جوش پیغمبرِ فطرت - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
تاروں نے جھلملا کے جو چھیڑا ستارِ صبح
گانے لگی چمن میں نسیمِ بہارِ صبح
غنچوں کی چشمِ ناز سے ٹپکا خمارِ صبح
ابھرا افق سے جامِ زمرّد نگارِ صبح
شاعر کی روح، عشق کی ہمراز ہو گئی
دنیا تمام جلوہ گہہِ ناز ہو گئی
شمعیں ہوئیں خموش، چہکنے لگے طیور
الٹی نقاب چرخ نے، جھلکا زمیں پہ طُور
سینوں میں اہلِ دل کے ہوئے قلب چُور چُور
آنکھوں سے رُخ پہ دوڑ گیا آنسوؤں کا نور
دریا بہے، چٹک گئیں کلیاں گلاب کی
پھوٹی کچھ اِس ادا سے کرن آفتاب کی
سبزے پہ لہر آئی، جنوں خیز ہو گیا
جھونکا ہر اک نسیم کا گل ریز ہو گیا
شب کا سکوت لحنِ دل آویز ہو گیا
رنگِ حیات ولولہ انگیز ہو گیا
تنویر خندہ زن ہوئی تاریک رات پر
حسنِ ازل کی چھوٹ پڑی کائنات پر
بادِ سحر کے جام پہ قرباں ہزار جَم
دامن تمام شبنمِ تازہ سے جس کا نم
جھونکے نہیں یہ چرخ سے ہے بارشِ کرم
ہر سانس غسل دیتی ہے سینے کو دم بدم
تھی روح میں جو شب کی کثافت، وہ دھل گئی
گہری جو سانس لی، تو گرہ دل کی کھل گئی
وارفتگی کی سینۂ مشرق میں ہے امنگ
ہر چیز میں حیات کی پیدا ہے اک ترنگ
گردوں کی آب و تاب سے ہوتی ہے عقل دنگ
ہلکا سا ابر، ابر میں یہ چمپئی سا رنگ
جامِ زمردیں میں ہیں موجیں شراب کی
شبنم میں چبھ رہی ہے کرن آفتاب کی
دولہا بنے ہوئے ہیں شگوفوں سے بوستاں
کندن بنی ہوئی ہیں پہاڑوں کی چوٹیاں
تاروں کا بزمِ چرخ پہ باقی نہیں نشاں
آنکھیں ہیں بند، ساکت و صامت ہے آسماں
ہاتھوں پہ آفتابِ درخشاں لیے ہوئے
حسنِ ازل کا دل میں تصور کیے ہوئے
رقصاں ہے بحر، انجمنِ آفتاب میں
جس طرح روحِ سُکر ہو موجِ شراب میں
لہریں ہیں یا ہے زلفِ دوتا پیچ و تاب میں
غلطاں ہے روح، بادِ صبا کی حباب میں
موجیں رواں ہوئی ہیں کچھ اس سوز و ساز سے
جس طرح کوئی چونک پڑے خوابِ ناز سے
شمعیں بجھاتی آئی ہے ٹھنڈی ہوا کی رَو
پروانے سرنگوں ہیں دھواں دے رہی ہے لَو
یہ وادیوں میں پھیل رہی ہے سحر کی ضَو
یا آ رہی ہے سر کو جھکائے عروسِ نَو
آنکھوں میں دل فریب تبسم لیے ہوئے
کاکُل ہے چشمِ سرخ پہ سایہ کیے ہوئے
اے جوش! دیکھ غور سے، یہ رقصِ رنگ و بو
تھی کب سے تجھ کو پرتوِ جاناں کی آرزو
ہاں دیکھ! یہ تبسمِ گل، نازِ آب جو
کُوکُو کی یہ صدائے دل افروز کُو بکُو
آنکھیں اٹھا، علاجِ دلِ دردمند کر
پیہم صدائیں صلِ علیٰ کی بلند کر
یہ صحنِ گلستاں میں ہری دُوب کی ادا
یہ وادیوں کی اوس میں ڈوبی ہوئی ہوا
یہ کوئلوں کی کوک، پپیہے کی یہ صدا
رخسارِ گل پہ رنگ، یہ ہلکا سا دھوپ کا
رنگینیاں یہ سلسلۂ کوہسار کی
یہ تنگ گھاٹیوں میں صدا آبشار کی
یہ آب و تابِ چادرِ آبِ رواں، یہ نور
نزہت کا یہ ہجوم، لطافت کا یہ وفور
یہ دامنِ نسیم میں، سرمایۂ سرور
بکھرے ہوئے زمین پہ موتی یہ دور دور
یہ جھلکیاں سی پردۂ عظمت میں نور کی
یہ معرفت میں غرق، صدائیں طیور کی
کچھ کہہ کے نجمِ صبح سے یہ الوداعِ ماہ
یہ کنج کی نسیمِ خنک، یہ ہری گیاہ
یہ نہر کی تڑپ کہ ٹھہرتی نہیں نگاہ
یہ پنکھڑی کا ناز، کہ اللہ کی پناہ
صحنِ زمیں پہ شب کی سیاہی لیے ہوئے
یہ آسمان، افسرِ شاہی لیے ہوئے
کندن سے یہ کلس، یہ دل آویز کوہسار
یہ دل کشا چمن، یہ فرح بخش لالہ زار
شاخوں کا دلبری سے لچکنا یہ بار بار
یہ مہر کا جمال، نہ پنہاں، نہ آشکار
یہ آسمان، جلوہ گری پر تُلا ہوا
یہ حسنِ لازوال کا پرچم کھلا ہوا
اے شیخ! تو نہیں ہے حقائق سے بہرہ یاب
فطرت پرست جوش پر اور اِس قدر عتاب
فطرت بھی تیری طرح سے ہے صاحبِ کتاب
اِس دین کا صحیفۂ زریں ہے آفتاب
خاشاک کہہ رہا ہے جسے تو، وہ پھول ہے
ناداں! صباحِ غنچہ کشا بھی رسول ہے!
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۶ء
 
Top