چھری پھرنے کاانتظار – محمد اقبال قریشی

یوسف سلطان

محفلین
’’اقبال بیٹا !‘‘اَمّی نے کچن سے آواز لگائی’’شام کو تمھارے ماموں اور ممانی نے آنا ہے،جلدی سے ڈربے میں سے ایک مرغی نکال کر چھری پھیر دو۔‘‘
میں اس وقت ٹی وی پر خبریں دیکھ رہا تھا،اَمّی کا حکم سنتے ہی اُٹھا اور صحن کے کونے میں بنے ڈربے کا چھوٹا سا دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔پانچ مرغیاں کونے میں پڑے اناج کے چھوٹے سے ڈھیر پر کُٹ کُٹ چونچیں مار رہی تھیں ، جب کہ ایک مرغی پانی کے برتن کے پاس بیٹھی نیم غنودہ سی تھی۔میں نے ایک پَل میں فیصلہ کیا اور غنودہ مرغی کو پَرو سے پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔سر پر رومال باندھا اور مرغی کی گردن پر تکبیر پڑھ کر چھری پھیر دی۔تھوڑی دیر تک تڑپنے کے بعد مرغی ٹھنڈی ہو گئی تو اُس کی کھال اُتاری ، پیٹ چاک کیا اور اندرونی آلائشیں نکال کر شاپر میں ڈالیں ۔گوشت کے ٹکڑے کرنے کی ذمہ داری اَمّی کی تھی اور وہ اس کام میں کسی کو مداخلت نہ کرنے دیتی تھیں ۔
ہاتھ منہ دھو کر میں دوبارہ ٹی وی کے سامنے آبیٹھا۔یہ ہمارا بچپن سے معمول تھا،اَمّی گھر پر ہی ماہانہ راشن کے ساتھ مرغیاں لے آتیں ، مہمانوں کے لیے خاص طور پر یہی مرغیاں پکائی جاتیں ۔جب میں مرغی کی گردن پر چھری پھیر رہا تھا تو باقی مرغیوں نے ایک اَدھورے پل کے لیے اپنی نگاہیں میری جانب پھیریں اور ایک بار پھر اناج کی ڈھیری پر کُٹ کُٹ چونچیں مارنے لگیں۔ کسی نے بھی اپنی ساتھی کی یوں میرے ہاتھوں ہلاکت پر دھیان نہ دیا۔ایک لمحہ کے لیے میرے دل ودماغ میں یہ بات جاگزیں ہوئی کہ اگروہ پانچ مرغیاں مجھ پر پل پڑتیں یا کم از کم ڈربے سے باہر ہی دوڑ لگا دیتیں تو شاید اُن کی ساتھی مرغی کی جان بچ تونہ سکتی البتہ اُسے تھوڑی سی مزید مہلت تو مل ہی جاتی ۔ لیکن نادان مرغیاں اِتنی سمجھ بوجھ رکھتیں تو باری باری ذبح ہونے کے بجائے آزادی نہ پا لیتیں ؟
ابھی میرا ذہن اِنہی سوچوں میں گم تھا کہ نیوز چینل پر حلب اور شام کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مبنی خبریں نشر ہونے لگیں ۔ میں نے ایک ادھورے پل کے لیے ٹی وی اسکرین پر نگاہ ڈالی اور پھر سامنے میز پر پڑے شیشے کے پیالےمیں سے بھنی ہوئی مونگ پھلی چُن چُن کر کھانے لگا۔باہر سے اب بھی مرغیوں کی دبی دبی کُٹ کُٹ ابھرتی سنائی دے رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مرغیوں کی کُٹ کُٹ باورچی خانے سے اُبھرنے والی تیز دھار ٹوکے کی آواز میں دَب کر رہ گئی ،مرغی کا گوشت کَٹ رہا تھا۔
اگلے ہی لمحے مجھے یوں لگا جیسے ٹوکے کی دھار مرغی کے وجود کو نہیں بلکہ میرے دل کو کاٹتی ہوئی گزر رہی ہے ۔ مونگ پھلی میرے حلق میں اَٹک سی گئی اور میں نے باہر کی جانب دوڑ لگا دی،صحن میں آتے ہی چند گہری گہری سانسیں لیں تو طبیعت کچھ بحال ہوئی ، اِس دوران قطعی غیر ارادی طور پر سر اٹھایا تو نیلے آسمان کی وسعتوں پر میری نگاہ بے اختیار ٹِک سی گئی جہاں ایک باز اپنے پر پھیلائے دائرے کی صورت میں محو پرواز تھا۔
اپنے اپنے گلے پر چھری پھیرے جانے کی منتظر،ڈربے میں بند مرغیاں اب بھی اناج کے ڈھیر پر چونچیں مار رہی تھیں ۔ مجھے یقین تھا کہ ان کا انتظار زیادہ طویل ثابت نہ ہوگا۔
کیا آپ کو بھی یقین ہے ؟؟؟
..
اقبال قریشی
 
چونکہ ان کو صرف دانہ چگنے سے غرض ہے اسی لئے تو وہ معصوم مرغیاں ہیں، اور جسے بلند پروازی سے شکار کا شوق ہے وہ شہباز ہے۔
 
چونکہ ان کو صرف دانہ چگنے سے غرض ہے اسی لئے تو وہ معصوم مرغیاں ہیں، اور جسے بلند پروازی سے شکار کا شوق ہے وہ شہباز ہے۔
اپنا شہباز بھی تو ہے اسکا نام بھی لیں۔۔۔اور یہ واقعہ کس تناظر میں ہے آپ سمجھ نہیں پائے یا شاید میرے سمجھنے میں تھوڑا فرق ہے ۔۔۔
 
اپنا شہباز بھی تو ہے اسکا نام بھی لیں۔۔۔اور یہ واقعہ کس تناظر میں ہے آپ سمجھ نہیں پائے یا شاید میرے سمجھنے میں تھوڑا فرق ہے ۔۔۔
آپ نجانے کس شہباز کی بات کر رہے ہیں۔ میری مراد قدرتی نظام میں مرغی اور شہباز کے کردار سے تھی۔ اس کہانی میں موجود انسانوں کے لئے جو سبق ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسانوں کو کس نے مجبور کیا ہے کہ وہ مرغی کی طرح ڈربے میں گھس کر دانہ چگتا رہے۔ اور کس نے روکا ہے کہ وہ باز یا شہباز کی طرح باہر نکل کر جدوجہد کا راستہ اختیار نہ کرے؟
 
آپ نجانے کس شہباز کی بات کر رہے ہیں۔ میری مراد قدرتی نظام میں مرغی اور شہباز کے کردار سے تھی۔ اس کہانی میں موجود انسانوں کے لئے جو سبق ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسانوں کو کس نے مجبور کیا ہے کہ وہ مرغی کی طرح ڈربے میں گھس کر دانہ چگتا رہے۔ اور کس نے روکا ہے کہ وہ باز یا شہباز کی طرح باہر نکل کر جدوجہد کا راستہ اختیار نہ کرے؟
زبردست یہی تو میں نے بھی اخذ کیا تھا۔۔۔لیکن ایک بات ہے (زاغ با زاغ باز با باز) خوش رہیں سلامت رہیں ۔۔کاش شام و حلب کے مسلمان بھی یہ بات سمجھ لیں ۔۔
 
Top