[
ہم نے بچپن میں ایک سو گولز (goals) کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔ میری ننھی ہمشہ چاہتی تھی کہ وہ بھی سب کچھ کرے جو میں کروں۔اِن گولز میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔ مشکل والے گولز کی فہرست میں 'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلیش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اورکسی کی محبت میں گرفتار ہوجاناتھا۔ آسان گولوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا، پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دوہنا، اور گلایئڈر اڑنا ۔میں نے پچیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلئے ہیں۔
ہفتہ کی صُبِح بہار تھی۔ میں سمند رکی طرف کے برآمدہ میں آرامدے کرسی پر آنکھ بند کئے لیٹا تھااچانک زلزلہ سا آیا۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے ہاتھ پیر چلائے اور میری آنکھیں کھل گیں۔میں نے گرتے گرتے سعدیہ کو پکڑ نے کی کوشش کی اور ہم دونوں فرش پر لوٹ پوٹ رہے تھے۔ سعدیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے ٹھوسے مار رہی تھی اور زور زور سے ہنس رہی تھی۔ میرے پاس کویئ چارہ نہیں تھاکہ اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لوں۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔
نورا نے برآمدے میں آکر مجھے فون دے دیا۔
" جی"
"سلام۔ میں سکینہ بول رہی ہوں۔ "
" سلام ۔ اچھا میں تو سمجھ رہا تھا کہ میرے کانوں میں مدہم ستار بج رہا ہے" ۔
" کیا کہا آپ نے؟" لیکن فوراً سمجھ گی کہ میں کیاکہہ رہا تھا۔ اور وہ کِھل کِھلاکرہنس پڑی جیسے ستار نے ایک راگ سننایا۔
" میں نے آپ دونوں کوPasedena کے ہوٹل رٹز کارلٹن میں ایک استقبالیہ میں بُلانے کے لے فون کیا تھا۔" ستار پھر سےبجا۔
" میں آپ کی ملاقات میرے دوستوں سے کرانا چاہتی ہوں"۔
میں نے کہا۔" کب اور کتنے بجے"۔
" آج شام کو سات بجے"۔ اُس نے ہنس کر کہا۔
" تم کو ملنے کیلئے میں تو پختونستان بھی آسکتا ہوں۔"
" جھوٹا ، ایک دن میں بلاؤں گی، دیکھوں گی کہ آتے ہو؟۔" سکینہ نے قہقہ لگایا
"ڈریس فارمل۔"
"کس بات کا استقبالیہ؟ " میں نے پوچھا۔
" صوبہ سرحدکے شادی کے لباس کا فیشن شو"
" دوستور موافق، کیا میں شلوار کرتا پہنوں؟
"سعدیہ پہن سکتی ہے۔ تم نہیں"۔
" تم سعدیہ سے خود بات کرلو۔ االلہ حافظ"۔
"اللہ حافظ۔" اس کی شیرین آواز نے کہا۔
میں نے فون سعدیہ کو دیا۔
١٧٧٠ ء تک پیسیڈینا (pasadena )شوشون قبیلہ کا ملک تھا۔ ان کے گاؤں آرریو سیکو پہاڑوں میں اوراسکی وادیوںکے کناروں پر پھیلے تھے۔ spain نے طاقت کے بل پر مقامی انڈین کو عیسایئ بنا یا اور ان سے زبردستی کی مزدوری لینے لگے۔ ١٨٣٣ ء میں میکسیکو نے اسپین کو ہرا کر سان گیبریل کے مشن کو سیکولر بنادیا۔ ١٨٥٢ میں کیلفورنیا ، یونا ئیٹڈ اسٹیٹس کا ممبر بن گیا۔ پیسیڈینا کی پہلی ' گلابوں کی پیریڈ ١٨٩٠میں ہویئ اور گلابون کی پیریڈ ا 'ٹورنامینٹ' شروع ہوا۔ ہر سال پہلی جنوری گلابوں کی پیریڈ کا ٹورنامینٹ ہوتا ہے ۔ مشہور کالج کیل ٹیک بھی پیسیڈینا میں ہے ۔ انیس سو تیس میں جیٹ پروپلشن لیب نے ایکس پلورر راکٹ بنایا۔ جے پی ایل اورناسا مل کر کام کرتے ہیں۔ یہاں پر پاتھ فاینڈرپروگرام کے لئے لینڈ رووربنایا گیا تھا جو میریخ میں کامیابی سے اترا اورگاڑی کی طرح چلا۔
میں گاڑی چلارہا تھا اور سعدیہ پسینجرتھی۔ ہم ٹوٹین فری وے سے لیک اسٹریٹ پر نکلے اورنول پارک ایوینو پر موڑے۔ سڑک کے دونوں طرف کجھور کے درخت ہیں اور محلوں کی دیواریں رنگ بھرے پھولوں سے سجی ہیں۔ ہوا میں چنبلی کی خو شبو پھلی ہے۔ پیساڈینا دولت والے امیروں کے رہنے کی جگہ ہے۔ وہ امیر لوگ جن کو دولت وراثت میں ملتی ہے 'پرانی دولت' والے امیر کہلاتے ہیں، جیسے راک فیلرپرانی دولت والے امیر ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی دولت خود کمایئ ہے وہ ' نئی دو لت' والے کہلاتے ہیںجیسے مایکروسافٹ کا بل گیٹس ۔ تقریباً ایک میل کے بعداس سڑک پر رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔ ماونٹ سین گیبریل کے دامن میں٢٣ ایکر کے خوبصور ت باغ پر ایک عظیم الشان قعلہ کی طرح کی بلڈنگ رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔
ہم نے ہوٹل کے پیش دہلیز پرگاڑی روکی۔ خدمتگار نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں نے اُسکو گاڑی کی چا بی دی۔میں اور سعدیہ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ پختون کا فیشن شو باہرجاپانی گارڈن میں تھا۔ راستہ میں سکینہ ملی۔ ہم نے سکینہ کو ہماری فرانسی رسم کے مطابق دونوںگالوں پہ پیار کیا۔
" تم سامنے کی نشیت پر بیٹھنامیںافغانہ کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں ہم ایک ماڈل کم ہیں۔ افغانہ اسکی جگہ لے گی"۔
میں نے قہقہ لگاکر کہا۔ "اللہ تمہارا حافظ ہوننھی"۔
میں نے گارڈن کا رُخ کیا۔ لال دروا زہ پر پگوڈا کیطرح چھت تھی۔دروا زہ کے دونوں طرف پتھرکا ایک مشرقی شیربیٹھا ہے۔ یہ چھوٹی وادی داخل ہونے پرصنوبر، میپل اور پھلوں کے درختوں سے بھری ہے۔میں پگوڈا میں داخل ہوا۔ شہر کے سو معزیز حضرات جھیل کیطرف منہ کئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میں پہلی قطرمیںجاکر بیٹھ گیااوراپنے برابربیٹھے ہوئے جوان لڑکے سے اپنا تعارف کرایا ۔میںاسکو میرا نام بتاتا ہوں وہ مجھے اپنا نام بتاتا ہے۔ میں نام سے پہچان جاتا ہوںکہ یہ سکینہ کا چھوٹا بھایئ ہے۔ جھیل کے پانی پر بنے ہوے اسٹیج پر سکینہ نظر آتی ہے۔
وہ مائک پر اعلان کرتی ہے۔ "خواتین و حضرات میںآپ کی خدمت میں پختون کے 'پارٹی لباس' پیش کرتی ہوں"۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری پہلی ماڈل مس مِیرا"
ایک خوبصورت اورحسین لڑکی اسٹیج پرآئی۔
" مِیرا ،گھٹنوں تک لمبی ریشم اورشیفان کی سفید قمیض پہنے ہیں آستینں کھلی ہیں۔ قمیض کا نچلا حصہ سیاہی ملا سفید رنگ ہے۔ گلے اوربغل کے اردگرد ریشمی کشیدہ کاری کی گی ہے۔ مِیرا ، ملتی جُلتی سفید باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں۔ ڈوپٹہ پرنٹڈ شیفان کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں۔"
مِیرا، سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اوررآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی، پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری دوسری ماڈل مس عِفَت"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
عِفَت ، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہویئ ریشم کی گلابی قمیض پہنے ہیں۔ انکی ہرے رنگ کی پتلی شلوار کے پائنچوں اور سامنے کی طرف کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ گلابی رنگ کا ہے جس کا پَلّو ہرے رنگ کا ہے۔
عِفَت سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور میرا ، کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے پھر تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری تیسری ماڈل مس عمان"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
"عمان ریشم اور شیفان کی فیروزی اوراعودے رنگ کی دوہری قمیض پہنے ہیں جس کے گلے اور دامن پر ہاتھ سے کشیدا کاری کی گی ہے۔ شلوارکریپ سِلک ٹایئ اینڈ ڈایئ۔ ڈوپٹہ شیفان ٹایئ اینڈ ڈایئ"
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے ایک دفعہ اور تالیاں بجائیں۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری چوتھی ماڈل مس آمینہ"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
"آمینہ کھلے آستینوں کی گھٹنوں تک ریشمی شیفان کی لمبی نیلی قمیض پہنے ہیں۔ گلے اوربغل کے اردگرد ریشم میںکشیدہ کاری کی گی ہے۔ ملتی جُلتی نیلی باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں ۔باریک ڈوپٹہ پرنٹڈ ریشمی شیفان ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے۔"
آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری مہمان ماڈل مس افغانہ"۔
افغانہ اسٹیج پرآیئ۔
شان نے کہا۔" سبحان االلہ ۔ یہ تو سب سے پیاری لڑکی ہے۔ جیسے چاند نکل آیا" ۔
میں نے کہا ۔"اسٹیج پر سب سے پیاری تو اناؤنسر ہے۔"
شان نے غصہ سے کہا۔ "مسٹر، وہ میری بہن ہے" ۔
میں نے کہا۔" تو تعریف کرنا کوئ برائ بات تو نہیں۔تم نے میری بہن کو بھی تو پیاری لڑکی کہا۔"
"افغانہ تمہاری بہن ہے۔" شان نے حیرت سے کہا اور پھر چپ ہوگیا۔
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ ، ریشم، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہوی کالی قمیض پہنے ہیں۔ کالی رنگ کی پتلی شلوارکے پائنچوں پر ریشم کی کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ بھی کا لے رنگ کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اورگھونگرو پرنٹڈ ہیں"۔
افغانہ سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے خوب تالیاں بجایئں۔
"خواتین و حضرات میں اب ہم پندرہ منٹ کا وقفہ لیں گے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل یا شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرئیں گے"۔
اس وقفہ میں کچھ ویٹرس تھالوں میں چپلی کباب اور نان اور دوسرے روح افزا کا شربت لےکر گھوم رہے تھے۔ کچھ تھالوں میں گلاب جامن، جلیبی اور قلاقند تھے۔
میں نے ایک رکابی میں نان رکھااور اس پر چپلی کباب پھر کرسی پر بیٹھ کر مزے سے کھایا۔
وقفہ میں سعدیہ میرے پاس آئ ۔ میں نے اسکا شان سے تعارف کرایا۔ اس لڑکے کا نام شان ہے۔اس نے کہا کہ تم اسٹیج پر سب سے پیاری لڑکی ہواور یہ تم سے پسند کرتا ہے۔" شان کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ میں نے کہا تم دونوں باتیں کرو میں میٹھا کھانے جاتا ہوں۔
٭ ٭٭
"خواتین و حضرات میں ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل اور شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرتے ہیں"۔
سکینہ نے پکارا۔ "مس مِیرا "۔
مِیرا اسٹیج پر آئ۔
" میرا نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا فیروزی لینگا اور گلابی چولی پہنی ہے۔ دونوںکاتان ریشم ہیںأن پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںریشم کا کام ہے"۔
مِیرا سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا۔ "مس عِفَت"۔
عِفَت اسٹیج پر آئ۔
" عِفَت نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا ہرا لینگا اور اعودہ چولی پہنی ہیں۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر داباکا، ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے ۔ عِفَت بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوں میں کنگن اورپیروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میںمندی کا کام ہے " ۔
عِفَت سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے میر ا کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " مس عمان"۔
عمان اسٹیج پر آئ۔
"عمان نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا نارنگی لینگا اورپیلی چولی پہنی ہے۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیدا کاری ہے ۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں ریشم کا کام ہے ۔عمان کے بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مندی کا کام ہے اور عمان نے چنبیلی کا عطر لگایا ہے "
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " مس آمینہ"۔
آمینہ اسٹیج پر آئ۔
آمینہ، نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا چاندی کے رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوںخالص ریشم کی ہاتھ سے بناے گے ہیںأن پر ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص چاندی کا کام ہے۔آمینہ کے بالوں میںچاندی کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کا نوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور آمینہ نے بھی چنبیلی کا عطر لگایا ہے " ۔
آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ اور رآہستہ سے مکمل دو دفعہ گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ ہماری مہمان مس افغانہ۔
افغانہ اسٹیج پر آئ۔
شان نے کہا۔" سبحان اللہ ۔ امیں آپ کی بہن سے شادی کروں گا۔ کیا آپ کی اجازت ہوگی" ۔
میں نے ہنس کر کہا ۔" پہلے اُسکا دل جیتو۔ پھراُس سے ہی اجازت لو۔ "
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا لال رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوں خالص ریشم کے ہاتھ سے بناے گے ہیںان پر ڈائمنڈ اور خالص سونے کا کام ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص سونے کا کام ہے ۔افغانہ کے بالوں میں سونے کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور افغانہ نے گلاب کا عطر لگایا ہے " ۔
افغانہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اور آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے زیادہ دیر تک تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے کہا ۔ " اُپ اور سعدیہ اپنی گاڑی میں ہماری گاڑی کا پیچھا کریں۔ ہماری رہایش یہاں سے صرف پانچ منٹ ہے " ۔
کچھ منٹ بعد ہم سان مارینو کے علاقہ میں ایک حویلی میں داخل ہو رہے تھے۔ سکینہ نے مین گیٹ پر بٹن دبایا اور انٹرکام پر گارڈ سے بات کی۔ دروازہ کھلا اور ہماری دونوں کاریں حویلی میں داخل ہو گئیں ۔ مین گیٹ خود بہ خود بند ہو گیا۔ ہم نے سکینہ کی کار کا پورچ تک پیچھا کیا اور وہاں گاڑی روک دی۔ گاڑی سے نکل کر ہم مکان میں داخل ہوئے۔ اسٹیڈی سے گزرکر ہم ایک کو رڈو ر میں آکر بائیں ہاتھ کے کمرے میں داخل ہوگئے۔کمرے میں میری عمر کے سات لوگ میز کے دونوں طرف بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر سب خاموش ہوگے۔ سکینہ میز کے شروع میں بیٹھی اور مجھے اپنے سیدھے ہاتھ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ادر سعدیہ کو الٹے ہاتھ پر بیٹھنے کو کہا۔ ہم ایک نیا پروگرام شروع کررہے ہیں۔ میں نے آپ لوگوں کو پروگرام کے لےے چنا ہے۔ سکینہ نے یہ کہہ کر سعدیہ کی طرف سے لوگوں کا تعارف شروع کیا۔
افغانہ جب تک شان امریکہ میں ہے افغانہ اسکے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لیے گی۔
شان ، شان کوہا ٹ میں فلیڈورک کرتا ہے۔ یہ ان لڑکیوں کی مدد کرتا ہے جو شوہر اور خاندان کے ظلم کا شکار ہیں۔ کام بہت خطرناک ہے اس لے شان کا کام انڈر کور ہے۔
انور بوسٹن میں رہتے ہیں اور یہ نیٹ ورک انجینر ہیں۔ ان کی ہی مدد سے میں آپ لوگوں سے باتیں کرتی ہوں۔
اِرم نیویارک سے ہیں۔ انکی تعلیم انفارمیشن ٹیکنا لوجی میںہے۔ ارم ویب ماسٹر ہیں۔
نسیمہ میڈیکل اسٹوڈینٹ ہیںاور لاس انجیلس میں ہمارے پروگرام کے لئے فنڈ حاصل کرتی ہیں۔
سونیہ شکاگو سے ہیں ۔ یہ قانون کی طالبہ ہیں اور یہ' تبادلہ خیال کی نگراں ہوگی۔
اکرم برکلے یونیورسٹی میں صوبہ سرحد کی تاریخ پر' پی ایچ ڈی' کررہے ہیں۔
جمیل کولمبیا یونیورسٹی کے ٹیچر ٹرینیگ کالج کے اسٹودنٹ ہیں۔
نیدو صوبہ سرحد کی اسمبلی کی ممبر ہیں۔
یہ سب احباب پختون ہیں۔
سکینہ نے مائک میری طرف بڑھایا۔ میں نے میرے سامعین کی طرف دیکھا تمام جوان، قابل اور پڑھے لکھے احباب۔ان کو کیسے بتایا جائے کہ میرا طریقہ بہتر ہے اور اسکا نتیجہ کامیابی ہوگا؟۔ میں کیوں نا ان ہی سے کہلوادوں کہ یہ طریقہ مناسب ہے۔
میں نے سوال کیا۔ تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟"
طالب علم کو ایک مخصوص تربیت کے لئے تیار کرنا۔ " جمیل نے سرسری طور سے کہا۔
انور، ارم اور نسیمہ نے جمیل سے اتفاق کیا۔
اکرم نے کہا۔ " یہ صرف ایک تعریف ہے۔ طالب علم اسلے تعلیم حاصل کرتا ہے کہ ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاح کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے۔"
سونیہ نے کہا ۔ " تعلیم حاصل کرنے کا مقصد علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا ہے"۔
نیدو نے کہا ۔" تعلیم برین واشنگ کے لئے دہی جاتی ہے ۔ تاکہ لوگوں کے عقائد بدلے جایئں"۔
میں نے کہا۔ "آپ لوگ کی تعریف صحیح ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے کے فائدے اور نقصان بتاتی ہیں ۔ خاصیت نہیں۔ جب ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں عقل و دماغ پر اسکا کیا اثر ہوتا ہے؟"
شان بولا۔" ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے"
سعدیہ بولی۔" اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں"۔
جمیل نے قہقہ لگا کر کہا۔" خصوص تربیت برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔
سونیہ نے قہقہ لگا کر کہا۔"علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔
اکرم نے قہقہ لگا کر کہا۔" ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاع کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے بر ابر سوچ میں اصا فہ اور خیالات کا تجزیہ"
نیدو نے قہقہ لگا کر کہا۔ " برین واشنگ عقاید بدلنابرابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"
میں نے کہا۔ " دوسرے الفاظ میں یہ تعریف ' علم سے ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں' تمام دوسری تعریفوں کا مجموعہ ہے"۔
"ہمارا خیال ہے کہ اگر ہمارے ویب سائٹ ان تمام تعریفوں کا مجموعہ ہو تو ہم بہت جلد اس اور اسطرح کے غیر اسلامی اور نقصان دہ عقاید کو موجودہ دور کے انسانیت سے مطالق عقایئد میں تبدیل کرسکتے ہیں"۔
سکینہ نے کہا۔ "ہمارا پہلا مقصد ان لڑکیوں کو علم کے وہ اوزار دےنا ہے جو زبان، آداب اور تاریخ کہلاتے ہیں"۔
انور نے کہا۔" زبان سے آپ کا مطلب ا، ب، پ۔ ہم چھوٹے تھے۔ اماں مارتی تھیں ۔ہم روتے تھے یا ذیادتی کے خلاف جہاد "
انور کی بات پر سب ہنس پڑے۔
"پاکستان میں اردو بولی جاتی ہے۔ دفتروں اورعدالتوں میں انگریزی لکھی جاتی ہے ۔ پختونستان میں پشتو بولی جاتی ہے۔ اب دنیا میں اسی بھی کروڑں پاکستاں کی لڑکیاں ہیں جو اردو بولتی ہیںلیکن پڑ ھ نہیں سکھتیں۔ وہ رومن اردو ایٹرنیٹ میں استمال کرتی ہیں" سکینہ نے جواب دیا۔
"ہم پختون کی لڑکیوں کو آسانی والا اردو اور پشتوکا اخبار پڑھنا سیکھانا چاھتے ہیں۔ ہم انکو اردو کو رومن اسکریپٹ میں لکھنا سیکھا نا چاہتے ہیں۔ ہم انکو انگریزی کے وہ الفاظ سیکھا نا چاھتے ہیں جو پاکستان میں روز مرہ اخبار، ریڈ یواور ٹیلیویزن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ان کے علم کو حاصل کرنے کی وجہ ہونگے۔یہ چھ سال کا نصاب ہے۔اس کو جمیل خصوص تربیت کہتے ہیں ۔سکینہ نے زبان کی اہمیت بیان کی۔
"اور آداب!" ، سوینہ نے پوچھا۔
" ہاں آداب۔" سکینہ نے مسکرا کر کہا۔ " جس کو میں اچھی دھلائ کہتی ہوںدو الفاظ میں برین واشینگ۔ پختون والی کے کچھ آداب موجودہ زمانے میں معاشرہ کی بھلائ کے بجاے برائی کا سبب ہیں۔ اسلام کے کچھ آداب میں موجودہ زمانے سے اختلاف ہے۔ ہمیں ان لڑکیوں کو اجتہا سیکھانا ہے۔ ہم ان کا بدل سکھائیں گے۔ ان کو ملک کے مطالق اچھی باتیں بتائیں گے۔اور ملک کی تاریخ کی اچھی مثالوں سے روشناس کریں گے "۔ سکینہ نے کہا۔
" تاریخ! " نسیمہ نے پوچھا۔
" اکرم نے بلکل صحیح کہا کہ ماضی کو جانے بغیر نہ تو حال کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مستقبل کی پہچان۔ ہم ان کو آسان لفظوں میں سکھا نا چاہتے ہیں کے وہ کون تھے اور ا ب وہ کیا ہیں"۔
ارم نے سوال کیا۔ " ہم کسطرح سے خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کو اس پروگرام میں شامل کریں گے؟"
سیکینہ نے کہا "
ایک ، ہم میں سے جو بھی کسی خانذادی اور ملک ذادی کو جانتا ہے وہ اسکو ممبر بنانے کی کوشش کرے گا۔
دو۔ ویب سا ئیٹ پر تبادلہ خیال اور نظم و نثر کے دو سیکشن جوا ن خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کی کشش کے لئے ہیں۔ اس کو بھی استمعال کیا جاسکتا ہے۔
تین ۔ جب ایک خاندان میں ایک خان ذادی اس کام کے لئے تیار ہو گی تو وہ ا پنے خاندان میں اور دوسری لڑکیوں کو بھی راضی کرسکتی ہے"۔
چار۔ صوبہ سرحدمیں بارہ مشہور قبیلے ہیں۔ اور تقریاً اتنی ہی اُنکی شاخیں ہیں۔
" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اس پروگرم میںکیوں شامل ہوںگی؟ "
نیدو بولی ۔" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود چاہتی ہیں۔ وہ اس مصلہ سے بھی واقف ہیں۔ اور جانتی ہیں کہ اگر پختوں کی عورت کو زمانے کے ساتھ ترقی کرنی ہے تو تمام پختون کی عورتوں کو اس میں حصہ لینا ہوگا "۔
نسیمہ نے سوال کیا۔ " کیا اس پروگرام میں حصہ لینا خان ذدایوں اورملک ذادیوں کےلئے خطرناک ہے" ۔
" نہیں۔ کیونکہ ظاہری طور پر فوراً کویئ تبدیلی نہیں ہوگی جو کہ سرپرستوں کو خبردار کرے۔ خان ذادیاں اور ملک ذادیاں ان بچیوں کو اب بھی اپنی بہنوں کیطرح رکھتی ہیں۔" سکینہ بولی۔
جمیل نے مسکرا کر کہا۔ " یہ نہ صرف ایک عمدہ بلکہ نیک نیت کام ہے۔میں تیار ہوں "۔
ارم، نسیمہ اور سونیہ نے اپنے سر اثابت سے ہلائے۔
"کسی بھی کام کو کرنے کے روپیہ پیسہ کی ضررورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے فنڈ ایڈورٹائزمینٹ سے حاصل کریں گے۔ ویب سایٹ پر این جی او اور ہمارے مقصد سے ملتی جلتی دوسری آرگینایئزیشن کیpaid ایڈورٹائزمینٹ کی جاسکتی ہے۔ "سکینہ نے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ۔
سمندرکا پانی واپس جا چکا تھااورگیلی ریت پر رنگ بکھرا ہوا تھا۔ سورج نے افق پر نارنجی کا رنگ اختیارکرلیا تھا۔ سعدیہ نے ایک سفید لمبا ڈریس پہنا ہوا تھا۔ اس کے لمبے کھلے بال ہوا سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ اُسے سمندر سے بہت محبت تھی۔ اس کو یہ معلوم تھا اُس جگہ جہاں سمندر کا کھارا پانی ریت سے ملتا ہے دنیا کے ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ بھیا نے کتنی دفعہ کہاتھا، سعدیہ اگر تم آپنے ذہن کو خاموش کرلو تو تم ہر چیز کی آواز کو سن سکتی ہو۔
"شان اور وہ آج یہا ں کیوں کھانا کھایئں گے؟ " وہ پوچھنا چاہتی تھی مگر دل نے کہا انتظار کرو۔ حالانکہ اسکو اندازہ تھا کہ شان کا سوال کیا ہوگا؟۔
یہاں آنے سے پہلے انہوں نے بیورلی ڈرایؤ پر رُک کر 'گنگاجن' رسٹورانٹ سے پِکنِک کی باسکٹ بنوالی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور کھاناشروع کیا۔ آلو بھرے سموسے، پاپڑ ، کباب کی پلیٹ جس میں سیخ کباب، تنگری کباب، چکن تکہ اور تندوری چکن تھا، گارلک نان اور قلاقند ۔ کھا نا بڑا مزے دار تھا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور چائے پی۔
سعدیہ سوچ میں غرق تھی کہ شان مجھے یہاں کیوں لایا ہے۔ اور شان اس سوچ میں تھا کہ سعدیہ میرے سوال کا کیا جواب دے گی؟ سوچ میں گم دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھا۔
“شان“
“سعدیہ“
دونوں نے ایک دوسرے کا نام ایک ساتھ لیا۔
شان نے کہا۔" لیڈیز فرسٹ۔۔"
سعدیہ نے کہا " جناب پہلے آپ "
شان نے سعدیہ کو دونوں ہاتھ تھام کے اسکو کھڑا کیا۔سعدیہ کا چہرہ سمندر کیطرف تھا۔سورج آدھا غروب ہوچکا تھا اور سورج کی کرنیں سمندر کے پانی پر قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ سعدیہ کادل ، ریل کے اِنجن کیطرح دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے خواہش کی کہ دل دھیرے چلے مگر دل نے اورذیادہ ڈھڑکنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی پوری توجہ دل سے ہٹا کر شان کیطرف کی۔
