الف نظامی

لائبریرین
گل دستہ نعت

حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
اخوت ، علم وحکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں​
کہا صدیق نے میری صداقت ان کا صدقہ ہے
عمر ہیں ان کے شاہد وہ عدالت لے کے آئے ہیں​
کہا عثمان نے میری سخاوت ان کا صدقہ ہے
علی دیں گے شہادت وہ شجاعت لے کے آئے ہیں​
رہے گا یہ قیامت تک سلامت معجزہ ان کا
وہ قرآن میں نور و ہدایت لے کے آئے ہیں​
خدا نے رحمت للعالمیں خود ان کو فرمایا
قسم اللہ کی رحمت ہی رحمت کے کے آئے ہیں​
قناعت ، حریت ، فکر وعمل ، مہر و وفا ، تقوی
وہ انساں کے لیے عظمت ہی عظمت لے کے آئے ہیں​
حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں
اخوت ، علم وحکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
کوئی ایسی زندہ نعت کہو

ائے نعت نگار ہنر مندو !
کوئی ایسی زندہ نعت کہو ، روحوں کے اندھیرے چھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
پھر روحِ صداقت جاگ اٹھے ! رنگیں منافق لفظوں کے رشتے ہونٹوں سے کٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
افشاں ہوں محمد کے جلوئے ، اور گرد کے جو طوفاں اٹھے ہیں چار طرف ، وہ چھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
احسان و وفا کی راہوں میں ، جادو کے گڑھے جو کھودے ہیں باطل نے، وہ سارے پٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
خواہش کے بگولوں کے بل پر ، جب اسفل جذبے اونچے اڑیں ، پر ان کے ہوا سے کٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
ہر مقتل دل بن جائے کھنڈر! دولت کے منارے ٹوٹ گریں! نخوت کے غبار پھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
آسیب غلامی باطل نے ، ذہنوں میں اگا دی زنجیریں ، یہ زنجیریں سب کٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
اعدائے محمد کی فکریں ، جو پجتی ہیں مانند بتان ، ایماں کے نگر سے ہٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
یہ جاہ و جنس کے فتنوں سے ، سیلاب جو امڈئے آتے ہیں ، قطروں میں یہ پھر سے بٹ‌جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
تزویر کی اندھی نگری میں ، کمزوروں پر کرکر کے ستم ، جو بڑھتے رہے وہ گھٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
لوگوں کے ضمیروں پر جن کے پایوں کو ٹکایا جاتا ہے ، وہ اونچے تخت الٹ جائیں
کوئی ایسی زندہ نعت کہو!​
عشاقِ پیمبر ایسے اٹھیں ، جو تلواروں کی چھاوں میں حق بات کہیں اور ڈٹ جائیں
ائے نعت نگار ہنر مندو!​
 

اظہرالحق

محفلین
نعت کے کچھ اشعار جو بہت پسند ہیں ، پنجابی کے ہیں‌ ۔۔ ۔

میں لب کہ لیاواں کتھوں سوہنا تیرے نال دا
دنیا تے آیا نہ کوئی تیری مثال دا

یا پھر یہ شعر

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
 

الف نظامی

لائبریرین
سلام اس پر

سلام اس (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر
جو ظلمتوں میں منارہ روشنی ہوا ہے
وہ ایسا سورج ہے جس کی کرنیں ازل ، ابد کے تمام گوشوں
میں نور بن کر سما چکی ہیں
ہر ایک ذرکے کا ماہ تاباں بنا چکی ہے
سلام اس (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر​
سلام اس ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر
جو حرف حق ہے
وہ حرف حق جو سماعتوں اور خدائے برتر کے درمیاں ایک واسطہ ہے
جو خاک مردہ میں جان ڈالے وہ کیمیا ہے
سلام اس (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر​
سلام اس ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر
جو خیر اعلی ہے
اورسب کو بلندیوں پر بلا رہا ہے
بلا رہا ہے کہ۔۔۔۔
رفعتوں کا سفیر ہے وہ
بشیر ہے وہ ، نذیر ہے وہ
سلام اس پر ، درود اس پر​
سلام اس ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر
جو نے نواوں کا آسرا ہے
جو سارے عالم کی ابتدا ہے
جو سب زمانوں کی انتہا ہے
سلام اس ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر
جو راہ حق پر بلا رہا ہے کہ رہنما ہے
جو سب کو حق سے ملا رہا ہے کہ حق نما ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
اظہرالحق نے کہا:
نعت کے کچھ اشعار جو بہت پسند ہیں ، پنجابی کے ہیں‌ ۔۔ ۔
میں لب کہ لیاواں کتھوں سوہنا تیرے نال دا
دنیا تے آیا نہ کوئی تیری مثال دا
یا پھر یہ شعر
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
چہرہ تیرا نور ونڈے ساری کائنات نوں
رب وی درود بھیجے تیری پاک ذات توں​
حوراں تو روپ ونڈیں حبشی بلال دا
دنیا تے آیا نہ کوئی تیری مثال دا​
مکہ رہنے والیا ، مدینے جانڑ والیا
ٹھڈئے کھان والیاں نوں ، سینے لانڑ والیاں​
تیرے بن ڈبیاں آں نوں کوئی نہیں تار دیا
دنیا تے آیا نہ کوئی تیری مثال دا۔​
سید مہر علی شاہ کی یہ نعت مجھے بہت پسند ہے۔اس کا مطلع
اج سک متراں دی ودھیری ائے کیوں دلڑی اداس گھنیری ائے
لوں لوں وچ شوق چنگیری ائے ، اج نیناں نے لایاں کیوں جھڑیاں
اور آخری شعر جو آپ نے لکھا
سبحان اللہ مااجملک، ما احسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء ،گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
 

