الف نظامی

لائبریرین
گفتگوئے شہ ابرار

گفتگوئے شہ ﷺ ابرار بہت کافی ہے
ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے​
یادِ محبوبﷺ میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت
اس قدر عالم انوار بہت کافی ہے​
مدح سرکار ﷺ میں یہ کیف، یہ مستی ،یہ سرور
میری کیفیتِ سرشاربہت کافی ہے​
للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے
شاہﷺ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے​
کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہﷺ دیں
ایک بھی گوھرِ شہوار بہت کافی ہے​
نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو
مددِ احمدِمختار ﷺ بہت کافی ہے​
بے ادب ! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ
کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے​
روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر
حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
میں خستہ دل کہاں درِ خیرا لبشر کہاں
پہنچی ہے اضطراب میں میری نظر کہاں​
قاصد کہاں سفیر کہاں نامہ بر کہاں
لیکن وہ میرے حال سے ہیں بے خبر کہاں​
آسودہِ جمال ہے میری نظر کہاں
دیکھی ہے میں نے طیبہ کی شام و سحر کہاں​
میر عرب! عجم میں سکونِ نظر کہاں
یہ تو میرے فراق کی منزل ہے گھر کہاں​
دل ہے کہاں خیال کہاں ہے نظر کہاں
دیوانہِ رسول کو اتنی خبر کہاں​
اہلِ خرد ہیں میرے شریکِ سفر کہاں
یہ راہِ مصطفی ہے یہاں حیلہ گر کہاں​
اب اہلِ دل کہاں کوئی اہلِ نظر کہاں
لے جاوں اب میں اپنی متاعِ ہنر کہاں​
آقا نظر کہ عشق کا خانہ خراب ہے
اب سوزِ دل کہاں ہے گدازِ جگر کہاں​
معراج ہے نصیب کہاں میرے عشق کو
ہے ان کے آستان پہ ابھی میرا سر کہاں​
طیبہ پہنچ کے ہم بھی سنیں گے صدائے دل
دل نغمہ بار ہوگا سرِ رہگذر کہاں​
وارفتگی میں شوقِ زیارت تو ہے مگر
شائستہِ جمال ہے میری نظر کہاں​
اے کم سواد! عشق ترا ناتمام ہے
اے دل! ہے دور روضہ خیرا لبشر کہاں​
اے دستگیر دستِ کرم کو دراز کر
یوں ہوگی میری عمر محبت بسر کہاں​
یہ وقت مانگنے کا ہے دستِ طلب اٹھا
ناداں ہے بند بابِ قبول و اثر کہاں​
کیف آفریں ہے ہجر بھی ان کا وصال بھی
یہ کلفتیں گراں ہیں مرے ذوق پر کہاں​
ہیں بے پناہ وسعتیں عشقِ رسول کی
میرا جہاں حلقہ شام و سحر کہاں​
میرے لیے ہے مدینے کا در کھلا ہوا
ہے ناقبول میری دعائے سحر کہاں​
میں عازمِ حرم تجھے آوارگی نصیب
تو میرا ساتھ دئے گی نسیمِ سحر کہاں​
ہر لمحہ جاں نواز ہے راہِ رسول کا
عشقِ نبی میں ہو تو سفر ہے سفر کہاں​
ہم نے سنا ہے قصہ طور و کلیم بھی
شاہِ امم کی سیر کا عالم مگر کہاں​
اک بھید ہے حقیقتِ معراجِ مصطفی
اسرارِ لامکاں کی کسی کو خبر کہاں​
چل دوں سوئے مدینہ مگر پا شکستہ ہوں
اڑ جاوں سوئے طیبہ مگر بال و پر کہاں​
شمس و قمر تو کعبہِ قلب ونظر نہیں
ذرے ہیں ان کی راہ کے شمس و قمر کہاں​
پیشِ حضور درد کا اظہار کر سکوں
میرا یہ دل کہاں ہے یہ میرا جگر کہاں​
شہرِ نبی میں بکھرے مضامین پڑھ سکوں
اتنا بلند میرا مذاقِ سخن کہاں​
ان کا جمال غیرتِ صد جبرئیل ہے
ان کا جمال مثلِ جمالِ بشر کہاں​
گبھرا نہ میری نظمِ مرصع ہے گر طویل
افسانہ ان کے حسن کا ہے مختصر کہاں​
رنگِ غزل بھی ہے مرے اس رنگِ نعت میں
محدود ہے جمالِ شہ بحر و بر کہاں​
مظہر یہ نعتِ خواجہ عالم کا فیض ہے
ورنہ مرے کلام میں تھا یہ اثر کہاں​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہم سوئے حشر چلیں گے شہ ابرار کے ساتھ
قافلہ ہوگا رواں قافلہ سالار کے ساتھ​
مدحتِ خواجہ دیں مدحتِ سرکار کے ساتھ
زندگی گذری ہے کیفیت سرشار کے ساتھ​
میں بھی وابستہ ہوں سرکار کے دربار کے ساتھ
خاک کا ذرہ بھی ہے عالمِ انوار کے ساتھ​
رہ گئے منزلِ سدرہ پہ پہنچ کر جبریل
چل نہیں سکتا فرشتہ تری رفتار کے ساتھ​
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر در ودیوار کے ساتھ​
مل ہی جائے گا کوئی خوانِ کرم کا ٹکرہ
ہے تعلق جو سگانِ درِ سرکار کے ساتھ​
اے خدا دی ہے اگر نعتِ نبی کی توفیق
حسنِ کردار بھی دے لذتِ گفتار کے ساتھ​
جب کھلے حشر میں‌گیسوئے شفاعت ان کے
ہم سے عاصی بھی نظر آئیں گے ابرار کے ساتھ​
میں یہ کہتا ہوں‌کہ تھا ان کی نظر کا اعجاز
لوگ کہتے ہیں کہ دیں پھیلا ہے تلوار کے ساتھ​
دیکھ اے معترض نعتِ رسولِ عربی
قرب حساں کو ملا تھا انہی اشعار کے ساتھ​
سب عطائیں ہیں خدا کی مرے مولا کے طفیل
ورنہ یہ لطف و کرم مجھ سے گنہگار کے ساتھ​
ہم بھی مظہر سے سنیں گے کوئی نعتِ رنگیں
گر ملاقات ہوئی شاعر دربار کے ساتھ​
 

