے نتیجے میں اسکا باغ پژ مردہ، پھول مرجھائے ہوئے اور پھل میں کیڑہ لگا ہوا ہوتا ہے۔انسان کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہےاگر انسان اپنی روح اور اپنے جسم پر آنے والی آفتوں اور بلائوں پر توجہ نہ کرے تو وہ مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے لیکن انسان بظاہر نظرآنے والے جسم اور جسم پر آنے والی آفتوں کے سدِ باب کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں اور سرمایہ صرف کر رہا ہے لیکن روح جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ اس پر آنے والی آفتوں سے غافل ہے اور گناہ کا انجام پاجانا انسانی روح کے لئے سب سے عظیم آفت ہے جسکا اثر بسا اوقات فرد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ اثر پورے معاشرے کو فاسد بنادیتا ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں جس طرح سے انسانی اقدار کو پامال کیا جارہا ہے اسکی نظیر کم ہی ملتی ہے ایک طرف اسراف اور فضول خرچی کا یہ عالم ہے کہ امراء غیر ضروری خواہشات کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں خرچ کردیتے ہیں اور دوسری طرف ایک بڑا طبقہ اپنی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ایک طرف امیر اپنی اولاد کی سالگرہ کی تقریب میں دس قسم کے پکوان پر لاکھوں خرچ کرتا ہے اور دوسری طرف غریب ایک وقت کے طعام کے لیئے اپنی اولاد کو فروخت کرنے پر مجبور ہے۔گویا آج کا پورا معاشرہ ہی فاسد ہوتا جارہا ہے۔آج بظاہر ترقی کا دور ہے بعض فریب دینے والی وقتی چمک دھمک سے مزین اشیاءکی چکاچوند انسانی آنکھ کو خیرہ کردیتی ہیںاور آج انسان دیوانہ وار ان اشیاء کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس سے شیطان بھی خوب فائدہ اٹھاتا ہے وہ بظاہر ایک شے کو آپکی ضرورت بنا کر پیش کرتا ہے پھر اس شے کے ذریعے گناہ اور معصیت کے راستے کھول دیتا ہےاور انسان بآسانی خود بھی اور اپنی اولاد کو بھی گناہ کے دلدل میں ڈبودیتا ہے۔ کبھی information کے نام پر کمپیوٹر کو انسانی ضرورت قرار دیتا ہے پھر internetکے ذریعے نوجوان کے لئے اخلاق سوز ویب سائٹس کی صورت میں تباہی کا سامان بھی فراہم کرتا ہےایک فرد موبائل فون کو زندگی کا جزوِ لاینفک قرار دیتا ہے تو دوسری طرف چھوٹے بچے اور بچیوں اور جوانوں کی گمراہی کا سامان بھی فراہم کرتا ہے اور نتیجتاََ آج کے معاشرے میں 11سال اور 13 سال کے بچے بھی گناہوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں حدیث کے جملے ہیں کہ جب معاشرے میں نئے نیئے گناہ انجام پائیں گے تو اللہ نئی نئی بیماریاں اور عذاب نازل کرے گا پس آج کے دور میں نت نئی بیماریاں،منہگائی کا طوفان،جان،مال،عزت و آبرو کا محفوظ نہ ہونا انہی نت نئے گناہوں کا نتیجہ ہے جو آج کل کے معاشرے میں عذاب کی صورت میں نازل ہورہے ہیں
اے جوانوں ! جب ذلیخا نے مصر کی عورتوں کو حضرت یوسف(ع) کا دیدار کرایا تو سب نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں اور دم بخود رہ گئیں اگر ہم بھی نئی نسل کویوسفِ قران آنحضرت(ص) اور آئمہ کے پیغام کا تعارف کرائیں تو تو وہ بھی دوسروں سے دستبردار ہوجائیں گے۔
نہ سوچئے کہ یہ امیدیں محال ہیں کیا ہم مختلف میدانوں میں نہیں چمکے ؟انشاللہ مکروہ فریب کو سمجھنے اورقران سے تنہائی دور کرنے کے بعد ہم پھر چمکیں گے اور کامیاب ہونگے لیکن دو شرطوں کے ساتھ اللہ اور سے مدد ،اُس کے اولیاء سے توسل،قصدِقربت اور پاک دلی کے ساتھ
 
Top