مریم افتخار
محفلین
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل یہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
کوئی تو ہو کہ مِرا ضبط نہ للکارے جو
دلِ مضطر کو کسی طور بجھاتا جائے
وہ کہ معصوم نرالا ہے ادا میں اپنی
بچپنا مجھ کو وہ یوں یاد دلاتا جائے
اے خُدا مجھ کو سدا سایہ دلانا اپنا
اِس جہاں میں مجھے ہر شخص رُلاتا جائے
ہجر بھی جھیل سکوں گی جو تُو جاتے جاتے
اس نکمی کو خُدا سے بھی مِلاتا جائے
دل یہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
کوئی تو ہو کہ مِرا ضبط نہ للکارے جو
دلِ مضطر کو کسی طور بجھاتا جائے
وہ کہ معصوم نرالا ہے ادا میں اپنی
بچپنا مجھ کو وہ یوں یاد دلاتا جائے
اے خُدا مجھ کو سدا سایہ دلانا اپنا
اِس جہاں میں مجھے ہر شخص رُلاتا جائے
ہجر بھی جھیل سکوں گی جو تُو جاتے جاتے
اس نکمی کو خُدا سے بھی مِلاتا جائے