الف نظامی

لائبریرین
سلامِ رضا

مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام​
فتح یاب نبوت پہ بے حد درود
ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام​
خلق کے داد رس سب کے فریاد رس
کہف روزِ مصیبت پہ لاکھوں سلام​
مجھ سے بے کس کی دولت پہ لاکھوں درود
مجھ سے بے بس کی قوت پہ لاکھوں سلام​
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام​
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام​
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھنوں کی لطافت پہ لاکھوں سلام​
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام​
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام​
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام​
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا
موج بحر سخاوت پہ لاکھوں سلام​
جس کو بارِ دوعالم کہ پروا نہیں
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام​
کھائی قرآن نے خاکِ گذر کی قسم
اس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام​
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​
بھینی بھینی مہک پر مہکتی درود
پیاری پیاری نفاست پہ لاکھوں سلام​
میٹھی میٹھی عبادت پہ شیریں درود
اچھی اچھی اشارت پہ لاکھوں سلام​
الغرض ان کے ہر مو پہ لاکھوں سلام
ان کے ہر وقت و حالت پہ لاکھوں سلام​
ان کے مولا کے ان پہ کروڑوں درود
ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام​
کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور
بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام​
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام​
 

الف نظامی

لائبریرین
نہ آسمان کو یوں سرکشیدہ ہونا تھا
حضورِ خاکِ مدینہ خمیدہ ہونا تھا​
اگر گلوں کو خزاں رسیدہ ہونا تھا
کنارِ خارِ مدینہ دمیدہ ہونا تھا​
حضور ان کے خلاف ادب تھی بیتابی
مری امید تجھے آرمیدہ ہونا تھا​
نظاہ خاکَ مدینہ کا اور تیری آنکھ
نہ اس قدر بھی قمر شوخ دیدہ ہونا تھا​
کنارِ خاک مدینہ میں راحتیں ملتیں
دل حزیں تجھے اشک چیدہ ہونا تھا​
پناہ دامنِ دشتِ حرم میں چین آتا
نہ صبر دل کو غزال رمیدہ ہونا تھا​
یہ کیسے کھلتا کہ ان کے سوا شفیع نہیں
عبث نہ اوروں کے آگے تپیدہ ہونا تھا​
ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہِ کامل کو
سلامِ ابروئے شہ میں خمیدہ ہونا تھا​
نسیم کیوں نہ شمیم ان کی طیبہ سے لاتی
کہ صبح گل کو گریباں دریدہ ہونا تھا​
ٹپکتا رنگِ جنوں عشق شہ میں ہر گل سے
رگ بہار کو نشتر رسیدہ ہوناتھا​
بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز
کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا​
مرے کریم گنہ زہر ہے مگر آخر
کوئی تو شہد شفاعت چشیدہ ہونا تھا​
تری قبا کے نہ کیوں نیچے نیچے دامن ہوں
کہ خاکساروں سے یاں کب کشیدہ ہوتا تھا​
رضا جو دل کو بنانا ہے جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قید خودی سے رہیدہ ہونا تھا​
از شاہ احمد رضا خان
 

الف نظامی

لائبریرین
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں​
گر ارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں​
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں​
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی بوبکر و عمر عثمان و علی
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ کون طائر سدرہ سے ہمکلام آیا
جہان خاک کو پھر عرش کا سلام آیا
جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے​
خط جبیں ترا ام الکتاب کی تفسیر
کہاں سے لاوں ترا مثل اور تری نظیر
دکھاوں پیکر الفاظ میں تری تصویر
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے​
کہاں وہ پیکر نوری کہاں قبائے غزل
کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل
کہاں وہ جلوہ معنی کہاں ردائے غزل
بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگنائے دل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے​
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے​
 