شان نے اپنا سیدھا گھٹنا ریت میں رکھ دیا اور سعدیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کہا۔ " تم سمند رکی جل پری ہو، میں پہاڑوں کا باغی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تم اس ساحل سمندر سے محبت کرتی ہو۔اسلے میں یہ سوال تم سے کرنے یہاں لایا ہوں۔ میری محبت تمہارے لئے اس سمندر کی طرح گہری ہے اورمیری محبت اس سمندرکی طرح وسیع ہے۔ میں تم سے جدا نہیں رہ سکتا۔ میں تمہارا ہاتھ ہمشہ کیلے چاہتا ہوں ۔ سعدیہ تم اور میں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہوجائیں۔ مجھ سے شادی کر لو۔
سعدیہ نے تو صرف یہ سننا ۔"سمندر، جل پری، میں باغی، ساحل، محبت ، جدانہیں، ہاتھ، شادی" اور اس نے چلا کر کہا۔
" ہاں، میں، تم سے شادی کروں گی۔میں تمہاری بن جاوں گی۔تم میرے ہو جاوگے"۔
سعدیہ کا دل اب نارمل اسپیڈ سے چل رہا تھا۔
شان نے کھڑے ہو کر سعدیہ کوگلے سے لگا کر اس کے لبوں پر پیارکیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیارکرنے لگے۔
میں اگست میں گریجویٹ ہوگیا۔اباجان اور اماجان سے دنیا دیکھنے کے بارے میں کافی عرصہ سے بات چیت کررہا تھا ۔ پارٹ ٹایئم نوکری کی تنخواہ بھی اسی لئے جمع کررہا تھا۔ اباجان اور اماجان نے کہا تھاکہ وہ بھی اس میں مدد کریں گے۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں نے بچپن میں، سو 'goals' کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔اِن گول میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔ مشکل والوں گولوں کی فہرست میں 'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلیش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اورکسی کی محبت میںگرفتار ہوجاناتھا۔ آسان والوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا، پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دونا، گلایئڈر میں اڑنا تھا۔ میں نے بیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلیئے ہیں۔جب میں نے اعلان کیا کہ میں چلا۔کویئ بھی شخص میرے اس فیصلہ خوش نہیں تھا۔ اباجان اور اماجان کو پتہ تھا کہ میں گریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن ان کے خیال میں یہ وقت سفر کے لے صحیح نہیں تھا۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں گرریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن وہ مجھے اپنی ساتھ پختونستان لئے جانا چاہتی تھی۔ سکینہ اُداس تھی۔ اس نے بھی یہی سوچا تھا کہ میں اسکے گروپ کا حصہ بن جاؤں گا اور ہم دونوں کا مستقبل ساتھ ہوگا۔ میں سب کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ یہ صرف چار سال کی بات ہے۔ زندگی بھر نہیں۔ میں پچیس سال کا صرف ایک دفعہ ہونگا۔ میں اپنے گول مکمل کرنا چاھتا ہوں اس کے بعد میں آپ لوگوں کو کوہاٹ میں جوائین کرلوں گا۔
٭٭٭
سین وان ماؤنٹین کی قدموں میں ، اوراس کے شمال میں اور کولوراڈو پٹھار ریگستان کے مغرب میں "ر یج وے"ہے۔ میں جیمس ماونٹنیرینگ کے آفس پہنچا۔ کاونٹر پر ایک پیاری سی لڑکی کھڑی تھی۔اس کے گال سرخ سیب کی طرح تھے۔
"ہیلو۔" میں نے اسکے نیم ٹیگ پر نگاہ دوڑایئ۔ " جیسمین "
"ہای۔ میں آپ کی کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟ " گال سرخ سیب نے کہا۔
میں نے دل میں کہا میرے ساتھ ڈنرپر چلو آج شام۔ مگر زبان نے کہا۔
“ میں جیمس انڈرسن سے ملنا چاھتا ہوں۔"
اس نے حیرت سے مجھ کو دیکھا۔ "کیا آپ کے پاس اپائنٹ منٹ ہے؟"
" نہیں"۔ میں نے کھسیا کے کہا۔
" کیا میں آپ سے پوچھتی سکتی ہوں کے آپ کو مسٹر جیمس انڈرسن سے کیا کام ہے؟"
میں ماونٹ ایورسٹ کو چڑھنا چاھتا ہوں۔ اس سے پہلے میںalps سویزر لینڈ میں ٹرنینگ چاھتا ہوں۔ اور اس سے پہلے میں ایروبیک اور جسمانی ٹرنینگ چاہتا ہوں"۔
وہ زور سے ہنسی اور اسکے لب گلاب کی پنکڑی کیطرح علحیدہ ہوگے"۔ میں یہاں تین ماہ سے کام کررہی ہوں مگر میں نے جیمس انڈرسن کو صر ف ایک بار دیکھا ہے۔ انکے کلائینٹ تو پہلے سے ہی کامیاب climber ہیں اور صرف مشورہ کے لے آتے ہیں۔ویسے تو ہم سب سرٹیفایئڈ ہیں " ۔
" تب تو میں جیسمین سے ٹرنینگ لوں گا "۔
وہ دوبارہ زور سے ہنسی۔ " تم کہاں پر ٹہرے ہو؟ "
" فی الحال تو کہیں نہیں۔ میں سیدھا ایئرپورٹ سے آرہا ہوں "۔
"میرا اپارٹمیٹ دو کمرے کا ہے اور میر ے اکیلے کے لیے منہگا ہے۔ چاہو توکرایہ کا آدھا آدھا حصہ کرلیں "۔
" تم تو فرشتہ ہو !" میں نے ہنس کر کہا۔
"میں آدھ گھنٹے میں یہاں سے فارغ ہوں گی۔ تب میں تم کو اپنی گاڑی میں لے چلوں گی"۔
پیارے بھیا۔
میں خیریت سے کو ہاٹ پہنچ گی ہوں۔ شان اور میں لاس انجلس سے پندرہ جولایئ کو آٹھ بجے نکلے ۔ لاس انجلیس سے لندن کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ لندن کا وقت آٹھ گھنٹے آگے ہے۔اسلئے لند ن میں بارہ بجے رات کو پہنچے۔ ہم نے لندن میں دو دن قیام کیا اور شہر کی مشہور جگاہیں دیکھیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ددنوں دن موسم خوشگوار تھا۔ ورنہ اس مہینہ میں عموماً بارش، اور حبس ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ وقت نہیں تھا اسلے ہم نے نارمن ٹوورس کو گھومنے کے لے بلایا۔ٹور سات گھنٹے کا تھا۔ ہم نے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ایبی، بِگ بین، ہاوس آف پارلیمینٹ، پیکاڈلی سرکس، ٹرافالگر اسکوائر ، نمبر ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ اور کنسنگٹن پیلس کی سیر کی۔
دوسر ے دن ہم نے لندن انڈر گراونڈسب وے لیکر ناٹینگ ہم ہلز گے ۔ اس علاقے میں بہت پاکستانیوں اور انڈین ہیں۔ ہم بازاروں میں گھومے ۔ ٹھیلے والوں سے دہی بڑے، چاٹ خرید کرکھایئ او رگول گپوں کا پانی پیا۔ اسکے بعد قلفی کھایئ۔ شام میں ہم نے افغان کچن میں چکن پلاؤ، کباب اور نان کھائے۔ یہ چیزوں کو کھانے میں بہت مزا آیا اور بھیا میں نے شان سے مرچوں کی بھی شکایت نہیں کی ساری رات پیٹ سے آوازیں آتی رہیںاور پیٹ میں درد بھی ہوا۔
لندن سے دوبیئ ہوتے ہوئے ہم کراچی اترے۔کراچی لاس انجلس کی طرح ایک بڑا شہر ہے۔ مگر گرمی اور حبس نے میرا بُرا حال کردیا۔ اور ہم نے پشاور کی ایر کیڈیشن ٹرین کراچی کے سنڑل اسٹیشن پکڑی۔ پشاور میں سکینہ اور نیدو لینے آیئں۔
میں اباجان اور اماجان سے آپ کے بارے میں ہر دوسرے دن سنتی ہوں مگربھیا میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔ دن میں تو میں بہادر بنتی ہوںلیکن شام سے آپکی یاد آتی ہے۔ اور میں تکیہ میں منہ چھپا کر روتی ہوں۔ آپ مجھ سے ملنے کے لیے کب آئیں گے؟۔
آپکی ننھی۔ سعدیہ
" چلو، اُٹھو"۔
"کیا ہے؟ سونے دو"۔
" فِٹ نیس سینٹر جانا ہے"۔
" چلی جاؤ"
" اب اُٹھ بھی جاؤ۔ مجھ سات بجے دو سرے کلائیٹ کو ٹرین کرنا ہے"۔
" اس ہفتہ کا اسکیجول ۔ ویٹس۔ ایروبِکس۔ ایروبِکس ۔ریسٹ ۔ ویٹس اورایروبِکس۔ رن یا جاگینگ(آہستہ بھاگنا)۔ لمبے ایروبکس "
" میں نے پہاڑ پر چڑھنا سیکھنا ہے۔ویٹ لفٹر نہیں بننا"
"تم پہاڑ پر بھی چڑھنا سیکو گے لیکن ابھی اس قابل نہیں ہو"۔
" پہاڑ پر چڑھنے کے لئے ویٹس، ایروبِکس اور صحیح طریقے سے سانس لینا بہت ضروری ہے"۔
" اورھیڈ پریس، لیٹ ریز ، اسٹیندینگ رو، بیک ارچ، ریورس فلایئ، لیٹ پُل ڈاون، سیٹیڈ رو، بیک ارچ اوراَرم کرل ۔ ہر اکسرسایئس کا ایک سیٹ پہلے تین ہفتہ۔ اس کے بعد دو سیٹ"۔
" میں یہ سب کچھ نہیں سن رہا" ۔
" ایروبِکس کے لے تیس منٹ تک چلو یا بھاگو۔ اور اس کو بڑھا کر ایک گھنٹہ تک لے جاؤ ۔ اور یہاں تک کہ تم ایک گھنٹے تک تیس پاونڈ کا وزن لیکر چل سکو"۔
" آرام کے دن بہت پانی پئیو۔ کچھ اسٹریچنگ کرو ور مالش کرواؤ"۔
" چلو میں تم سے جیم تک دوڑ لگتی ہوں۔ اگر میں جیتی تو تم کو میرے لئے ناشتہ خریدنا ہوگا" ۔
زرمٹ سویزرلینڈ کا شمار دنیا کے مشہور پہاڑی گاوں میں ہوتا ہے۔ زرمٹ چار طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک وادی میںواقع ہے۔ جسے ہی آپ لال سویز ٹرین سے اترتے ہیں۔ زرمٹ میں کار کے بجائے بغیرپییوں کی گھوڑا گاڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ سڑکیں پتھر کی ہیں۔زرمٹ ٢٩ پہاڑوں میں تیراہزار فٹ سے اونچے پہاڑوں کا گھر ہے۔ یورپ کی دس میں سے نو بلند چوٹیاں زرمٹ کے اردگرد ہیں۔٩ اسنو اکی لفٹ اوران میں سے ایک لفٹ بارہ ہزار آٹھ سو تیئس فٹ کی بلندی تک جاتی ہے۔ ایک ہفتہ سے اس اونچا یئ اور آب و ہوا سے جسم اور ذہن کو عادی کرنے کیے لیئے ہم زرمٹ میں سے تھے اور پہلے تین دن ہرروز چا ر گھنٹے چہل قدمی کی۔
چڑھائی کا پہلا دن ۔ کیوںکہ میرا ایک سال سے کم کا ماونٹین پر چڑہنے کا تجربہ تھا۔ لیڈر نے ہارن لیریج راؤٹ چنا اس راستہ پر مشکل حصوں میں مستقیل رسّیاں موجود ہیں۔ ہم گروپ سے زرمٹ میں ملے اور فلو الپ ہٹ تک پیدل چلے۔ فلو الپ سے اونچایئ کے پہلے ماونٹین ہٹ تک کیبل کار میں سفر کیا۔ چڑھنے کے لے پہلا بیس اسٹیشن آٹھ ہزار ساتھ سو ننوے فٹ پر رِمپیش ھارن ہے۔ رِمپیش ہارن کی چوٹی تیرا ہزار سات سو تیہتر فٹ اونچی ہے۔ جیسمین نے کہا کے اس ہٹ کا کھانا بہت مشہور ہے۔اور واقعی وہ صحیح تھی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔
دوسرا دن ۔ رِمپیش ہارن ۔سورج نکلنے سے پہلے ہم سب اپنے چڑھایئ کے گیئر پہن چکے تھے۔ ہم نے گلیشیر پر چڑھنا شروع کیا۔گلیشیر کے بعد بغیر برف والا حصہ تہہ کیا۔ یہاں سے اوپردیکھو تو میڑہارن بڑا خوبصورت نظر آتا ہے۔ اور ماونٹ روزا ماسیف، زرمٹ کا گاوںاور ساسفی بھی دِکھتا ہے۔ شام کو ہم زرمٹ واپس آگئے۔
تیسرا دن۔ رِفّل ہارن کی اونچایئ نو ہزار چھ سو فٹ ہے ۔یہ اگرچہ زیادہ بلندی پر نہیں ہے لیکن یہاں ہم اپنے اپ کو میٹر ہارن کی چڑھایئ کیلے تیاری کرتے ہیں۔اس چھوٹی پہاڑی پر ہم مختلف چڑھا یؤں کی مشق کرتے ہیں۔میڑہارن یہاں سے اور بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔
چوتھا دن۔ ہارنلی ہٹ ۔ ہم کیبل کار کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں اور پھر کیبل ا سٹیشن سے دو گھنٹے چلنے کے بعد ہارنلی ہٹ پہنچتے ہیں۔ یہ دس ہزار چھ سو تیرانوے فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ہٹ دو بلڈنگ ہیں ، ایک لال اور دوسری سفید۔ لال بلڈنگ کے سامنے سویزر فلیگ لہرارہا ہے۔ سہ پہر میں ہم ہارنلی پرمشق کرتے ہیں۔ کیونکہ دوسری صبح ہم اندھرے میں یہاں سے گزریں گے۔ہم کھانے کی درمیان میٹرہارن پر چڑھنے کا منصوبہ تیار کرتے ہیںاور صبح جلد اٹھنے کے کیلے سوجاتے ہیں۔
پانچواں دن ۔میٹرہارن کی چڑھائ۔ہم سورج کے نکلنے سے پہلے نا شتہ کرتے ہیں۔ ہم چھوٹی رسیوں کی مدد سے ٹیلوں پر چڑھایئ کرتے ہیں۔ ساڑھے پانچ گھنٹے میں ہم میٹرہارن چودہ ہزار چھ سوچورانوے فٹ کی چوٹی پر پہنچ جاتے یہاںمیٹرہارن پر سویز۔اٹالین سرحد ملتی ہے۔ یہ دن بہت اچھا ہے ۔ سب اس اونچایئ سے چاروں طرف کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہارنلی ھٹ تک واپسی میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد کیبل کار کے اسٹیشن کو چلتے ہیں۔کیبل کار میں ایک مختصر سفر کے بعد ہم زرمٹ میں ہیں۔
پیارے بھیا۔
مجھے آپ کا یورپ کا سفر اور میٹرہارن کی چڑھایئ کا پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ آپ کو یاد ہے جب آپ نے سو' گول' پچیس سال کی عمر سے پہلے ۔'کرنے ' کے لے بنائے تھے! میں نے صرف ایک ہی گول بنایا تھا "ایسا اچھا کام کروں کہ سارا جہاں سعدیہ کو جان جائے گا "۔ اور میں نے کہا تھا کہ باقی گول میں بھی آپ کے ساتھ ہونگی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گی۔ میں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ میں سوچتی ہوں، کیا جسمین آپ کی اسطرح سے دیکھ بھال کرتی ہے۔ جیسے میں کرتی؟
میں پچھلے چھ ماہ سے 'افغانہ' ویب سایئٹ کے انگلش اور اردو رومن سیکشن پر کام کررہی ہوںاور کوہاٹ یونیورسٹی میںپشتو سیکھ رہی ہوں۔ بازار میں سب لوگ مجھے پختون سمجھتے ہیں۔ نسیمہ نے مجھے تربیت دے کر کہا کہ وہ اب صرف پشتو اور اردو کی ویب سایئٹ کو سنھبالے گی۔ بھیا اب میں بلکل اکیلی انگلش اور اردو رومن سیکشن کو سنھبالتی ہوں۔ تم دیکھنا۔ تم آپنی ساد پر فخر کرو گے!
