چائے میں مکھی

عائشہ عزیز

لائبریرین
آج کیفے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک فرینڈ کی چائے میں مکھی گر گئی اور دوسری فرینڈ نے کاغذ سے مکھی کو اچھی طرح چائے میں ڈبکیاں دیں اور کہا کہ مکھی کے ایک پر میں شفا ہوتی ہے اس لیے اسے پورا ڈبو کر نکال دیا جائے تو چائے میں جراثیم نہیں جاتے۔ اور یہ کہ یہ ایک حدیث میں لکھا ہے۔
ایسی باتیں میں نے بھی سن چکی ہوں بچپن میں۔۔ تو مجھے پوچھنا تھا کہ کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے، کوئی حدیث ہے اس بارے میں؟ اگر ہے تو پلیز یہاں بتا دیں۔
ویسے وہ چائے کا کپ اس کے باوجود بھی نہیں پیا گیا بلکہ ضائع کر دیا تھا۔:p
 

نظام الدین

محفلین
پڑھا تو ہم نے بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن کنفرم نہیں ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے یا ضعیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی عالم سے پوچھنا چاہئے
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ
اسی بات کو لے کر میں کافی چھان بین کی لیکن ابھی تک کوئی کرن نظر نہیں آئی جاری رکھتا ہوں ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔
ویسے عقل سے سوچنے والی بات ہے کہ مکھی گندگی میں زیادہ بیھٹتی ہے اس کے پاؤں اور جسم میں سینکڑوں جراثیم اور بیکٹیریا لگے ہونگے
ہاسپتال کے باہر و ارد گرد کچرا بہت ہوتا ہے بلڈ والے سرنچ اور ٹیوب وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو مکھی تو وہاں کا چکر کاٹتی ہوگی اور جراثیم
کو ادھر ادھر کرتی ہوگی پھر چائے میں گر جائے تو تو سینکڑوں جراثیم ہمارے پیٹ میں اگر ہم پی لیں،، اسی طرح گندے ہاتھوں سے کھانا پکڑنا
جیسے آج کل کرونا وائرس عام ہے، سوائن فلو، اور مختلف جینیٹیکل بائیولیو جیکل بیماری ۔۔۔ سمجھ نہیں آتا اگر حدیث قوی اور صحیح نہیں اور عقل
کے دائرے سے باہر ہونے پر اس کو پھینگ دینا چاہیے۔
 
تو مجھے پوچھنا تھا کہ کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے، کوئی حدیث ہے اس بارے میں؟ اگر ہے تو پلیز یہاں بتا دیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ اگر کھانے میں مکھی گر پڑے تو اس کو کھانے میں غوطہ دے کر مکھی کو پھینک دیں پھر اس کھانے کو کھائیں کیونکہ مکھیکے دو پروں میں سے ایک میں بیماری اور دوسرے میں اس کی شفا ہے اور مکھی اس پر کو کھانے میں پہلے ڈالتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے اس لئے غوطہ دے کر دوسرا شفاء والا پر بھی کھانے میں پہنچادیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصید والذبائح، باب مایحل اکلہ وما یحرم، الفصل الثانی، رقم ۴۱۴۳۔۴۱۴۴،ج۲،ص۴۳۸)
 

x boy

محفلین
قرآن میں تو ہم پڑھا ہے کہ جسکا مفہوم ہے کہ اگر مکھی ہم سے کوئی چیز لے لے تو ہم اس کو واپس نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔۔
 

تجمل حسین

محفلین
تو مجھے پوچھنا تھا کہ کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے، کوئی حدیث ہے اس بارے میں؟ اگر ہے تو پلیز یہاں بتا دیں۔

oszm1d.jpg
صحیح بخاری۔ باب : جب کسی کے پانی (یا کھانے) میں مکھی گر جائے تو اس کو ڈبو دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء۔
حدیث نمبر : 1398
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب تم میں سے کسی کے پینے کی چیز میں مکھی گر جائے تو اس کو ڈبو دے پھر نکال ڈالے اس لیے کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء۔"

-------------------------------------------------------------------------------------------
پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی حفظہ اللہ

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ((اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ فان فی احدجناحیہ داء والآخر شفائ)) (رواہ بخاری)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پینے والی چیز میں مکھی گر جائے تو اسے ڈبو دے۔ اس لئے کہ اس کے دونوں پروں میں سے ایک میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا ہے۔‘‘ (امام بخاری نے اس حدیث کو روایت کیا ہے)