الف نظامی

لائبریرین
آواز دل

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں​
گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں​
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا ، جو نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں​
بوبکر وعمر ، عثمان و علی ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں​
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کی سیپاروں میں​
رحمت کی گھٹائیں پھیل گیئں افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں​
جس مے کدے کی ایک بوند سے بھی لب کج کلہوں کے تر نہ ہوئے
ہیں آج بھی ہم بے مایہ گدا اس مے کدئے کے سرشاروں میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
ائے شہ انس و جاں جمالِ جمیل
تجھ پہ تخلیقِ حسن کی تکمیل​
رہبرِ انبیا و ختم رسل
ذاکر و تذکرہ ربِ جلیل​
دمِ عیسی کہ یو یدِ بیضی
والضحی کی نہ مثل ہے نہ مثیل​
نورِ مطلق کا رازدار و امیں
افتخارِ جہاں ہے فخرِ خلیل​
سایہِ نور مصطفی ناپید
نور لایا ہے تور ہی کی دلیل​
بانی دینِ حق نبی کریم
دینِ فطرت سلامتی کا کفیل​
ہے حلیمہ کی بکریوں والا
بزم ہستی میں نور کی قندیل​
گوڈری پوش راز الا اللہ
تجھ پہ شیدا خدا تو ایسا شکیل​
آپ کی بات آیتِ قرآں
آپ ہی کے لیے قول ثقیل​
آپ ہی کی زباں ہے حق گویا
آپ پر ہے کلام کی تنزیل​
نالہ نیم شب کا سرچشمہ
یانبی جاگئے گا الا قلیل​
تو شفیق اور رحمتِ عالم
محسن انس و جاں حسین و جمیل​
عقل و دانش غلام ہیں تیرے
فہم و ادراک سے ورا ہے عقیل​
مدعا ، منتہی ، مرادِ حیات
جادہ شوق میں امام سبیل​
آستانِ نبی ہے فخر زمیں
آسماں سرنگوں پئے تقبیل​
چشم مازاغ ، رخ کلام اللہ
اور والیل ہی ہے زلفِ طویل​
مظہر کبریا ہے ذاتِ نبی
بزم امکان ہے اخیر و قبیل​
خواجہ دوجہاں کی کیا ہو ثنا
خود ثنا خواں ہوا ہے ربِ جلیل​
کیا بیاں ہوسکے گی شانِ نبی
بعد حق کے توئی شکیل و جزیل​
اک نگاہِ کرم نبی کریم
مجھ پہ کیجے بحق اسمعیل​
آپ کے در پہ سر رہے ہر دم
معصیت معرفت میں ہو تبدیل​
یامحمد صدا ہو وردِ زباں
پائے ساقی پہ ہو میری تکمیل​
راز شاہِ امم ہیں شاہِ نجف
قصہ کوتاہ ہے بات بالتفصیل​
جب توجہ میں آگیا واصف
تو جنوں سے خرد کی ہے تشکیل​
 