لیکن اب مجھے بیچنی رہتی ہے۔ مجھے شان کو دیکھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ وہ فلیڈ میں ہوتا ہے اور دنوں تک اس سے بات نہیں ہو پاتی۔ اسکے کام میں بہت خطرہ ہے اور مجھے ہمشہ اس کی فکر رہتی ہے۔ میں اب اس کے ساتھ کام کرنا چا ہتی ہوں تا کہ میں اس کی دیکھ بھال کر سکوں۔
ہمارے خانذادیوں کے نیٹ ورک میںاب تمام صوبہ سرحد کے ضلعوں میں کم ازکم ایک خان ذادی خفیہ ممبر ہے۔ کئی ضلعوں میں، مثلاً کوہاٹ میں تو ہر تحصیل سے ایک یا دو خانذادیاں ممبر ہیں۔
پچھلے مہنیہ ہمیں ایک مخبر سے پتہ چلا کہ چترال میں ' خا و' خاندان میں ایک بارہ سالہ لڑکی کی شادی زبردستی کی جا رہی ہے اور اس نے ہماری خفیہ خان ذادی سے مدد مانگی ہے۔ بھایئ یقین کر یں کہ یہ خان ذایاںاپنے خاندان کے مردوں سی اتنی ڈرتی ہیںکہ ہمیں بھی اپنے نام اور پتہ نہیں بتا تیں۔ لیکن شان نے دوسرے زرائع سے ان کے متلعق معلومات جمع کی ہیں۔ مثال کے طورپر اس خانذادی نے نہ تو اپنا نام دیا اور نہ ہی تحصیل کا۔ تھوڑی دیر مخبر سے بات کرنے سے ہم کو لڑکی اور تحصیل کا نام پتہ چلا۔
اس صورت میں شان اس لڑکی کو اسلام آ باد تک پہنچانے کا انتظام کرے گا۔ پشاور سے ایک دوسری تنظیم اس لڑکی کو ملک کے کسی حصہ میں ایک خفیہ گھرمیں بھیج دے گی۔
شان کے ساتھی اکبر بھایئ کو جاڑے دار بخارآیا تھا۔ شان کو ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ میں نے بڑی خوشامد کی شان بڑی مشکل سے راضی ہوا کہ میں اسکے ساتھ جاؤں۔
آپکی ننھی۔ سعدیہ
میرا کام پشاورسے چترال کے راستہ کی نشان دہی کرنا تھا۔ چترا ل سے پشاور ، ہوایئ جہازکے سفر میں پہچان کر پکڑے جانے کا خطرہ تھا ،اور فلایئٹ صرف پہلی اپریل سے بیس اگست تک تھیں ۔ فلایٹ کا بھروسہ نہیں تھا ، کبھی پرانے فوکرجہازوں کی مرمت کی وجہ سے اور کبھی موسم خراب ہونے کی وجہ سے فلایٹ نہیںجاتی ۔ لیکن اچھے موسم میںپچاس منٹ میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ سڑک بہتر ذریعہ تھا۔درگایئ مالاکنڈ کےنال روڈ سوات تک ، دِیراور پھرلاری پاس(درّہ) ۔ لیکن درّہ سردی کے موسم میں بند ہوجاتاہے۔ اگرچہ دِیر سے چترال صرف ستر کلومیٹر ہے لیکن خراب سڑک موسم اور مڈ سلایڈ کی وجہ سے چودہ یا پندرہ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ ٤*٤ ملیٹری چھوٹی جیپ گاڑی ہو نا بلکل ضروری ہے۔
" ہم پشاور سے۔' دیر' تک بس بھی لے سکتے ہیں"۔شان نے کہا ۔
" صرف ایک راستہ آنے جانے کاہے اگر ہمارا راز کھل گیا تو آسانی سے پکڑے جایئں گے۔ دوسرا راستہ شندور پاس سے گلگت جانے کا ہے جسکا سفر ٢٥ گھنٹے کا ہے۔ شا ن نے کہاکہ ہمیں جنگل کے متعلق معلومات ہونا چاہیں"۔
میں نے کہا ۔ ".جنگل میں جپسی قوم 'گو وجر' رہتی ہے"۔
" لڑکی کے متعلق ہمیں اور کیا پتہ ہے؟ "
میں نے شان کو بتایا کہ عمر ١٢سال کی ہے ۔ قد ٤ فٹ ٦ انچ کا، وزن ٤٠ پاونڈاور رمپور وادی میں رہتی ہے۔ زبان 'خوور' ہے۔ تھوڑی سی پشتو بولتی ہے او ر ا سکول جاتی ہے"۔
"کیا یہ لڑکی پکے ارادہ والی ہے ؟کیونکہ اگر اس نے ارادہ بدل دیا تو یہ سفر بہت مشکل ہوجائے گا"۔ شان جاناچاہتا تھا۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم وقت کو بچانے کیلے ہوائی جہاز میں سفر کریں گے۔ اور ہمارے پاس واپسی کے تین ٹکٹ ہو ں گے۔ لڑکی ہمارا ۔"ٹارگیٹ" ہم سے علحیدہ سفر کرے گی۔ اگر اس کام میں کوئ روکاوٹ نہ ہویئ تو ہوائی جہاز سے ہی واپس لوٹیں گے ورنہ جنگل کا راستہ اخیتار کریں گے۔ میں ایک فرانسی عورت کا کردار کروں گی اور شان ایک گائیڈ کا۔ شان نے گائیڈ کااورایک ٹرانسپورٹ اپریٹرکا بھی پرمٹ اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں نے اےک برقعہ اور ایک پاکستانی کپڑوں کا جوڑا رکھ لیا اورایک بارہ ، تیرہ سال کی عمرکے لڑکے اور لڑکی کی لئے ڈھیلی قمیض، اسکارف ، پتلون اور جوتے، بھی خرید کر رکھ لی ۔ انکے علاوہ تین ، پندرہ پندرہ، آدھے لیٹر والی واٹر ربوتل بھی رکھ لیں۔ ہائی اسکول میں، میں نے جنگلsurvival کی کلاس لی تھی اس لے مجھ کو پتہ ہے کی کیا چیزیں ضروری ہیں۔ میں نے آرمی واٹر فلاسک ، ٹارپ ، چار خیمہ کو لگانے والی سلاخیں، سو فٹ لمبی رسی اور latches ، تین space age کمبل، اور inflateable تکیے اور اور ایک چھوٹا مچھلی پکڑنے کا جال ، ڈفل بیگ میں رکھ لے۔اورsurvival کی دوسری اشیا ء بھی ۔ ایک دیڑھ فٹ کی echete mکو چمڑے کے کیس میں رکھ کر ڈفل بیگ کی بیرونی جیب میں رکھ لیا۔ شان ڈفل بیگ رکھے گا اور میں ایک بیک پیک رکھوں گی۔بیک پیک میں قطب نما، واٹر پروف ماچیس، سویز آرمی چاقو، پندرہ ، پندرہ پروٹین بار، نمک، کالا نمک، سرخ مرچ ، انٹی بایوٹِک گولیاں، فرسٹ ایڈ کا باکس اور واٹر کو صاف کرنے والی گولیاںبھی رکھ لیں۔
پی۔آی۔ اے نے موسم کی وجہ سے فلایٹ کنسیل کردی۔ شان نے وللی ایم تھرٹی ایٹ جیپ کرایہ پر لی۔ چترال جانے کے تین راستہ ہیں۔ پشاور سے چلیں اور اگرکویئ روکاوٹ نہ ہوتو چکدارہ، دیر اور لوآری درّہ سے تو بارہ گھنٹے کا راستہ ہے۔سادھو شریف، سوات ، دیر اور لوآری درہ سے دس گھنٹے کا راستہ ہے۔ اگر گلگت سے چلیں تو گوپس، پھندار اور شاندور درہ بیس گھنٹے میں پہنچیں گے۔ ہم پشاور میں تھے ہمارا راستہ چارشادہ، پہاڑوں میں باڑ خیلا ، ووچ، واردی پوست اور پھر چترال۔ راستہ بہت خوبصورت ہے۔ سٹرک پر درختوں کی لاین لگی ہے۔ فضا گنّے کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔
ایک آدھ گھنٹے میں تخت بھائی سے گزرے شہر میں کافی چہل پہل ہے ۔تخت بھایئ کے کچھ میلوں کے بعد پہاڑوں کو سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سڑک اب بل کھا تی ہویئ اوپر چڑھتی ہے۔سڑک کے ساتھ ساتھ دریاِ پنج کورا بھی سانپ کی طرح بل کھاتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ ہر موڑ پر گاڑی روک کر تصویرں لو۔ نقاب پہنی ہویئ ننھی بچیاں بکریوں کی چرواہا ہیں۔ کہیں لڑکے پانی کے تیز بہاؤ میں کھیل رہے ہیں۔کہیں لوگ چرخی، ٹوکری اور رسی کی مدد سے دریا کو پار کر رہے ہیں۔
پہلا پولیس چیک پوانٹ پیمرگارا ہے۔ پولیس گارڈ نے ہم کو ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ 'دیر' میں ایک گھنٹا ٹہریں گئے۔ ہاتھ منہ دھویں گے اورکھانا کھائیں گے۔ دیر پہنچ کر ہم ہوٹل المنصوٹہرتے ہیں۔ ہمارا کمرہ چھت پر ہے۔ یہاں سے آپ تیرچ میر جو ہندو کش کی تیئس ہزار فٹ بلند چوٹی کا نام ہے اور جس کا ترجمہ' بڑے بزرگ ' ہے کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ اس وقت ٹیمپریچر ْ٧٥ ہے۔اور موسم خوشگوار ہے۔ میں نے برقعہ پہنا اور ہم نے شہر کی میں ا سٹریٹ اور دریا کی پار کرنے کی جگہ کا جایزہ لیا۔اسکے بعدہم نے نیچے جانے والا دروازے کی کنڈی لگادی اور چار پایاں کھلے برآمدہ میں لگا دیں۔شان اور میں نے آسمان پر جنوبی ستا رہ تلاش کیا۔ میں شان کو بتایا کہ ستاروں کی مدد سے کسظرح سے صحیح راستہ اختیار کرتے ہیں۔
ہم صبح ناشتہ کے بعد لوواری درہ کی طرف چلے۔ راستہ میں ہم نے سڑک کا جزیہ دیا۔ دوپہر تک ہم چترال کے شہر میں پہنچے۔ میں نے ہوٹل پی۔ٹی۔ڈی۔سی میں بُکینگ کرایئ تھی۔ ہوٹل بازار میں ہے۔ میں نے پاکستانی شلوار اور قمیض اور ڈوپٹہ پہن رکھا تھا۔ہم نے چابیاں لیں اور کمرے کھولے۔کمرے میں ہر چیز موجود تھی۔
ہم نے شہر کی بڑی سڑک پر چہل قدمی کی۔شاہی مسجدکے پاس دریا کے کنارے قلعہ چترا ل ' نو غورے 'کو دیکھا۔سہ پہر میں ہم گرم پانی کا چشمہ دیکھنے گے۔ پولو ، چترال ہی میں شروع ہواہے۔یہاں پولو امیروں کاکھیل نہیں ہے بلکہ سب لوگ کھیلتے ہیں۔ دو گھنٹے دور وادیوں میں چھپا کلاشی قبیلہ ہے۔یہ لوگ کافر ہیں اور انکے ابا واجداد سکندر اعظم کی فوج سے ہیں۔بہت حسین اور خوبصورت لوگ ہیں۔
شام کوواپسی پر ہمیں ایک گھبرا یا ہوا جوان لڑکا ہوٹل کے باہرملا۔اس نے شان کو روکا اور پشتو میں با تیں کرنے لگا۔ میں پیچھے دور کھڑی ہوگی۔ بات کو جلدی ختم کرکے وہ تیزی سے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گلی کے نُکّڑ پر غائب ہوگیا۔
شان نے کہا۔" لڑکی کے ماں اور باپ کو کسی طرح سے پتہ چل گیا ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ہمیں یہاں سے جلد نکلنا ہے ۔ صرف ڈفل بیگ اور بیک پیک لینے کا وقت ہے۔ تم کرایہ نمٹاؤاور قعلہ پر لڑکی سے مل کر میرا انتطار کرو۔ میںاوپر سے سامان لیکرآتا ہوں اور جیپ کو واپس کرکے تم دونوں سے ملتا ہوں۔ ہمیں جنگل کا راستہ لینا ہو گا"۔
پختون کی بیٹی
فتح
سید تفسیر احمد
ہم نے بچپن میں ایک سو گولز (goals) کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔ میری ننھی ہمشہ چاہتی تھی کہ وہ بھی سب کچھ کرے جو میں کروں۔اِن گولز میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔ مشکل والے گولز کی فہرست میں 'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلیش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اورکسی کی محبت میں گرفتار ہوجاناتھا۔ آسان گولوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا، پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دوہنا، اور گلایئڈر اڑنا ۔میں نے پچیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلئے ہیں۔
بلاوا
ہفتہ کی صُبِح بہار تھی۔ میں سمند رکی طرف کے برآمدہ میں آرامدے کرسی پر آنکھ بند کئے لیٹا تھااچانک زلزلہ سا آیا۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لئے ہاتھ پیر چلائے اور میری آنکھیں کھل گیں۔میں نے گرتے گرتے سعدیہ کو پکڑ نے کی کوشش کی اور ہم دونوں فرش پر لوٹ پوٹ رہے تھے۔ سعدیہ اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے ٹھوسے مار رہی تھی اور زور زور سے ہنس رہی تھی۔ میرے پاس کویئ چارہ نہیں تھاکہ اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لوں۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔
نورا نے برآمدے میں آکر مجھے فون دے دیا۔
