مصحفی چھریاں چلیں شب دل و جگر پر ۔ غلام ہمدانی مصحفی

فرخ منظور

لائبریرین
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
لعنت ہے اس آہِ بے اثر پر

بالوں نے ترے بلا دکھا دی
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر

نامے کو مرے چھپا رکھے گا
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر

پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو ہیں امید یک نظر پر

کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب
زردی سی ہے کیوں رخِ قمر پر

پھر غیرتِ عشق نے بٹھائے
درباں شدید اس کے در پر

رہتی ہیں بہ وقت گریہ اکثر
دو انگلیاں اپنی چشمِ تر پر

ہے عشق سخن کا مصحفیؔ کو
مائل نہیں اتنا سیم و زر پر

(غلام ہمدانی مصحفیؔ)
 
Top