الف نظامی

لائبریرین
جنہیں تیرا نقش قدم ملا ، وہ غم جہاں سے نکل گئے
یہ میرے حضور کا فیض ہے کہ بھٹک کہ ہم جو سنبھل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]

ہو تیرے کرم کا جواب کیا ، تیری رحمتوں کا حساب کیا
تیرے نام نامی سے غم کدوں میں چراغ خوشیوں کے جل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]

تو ہی کائنات کا راز ہے ، تیرا عشق میری نماز ہے
تیرے در کے سجدے میرے نبی میری زندگی کو بدل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]
تو مصوری کا کمال ہے تو خدا کا حسن خیال ہے
جنہیں تیرا جلوہ عطا ہوا وہ تیرے جمال میں ڈھل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]
تھے ہزار صدیوں کے فاصلے جو رسول پاک نے طے کئے
وہ تو ایک رات کی بات تھی کہ زمانے جس میں بدل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]
یہ حلیمہ تجھ کو خبر نہ تھی کہ وہی زمانے کے تھے نبی
وہ خدا کے کتنے قریب تھے ، تیری گود میں جو بہل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]
تیرا بندہ واصف بے خبر ، تیرا راز سمجھا ہے اس قدر
تجھے جب پکارا بہ چشمِ تر ، کئی مرحلے تھے جو ٹل گئے
[align=left:afdf97ab71]پڑھو صل علی نبینا صل علی محمد
پڑھو صل علی شفیعنا صل علی محمد[/align:afdf97ab71]
 