" جی"
"سلام۔ میں سکینہ بول رہی ہوں۔ "
" سلام ۔ اچھا میں تو سمجھ رہا تھا کہ میرے کانوں میں مدہم ستار بج رہا ہے" ۔
" کیا کہا آپ نے؟" لیکن فوراً سمجھ گی کہ میں کیاکہہ رہا تھا۔ اور وہ کِھل کِھلاکرہنس پڑی جیسے ستار نے ایک راگ سننایا۔
" میں نے آپ دونوں کوPasedena کے ہوٹل رٹز کارلٹن میں ایک استقبالیہ میں بُلانے کے لے فون کیا تھا۔" ستار پھر سےبجا۔
" میں آپ کی ملاقات میرے دوستوں سے کرانا چاہتی ہوں"۔
میں نے کہا۔" کب اور کتنے بجے"۔
" آج شام کو سات بجے"۔ اُس نے ہنس کر کہا۔
" تم کو ملنے کیلئے میں تو پختونستان بھی آسکتا ہوں۔"
" جھوٹا ، ایک دن میں بلاؤں گی، دیکھوں گی کہ آتے ہو؟۔" سکینہ نے قہقہ لگایا
"ڈریس فارمل۔"
"کس بات کا استقبالیہ؟ " میں نے پوچھا۔
" صوبہ سرحدکے شادی کے لباس کا فیشن شو"
" دوستور موافق، کیا میں شلوار کرتا پہنوں؟
"سعدیہ پہن سکتی ہے۔ تم نہیں"۔
" تم سعدیہ سے خود بات کرلو۔ االلہ حافظ"۔
"اللہ حافظ۔" اس کی شیرین آواز نے کہا۔
میں نے فون سعدیہ کو دیا۔
گلابوں کا شہر
١٧٧٠ ء تک پیسیڈینا (pasadena )شوشون قبیلہ کا ملک تھا۔ ان کے گاؤں آرریو سیکو پہاڑوں میں اوراسکی وادیوںکے کناروں پر پھیلے تھے۔ spain نے طاقت کے بل پر مقامی انڈین کو عیسایئ بنا یا اور ان سے زبردستی کی مزدوری لینے لگے۔ ١٨٣٣ ء میں میکسیکو نے اسپین کو ہرا کر سان گیبریل کے مشن کو سیکولر بنادیا۔ ١٨٥٢ میں کیلفورنیا ، یونا ئیٹڈ اسٹیٹس کا ممبر بن گیا۔ پیسیڈینا کی پہلی ' گلابوں کی پیریڈ ١٨٩٠میں ہویئ اور گلابون کی پیریڈ ا 'ٹورنامینٹ' شروع ہوا۔ ہر سال پہلی جنوری گلابوں کی پیریڈ کا ٹورنامینٹ ہوتا ہے ۔ مشہور کالج کیل ٹیک بھی پیسیڈینا میں ہے ۔ انیس سو تیس میں جیٹ پروپلشن لیب نے ایکس پلورر راکٹ بنایا۔ جے پی ایل اورناسا مل کر کام کرتے ہیں۔ یہاں پر پاتھ فاینڈرپروگرام کے لئے لینڈ رووربنایا گیا تھا جو میریخ میں کامیابی سے اترا اورگاڑی کی طرح چلا۔
میں گاڑی چلارہا تھا اور سعدیہ پسینجرتھی۔ ہم ٹوٹین فری وے سے لیک اسٹریٹ پر نکلے اورنول پارک ایوینو پر موڑے۔ سڑک کے دونوں طرف کجھور کے درخت ہیں اور محلوں کی دیواریں رنگ بھرے پھولوں سے سجی ہیں۔ ہوا میں چنبلی کی خو شبو پھلی ہے۔ پیساڈینا دولت والے امیروں کے رہنے کی جگہ ہے۔ وہ امیر لوگ جن کو دولت وراثت میں ملتی ہے 'پرانی دولت' والے امیر کہلاتے ہیں، جیسے راک فیلرپرانی دولت والے امیر ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی دولت خود کمایئ ہے وہ ' نئی دو لت' والے کہلاتے ہیںجیسے مایکروسافٹ کا بل گیٹس ۔ تقریباً ایک میل کے بعداس سڑک پر رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔ ماونٹ سین گیبریل کے دامن میں٢٣ ایکر کے خوبصور ت باغ پر ایک عظیم الشان قعلہ کی طرح کی بلڈنگ رٹزکارلٹن ہوٹل ہے۔
فیشن شو
ہم نے ہوٹل کے پیش دہلیز پرگاڑی روکی۔ خدمتگار نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں نے اُسکو گاڑی کی چا بی دی۔میں اور سعدیہ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ پختون کا فیشن شو باہرجاپانی گارڈن میں تھا۔ راستہ میں سکینہ ملی۔ ہم نے سکینہ کو ہماری فرانسی رسم کے مطابق دونوںگالوں پہ پیار کیا۔
" تم سامنے کی نشیت پر بیٹھنامیںافغانہ کو اپنے ساتھ لے جاتی ہوں ہم ایک ماڈل کم ہیں۔ افغانہ اسکی جگہ لے گی"۔
میں نے قہقہ لگاکر کہا۔ "اللہ تمہارا حافظ ہوننھی"۔
میں نے گارڈن کا رُخ کیا۔ لال دروا زہ پر پگوڈا کیطرح چھت تھی۔دروا زہ کے دونوں طرف پتھرکا ایک مشرقی شیربیٹھا ہے۔ یہ چھوٹی وادی داخل ہونے پرصنوبر، میپل اور پھلوں کے درختوں سے بھری ہے۔میں پگوڈا میں داخل ہوا۔ شہر کے سو معزیز حضرات جھیل کیطرف منہ کئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میں پہلی قطرمیںجاکر بیٹھ گیااوراپنے برابربیٹھے ہوئے جوان لڑکے سے اپنا تعارف کرایا ۔میںاسکو میرا نام بتاتا ہوں وہ مجھے اپنا نام بتاتا ہے۔ میں نام سے پہچان جاتا ہوںکہ یہ سکینہ کا چھوٹا بھایئ ہے۔ جھیل کے پانی پر بنے ہوے اسٹیج پر سکینہ نظر آتی ہے۔
وہ مائک پر اعلان کرتی ہے۔ "خواتین و حضرات میںآپ کی خدمت میں پختون کے 'پارٹی لباس' پیش کرتی ہوں"۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری پہلی ماڈل مس مِیرا"
ایک خوبصورت اورحسین لڑکی اسٹیج پرآئی۔
" مِیرا ،گھٹنوں تک لمبی ریشم اورشیفان کی سفید قمیض پہنے ہیں آستینں کھلی ہیں۔ قمیض کا نچلا حصہ سیاہی ملا سفید رنگ ہے۔ گلے اوربغل کے اردگرد ریشمی کشیدہ کاری کی گی ہے۔ مِیرا ، ملتی جُلتی سفید باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں۔ ڈوپٹہ پرنٹڈ شیفان کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اور گھونگرو پرنٹڈ ہیں۔"
مِیرا، سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اوررآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی، پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری دوسری ماڈل مس عِفَت"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
عِفَت ، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہویئ ریشم کی گلابی قمیض پہنے ہیں۔ انکی ہرے رنگ کی پتلی شلوار کے پائنچوں اور سامنے کی طرف کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ گلابی رنگ کا ہے جس کا پَلّو ہرے رنگ کا ہے۔
عِفَت سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اور میرا ، کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے پھر تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " ہماری تیسری ماڈل مس عمان"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
"عمان ریشم اور شیفان کی فیروزی اوراعودے رنگ کی دوہری قمیض پہنے ہیں جس کے گلے اور دامن پر ہاتھ سے کشیدا کاری کی گی ہے۔ شلوارکریپ سِلک ٹایئ اینڈ ڈایئ۔ ڈوپٹہ شیفان ٹایئ اینڈ ڈایئ"
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے ایک دفعہ اور تالیاں بجائیں۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری چوتھی ماڈل مس آمینہ"۔
ایک اور خوبصورت لڑکی اسٹیج پر آئی۔
"آمینہ کھلے آستینوں کی گھٹنوں تک ریشمی شیفان کی لمبی نیلی قمیض پہنے ہیں۔ گلے اوربغل کے اردگرد ریشم میںکشیدہ کاری کی گی ہے۔ ملتی جُلتی نیلی باریک ریشمی شلوارپہنے ہیں ۔باریک ڈوپٹہ پرنٹڈ ریشمی شیفان ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے۔"
آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئی۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرتی ہے۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ "ہماری مہمان ماڈل مس افغانہ"۔
افغانہ اسٹیج پرآیئ۔
شان نے کہا۔" سبحان االلہ ۔ یہ تو سب سے پیاری لڑکی ہے۔ جیسے چاند نکل آیا" ۔
میں نے کہا ۔"اسٹیج پر سب سے پیاری تو اناؤنسر ہے۔"
شان نے غصہ سے کہا۔ "مسٹر، وہ میری بہن ہے" ۔
میں نے کہا۔" تو تعریف کرنا کوئ برائ بات تو نہیں۔تم نے میری بہن کو بھی تو پیاری لڑکی کہا۔"
"افغانہ تمہاری بہن ہے۔" شان نے حیرت سے کہا اور پھر چپ ہوگیا۔
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ ، ریشم، موتی، بیڈ اور دبکا کی کشیدہ کاری کی ہوی کالی قمیض پہنے ہیں۔ کالی رنگ کی پتلی شلوارکے پائنچوں پر ریشم کی کشیداکاری کی ہویئ ہے۔ ڈوپٹہ بھی کا لے رنگ کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام اورگھونگرو پرنٹڈ ہیں"۔
افغانہ سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے خوب تالیاں بجایئں۔
"خواتین و حضرات میں اب ہم پندرہ منٹ کا وقفہ لیں گے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل یا شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرئیں گے"۔
اس وقفہ میں کچھ ویٹرس تھالوں میں چپلی کباب اور نان اور دوسرے روح افزا کا شربت لےکر گھوم رہے تھے۔ کچھ تھالوں میں گلاب جامن، جلیبی اور قلاقند تھے۔
میں نے ایک رکابی میں نان رکھااور اس پر چپلی کباب پھر کرسی پر بیٹھ کر مزے سے کھایا۔
وقفہ میں سعدیہ میرے پاس آئ ۔ میں نے اسکا شان سے تعارف کرایا۔ اس لڑکے کا نام شان ہے۔اس نے کہا کہ تم اسٹیج پر سب سے پیاری لڑکی ہواور یہ تم سے پسند کرتا ہے۔" شان کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا۔ میں نے کہا تم دونوں باتیں کرو میں میٹھا کھانے جاتا ہوں۔
٭ ٭٭
"خواتین و حضرات میں ہم آپ کی خدمت میں پختون کے' فارمل اور شادی کے لباس' کا تھیم پیش کرتے ہیں"۔
سکینہ نے پکارا۔ "مس مِیرا "۔
مِیرا اسٹیج پر آئ۔
" میرا نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا فیروزی لینگا اور گلابی چولی پہنی ہے۔ دونوںکاتان ریشم ہیںأن پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںریشم کا کام ہے"۔
مِیرا سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے اور سکینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا۔ "مس عِفَت"۔
عِفَت اسٹیج پر آئ۔
" عِفَت نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا ہرا لینگا اور اعودہ چولی پہنی ہیں۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر داباکا، ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں لیس کا کام ہے ۔ عِفَت بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوں میں کنگن اورپیروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میںمندی کا کام ہے " ۔
عِفَت سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کرکے میر ا کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " مس عمان"۔
عمان اسٹیج پر آئ۔
"عمان نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا نارنگی لینگا اورپیلی چولی پہنی ہے۔ دونوں کاتان ریشم ہیں ان پر ٹیوب بیڈ، داباکا، سِکوینس کی کشیدا کاری ہے ۔ ڈوپٹہ ریشم کا ہے جس کے پَلّو میں ریشم کا کام ہے ۔عمان کے بالوں میں جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مندی کا کام ہے اور عمان نے چنبیلی کا عطر لگایا ہے "