اسلام نظافت اور پاکیزگی کا دین ہے۔ رہنے سہنے، کھانے پینے حتیٰ کہ لباس و بودوباش کے سلسلے میں بھی صفائی اور ستھرائی کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی کہ اگر تمہارے کسی مشروب میں کبھی مکھی گر جائے تو اسے مشروب پر تیرتے رہنے کے بجائے مکمل ڈبو دیں، اس لئے کہ اس کے ایک پر میں بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں تو دوسرے میں اس بیماری کا تریاق ہوتا ہے۔ جو بیماری اس کے پر کے مشروب میں گرنے سے لاحق ہو سکتی ہے اس کے دوسرے پر میں اللہ نے اس کا علاج یعنی شفا رکھی ہے۔ لہٰذا اس کا دوسرا پر بھی مشروب میں ڈبو کر مکھی کو باہر نکال دیں اس طرح وہ مشروب بیماری کے اثرات سے پاک ہو جائے گا۔ کسی مشروب کو ناپاک کرنے والی چیز کسی جاندار کا خون ہوتا ہے جن جاندار چیزوں میں خون نہیں یعنی ان کی رگوں میں خون حرکت نہیں کرتا اگر وہ کھانے پینے کی چیزوں میں گر جائیں تو اس سے وہ چیز ناپاک اور نجس نہیں ہوتی جیسے شہد کی مکھی، بھڑ، مکڑی، چیونٹی یا مکھی وغیرہ۔ یہ ضروری نہیں کہ مکھی کو ڈبو کر اس مشروب کو پی لیا جائے لیکن اگر کوئی پی لے تو گناہ نہیں کہ مکھی کے گرنے اور اسے ڈبو دینے سے وہ مشروب پاک ہے اور بیماری کے اثر سے محفوظ ہو گیا ہے۔ یعنی جس مشروب میں مکھی گری ہو وہ ناپاک نہیں ہوتا، یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے اگر کوئی مکھی کو ڈبو کر اسے پی لیتا ہے تو وہ مکھی کے بیماری پھیلانے والے اثر سے محفوظ ہو جائے گا اور اگر کوئی کراہت کی وجہ سے نہیں پیتا تو گنہگار نہیں۔ تھوڑا مشروب یعنی ایک کپ چائے یا گلاس شربت اگر استعمال نہ بھی کیا جائے تو کوئی نقصان نہیں لیکن اگر چائے کی دیگ یا شربت کا ڈرم ہو اور اس میں مکھی گر جائے تو اسے ڈبو کر نکال دیا جائے تا کہ وہ بیماری کے اثرات سے پاک ہو جائے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں۔ (بشکریہ۔ http://www.ahlehadith.org/مشروب-میں-مکھی-گر-جائے-تو؟/)
 

arifkarim

معطل
ایسی باتیں میں نے بھی سن چکی ہوں بچپن میں۔۔ تو مجھے پوچھنا تھا کہ کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے
یہ سب جہالت ہے جو ہمارے نام نہاد علماء کرام نے اسلام کے نام پر پھیلا رکھی ہے۔ مکھی جراثیم پروں سے نہیں بلکہ اپنے پاؤں یا پیروں سے پھیلاتی ہے:
fly3.jpg

مزید تفصیل کیلئے کیلئے یہ دو روابط دیکھیں:
http://www.pitara.com/science-for-kids/5ws-and-h/how-do-houseflies-spread-diseases/
http://www.orkin.com/flies/house-fly/house-fly-and-disease/

پڑھا تو ہم نے بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن کنفرم نہیں ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے یا ضعیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی عالم سے پوچھنا چاہئے
حدیث کا سائنس سے کیا تعلق؟

حدیث شریف میں ہے کہ اگر کھانے میں مکھی گر پڑے تو اس کو کھانے میں غوطہ دے کر مکھی کو پھینک دیں پھر اس کھانے کو کھائیں کیونکہ مکھیکے دو پروں میں سے ایک میں بیماری اور دوسرے میں اس کی شفا ہے اور مکھی اس پر کو کھانے میں پہلے ڈالتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے اس لئے غوطہ دے کر دوسرا شفاء والا پر بھی کھانے میں پہنچادیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصید والذبائح، باب مایحل اکلہ وما یحرم، الفصل الثانی، رقم ۴۱۴۳۔۴۱۴۴،ج۲،ص۴۳۸)
یعنی اچھی طرح جراثیم اور گندگی سے بھرپور کھانا کھالیں؟ ماشاءاللہ۔

قرآن میں تو ہم پڑھا ہے کہ جسکا مفہوم ہے کہ اگر مکھی ہم سے کوئی چیز لے لے تو ہم اس کو واپس نہیں حاصل کرسکتے۔۔۔۔
سبحان اللہ۔

