پانچویں مثل آہلو والیوں سکھوں کی
مورخان صادق الاقوال اس مثل کی بنیاد کا احوال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ موضع آلو (یا آہلو) جو لاہور سے جانب شرق مائل بہ جنوب بفاصلہ چھے کوس (کروہ بمعنی کوس) کے ہے ، اس میں ایک شخص بھاگو نام کا نہایت مفلس و قلاش پریشان حال رہا کرتا تھا۔ پہلے وہ اپنے ہی گاؤں میں شراب فروشی کی دکان کرتا رہا۔ جب وہاں کام نہ چلا اور تنگ دستی نے بہت ستایا تو اس نے لاہور کے حصار سے باہر کی آبادی میں محلہ تیل پورہ و گنج جہاں اب (1850) بعد ویرانی شہرِ بیرونی کے موضع گنج آباد ہے۔ دوکان شراب فروشی کی جاری کی اور چند مدت یہ کام کرتا رہا۔ مگر اس میں بھی اس کا کام نہ چلا اور گزارہ نہ ہو سکا۔یہ سخت ناچار ہو گیا ۔اس وقت اس نے دیکھا کہ سکھوں کا کام بہت ترقی پر ہے اور وہ جدھر جاتے ہیں ملکوں کے ملک لوٹ کر لے جاتے ہیں کوئی پوچھنے روکنے والا نہیں ہے۔ میں بھی سکھ بن جاؤں اور قزاقی و رہزنی کر کے آسودگی پاؤں۔
اس خیال پر اس نے اپنا تمام دوکان کا اسباب فروخت کر کے ایک گھوڑا مول لے لیا اور بمقام فیض اللہ پور ، سردار کپور سنگھ کے پاس جا کر پاہل لی اور سکھ بنا۔ اور اس کی مثل کے ہمراہ ہو کر رہزنی اور غارت و تاراج میں مصروف ہوا۔ چونکہ آدمی چست و چالاک و ہوشیار تھا ، تھوڑے ہی عرصے میں ایک چھوٹی سی جماعت کا سردار ہو گیا۔ روز بروز اس کو یہ خیال پیش نہاد خاطر تھا کہ کسی طرح بہت سے آدمی لائق اپنے ہمراہ لے کر ایک معقول مثل کا سردار بن جاؤں۔ دو سال کے عرصے میں اس نے بہت سے آدمی اپنے گاؤں اور گردو نواح کے دیہات کے اپنے ساتھ شامل کر کے جمیعت معقول بہم پہنچائی۔سردار کپور ، فیض اللہ پوری بھی اس پر کمال مہربان تھا کہ بھاگ سنگھ ہر کام میں اس کی رضامندی کو مقدم جانتا تھا۔ایک روز کپور سنگھ، بھاگ سنگھ کے گھر گیا۔وہاں اس نے بھاگ سنگھ کی بیوہ بہن کو دیکھاکہ پاہل لے کر سکھنی بنی ہوئی ہے اور رباب لے کر گورو کی بانیاں بہ آواز خوش گا رہی ہیں ۔ کپور سنگھ کو اس کی آواز بہت خوش معلوم ہوئی اور یہ عبادت و عمل اس کا اس نے بہت پسند کیا ۔اس پر مہربان ہو کر پہلے تو اس کو کچھ نقد روپیہ انعام دیا اور پوچھا کہ تیرے گھر میں کوئی اولاد بھی ہے کہ نہیں ؟۔ اس نے اپنا بیٹا جسا سنگھ نامی پیش کیا۔ بچہ خوبصورت تھا اس کو دیکھ کر کپور سنگھ بہت خوش ہوا اور کہا کہ اس لڑکے کو ہمارے ساتھ کر دے۔ ہم اس کی پرورش کریں گے۔ چند روز میں یہ بڑا جواں مرد سپاہی اور سردار بن جائے گا۔ یہ تقریر سن کر اس عورت نے اپنے بیٹے کہ بانہہ کپور سنگھ کے ہاتھ میں دے دی اور اس کے ساتھ کر دیا۔ وہ اس کو اپنے ہمراہ لےگیا اور کمال پرورش کی نظر اس پر رکھی اور تھوڑے عرصے میں اپنی ریاست میں اس کو صاحب اختیار کر دیا۔ یہاں تک کہ جسا سنگھ اپنے ماموں بھاگ سنگھ سے بھی بڑھ گیا۔
آخر کار جب بھاگ سنگھ مر گیا اور کوئی صلبی بیٹا اس کا وارث نہ تھا تو جسا سنگھ اس کا وارث قرار پایا اور اس طرح کل جائداد اندوختہ بھاگ سنگھ جسا سنگھ کو مل گئی۔ پھر یہ ایک صاحب دولت سردار بن گیا۔چونکہ جسا سنگھ ایک نہات دانا و لئیق آدمی تھا اپنی کمال ہوشیاری و لیاقت کے سبب نواب آدینہ بیگ خاں ناظم و حاکم دو آبہ بست جالندھر کا مقرب و مصاحب بن گیا۔ اور جب تک آدینہ بیگ خاں زندہ رہا۔ یہ اس کی مصاحبت میں رہ کر بڑی عزت و اقتدار بہم پہنچایا۔