عمان سامعین کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ۔ اور آہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اورعِفَت کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ " مس آمینہ"۔
آمینہ اسٹیج پر آئ۔
آمینہ، نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا چاندی کے رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوںخالص ریشم کی ہاتھ سے بناے گے ہیںأن پر ڈائمنڈ کی کشیداکاری ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص چاندی کا کام ہے۔آمینہ کے بالوں میںچاندی کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کا نوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور آمینہ نے بھی چنبیلی کا عطر لگایا ہے " ۔
آمینہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آئ اور رآہستہ سے مکمل دو دفعہ گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی۔ اور عمان کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے تالیاں بجایئں۔
سکینہ نے پکارا ۔ ہماری مہمان مس افغانہ۔
افغانہ اسٹیج پر آئ۔
شان نے کہا۔" سبحان اللہ ۔ امیں آپ کی بہن سے شادی کروں گا۔ کیا آپ کی اجازت ہوگی" ۔
میں نے ہنس کر کہا ۔" پہلے اُسکا دل جیتو۔ پھراُس سے ہی اجازت لو۔ "
سکینہ نے کہا۔ " افغانہ نے ہاتھوں سے ریشم کی کشیداکاری کیا ہوا لال رنگ لینگا اور چولی پہنی ہے۔ دونوں خالص ریشم کے ہاتھ سے بناے گے ہیںان پر ڈائمنڈ اور خالص سونے کا کام ہے۔ ڈوپٹہ خالص ریشم کا ہے جس کے پَلّو میںخالص سونے کا کام ہے ۔افغانہ کے بالوں میں سونے کا جھومر، ماتھے پر ٹیکہ، کانوں میں جھمکے، ہاتھوںمیں کنگن اور پہروں میں پائزیب ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی کا کام ہے اور افغانہ نے گلاب کا عطر لگایا ہے " ۔
افغانہ سامعن کیطرف اسٹیج کے کنارے تک آیئ اورآہستہ سے دو دفعہ مکمل گھومی پھر اسٹیج پر کیٹ والک کی اور آمینہ کے سیدھی طرف کھڑی ہوگی۔
سامعین نے زیادہ دیر تک تالیاں بجایئں۔
تعارف
سکینہ نے کہا ۔ " اُپ اور سعدیہ اپنی گاڑی میں ہماری گاڑی کا پیچھا کریں۔ ہماری رہایش یہاں سے صرف پانچ منٹ ہے " ۔
کچھ منٹ بعد ہم سان مارینو کے علاقہ میں ایک حویلی میں داخل ہو رہے تھے۔ سکینہ نے مین گیٹ پر بٹن دبایا اور انٹرکام پر گارڈ سے بات کی۔ دروازہ کھلا اور ہماری دونوں کاریں حویلی میں داخل ہو گئیں ۔ مین گیٹ خود بہ خود بند ہو گیا۔ ہم نے سکینہ کی کار کا پورچ تک پیچھا کیا اور وہاں گاڑی روک دی۔ گاڑی سے نکل کر ہم مکان میں داخل ہوئے۔ اسٹیڈی سے گزرکر ہم ایک کو رڈو ر میں آکر بائیں ہاتھ کے کمرے میں داخل ہوگئے۔کمرے میں میری عمر کے سات لوگ میز کے دونوں طرف بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر سب خاموش ہوگے۔ سکینہ میز کے شروع میں بیٹھی اور مجھے اپنے سیدھے ہاتھ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ادر سعدیہ کو الٹے ہاتھ پر بیٹھنے کو کہا۔ ہم ایک نیا پروگرام شروع کررہے ہیں۔ میں نے آپ لوگوں کو پروگرام کے لےے چنا ہے۔ سکینہ نے یہ کہہ کر سعدیہ کی طرف سے لوگوں کا تعارف شروع کیا۔
افغانہ جب تک شان امریکہ میں ہے افغانہ اسکے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لیے گی۔
شان ، شان کوہا ٹ میں فلیڈورک کرتا ہے۔ یہ ان لڑکیوں کی مدد کرتا ہے جو شوہر اور خاندان کے ظلم کا شکار ہیں۔ کام بہت خطرناک ہے اس لے شان کا کام انڈر کور ہے۔
انور بوسٹن میں رہتے ہیں اور یہ نیٹ ورک انجینر ہیں۔ ان کی ہی مدد سے میں آپ لوگوں سے باتیں کرتی ہوں۔
اِرم نیویارک سے ہیں۔ انکی تعلیم انفارمیشن ٹیکنا لوجی میںہے۔ ارم ویب ماسٹر ہیں۔
نسیمہ میڈیکل اسٹوڈینٹ ہیںاور لاس انجیلس میں ہمارے پروگرام کے لئے فنڈ حاصل کرتی ہیں۔
سونیہ شکاگو سے ہیں ۔ یہ قانون کی طالبہ ہیں اور یہ' تبادلہ خیال کی نگراں ہوگی۔
اکرم برکلے یونیورسٹی میں صوبہ سرحد کی تاریخ پر' پی ایچ ڈی' کررہے ہیں۔
جمیل کولمبیا یونیورسٹی کے ٹیچر ٹرینیگ کالج کے اسٹودنٹ ہیں۔
نیدو صوبہ سرحد کی اسمبلی کی ممبر ہیں۔
یہ سب احباب پختون ہیں۔
سکینہ نے مائک میری طرف بڑھایا۔ میں نے میرے سامعین کی طرف دیکھا تمام جوان، قابل اور پڑھے لکھے احباب۔ان کو کیسے بتایا جائے کہ میرا طریقہ بہتر ہے اور اسکا نتیجہ کامیابی ہوگا؟۔ میں کیوں نا ان ہی سے کہلوادوں کہ یہ طریقہ مناسب ہے۔
میں نے سوال کیا۔ تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟"
طالب علم کو ایک مخصوص تربیت کے لئے تیار کرنا۔ " جمیل نے سرسری طور سے کہا۔
انور، ارم اور نسیمہ نے جمیل سے اتفاق کیا۔
اکرم نے کہا۔ " یہ صرف ایک تعریف ہے۔ طالب علم اسلے تعلیم حاصل کرتا ہے کہ ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاح کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے۔"
سونیہ نے کہا ۔ " تعلیم حاصل کرنے کا مقصد علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا ہے"۔
نیدو نے کہا ۔" تعلیم برین واشنگ کے لئے دہی جاتی ہے ۔ تاکہ لوگوں کے عقائد بدلے جایئں"۔
میں نے کہا۔ "آپ لوگ کی تعریف صحیح ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے کے فائدے اور نقصان بتاتی ہیں ۔ خاصیت نہیں۔ جب ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں عقل و دماغ پر اسکا کیا اثر ہوتا ہے؟"
شان بولا۔" ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے"
سعدیہ بولی۔" اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں"۔
جمیل نے قہقہ لگا کر کہا۔" خصوص تربیت برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔
سونیہ نے قہقہ لگا کر کہا۔"علم کوسیکھنا، سمجھنا اور استمعال کرنا برابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"۔
اکرم نے قہقہ لگا کر کہا۔" ماضی کو جان سکے اور حال کی اصلاع کرے۔اور مستقبل کی پہچان کرے بر ابر سوچ میں اصا فہ اور خیالات کا تجزیہ"
نیدو نے قہقہ لگا کر کہا۔ " برین واشنگ عقاید بدلنابرابرسوچ میں اضا فہ اور خیالات کا تجزیہ"
میں نے کہا۔ " دوسرے الفاظ میں یہ تعریف ' علم سے ہماری سوچ میں اضافہ ہو تا ہے اور ہم خیالات کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں' تمام دوسری تعریفوں کا مجموعہ ہے"۔
"ہمارا خیال ہے کہ اگر ہمارے ویب سائٹ ان تمام تعریفوں کا مجموعہ ہو تو ہم بہت جلد اس اور اسطرح کے غیر اسلامی اور نقصان دہ عقاید کو موجودہ دور کے انسانیت سے مطالق عقایئد میں تبدیل کرسکتے ہیں"۔
سکینہ نے کہا۔ "ہمارا پہلا مقصد ان لڑکیوں کو علم کے وہ اوزار دےنا ہے جو زبان، آداب اور تاریخ کہلاتے ہیں"۔
انور نے کہا۔" زبان سے آپ کا مطلب ا، ب، پ۔ ہم چھوٹے تھے۔ اماں مارتی تھیں ۔ہم روتے تھے یا ذیادتی کے خلاف جہاد "
انور کی بات پر سب ہنس پڑے۔
"پاکستان میں اردو بولی جاتی ہے۔ دفتروں اورعدالتوں میں انگریزی لکھی جاتی ہے ۔ پختونستان میں پشتو بولی جاتی ہے۔ اب دنیا میں اسی بھی کروڑں پاکستاں کی لڑکیاں ہیں جو اردو بولتی ہیںلیکن پڑ ھ نہیں سکھتیں۔ وہ رومن اردو ایٹرنیٹ میں استمال کرتی ہیں" سکینہ نے جواب دیا۔
"ہم پختون کی لڑکیوں کو آسانی والا اردو اور پشتوکا اخبار پڑھنا سیکھانا چاھتے ہیں۔ ہم انکو اردو کو رومن اسکریپٹ میں لکھنا سیکھا نا چاہتے ہیں۔ ہم انکو انگریزی کے وہ الفاظ سیکھا نا چاھتے ہیں جو پاکستان میں روز مرہ اخبار، ریڈ یواور ٹیلیویزن میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ان کے علم کو حاصل کرنے کی وجہ ہونگے۔یہ چھ سال کا نصاب ہے۔اس کو جمیل خصوص تربیت کہتے ہیں ۔سکینہ نے زبان کی اہمیت بیان کی۔
"اور آداب!" ، سوینہ نے پوچھا۔
" ہاں آداب۔" سکینہ نے مسکرا کر کہا۔ " جس کو میں اچھی دھلائ کہتی ہوںدو الفاظ میں برین واشینگ۔ پختون والی کے کچھ آداب موجودہ زمانے میں معاشرہ کی بھلائ کے بجاے برائی کا سبب ہیں۔ اسلام کے کچھ آداب میں موجودہ زمانے سے اختلاف ہے۔ ہمیں ان لڑکیوں کو اجتہا سیکھانا ہے۔ ہم ان کا بدل سکھائیں گے۔ ان کو ملک کے مطالق اچھی باتیں بتائیں گے۔اور ملک کی تاریخ کی اچھی مثالوں سے روشناس کریں گے "۔ سکینہ نے کہا۔
" تاریخ! " نسیمہ نے پوچھا۔
" اکرم نے بلکل صحیح کہا کہ ماضی کو جانے بغیر نہ تو حال کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مستقبل کی پہچان۔ ہم ان کو آسان لفظوں میں سکھا نا چاہتے ہیں کے وہ کون تھے اور ا ب وہ کیا ہیں"۔
ارم نے سوال کیا۔ " ہم کسطرح سے خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کو اس پروگرام میں شامل کریں گے؟"
سیکینہ نے کہا "
ایک ، ہم میں سے جو بھی کسی خانذادی اور ملک ذادی کو جانتا ہے وہ اسکو ممبر بنانے کی کوشش کرے گا۔
دو۔ ویب سا ئیٹ پر تبادلہ خیال اور نظم و نثر کے دو سیکشن جوا ن خان ذادیوں اور ملک ذا دیوں کی کشش کے لئے ہیں۔ اس کو بھی استمعال کیا جاسکتا ہے۔
تین ۔ جب ایک خاندان میں ایک خان ذادی اس کام کے لئے تیار ہو گی تو وہ ا پنے خاندان میں اور دوسری لڑکیوں کو بھی راضی کرسکتی ہے"۔
چار۔ صوبہ سرحدمیں بارہ مشہور قبیلے ہیں۔ اور تقریاً اتنی ہی اُنکی شاخیں ہیں۔
" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اس پروگرم میںکیوں شامل ہوںگی؟ "
نیدو بولی ۔" خان ذادیاں اور ملک ذادیاں اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود چاہتی ہیں۔ وہ اس مصلہ سے بھی واقف ہیں۔ اور جانتی ہیں کہ اگر پختوں کی عورت کو زمانے کے ساتھ ترقی کرنی ہے تو تمام پختون کی عورتوں کو اس میں حصہ لینا ہوگا "۔
نسیمہ نے سوال کیا۔ " کیا اس پروگرام میں حصہ لینا خان ذدایوں اورملک ذادیوں کےلئے خطرناک ہے" ۔
" نہیں۔ کیونکہ ظاہری طور پر فوراً کویئ تبدیلی نہیں ہوگی جو کہ سرپرستوں کو خبردار کرے۔ خان ذادیاں اور ملک ذادیاں ان بچیوں کو اب بھی اپنی بہنوں کیطرح رکھتی ہیں۔" سکینہ بولی۔