الف نظامی

لائبریرین
السلام اے سبز گنبد کے مکیں
السلام اے رحمۃ اللعالمیں​
السلام اے راحتِ قلبِ حزیں
السلام اے رفعتِ عرش بریں​
السلام اے حامد و محمودِ حق
السلام اے نورِ توِ اولیں​
السلام اے بے مثیل و بیمثال
السلام اے فخرِ افلاک و زمیں​
السلام اے خواجہ کون و مکاں
السلام اے شاہَ دنیا شاہِ دیں​
السلام اے صادق و سعد و سعید
السلام اے کہ امام السالکیں​
السلام اے غایت کن السلام
السلام اے مظہر عین الیقیں​
السلام اے ہاشمی امی لقب
السلام اے روحِ قرآنِ مبیں​
السلام اے کہ جمال کانات
السلام اے زاغ چشم سرمگیں​
السلام اے رافع ذکر الہ
السلام اے ذکرِ رب العالمیں​
السلام اے عبدہ خیر البشر
نوعِ انساں را پیغامِ آخریں​
سید و سرور محمد مصطفی
کعبہِ کعبہ تیرا روئے حسیں​
السلام اے رہبرِ امت السلام
تیرے سنگَ در پہ واصف کی جبیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
انوار برستے ہیں اس پاک نگر کی راہوں میں
اک کیف کا عالم ہوتا ہے طیبہ کی مست ہواوں میں​
اس نامِ محمد کے صدقے بگڑی ہوئی قسمت بنتی ہے
اس کو بھی پناہ مل جاتی ہے جو ڈوب گیا ہو گناہوں میں​
گیسوئے محمد کی خوشبو اللہ اللہ کیا خوشبو ہے
احساس معطر ہوتا ہے والیل کی مہکی چھاوں میں​
وہ بانی دین مبین بھی ہے حم بھی ہے یسین بھی ہے
مسکینوں میں مسکین بھی سلطانِ زمانہ شاہوں میں​
سب جلوے ہیں اس صورت کے وہ صورت ہی وجہ اللہ ہے
اللہ نظر آجاتا ہے وہ صورت جب ہو نگاہوں میں​
اللہ کی رحمت کے جلوے اس وقت میسر ہوتے ہیں
سجدے میں ہوں جب آنکھیں پرنم اور نامِ محمد آہوں میں​
اس ناطقَ قرآن کی مدحت انسان کے بس کی بات نہیں
ممدوح خدا ہیں وہ واصف صد شکر کہ ہم ہیں گداوں میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
سوز دل چاہیے ، چشم نم چاہیے اور شوق طلب معتبر چاہیے
[align=left:90a5342509]ہوں مدینے کی گلیاں میسر اگر ، آنکھ کافی نہیں ہے ، نظر چاہیے[/align:90a5342509]اپنی روداد غم میں سناوں کسے ، میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا
[align=left:90a5342509]جس کی خاک قدم بھی ہے خاک شفا، میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے[/align:90a5342509]ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں لب کشائی کی جرات مناسب نہیں
[align=left:90a5342509]ان کی سرکار میں التجا کے لیے جنبش لب نہیں چشم تر چاہیے[/align:90a5342509]میں گدائے در شاہ کونین ہوں ، شیش محلوں کی مجھ کو تمنا نہیں
[align=left:90a5342509]ہو میسر زمیں پر کہ زیر زمیں ، مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے[/align:90a5342509]ان نئے راستوں کی غلط روشنی ، ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی
[align=left:90a5342509]ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے ، ہم کو آئینِ خیرالبشر چاہیے[/align:90a5342509]گوشہ گوشہ مدینے کا پرنور ہے ، سارا ماحول جلووں سے معمور ہے
[align=left:90a5342509]شرط یہ ہے کہ ظرف نظر چاہیے ، دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے[/align:90a5342509]مدحت سرور دوجہاں کے لیے صرف لفظ و بیاں کا سہارا نہ لو
[align=left:90a5342509]فن شعری ہے اقبال اپنی جگہ ، نعت کہنے کو خونِ جگر چاہیے[/align:90a5342509]
 

الف نظامی

لائبریرین
والیل تھیں زلفیں ، رخِ شہ ماہ مبیں تھا
اللہ غنی میرا نبی کتنا حسیں تھا​
جب ماہ و کواکب تھے ، نہ فرشِ زمیں تھا
اس وقت بھی وہ نورِ مبیں ، نورِ مبیں تھا​
تسلیم کہ کعبے کا ہر اک نقش حسیں تھا
جب تک وہ نہ آئے تھے یہ عالم بھی نہیں تھا​
حائل کوئی پردہ شب معراج نہیں تھا
بندہ حرمِ ناز میں مولا کے قریں تھا​
یہ طرفہ تماشا بھی سر عرش بریں تھا
وہ طالب دیدار تھا جو پردہ نشیں تھا​
میں ہی درِ دُربار پہ خورسند نہیں تھا
جو حاضرِ دربار تھا ، فرخندہ جبیں تھا​
نظروں میں تجلائے رخِ سرور دیں تھا
میں جلوہ در آغوش دمِ باز پسیں تھا​
اک روز میں افلاس کے عالم میں حزیں تھا
دیکھا تو ہر اک شعر مرا لعل و نگیں تھا​
ہنگامِ حضوری ادب و شوق بہم تھے
طیبہ میں کوئی ہوش سے بیگانہ نہیں تھا​
بول اٹھے تھے بوجہل کے مٹھی میں بھی کنکر
یہ واقعہ اعجازِ لبِ سرورِ دیں تھا​
گو بدر کے میداں میں تھے بے سروساماں
سرکار کو اللہ کی نصرت پہ یقیں تھا​
اے اہل حرم کوئی دعا میرے لیے بھی
میں بھی کبھی آزادِ غمِ دھر یہیں تھا​
ہر سمت مدینے میں تھے انوار فروزاں
ہر ذرہ مدینے کا درخشندہ نگیں تھا​
ایک ایک نفس مژدہ تھا طیبہ کے سفر میں
ایک ایک قدم منزل معراجِ یقیں تھا​
کعبے کو بھی دیکھا تھا بڑے غور سے میں نے
کعبہ بھی مرے شاہ کے جلووں کا امیں تھا​
قرآن کا مفہوم ہویدا تھا نبی پر
جبریل تو بس حامل قرآن مبیں تھا​
اب بھی مجھے سرکار کی رحمت پہ یقیں ہے
کل بھی مجھے سرکار کی رحمت پہ یقیں تھا​
مظہر کہ ہے نعتِ شہ ذی جاہ سے مشہور
اک مردِ کم آمیز تھا ، اک گوشہ نشیں تھا​
 