یہ ضروری نہیں کہ مکھی کو ڈبو کر اس مشروب کو پی لیا جائے لیکن اگر کوئی پی لے تو گناہ نہیں کہ مکھی کے گرنے اور اسے ڈبو دینے سے وہ مشروب پاک ہے اور بیماری کے اثر سے محفوظ ہو گیا ہے۔
یہی وہ جہالت ہے جو ہمیں لے ڈوبی ہے :(
 

x boy

محفلین
تجمل حسین جناب،،،، نجاست اگر مکھی کے سر کے برابر بھی ہوتو اس سے پاکی حاصل کرنا چاہیے یہ میں نے کہیں پڑھا تھا
اگر تفصیل مل جاتی تو میرے علم میں اضافہ ہوتا ؟
 

ثاقب عبید

محفلین
ٹھیک ہے۔ جس کو کراہت نہ ہو اور وہ مشروب کو ضائع نہ کرنا چاہتا ہو وہ اس طرح کرلے جس طرح حدیث میں بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ عبدالرحمن لدھیانوی نے کہا کہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے۔ جس کے مشروب میں مکھی گری ہے وہ خود فیصلہ کرلے کیا کرنا ہے، نہ کہ کوئی دوسرا دوست آکر گری مکھی کو خوب ڈبوکر نکالے اور کہے کہ اب پیئو بابا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے پر زبردستی نہ کریں۔ بیماری اور شفاء تو بہرحال خدا کے ہاتھ میں ہے۔
 

ثاقب عبید

محفلین
تو مجھے پوچھنا تھا کہ کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے، کوئی حدیث ہے اس بارے میں؟

اگر آپ ’’کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے‘‘ کا سوال سائنس سے پوچھیں گی تو الگ جواب ملے گا۔ اس بارے میں جو حدیث آئی ہے اس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے، حدیث صحیح ہے۔ آپ جو مناسب سمجھیں کریں۔
 

arifkarim

معطل
تجمل حسین جناب،،،، نجاست اگر مکھی کے سر کے برابر بھی ہوتو اس سے پاکی حاصل کرنا چاہیے یہ میں نے کہیں پڑھا تھا
اگر تفصیل مل جاتی تو میرے علم میں اضافہ ہوتا ؟
مکمل صفائی کے حصول کیلئے کہیں پڑھنا ضروری نہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ تمام انسان فطرتاً صفائی پسند ہوتے ہیں اور جو نہیں ہوتے انہیں علاج کی ضرورت ہے :)

اگر آپ ’’کیا واقعی میں ایسا ہوتا ہے‘‘ کا سوال سائنس سے پوچھیں گی تو الگ جواب ملے گا۔ اس بارے میں جو حدیث آئی ہے اس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے، حدیث صحیح ہے۔ آپ جو مناسب سمجھیں کریں۔
حدیث تو وہ اونٹ کے پیشاب کی "افادیت" سے متعلق بھی صحیح ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سائنسی بنیادوں پر ایسی کوئی بات نہیں۔
 
بهائی آج کل جو ولایت میں مل جائے وہ علم وفن اور جو آسانی سے ہمارے بزرگوں سے ملے وہ جہالت ....
جو صاحب اس کو جہالت فرمارہے ہیں امید کی جاتی ہے کہ حشرات طبیہ کے ماہر ہوں ورنہ جہل مرکب کا شکار کہلائیں گے کیوں کہ اگر آپ کسی مجال کی متخصص نہیں تو اتنا صاف حکم لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے نیچے مصر egypt کی مشہور زمانہ یونیورسٹی القاہرة کے ڈاکٹر مصطفی ابراہیم حس کی تحقیق کی لنک دے رہا ہوں جنہوں نے اس حدیث میں اعجاز طبی سائنسی پیمانے پر ثابت کیا ہے یاد رہے یہ ڈاکٹر ماہر امراض حشرات طبیہ ہیں اور اس کے مدیر بهی ہیں صرف گوگل سے پوچھ کر علم جهاڑنے والوں میں سے نہیں
http://www.eajaz.org/pdf/12.pdf
.....
 

ثاقب عبید

محفلین
حدیث تو وہ اونٹ کے پیشاب کی "افادیت" سے متعلق بھی صحیح ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سائنسی بنیادوں پر ایسی کوئی بات نہیں۔

ہاں صحیح ہے۔ جن لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا کہا تھا وہ شاید Edema کا شکار ہوگئے تھے۔ اب جبکہ اس سے بہتر علاج موجود ہے تو اسی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ مجھے اس بات سے غرض نہیں کہ یہ علاج سائنس سے ثابت ہے یا نہیں۔ ان لوگوں نے اس پر عمل کیا اور اللہ کے فضل سے صحت یاب ہوگئے، بات ختم ہوگئی۔
 

arifkarim

معطل
بهائی آج کل جو ولایت میں مل جائے وہ علم وفن اور جو آسانی سے ہمارے بزرگوں سے ملے وہ جہالت ....
آپ یہاں غلط مطلب لے رہے ہیں۔ ہند و پاک میں یویانی طب صدیوں سے رائج ہے اور لوگ حکیموں سے دوا لیکر صحتیاب بھی ہو جاتے ہیں جو کہ اس خطے میں شفاء کا ایک مستند طریقہ بن چکا ہے۔ میری تنقید ان جاہل علماء کی طرف تھی جو احادیث نبوی کو بطور "طبی علم" یا دیگر "سائنسی محرکات" کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/طب_یونانی