جمیل نے مسکرا کر کہا۔ " یہ نہ صرف ایک عمدہ بلکہ نیک نیت کام ہے۔میں تیار ہوں "۔
ارم، نسیمہ اور سونیہ نے اپنے سر اثابت سے ہلائے۔
"کسی بھی کام کو کرنے کے روپیہ پیسہ کی ضررورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے فنڈ ایڈورٹائزمینٹ سے حاصل کریں گے۔ ویب سایٹ پر این جی او اور ہمارے مقصد سے ملتی جلتی دوسری آرگینایئزیشن کیpaid ایڈورٹائزمینٹ کی جاسکتی ہے۔ "سکینہ نے میٹنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ۔
مجھ سے شادی کر لو
سمندرکا پانی واپس جا چکا تھااورگیلی ریت پر رنگ بکھرا ہوا تھا۔ سورج نے افق پر نارنجی کا رنگ اختیارکرلیا تھا۔ سعدیہ نے ایک سفید لمبا ڈریس پہنا ہوا تھا۔ اس کے لمبے کھلے بال ہوا سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ اُسے سمندر سے بہت محبت تھی۔ اس کو یہ معلوم تھا اُس جگہ جہاں سمندر کا کھارا پانی ریت سے ملتا ہے دنیا کے ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ بھیا نے کتنی دفعہ کہاتھا، سعدیہ اگر تم آپنے ذہن کو خاموش کرلو تو تم ہر چیز کی آواز کو سن سکتی ہو۔
"شان اور وہ آج یہا ں کیوں کھانا کھایئں گے؟ " وہ پوچھنا چاہتی تھی مگر دل نے کہا انتظار کرو۔ حالانکہ اسکو اندازہ تھا کہ شان کا سوال کیا ہوگا؟۔
یہاں آنے سے پہلے انہوں نے بیورلی ڈرایؤ پر رُک کر 'گنگاجن' رسٹورانٹ سے پِکنِک کی باسکٹ بنوالی تھی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور کھاناشروع کیا۔ آلو بھرے سموسے، پاپڑ ، کباب کی پلیٹ جس میں سیخ کباب، تنگری کباب، چکن تکہ اور تندوری چکن تھا، گارلک نان اور قلاقند ۔ کھا نا بڑا مزے دار تھا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور چائے پی۔
سعدیہ سوچ میں غرق تھی کہ شان مجھے یہاں کیوں لایا ہے۔ اور شان اس سوچ میں تھا کہ سعدیہ میرے سوال کا کیا جواب دے گی؟ سوچ میں گم دونوں نے ایک دوسرے کی نگاہوں میں دیکھا۔
“شان“
“سعدیہ“
دونوں نے ایک دوسرے کا نام ایک ساتھ لیا۔
شان نے کہا۔" لیڈیز فرسٹ۔۔"
سعدیہ نے کہا " جناب پہلے آپ "
شان نے سعدیہ کو دونوں ہاتھ تھام کے اسکو کھڑا کیا۔سعدیہ کا چہرہ سمندر کیطرف تھا۔سورج آدھا غروب ہوچکا تھا اور سورج کی کرنیں سمندر کے پانی پر قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ سعدیہ کادل ، ریل کے اِنجن کیطرح دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے خواہش کی کہ دل دھیرے چلے مگر دل نے اورذیادہ ڈھڑکنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی پوری توجہ دل سے ہٹا کر شان کیطرف کی۔
شان نے اپنا سیدھا گھٹنا ریت میں رکھ دیا اور سعدیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کہا۔ " تم سمند رکی جل پری ہو، میں پہاڑوں کا باغی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تم اس ساحل سمندر سے محبت کرتی ہو۔اسلے میں یہ سوال تم سے کرنے یہاں لایا ہوں۔ میری محبت تمہارے لئے اس سمندر کی طرح گہری ہے اورمیری محبت اس سمندرکی طرح وسیع ہے۔ میں تم سے جدا نہیں رہ سکتا۔ میں تمہارا ہاتھ ہمشہ کیلے چاہتا ہوں ۔ سعدیہ تم اور میں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہوجائیں۔ مجھ سے شادی کر لو۔
سعدیہ نے تو صرف یہ سننا ۔"سمندر، جل پری، میں باغی، ساحل، محبت ، جدانہیں، ہاتھ، شادی" اور اس نے چلا کر کہا۔
" ہاں، میں، تم سے شادی کروں گی۔میں تمہاری بن جاوں گی۔تم میرے ہو جاوگے"۔
سعدیہ کا دل اب نارمل اسپیڈ سے چل رہا تھا۔
شان نے کھڑے ہو کر سعدیہ کوگلے سے لگا کر اس کے لبوں پر پیارکیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کو بے تحاشہ پیارکرنے لگے۔
اعلان
میں اگست میں گریجویٹ ہوگیا۔اباجان اور اماجان سے دنیا دیکھنے کے بارے میں کافی عرصہ سے بات چیت کررہا تھا ۔ پارٹ ٹایئم نوکری کی تنخواہ بھی اسی لئے جمع کررہا تھا۔ اباجان اور اماجان نے کہا تھاکہ وہ بھی اس میں مدد کریں گے۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں نے بچپن میں، سو 'goals' کو مکمل کرنے کی فہرست بنائ تھی۔اِن گول میں سے کچھ مشکل تھے اورکچھ آسان۔ مشکل والوں گولوں کی فہرست میں 'ماونٹ ایوریسٹ' کی چوٹی کو فتح کرنا، انگلیش چینل میں تیرنا، پانچ زبانوں میں بولنا اورکسی کی محبت میںگرفتار ہوجاناتھا۔ آسان والوں میں ساری دنیا کا سفر کرنا، پانچ براعظم پر رہنا، غزل لکھنا، افسانہ لکھنا، ناول لکھنا، سانپ کا دودھ دونا، گلایئڈر میں اڑنا تھا۔ میں نے بیس سال کی عمر میں پچھتّر گول مکمل کرلیئے ہیں۔جب میں نے اعلان کیا کہ میں چلا۔کویئ بھی شخص میرے اس فیصلہ خوش نہیں تھا۔ اباجان اور اماجان کو پتہ تھا کہ میں گریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن ان کے خیال میں یہ وقت سفر کے لے صحیح نہیں تھا۔ سعدیہ کو پتہ تھا کہ میں گرریجویشن کے بعد دنیا کا سفر کروں گا لیکن وہ مجھے اپنی ساتھ پختونستان لئے جانا چاہتی تھی۔ سکینہ اُداس تھی۔ اس نے بھی یہی سوچا تھا کہ میں اسکے گروپ کا حصہ بن جاؤں گا اور ہم دونوں کا مستقبل ساتھ ہوگا۔ میں سب کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ یہ صرف چار سال کی بات ہے۔ زندگی بھر نہیں۔ میں پچیس سال کا صرف ایک دفعہ ہونگا۔ میں اپنے گول مکمل کرنا چاھتا ہوں اس کے بعد میں آپ لوگوں کو کوہاٹ میں جوائین کرلوں گا۔
٭٭٭
سین وان ماؤنٹین کی قدموں میں ، اوراس کے شمال میں اور کولوراڈو پٹھار ریگستان کے مغرب میں "ر یج وے"ہے۔ میں جیمس ماونٹنیرینگ کے آفس پہنچا۔ کاونٹر پر ایک پیاری سی لڑکی کھڑی تھی۔اس کے گال سرخ سیب کی طرح تھے۔
"ہیلو۔" میں نے اسکے نیم ٹیگ پر نگاہ دوڑایئ۔ " جیسمین "
"ہای۔ میں آپ کی کس طرح مدد کرسکتی ہوں؟ " گال سرخ سیب نے کہا۔
میں نے دل میں کہا میرے ساتھ ڈنرپر چلو آج شام۔ مگر زبان نے کہا۔
“ میں جیمس انڈرسن سے ملنا چاھتا ہوں۔"
اس نے حیرت سے مجھ کو دیکھا۔ "کیا آپ کے پاس اپائنٹ منٹ ہے؟"
" نہیں"۔ میں نے کھسیا کے کہا۔
" کیا میں آپ سے پوچھتی سکتی ہوں کے آپ کو مسٹر جیمس انڈرسن سے کیا کام ہے؟"
میں ماونٹ ایورسٹ کو چڑھنا چاھتا ہوں۔ اس سے پہلے میںalps سویزر لینڈ میں ٹرنینگ چاھتا ہوں۔ اور اس سے پہلے میں ایروبیک اور جسمانی ٹرنینگ چاہتا ہوں"۔
وہ زور سے ہنسی اور اسکے لب گلاب کی پنکڑی کیطرح علحیدہ ہوگے"۔ میں یہاں تین ماہ سے کام کررہی ہوں مگر میں نے جیمس انڈرسن کو صر ف ایک بار دیکھا ہے۔ انکے کلائینٹ تو پہلے سے ہی کامیاب climber ہیں اور صرف مشورہ کے لے آتے ہیں۔ویسے تو ہم سب سرٹیفایئڈ ہیں " ۔
" تب تو میں جیسمین سے ٹرنینگ لوں گا "۔
وہ دوبارہ زور سے ہنسی۔ " تم کہاں پر ٹہرے ہو؟ "
" فی الحال تو کہیں نہیں۔ میں سیدھا ایئرپورٹ سے آرہا ہوں "۔
"میرا اپارٹمیٹ دو کمرے کا ہے اور میر ے اکیلے کے لیے منہگا ہے۔ چاہو توکرایہ کا آدھا آدھا حصہ کرلیں "۔
" تم تو فرشتہ ہو !" میں نے ہنس کر کہا۔
"میں آدھ گھنٹے میں یہاں سے فارغ ہوں گی۔ تب میں تم کو اپنی گاڑی میں لے چلوں گی"۔
سیر سپاٹا
پیارے بھیا۔
میں خیریت سے کو ہاٹ پہنچ گی ہوں۔ شان اور میں لاس انجلس سے پندرہ جولایئ کو آٹھ بجے نکلے ۔ لاس انجلیس سے لندن کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ لندن کا وقت آٹھ گھنٹے آگے ہے۔اسلئے لند ن میں بارہ بجے رات کو پہنچے۔ ہم نے لندن میں دو دن قیام کیا اور شہر کی مشہور جگاہیں دیکھیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ددنوں دن موسم خوشگوار تھا۔ ورنہ اس مہینہ میں عموماً بارش، اور حبس ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ وقت نہیں تھا اسلے ہم نے نارمن ٹوورس کو گھومنے کے لے بلایا۔ٹور سات گھنٹے کا تھا۔ ہم نے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ایبی، بِگ بین، ہاوس آف پارلیمینٹ، پیکاڈلی سرکس، ٹرافالگر اسکوائر ، نمبر ٹین ڈاوننگ اسٹریٹ اور کنسنگٹن پیلس کی سیر کی۔
دوسر ے دن ہم نے لندن انڈر گراونڈسب وے لیکر ناٹینگ ہم ہلز گے ۔ اس علاقے میں بہت پاکستانیوں اور انڈین ہیں۔ ہم بازاروں میں گھومے ۔ ٹھیلے والوں سے دہی بڑے، چاٹ خرید کرکھایئ او رگول گپوں کا پانی پیا۔ اسکے بعد قلفی کھایئ۔ شام میں ہم نے افغان کچن میں چکن پلاؤ، کباب اور نان کھائے۔ یہ چیزوں کو کھانے میں بہت مزا آیا اور بھیا میں نے شان سے مرچوں کی بھی شکایت نہیں کی ساری رات پیٹ سے آوازیں آتی رہیںاور پیٹ میں درد بھی ہوا۔
لندن سے دوبیئ ہوتے ہوئے ہم کراچی اترے۔کراچی لاس انجلس کی طرح ایک بڑا شہر ہے۔ مگر گرمی اور حبس نے میرا بُرا حال کردیا۔ اور ہم نے پشاور کی ایر کیڈیشن ٹرین کراچی کے سنڑل اسٹیشن پکڑی۔ پشاور میں سکینہ اور نیدو لینے آیئں۔
میں اباجان اور اماجان سے آپ کے بارے میں ہر دوسرے دن سنتی ہوں مگربھیا میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔ دن میں تو میں بہادر بنتی ہوںلیکن شام سے آپکی یاد آتی ہے۔ اور میں تکیہ میں منہ چھپا کر روتی ہوں۔ آپ مجھ سے ملنے کے لیے کب آئیں گے؟۔
آپکی ننھی۔ سعدیہ
ٹریننگ
" چلو، اُٹھو"۔
"کیا ہے؟ سونے دو"۔
" فِٹ نیس سینٹر جانا ہے"۔
" چلی جاؤ"
" اب اُٹھ بھی جاؤ۔ مجھ سات بجے دو سرے کلائیٹ کو ٹرین کرنا ہے"۔
" اس ہفتہ کا اسکیجول ۔ ویٹس۔ ایروبِکس۔ ایروبِکس ۔ریسٹ ۔ ویٹس اورایروبِکس۔ رن یا جاگینگ(آہستہ بھاگنا)۔ لمبے ایروبکس "
" میں نے پہاڑ پر چڑھنا سیکھنا ہے۔ویٹ لفٹر نہیں بننا"
"تم پہاڑ پر بھی چڑھنا سیکو گے لیکن ابھی اس قابل نہیں ہو"۔
" پہاڑ پر چڑھنے کے لئے ویٹس، ایروبِکس اور صحیح طریقے سے سانس لینا بہت ضروری ہے"۔
" اورھیڈ پریس، لیٹ ریز ، اسٹیندینگ رو، بیک ارچ، ریورس فلایئ، لیٹ پُل ڈاون، سیٹیڈ رو، بیک ارچ اوراَرم کرل ۔ ہر اکسرسایئس کا ایک سیٹ پہلے تین ہفتہ۔ اس کے بعد دو سیٹ"۔
" میں یہ سب کچھ نہیں سن رہا" ۔
