تمام احباب کوعید الاضحٰی مبارک !
حال ہی میں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے خبریں گرم ہیں کہ دنیا بھر میں پھانسی کی سزا ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
اس حوالے سے شاید حکومتِ پاکستان کو بھی عالمی دباو کا سامنا ہے۔
اسی تناظر میں وہ گروہ بھی جو خود کو سیکولر قرار دیتا ہے، اس سزا کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کچھ آوازیں ایسی بھی سُنائی دے رہی ہیں کہ پھانسی اور ہاتھ کاٹنے جیسی اسلامی سزائیں وحشیانہ ہیں، اس لیے آج کے مہذب معاشرے میں ان کا اطلاق ممکن نہیں۔
محفل میں موجود اہلِ علم سے اس سلسلے میں اپنی آرا کے اظہار کی درخواست ہے۔
البتہ اہلِ بزم سے درخواست ہے کہ صرف موضوع کے حوالے سے بحث کریں۔ کسی بھائی کے آپ کے خیالات سے عدمِ اتفاق کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ آپ کا ذاتی مخالف ہے۔ شکریہٖ
جیسا کہ
زیک نے کہا کہ یہ موضوع اسلامی زمرے میں پوسٹ کیا گیا ہے ۔مگر انہوں نے کچھ کہنے سے گریز کیالیکن سلامی حوالے سے میں استدلال پیش کردیتا ہوں ۔
کچھ دوستوں نے اپنے تبصرے کیساتھ کچھ آیاتیں بھی کوٹ کیں ہیں۔ ان آیتیوں کو اس طرح کوٹ کرنے اور اس کے معنی پر ( مفہوم پر نہیں ) تبصرہ کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جن جرائم کی سزا اللہ نے قرآن میں بیان کیں ہیں ۔ یہ ان کی پہلی اور حتمی سزائیں ہیں ۔ جبکہ اگر آپ ان آیاتیوں کا سیاق و سباق کیساتھ مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب انتہائی سزائیں ہیں ۔ یہاں جو آیاتیں کوٹ کی گئیں ہیں ۔ ان میں مختلف سزاؤں کا ذکر ہے ۔ مگر میں موضوع کے پیرائے میں رہتے ہوئے صرف " قتل " کی سزا پر اپنی رائے پیش کرنے کی جسارت کروں گا ۔
جزا و سزا کے معاملے میں ایک اصولی بات مد نظر رہنی چاہیئے کہ ہمارے پاس اسکے تعین کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے ۔ یعنی انسانی عقل کے پاس یہ بنیاد ہی نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کرسکے کہ جرم کی کیا سزا ہوگی ۔ انسان کی جان ، مال اور آبرو کو حرمت حاصل ہے ۔ یہ حرمت دین نے بھی دی ہے ، عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ یہ حرمت ہونی چاہیئے ۔ عمومی تجربات میں بھی یہی بات شامل ہے ۔ مختصر یہ کہ انسانیت کا اس پر اتفاق ہے ۔ مگر جب ایک شخص کسی جرم کا ارتکاب کربیٹھتا ہے تو آپ اس کو سزا دیں گے یا معاف کردیں گے ۔ اگر آپ سزا دیں گے تو یہاں یہ بات لاگو ہوتی ہے کہ اب آپ اس کے مال ، جان اور آبرو کے خلاف کوئی قدام کریں تو کوئی سزا دی جائے گی ۔ یہاں اس کے تعین میں انسان کے سامنے پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یعنی چوری کی سزا کتنی ہونی چاہیئے ۔ بدکاری کی سزا کتنی ہوچاہیئے ۔ قتل کی سزا کتنی ہونی چاہیئے ۔ اس معاملے میں انسان ہمیشہ خلفشار کا شکار رہا ہے ۔ اور اس افراط و تفریق کی نوعیت یہ رہی ہے کہ انسان پر اس قسم کا غلبہ ہوا کہ جرائم کا قلم قلمع کرنے کے لیئے عبرتناک سزائیں دینی چاہیئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر پھانسی کی سزائیں دیدیں گئیں ۔ بادشاہوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے ۔ معمولی باتوں پر انسان کو کولہو میں ڈال کر پس دیا گیا ۔ جانوروں کے سامنے چیرنے اور پھاڑنے کے لیئے پھینک دیا گیا ۔ دوسری جانب لوگوں پر ہمدردی کا ایسا بھی غلبہ طاری ہوجاتا ہے کہ پھر ایسے فلسفے وجود پذیر ہو جاتے ہیں کہ یہ انسانی نفسیاتی امراض ہیں ۔ جس کے تحت انسان یہ جرائم کربیٹھتا ہے ۔ اس میں رعایت برتنی چاہیئے ۔پھر عموماً لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجاتا ہے کہ ان سزاؤں میں تخفیف ہونی چاہیئے ۔ اگر آپ غور کریں تو یہ رحجان کم وبیش ہر اس معاملے میں ہے جہاں انسان کے پاس کوئی ایسی عقلی بنیاد موجود نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت دی ہے اس کودینے کہ وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ جن معاملات میں انسان کے پاس فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کو اس یہاں اللہ کی رہنمائی حاصل ہوجائے ۔
موت کی سزا ایک غیر معمولی سزا ہے ۔ یعنی آپ ایک شخص کو اس کی سب سے بڑی نعمت سے محروم کرنے جا رہے ہیں ۔ اس معاملے میں قرآن میں ارشاد ہے کہ " کسی نے کسی کو قتل کر دیا ہے ، یا وہ کسی کے مال و جان کے لیئے خطرہ بن کر کھڑا ہوگیا ہے ۔ تو آپ اس کو موت کی سزا دے سکتے ہیں ۔ " لیکن اگر اس سے یہ دو جرائم نہیں ہوئے ہیں تو کسی اور جرم میں اس کو قتل کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔ یہاں اللہ نے انسانیت پر رحم کرکے دوسرے جرائم میں انسانی جان کو تحفظ دیدیا ۔ اب یہ دو جرائم ہیں ۔ یعنی کسی نے کسی کو قتل کردیا یا وہ معاشرے میں مال و جان کے لیئے خطرہ بن گیا ہے ۔ اس جرائم میں بھی اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو وہاں پھر اللہ نے انسان کے لیئے ایک راستہ کھولا ہے ۔ یعنی جو اعتراضات کیئے جارہے ہیں ۔ ان کا قرآن نے کس عمدگی سے راستہ کھولا ۔ یعنی تخفیف کے لیئے جو بھی استدلال پیش کیا جا رہا ہے ۔ ان کو سامنے رکھ کر سزا بیان کردی ۔ تاکہ مجرموں کو یہ احساس رہے کہ ان کو قتل کیا جاسکتا ہے ۔ اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ " اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچ جاتی ہے کہ مجرم کو رعایت ملنی چاہیئے ( اس کے اسباب کچھ بھی ہوسکتے ہیں ) ۔ یعنی قاضی یا عدالت اس درجے میں مطمئن نہیں ہوئی کہ قتل کی سزا کا طلاق کیا جا سکے ۔ تو یہاں مقتول کے ورثاء کو راضی کرلیا جائے ۔ اگر وہ راضی ہوجاتے ہیں تو دیعت پر معاملہ ہوسکتا ہے ۔ " یعنی اس میں تو قید کی بھی سزا نہیں رکھی گئی ۔ معافی یا مالی تاوان دیکر آدمی بری ہوجائے گا ۔ یہ دوسرا راستہ اختیار کیا گیا ۔ مگر یہ طریقہ نہیں اختیار کیا گیا جو کہ اس حوالے سے دنیا بھر میں اٹھایا جا رہا ہے کہ مجرموں کو اس سزا سے رعایت دے کر ان کو دوسروں کی جان ، مال اور آبرو کیساتھ کھیلنے کا لائسنس دیدیا جائے ۔ کیونکہ انسان جس طرح خیر کو جزا کے حوالے سے اپنا تا ہے بلکل اسی طرح وہ خوف کو سامنے رکھ کر شر سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چناچہ خالق نے خوف بھی برقرار رکھا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ قتل کی سزا بھی ہوجائے ۔ لیکن ایک راستہ بھی نکال دیا ۔
فساد الارض کی سزاؤں میں بھی یہی کیا ۔ عبرتناک سزاؤں کیساتھ ، جلاوطنی کی سزا ۔ یعنی قاضی یا عدالت کو یہ اختیار دیدیا کہ وہ مجرم کے حالات ، شواہد اور واقعات دیکھ کر اس سزاؤں میں سے کسی بھی سزا کا اطلاق کرسکتے ہیں ۔ یہ دراصل اللہ کی حکمت ہے ۔ اگر اس حکمت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے قانون پر نظرِ ثانی کرلیں تو بہت سی ابحاث کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ جس میں یہ مذکورہ تھریڈ بھی شامل ہے ۔