الف نظامی

لائبریرین
آیا ہے وفا کی خوشبو سے سینوں کو بسا دینے والا
آیا ہے جہان ویراں کو گلزار بنا دینے والا​
آیا ہے نگار ہستی کی زلفیں سلجھا دینے والا
آیا ہے عروس گیتی کے چہرے کو ضیا دینے والا​
آیا ہے تمدن کی شمعیں عالم میں جلا دینے والا
آیا ہے جہالت کی ظلمت دنیا سے مٹا دینے والا​
آیا ہے سسکتی قدروں کو پیغام بقا دینے والا
آیا ہے بھٹکتی نسلوں کو منزل کا پتہ دینے والا​
آیا ہے بشر کو جینے کے آداب سکھا دینے والا
آیا ہے بالاخر انساں کو انسان بنادینے والا​
مہکے ہے فضا سبحان اللہ، کہتے ہیں ستارے صل علی
دل کیوں نہ کہے ماشااللہ، جاں کیوں نہ پکارے صل علی​
 

الف نظامی

لائبریرین
مشہور شد بہ نعتِ محمد کلام ما
“ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما“​
در خادمانِ سرورِ دین است نامِ ما
فرض است بر شہانِ زماں احترامِ ما​
ائے نورِ حق ، تجلی ماہِ تمامِ ما
بنگر ہجومِ تیرگی صبح و شامِ ما​
باد صباست قاصدِ رنگیں خرامِ ما
ہر لحظہ می برد بہ مدینہ سلامِ ما​
ما زیں مقامِ عشق و محبت بہ حالتیم
شد در سگانِ آلِ محمد مقامِ ما​
یک جلوہ زیبت تو بیت الحرام ہست
یک پر توِ تو ہستی ما و قیامِ ما​
جز عشقِ نورِ ذات کسے نیست در جہاں
مقصودِ ما و منزلِ ما و امامِ ما​
امروز روح حافظِ شیراز مست شد
امروز لذتے است عجب در کلامِ ما​
مظہر سکوں طلب ز درِ سید الوجود
ایں است بابِ رحمت و باب السلامِ ما​
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
تری نگاہ سے ذرے بھی مہر وماہ بنے
گدائے بے سروساماں جہان‌ پناہ بنے
رہ مدینہ میں‌قدسی بھی ہیں جبیں فرسا
یہ آرزو ہے مری جاں بھی خاکِ راہ بنے
زمانہ وجد کناں اب بھی ان کے طواف میں ہے
جو کوہ و دشت کبھی تیری جلوہ گاہ بنے
حضور ہی کے کرم نے مجھے تسلی دی
حضور ہی مرے غم میں مری پناہ بنے
ترا غریب بھی شایانِ یک نوازش ہو
ترا فقیر بھی اک روز کجکلاہ بنے
جہاں جہاں سے وہ گذرے جہاں جہاں ٹھہرے
وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے
کریم! یہ بھی تری شانِ دلنوازی ہے
کہ ہجر میں مرے جذبات اشک و آہ بنے
وہ حسن دے جو تری طلعتوں کا مظہر ہو
وہ نور دے جو فروغِ دل و نگاہ بنے
از حافظ مظہر الدین مظہر
 

الف نظامی

لائبریرین
رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ​
جس کو قرص مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو
ان کے خوانِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ​
ماہِ من یہ نیر محشر کی گرمی تابکے
آتشِ عصیاں میں خود جلتی ہے جانِ سوختہ​
برقِ انگشتِ نبی چمکی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینہ مہ میں نشانِ سوختہ​
مہرِ عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز
بیش ذراتِ مزارِ بیدلانِ سوختہ​
کوچہ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم
بال و پر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ​
بہرِ حق اے بہرِ رحمت اک نگاہِ لطفِ بار
تابکے بے آب تڑپیں ماہیانِ سوختہ​
روکشِ خورشیدِ محشر ہو تمہارے فیض سے
اک شرارِ سینہ شیدائیانِ سوختہ​
آتشِ تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کباب
خضر کی جاں ہو جلا دو ماہیان سوختہ​
آتشِ گلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ​
لطفِ برقِ جلوہ معراج لایا وجد میں
شعلہ جوالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ​
ائے رضا مضمون سوزِ دل کی رفعت نے کیا
اس زمینِ سوختہ کو آسمانِ سوختہ​
از شاہ احمد رضا خان
 