جب آدینہ بیگ خان مر گیا اور سکھوں نے ملک گیری شروع کی۔تو جسا سنگھ نے اول سرہند کی طرف کچھ فتوحات حاصل کیں اور شہر فتح آباد وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر ایک چھوٹی سی لڑائی میں کپورتھلہ اور ملک متعلقہ کپور تھلہ کا رائے ابراہیم بھٹی سے چھین کر اپنے ماتحت میں کر لیا اور بہت اعلیٰ استعداد بہم پہنچائی۔ دولت، لشکر، ملک ، فوج ، خزانہ ہر ایک چیز اس کے پاس موجود ہوگئی۔
ایک مرتبہ احمد شاہ درانی جب ولایت کابل کو الٹا جاتا تھا اور دو ہزار دو سو عورتیں ہندو ہندوستان سے پکڑ کر اپنے ہمراہ وہ قید کئے ہوئے لئے جارہا تھا ، یہ بات سکھوں کو ناگوار گزری مگر کسی میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ بادشاہ کے پنجے سے ان عورتوں کو چھڑا لائے۔ اس وقت جسا سنگھ نے جواں مردی کی اور احمد شاہ کی فوج پر اپنی جمیعت کے ہمراہ رات کو جا پڑااور شب خون مار کر ان تمام عورتوں کو چھڑا کر لے آیا اور ہر ایک کو خرچ دے کر اس کے گھر پہنچا کر آیا۔ یہ عمل نہایت اچھا جسا سنگھ سے سرزد ہوا جس سے اس کی تمام پنجاب میں نام وری ہو گئی ۔ اور ہر ایک کے دل میں اس کی بہادری اور جواں مردی کا رعب سما گیا۔ جب سردار جسا سنگھ مر گیا تو کوئی صلبی بیٹا اس کا وارث نہ رہا جو ریاست کا وارث بنتا صرف دو رشتہ دار مسمی بھاگ سنگھ اور مہر سنگھ باقی رہ گئے ۔ ان میں سے سردار جے سنگھ کہنیا کی تجویز پر بھاگ سنگھ کو گدی پر بٹھایا گیا۔ یہ بھی نہایت لئیق و دانا و جواں مرد شخص تھا ۔ جب اس نے بھی عالم فانی سے ملک جاودانی کو کوچ کیا تو پھر اس کی جگہ سردار فتح سنگھ گدی نشین ہوا ۔ یہ سردار نہایت دانا و صاحب عقل و ہوش تھا ۔اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ کمال دوستی پیدا کیا اور ہر ایک مہم میں اس کا حامی و مددگار رہا۔کبھی نافرمانی نہ کی ۔ فتوحات ملک پنجاب جو رنجیت سنگھ کو نصیب ہوئیں ان میں سردار فتح سنگھ نے ہر مہم میں جانفشانی سے اس کی مدد و معاونت کی اور اپنی فوج ہر مہم میں رنجیت سنگھ کی فوج کے ہمراہ دشمن کے مقابلے میں رکھی۔
جب دریائے ستلج حدِ فاصل بین علاقہ پنجاب اور علاقہ سرکارِ انگریزی کے قائم ہو گیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نیت اس کی طرف سے بھی بدل گئی اور چاہا کہ اس کو بھی اس علاقے سے بے دخل کر دیا جائے مگر اس کو وقت پر خبر ہو گئی ۔اور کپورتھلہ سے صاحبانِ انگریز کے علاقے میں چلا گیا ۔ چونکہ علاقہ متعلقہ اس کا بھی انگریزی عمل داری میں جمعی پانچ لاکھ روپیہ کا موجود تھا ، صاحب ایجنٹ نواب گورنر جنرل کے یہاں سے ایک خط مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام جاری ہوا کہ چونکہ علاقہ سردار فتح سنگھ آلو والیہ کا سرکار انگریزی کے علاقے میں بھی جمعی پانچ لاکھ کا موجود ہے، آج کی تاریخ سے وہ زیر حمایت سرکار انگریزی متصور ہوگا۔ مہاراجہ صاحب بہادر والی پنجاب کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ اس کے علاقے واقع دوآبہ جالندھر پر بھی دست درازی کرے بلکہ رابطہ محبت و اتحاد کا جو فی مابین ہر دو سرکار ذوی اقتدار ہے، مقتضی اس بات کا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر بھی اس کو بہر نوع من انواع اپنے دربار سے محفوظ و مامون تصور فرمائیں اور کوئی ایسا امر وقوع میں نہ لائیں جس سے دوستانِ محبت کیش کی دل شکنی ہو۔
جب یہ تحریر سرکار انگریز کی مشتہر ہو گئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ اس علاقے میں دست درازی سے باز آیا۔ یہ واقعہ 1826 میں گزرا ہے تو بعد استحکام اس امر کے فتح سنگھ واپس اپنے علاقہ ریاست کپور تھلہ میں آگیا۔