جو صاحب اس کو جہالت فرمارہے ہیں امید کی جاتی ہے کہ حشرات طبیہ کے ماہر ہوں ورنہ جہل مرکب کا شکار کہلائیں گے
یہاں مسئلہ مذہب اور سائنس کو آپس میں ملانے سے پیدا ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔ آپ ان دونوں کو الگ کر دیں، قریباً تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ جہالت کا مطلب لکیر کی فقیری ہے۔ اگر سائنسی بنیادوں پر مکھی کے ایک پر میں شفا اور ایک میں بیماری ثابت ہو جائے تو ضرور ربط دیجئے گا۔
 
دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت بهائی!
ربط میں نے آپ کو دیا جس میں ڈاکٹر صاحب کا پورا مقالہ موجود ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے اور دین کی کوئی بات سائنس سے متضاد نہیں ہے پر شرط یہ ہے کہ آپ منصف ہوں اور دونوں پر گہری نظر رکھتے ہوں اور دین ان احادیث آحاد کا نام نہیں جو درجہ صحت پر پہونچنے کے بعد بهی خود محدثین کے نزدیک علم مظنون کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ قرآن ہمارے پاس ہے احادیث متواتره کا ذخیرہ موجود ہے جو کبھی علم کہ یا عقل کے خلاف نہیں جاتا....
 
بہت سے لوگ سماجی رابطے کی سائٹس پر عام لوگوں سے الگ موقف اس لئے اپناتے ہیں کہ انھیں علیحدہ سے توجہ حاصل ہو سکے - یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے - بعض لوگ اسی عارضے کے تحت کبھی کسی تسلیم شدہ حقیقت کا انکار کرنے لگتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں بھی انھیں فوراََ توجہ مل جاتی ہے لوگ اختلاف ہی سہی مگر انکی بات پر بات ضرور کرتے ہیں - بعض لوگ اسی سستی شہرت کے حصول کیلئے بعض اوقات محترم اور ہردل عزیز شخصیات میں مین میخ نکالنے لگتے ہیں - اسی سستی شہرت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بلا وجہ نامور لوگوں سے بغض پال لیا جائے - ایسے میں کسی اور کی شہرت سے منسلک ہو کر اپنی شہرت کا سامان پیدا کیا جاتا ہے .
خیر یہ نفسیات کی ایک طویل بحث ہے پھر کبھی اس پر تفصیلاً بات کریں گے
 

arifkarim

معطل
دین کی کوئی بات سائنس سے متضاد نہیں ہے
یہ ایک بالکل الگ اور وسیع بحث ہے۔ یہاں بات مکھی کے پروں کی ہو رہی تھی کہ آیا انکے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہے یا نہیں۔ اوپر حدیث پوسٹ کی جا چکی ہے۔ جسکو اس پر عمل کرنا ہے کرے۔ جسکو سائنس پر چلنا ہے وہ اپنا راستہ الگ کر لے۔ ان دونوں کو ملانے سے ہی تمام مسائل جنم لیتے ہیں۔ کونسی ایسی حدیث یا قرآنی آیت ہے جو یہ کہتی ہو کہ سائنس اور دین ایک ہے؟ :)
 

arifkarim

معطل
تسلیم شدہ حقیقت کا انکار کرنے لگتے ہیں
سائنس اور دین ایک ہے، یہ تسلیم شدہ حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی طور پر ایسا کرنے کو کہیں کہا کیا گیا ہے یا ترغیب دی گئی ہے۔ مغربی سائنس کے قیام سے قبل بھی دین اسلام کا اپنا ایک وجود تھا۔ جو کہ قائم رہنا چاہئے۔ بلاوجہ مغربی سائنس کو دین اسلام کیساتھ ملا کر اسکا وقار کم نہ کریں۔
 
قرآن مجید میں دسوں آیات ہیں جو کائنات میں غوروفکر پر دلالت کرتی ہیں بلکہ باربار کہا گیا کہ أفلا يتفكرون ..إن في ذلك آبات ﻷولى الألباب ..آپ مراجعہ کریں اک ضخیم عدد ہے. عقل جبار غزالی کی کتابیں دیکھیے فرماتے ہیں کہ قرآن نور عقل نور .کبهی متضاد سمتوں میں نہیں چلتے بشرط کہ آپ دونوں کو موقع دے اور صبر کے ساتھ پڑھیں
 
Top