فرید احمد

محفلین
سلام پہنچے
الٰہی محبوب کل جہاں کو
دل و جگر کا سلام پہنچے

نفس نفس کا درود پہنچے
نظر نظر کا سلام پہنچے

بِساط عالم کی وسعتوں سے
جہان بالا کی رفعتوں سے

مَلَک مَلَک کا درود اترے
بشَر بشَر کا سلام پہنچے

حضور کی شام شام مہکے
حضور کی رات رات جاگے

ملائکہ کےحسیں جلو میں
سحر سحر کا سلام پہنچے

زبان فطرت ہے اس پےناطق
یہ بارگاہِ نبی صادق
شجر شجر کا درود جائے
حجر حجر کا سلام پہنچے

رسولِ رحمت کا بارِ احساں
تمام خلقت کےدوش پر ہے

تو ایسےمحسن کو بستی بستی
نگر نگر کا سلام پہنچے

مرا قلم بھی ہے انکا صدقہ
مرےہنر پر ہےانکی رحمت

حضور خواجہ مرےقلم کا
مرےہنر کا سلام پہنچے

یہ التجا ہےکہ روز محشر
گنہگاروں پہ بھی نظر ہو

شفیعِ امت کو ہم غریبوں کی
چشم تر کا سلام پہنچے

”۔۔۔۔۔۔“ کی بس دعا یہی ہے
فقیر کی اب صدا یہی ہی

سواد طیبہ میں رہنےوالو کو
عمر بھر کا سلام پہنچے

صلی اللہ علیہ و اٰلہ و اصحابہ و سلم
 
مدیر کی آخری تدوین:

mamoon rashid

محفلین
سراپا چمن ہے بہار مدینہ
دوام آشنا ہے بہار مدینہ


مدینہ کےپھولوں کو کیا پوچھتےہو
رگِ گل ہے ہرنوکِ خارِ مدینہ


دلوں پر ہےجس کی حکومت کا سِکّہ
زہےشوکتِ تاجدارِ مدینہ


کسی چیزکی اس کو حسرت نہیں ہے
میسر ہو جس کو غبار مدینہ


یہ مسجد، یہ منبر، یہ روضہ، یہ گنبد
ہےفردوس ہر یادگار مدینہ


وہاں کی زمین عرش سےبھی ہےاعلی
جہاں دفن ہےتاجدار مدینہ


تہجد، تلاوت، تضرع، دعائیں
خوشا سعیِ شب زندہ دارِ مدینہ

حنین و تبوک اور بدر و اُحد میں
صف آرا ہوئےشہسوار مدینہ


کبارِ مدینہ تو یوں بھی بڑے ہیں
بڑوں سےبڑے ہیں صغارِ مدینہ


تمنا ہےعمر رواں اپنی گزری
بہ ہمراہ لیل و نہار مدینہ


فریدی چلو چل کےروضہ پہ کہنا
سلام آپ پر تاجدار مدینہ
 

الف نظامی

لائبریرین
مولائی یاصل وسلم دائما ابدا
علی حبیبک خیرالخلق کلھم​
محمد سید الکونین والثقلین
والفریقین من عرب و من عجم​
 

الف نظامی

لائبریرین
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا​
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طہ​
 

الف نظامی

لائبریرین
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے اجالا کردے​
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو​
خیمہ افلاک کا ایستادہ اس نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے​
دشت میں، دامنِ کہسار میں ، میدان میں ہے
بحر میں،‌موج کی آغوش میں ، طوفان میں ہے​
چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے​
چشم افلاک یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شان رفعنا لک ذکرک دیکھے​
از علامہ اقبال
 

الف نظامی

لائبریرین
ہو چاہے اک زمانہ کسی رہنما کے ساتھ
ہم ہیں قسم خدا کی فقط مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ​
منزل پہ ہم نہ پہنچے تو پہنچے گا اور کون
ہم جادہ سفر میں ہیں کس پیشوا کے ساتھ​
یہ ساری کائنات ہےلولاک آشنا
منسوب ہر چراغ ہے نور الہدی کے ساتھ​
رشتہ ہر ایک صبح کا شمش الضحی سے ہے
ہر شب کو ربط خاص ہے بدرالدجی کے ساتھ​
ممکن نہیں کہ بابِ کرم اس پہ وا نہ ہو
شامل ہو اگر حسن عقیدت دعا کے ساتھ​
ہم جانتے ہیں تقاضائے بندگی
صل علی کا ورد بھی ذکرِ خدا کے بعد​
اقبال نعت گوئی بھی ہے اک شرف مگر
لازم ہے اتباع بھی مدح وثنا کے بعد​
 
Top