hakimkhalid

محفلین
تو کجا من کجا​

تو امیرِ حرم، میں فقیرِعجم
تیرے گن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا، تو کجا من کجا


تو ابد آفریں، میں ہوں دو چار پل
تو یقیں میں گماں، میں سخن تُو عمل
تو ہے معصومیت میں نری معصیت
تو کرم میں خطا، تو کجا من کجا


تو ہے احرامِ انوار باندھے ہوئے
میں درودوں کی دستار باندھے ہوئے
کعبۂ عشق تو، میں ترے چار سو
تو اثر میں دعا، تو کجا من کجا


تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر، میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تری رہگزر
سدرۃ المنتہیٰ، تو کجا من کجا


میرا ہر سانس تو خوں نچوڑے مرا
تیری رحمت مگر دل نہ توڑے مرا
کاسۂ ذات ہوں، تیری خیرات ہوں
تو سخی میں گدا، تو کجا من کجا


ڈگمگاٰؤں جو حالات کے سامنے
آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
میری خوش قسمتی، میں ترا اُمتی
تو جزا میں رضا، تو کجا من کجا


میرا ملبوس ہے پردہ پوشی تری
مجھ کو تابِ سخن دے خموشی تری
تو جلی میں خفی، تو اٹل میں نفی
تو صلہ میں گلہ، تو کجا من کجا


دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں
جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں ہو میری ترجماں
دل سے نکلے سدا، تو کجا من کجا


تو امیر ِحرم، میں فقیرِعجم
تیرے گن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب
تو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا

تو کجا من کجا،تو کجا من کجا

شاعر جناب مظفر وارثی​
 

الف نظامی

لائبریرین
[align=center]باغ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہوکے بہار آئی ہے​
ان کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے
ان کے ابرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے​
سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے
ناخنوں میں ترے اعجازِ مسیحائی ہے​
سرِ بالیں انہیں رحمت کی گھٹا لائی ہے
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے​
جانِ گفتار تو رفتار ہوئی روحِ رواں
دم قدم سے ترے اعجاز مسیحائی ہے​
جسکے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال
اے حسیں تیری ادا اس کو پسند آئی ہے​
تیرے جلووں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم
تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے​
جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے​
تیرے قدموں کا تبرک ید بیضائے کلیم
تیرے ہاتھوں کا دیا فضل مسیحائی ہے​
دردِ دل کس کو سناوں میں تمہارے ہوتے
بیکسوں کی اسی سرکار میں سنوائی ہے​
آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں
آپ کی خاکِ قدم سرمہ بینائی ہے​
ناتوانی کا الم ہم ضعفا کو کیا ہو
ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے​
باغ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا
اک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے​
کھیت سرسبز ہوئے پھول کھلے میل دھلے
اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے​
ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتے
میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے​
ناامیدو تمہیں مژدہ کہ خدا کی رحمت
انہیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے​
فرش سے عرش تک اک دھوم ہے اللہ اللہ
اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے​
اے حسن حُسن جہاں تاب کے صدقے جاوں
ذرے ذرے سے عیاں جلوہ زیبائی ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
نیر اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم

آں جملہ رسل ہادی برحق کہ گزشتند
برفضلِ تو اے ختم رسل دادہ گواہی​
در خَلق و در خُلق توئی نیر اعظم
لاتُدرک اوصافک لم تُدر کَمَاہی​
یا احسن یا اجمل یا اکمل اکرم
واللہ باخلاقک فی الملا یُباہی​
تو باعث تکوین معاشی و معادی
اے عبد الہ ہست مسلم بتو شاہی​
زآفاق پریدی و ز افلاک گزشتی
درجاتک فی السدرۃ غیر المتناہی​
امید بکرمت کہ مکارم شیم تست
من کیستم و چیست معاصی و تباہی​
آئس نیم از فضل تو اے روح خداوند
نظرے کہ رباید ز قمر رنج و سیاہی​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہو جس پہ کرم سید عالم کا ذرا سا
بن جائے وہ اسرارِ الہی کا شناسا​
ہیں ارض و سما آپ کے جلووں سے ضیا گر
نبیوں میں نہیں کوئی بھی محبوبِ خدا سا​
جب دل ہو غمِ گردش ایام سے بیتاب
ان کی نگہِ لطف ہی دیتی ہے دلاسا​
ہے لذت دیدار بھی ، کوثر بھی ، عطا بھی
امت کا کوئی فرد نہ جائے گا پیاسا​
ہے اس کی ضیا سے رخ گیتی پہ چراغاں
تابندہ ہے سرکار کی سیرت گہر آسا​
اے منتظر دید! گداز و تپش آموز
بادامنِ شاہ امم آویز و بیاسا​
 

الف نظامی

لائبریرین
اک سلسلہ نور و ضیا دیکھ رہا ہے
جو روضہ شاہ دوسرا دیکھ رہا ہے​
عشاق یہاں سانس بھی لیتے ہیں ادب سے
اس جذبہ طاعت کو خدا دیکھ رہا ہے​
محبوبِ خدا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں
اک زائر دربار یہ کیا دیکھ رہا ہے​
آنکھیں ہیں تقاضائے عقیدت میں خمیدہ
دل گنبدِ خضرا کی فضا دیکھ رہا ہے​
اس طرز نوازش پہ فدا نعمت دارین
ہر فرد ، کرم خود پہ سوا دیکھ رہا ہے​
وہ محرم جاں ، قاسم الطاف الہی
رنگِ طلبِ شاہ و گدا دیکھ رہا ہے​
کس پیار سے ملتے ہیں فقیر اہل مدینہ
انسان دل و دل مہروفا دیکھ رہا ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
تیرے وقار پر فدا رعب و جلال موسوی

تیرے وقار پر فدا رعب و جلال موسوی
تیرے جمال پر فدا جلوہ حسن یوسفی​
خم ہے تیری جناب میں فرق لوائے قیصری
زرد ہے تیرے روبرو رنگِ شکوہ خسروی​
تیری عطائے بے حساب باعث شانِ دینوی
تیری دعائے مستجاب وجہ نجات اخروی​
تیری نگاہِ لطف ہے چارہ دردِ عاجزی
خندہ زیرِ لب تیرا مرہمِ زخمِ بے کسی​
ساقی محفلِ الست رحمتِ عام سے تری
آگیا اعتدال پر کیفِ مزاجِ زندگی​
کرتے ہیں تیری ذات پر ناز تمام انبیا
تیری قبائے حسن ہے تابِ رخِ پیمبری​
نکہتِ زلف سے تری مست ہوا ہے پھول پھول
کیفِ جمال سے ترے جھوم اٹھی گلی گلی​
تابِ سفر نہیں ہے اب ، منزلِ شوق دور ہے
منتظرِ کرم ہے اب فیض کی پا شکستگی​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے میرا ربط غلامی شہ ابرار کے ساتھ

ہے میرا ربط غلامی شہ ابرار کے ساتھ
اب غرض ہے کسی سلطاں نہ جہاں دار کے ساتھ​
حبِ توحید ہے اس کے لیے بالکل بے سود
جس موحد کو محبت نہیں سرکار کے ساتھ​
دن کا ہر لمحہ تھا خوش بو کی طرح طیبہ میں
ہر گھڑی شب کی بسر ہوتی تھی انوار کے ساتھ​
بے زبانی ہی مواجہ میں ہے اندازِ بیاں
کون جاتا ہے وہاں طاقتِ گفتار کے ساتھ​
ہیں سیوطی کی طرح لوگ کی خوش قسمت
دیکھ لیتے ہیں انہیں دیدہِ بیدار کے ساتھ​
یاد ہے اب بھی مدینے سے جدائی کا سماں
ہم بھی روئے تھے لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ​
حشر تک مجھ کو عطا کردے جگہ تھوڑی سی
اے خدا، سروررِ کونین کے دربار کے ساتھ​
ان کو کیا خوف دوعالم میں جو رکھتے ہیں نیاز
مدنی ، مطلبی ، ہاشمی سردار کے ساتھ​
خوب تر ان کی ثنا کی تو رضا نے کی ہے
نعت لکھی ہے تو اقبال نے معیار کے ساتھ​
ان کی مدحت ہو دم نزع زباں پر طارق
حشر آئے تو اٹھوں نعتیہ اشعار کے ساتھ​
 

الف نظامی

لائبریرین
سوہنے محمدورگا ڈٹھا لجپال کوئی نئیں
اللہ دےبعد اوہدی مِلدی مثال کوئی نئیں​
آمنہ بی بی ویکھو ڈاہڈی مسرُور ہوئی
کلّی حلیمہ دی وی اج نور و نور ہوئی​
کسےمائی نہ جمیا ایہو جیہا لعل کوئی نئیں
اللہ دے بعد اوہدی مِلدی مثال کوئی نئیں​
مائی حلیمہ منگر خوشیاں دےگاندی پھر دی
سوہنےمحمد دیاں نعتاں سناوندی پھر دی​
سوہنےمحمد ورگا صاحبِ جمال کوئی نئیں
اللہ دے بعد اوہدی مِلدی مثال کوئی نئیں​
چن تائیں توڑ وکھاونا سورج نوں موڑ لیاونا
پلک چمکن دےاندر عرشاں تےاونا جانا​
سوہنےمحمد لئی اے سجنوں محال کوئی نئیں
اللہ دےبعد اوہدی مِلدی مثال کوئی نئیں​
نبی دی آل ویکھو نانےدا دین بچایا
نانےدےدین پچھےکنبہ سارا کوہایا​
نبی دی آل ورگی کسےدی آل کوئی نئیں
اللہ دے بعد اوہدی مِلدی مثال کوئی نئیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
تیرے وقار پر فدا رعب و جلال موسوی
تیرے جمال پر فدا جلوہ حسن یوسفی​
خم ہے تیری جناب میں فرق لوائے قیصری
زرد ہے تیرے روبرو رنگِ شکوہ خسروی​
تیری عطائے بے حساب باعث شانِ دینوی
تیری دعائے مستجاب وجہ نجات اخروی​
تیری نگاہِ لطف ہے چارہ دردِ عاجزی
خندہ زیرِ لب تیرا مرہمِ زخمِ بے کسی​
ساقی محفلِ الست رحمتِ عام سے تری
آگیا اعتدال پر کیفِ مزاجِ زندگی​
کرتے ہیں تیری ذات پر ناز تمام انبیا
تیری قبائے حسن ہے تابِ رخِ پیمبری​
نکہتِ زلف سے تری مست ہوا ہے پھول پھول
کیفِ جمال سے ترے جھوم اٹھی گلی گلی​
تابِ سفر نہیں ہے اب ، منزلِ شوق دور ہے
منتظرِ کرم ہے اب فیض کی پا شکستگی​
 

الف نظامی

لائبریرین
پھر کر گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں​
رخصت قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں ان کے سائے میں کوئی ہمیں جگائے کیوں​
بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں​
یادِ حضور کی قسم غفلت عیش ہے ستم
خوب ہیں قید غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں​
دیکھ کہ حضرت غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاونی حشر ہی آ نہ جائے​
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرئے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اٹھائے کیوں​
ہم تو ہیں آپ دلفگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گل کو نوبہار خون ہمیں رلائے کیوں​
یا تو یونہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
منتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں​
ان کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لَوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں​
خوش رہے گل پہ عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بلا بھی ذکر پر پھول کے خار کھائے کیوں​
گردِ ملال اگر دُھلے دل کی کلی اگر کھلے
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں​
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں​
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمہ تر کھلائے کیوں​
راہِ نبی میں کیا کمی فرش بیاض دیدہ کی
چادرِ ظل ہے ملگجی زیر قدم بچھائے کیوں​
سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جاچکے دل کو قرار آئے کیوں​
ہے تو رضا نرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں​
 
Top