" ایروبِکس کے لے تیس منٹ تک چلو یا بھاگو۔ اور اس کو بڑھا کر ایک گھنٹہ تک لے جاؤ ۔ اور یہاں تک کہ تم ایک گھنٹے تک تیس پاونڈ کا وزن لیکر چل سکو"۔
" آرام کے دن بہت پانی پئیو۔ کچھ اسٹریچنگ کرو ور مالش کرواؤ"۔
" چلو میں تم سے جیم تک دوڑ لگتی ہوں۔ اگر میں جیتی تو تم کو میرے لئے ناشتہ خریدنا ہوگا" ۔
میٹر ہارن
زرمٹ سویزرلینڈ کا شمار دنیا کے مشہور پہاڑی گاوں میں ہوتا ہے۔ زرمٹ چار طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک وادی میںواقع ہے۔ جسے ہی آپ لال سویز ٹرین سے اترتے ہیں۔ زرمٹ میں کار کے بجائے بغیرپییوں کی گھوڑا گاڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ سڑکیں پتھر کی ہیں۔زرمٹ ٢٩ پہاڑوں میں تیراہزار فٹ سے اونچے پہاڑوں کا گھر ہے۔ یورپ کی دس میں سے نو بلند چوٹیاں زرمٹ کے اردگرد ہیں۔٩ اسنو اکی لفٹ اوران میں سے ایک لفٹ بارہ ہزار آٹھ سو تیئس فٹ کی بلندی تک جاتی ہے۔ ایک ہفتہ سے اس اونچا یئ اور آب و ہوا سے جسم اور ذہن کو عادی کرنے کیے لیئے ہم زرمٹ میں سے تھے اور پہلے تین دن ہرروز چا ر گھنٹے چہل قدمی کی۔
چڑھائی کا پہلا دن ۔ کیوںکہ میرا ایک سال سے کم کا ماونٹین پر چڑہنے کا تجربہ تھا۔ لیڈر نے ہارن لیریج راؤٹ چنا اس راستہ پر مشکل حصوں میں مستقیل رسّیاں موجود ہیں۔ ہم گروپ سے زرمٹ میں ملے اور فلو الپ ہٹ تک پیدل چلے۔ فلو الپ سے اونچایئ کے پہلے ماونٹین ہٹ تک کیبل کار میں سفر کیا۔ چڑھنے کے لے پہلا بیس اسٹیشن آٹھ ہزار ساتھ سو ننوے فٹ پر رِمپیش ھارن ہے۔ رِمپیش ہارن کی چوٹی تیرا ہزار سات سو تیہتر فٹ اونچی ہے۔ جیسمین نے کہا کے اس ہٹ کا کھانا بہت مشہور ہے۔اور واقعی وہ صحیح تھی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔
دوسرا دن ۔ رِمپیش ہارن ۔سورج نکلنے سے پہلے ہم سب اپنے چڑھایئ کے گیئر پہن چکے تھے۔ ہم نے گلیشیر پر چڑھنا شروع کیا۔گلیشیر کے بعد بغیر برف والا حصہ تہہ کیا۔ یہاں سے اوپردیکھو تو میڑہارن بڑا خوبصورت نظر آتا ہے۔ اور ماونٹ روزا ماسیف، زرمٹ کا گاوںاور ساسفی بھی دِکھتا ہے۔ شام کو ہم زرمٹ واپس آگئے۔
تیسرا دن۔ رِفّل ہارن کی اونچایئ نو ہزار چھ سو فٹ ہے ۔یہ اگرچہ زیادہ بلندی پر نہیں ہے لیکن یہاں ہم اپنے اپ کو میٹر ہارن کی چڑھایئ کیلے تیاری کرتے ہیں۔اس چھوٹی پہاڑی پر ہم مختلف چڑھا یؤں کی مشق کرتے ہیں۔میڑہارن یہاں سے اور بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔
چوتھا دن۔ ہارنلی ہٹ ۔ ہم کیبل کار کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں اور پھر کیبل ا سٹیشن سے دو گھنٹے چلنے کے بعد ہارنلی ہٹ پہنچتے ہیں۔ یہ دس ہزار چھ سو تیرانوے فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ہٹ دو بلڈنگ ہیں ، ایک لال اور دوسری سفید۔ لال بلڈنگ کے سامنے سویزر فلیگ لہرارہا ہے۔ سہ پہر میں ہم ہارنلی پرمشق کرتے ہیں۔ کیونکہ دوسری صبح ہم اندھرے میں یہاں سے گزریں گے۔ہم کھانے کی درمیان میٹرہارن پر چڑھنے کا منصوبہ تیار کرتے ہیںاور صبح جلد اٹھنے کے کیلے سوجاتے ہیں۔
پانچواں دن ۔میٹرہارن کی چڑھائ۔ہم سورج کے نکلنے سے پہلے نا شتہ کرتے ہیں۔ ہم چھوٹی رسیوں کی مدد سے ٹیلوں پر چڑھایئ کرتے ہیں۔ ساڑھے پانچ گھنٹے میں ہم میٹرہارن چودہ ہزار چھ سوچورانوے فٹ کی چوٹی پر پہنچ جاتے یہاںمیٹرہارن پر سویز۔اٹالین سرحد ملتی ہے۔ یہ دن بہت اچھا ہے ۔ سب اس اونچایئ سے چاروں طرف کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہارنلی ھٹ تک واپسی میں چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد کیبل کار کے اسٹیشن کو چلتے ہیں۔کیبل کار میں ایک مختصر سفر کے بعد ہم زرمٹ میں ہیں۔
چترال
پیارے بھیا۔
مجھے آپ کا یورپ کا سفر اور میٹرہارن کی چڑھایئ کا پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ آپ کو یاد ہے جب آپ نے سو' گول' پچیس سال کی عمر سے پہلے ۔'کرنے ' کے لے بنائے تھے! میں نے صرف ایک ہی گول بنایا تھا "ایسا اچھا کام کروں کہ سارا جہاں سعدیہ کو جان جائے گا "۔ اور میں نے کہا تھا کہ باقی گول میں بھی آپ کے ساتھ ہونگی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گی۔ میں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ میں سوچتی ہوں، کیا جسمین آپ کی اسطرح سے دیکھ بھال کرتی ہے۔ جیسے میں کرتی؟
میں پچھلے چھ ماہ سے 'افغانہ' ویب سایئٹ کے انگلش اور اردو رومن سیکشن پر کام کررہی ہوںاور کوہاٹ یونیورسٹی میںپشتو سیکھ رہی ہوں۔ بازار میں سب لوگ مجھے پختون سمجھتے ہیں۔ نسیمہ نے مجھے تربیت دے کر کہا کہ وہ اب صرف پشتو اور اردو کی ویب سایئٹ کو سنھبالے گی۔ بھیا اب میں بلکل اکیلی انگلش اور اردو رومن سیکشن کو سنھبالتی ہوں۔ تم دیکھنا۔ تم آپنی ساد پر فخر کرو گے!
لیکن اب مجھے بیچنی رہتی ہے۔ مجھے شان کو دیکھنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ وہ فلیڈ میں ہوتا ہے اور دنوں تک اس سے بات نہیں ہو پاتی۔ اسکے کام میں بہت خطرہ ہے اور مجھے ہمشہ اس کی فکر رہتی ہے۔ میں اب اس کے ساتھ کام کرنا چا ہتی ہوں تا کہ میں اس کی دیکھ بھال کر سکوں۔
ہمارے خانذادیوں کے نیٹ ورک میںاب تمام صوبہ سرحد کے ضلعوں میں کم ازکم ایک خان ذادی خفیہ ممبر ہے۔ کئی ضلعوں میں، مثلاً کوہاٹ میں تو ہر تحصیل سے ایک یا دو خانذادیاں ممبر ہیں۔
پچھلے مہنیہ ہمیں ایک مخبر سے پتہ چلا کہ چترال میں ' خا و' خاندان میں ایک بارہ سالہ لڑکی کی شادی زبردستی کی جا رہی ہے اور اس نے ہماری خفیہ خان ذادی سے مدد مانگی ہے۔ بھایئ یقین کر یں کہ یہ خان ذایاںاپنے خاندان کے مردوں سی اتنی ڈرتی ہیںکہ ہمیں بھی اپنے نام اور پتہ نہیں بتا تیں۔ لیکن شان نے دوسرے زرائع سے ان کے متلعق معلومات جمع کی ہیں۔ مثال کے طورپر اس خانذادی نے نہ تو اپنا نام دیا اور نہ ہی تحصیل کا۔ تھوڑی دیر مخبر سے بات کرنے سے ہم کو لڑکی اور تحصیل کا نام پتہ چلا۔
اس صورت میں شان اس لڑکی کو اسلام آ باد تک پہنچانے کا انتظام کرے گا۔ پشاور سے ایک دوسری تنظیم اس لڑکی کو ملک کے کسی حصہ میں ایک خفیہ گھرمیں بھیج دے گی۔
شان کے ساتھی اکبر بھایئ کو جاڑے دار بخارآیا تھا۔ شان کو ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ میں نے بڑی خوشامد کی شان بڑی مشکل سے راضی ہوا کہ میں اسکے ساتھ جاؤں۔
آپکی ننھی۔ سعدیہ
افغانہ
میرا کام پشاورسے چترال کے راستہ کی نشان دہی کرنا تھا۔ چترا ل سے پشاور ، ہوایئ جہازکے سفر میں پہچان کر پکڑے جانے کا خطرہ تھا ،اور فلایئٹ صرف پہلی اپریل سے بیس اگست تک تھیں ۔ فلایٹ کا بھروسہ نہیں تھا ، کبھی پرانے فوکرجہازوں کی مرمت کی وجہ سے اور کبھی موسم خراب ہونے کی وجہ سے فلایٹ نہیںجاتی ۔ لیکن اچھے موسم میںپچاس منٹ میں چترال پہنچ سکتے ہیں۔ سڑک بہتر ذریعہ تھا۔درگایئ مالاکنڈ کےنال روڈ سوات تک ، دِیراور پھرلاری پاس(درّہ) ۔ لیکن درّہ سردی کے موسم میں بند ہوجاتاہے۔ اگرچہ دِیر سے چترال صرف ستر کلومیٹر ہے لیکن خراب سڑک موسم اور مڈ سلایڈ کی وجہ سے چودہ یا پندرہ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ ٤*٤ ملیٹری چھوٹی جیپ گاڑی ہو نا بلکل ضروری ہے۔
" ہم پشاور سے۔' دیر' تک بس بھی لے سکتے ہیں"۔شان نے کہا ۔
" صرف ایک راستہ آنے جانے کاہے اگر ہمارا راز کھل گیا تو آسانی سے پکڑے جایئں گے۔ دوسرا راستہ شندور پاس سے گلگت جانے کا ہے جسکا سفر ٢٥ گھنٹے کا ہے۔ شا ن نے کہاکہ ہمیں جنگل کے متعلق معلومات ہونا چاہیں"۔
میں نے کہا ۔ ".جنگل میں جپسی قوم 'گو وجر' رہتی ہے"۔
" لڑکی کے متعلق ہمیں اور کیا پتہ ہے؟ "
میں نے شان کو بتایا کہ عمر ١٢سال کی ہے ۔ قد ٤ فٹ ٦ انچ کا، وزن ٤٠ پاونڈاور رمپور وادی میں رہتی ہے۔ زبان 'خوور' ہے۔ تھوڑی سی پشتو بولتی ہے او ر ا سکول جاتی ہے"۔
"کیا یہ لڑکی پکے ارادہ والی ہے ؟کیونکہ اگر اس نے ارادہ بدل دیا تو یہ سفر بہت مشکل ہوجائے گا"۔ شان جاناچاہتا تھا۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم وقت کو بچانے کیلے ہوائی جہاز میں سفر کریں گے۔ اور ہمارے پاس واپسی کے تین ٹکٹ ہو ں گے۔ لڑکی ہمارا ۔"ٹارگیٹ" ہم سے علحیدہ سفر کرے گی۔ اگر اس کام میں کوئ روکاوٹ نہ ہویئ تو ہوائی جہاز سے ہی واپس لوٹیں گے ورنہ جنگل کا راستہ اخیتار کریں گے۔ میں ایک فرانسی عورت کا کردار کروں گی اور شان ایک گائیڈ کا۔ شان نے گائیڈ کااورایک ٹرانسپورٹ اپریٹرکا بھی پرمٹ اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں نے اےک برقعہ اور ایک پاکستانی کپڑوں کا جوڑا رکھ لیا اورایک بارہ ، تیرہ سال کی عمرکے لڑکے اور لڑکی کی لئے ڈھیلی قمیض، اسکارف ، پتلون اور جوتے، بھی خرید کر رکھ لی ۔ انکے علاوہ تین ، پندرہ پندرہ، آدھے لیٹر والی واٹر ربوتل بھی رکھ لیں۔ ہائی اسکول میں، میں نے جنگلsurvival کی کلاس لی تھی اس لے مجھ کو پتہ ہے کی کیا چیزیں ضروری ہیں۔ میں نے آرمی واٹر فلاسک ، ٹارپ ، چار خیمہ کو لگانے والی سلاخیں، سو فٹ لمبی رسی اور latches ، تین space age کمبل، اور inflateable تکیے اور اور ایک چھوٹا مچھلی پکڑنے کا جال ، ڈفل بیگ میں رکھ لے۔اورsurvival کی دوسری اشیا ء بھی ۔ ایک دیڑھ فٹ کی echete mکو چمڑے کے کیس میں رکھ کر ڈفل بیگ کی بیرونی جیب میں رکھ لیا۔ شان ڈفل بیگ رکھے گا اور میں ایک بیک پیک رکھوں گی۔بیک پیک میں قطب نما، واٹر پروف ماچیس، سویز آرمی چاقو، پندرہ ، پندرہ پروٹین بار، نمک، کالا نمک، سرخ مرچ ، انٹی بایوٹِک گولیاں، فرسٹ ایڈ کا باکس اور واٹر کو صاف کرنے والی گولیاںبھی رکھ لیں۔
پی۔آی۔ اے نے موسم کی وجہ سے فلایٹ کنسیل کردی۔ شان نے وللی ایم تھرٹی ایٹ جیپ کرایہ پر لی۔ چترال جانے کے تین راستہ ہیں۔ پشاور سے چلیں اور اگرکویئ روکاوٹ نہ ہوتو چکدارہ، دیر اور لوآری درّہ سے تو بارہ گھنٹے کا راستہ ہے۔سادھو شریف، سوات ، دیر اور لوآری درہ سے دس گھنٹے کا راستہ ہے۔ اگر گلگت سے چلیں تو گوپس، پھندار اور شاندور درہ بیس گھنٹے میں پہنچیں گے۔ ہم پشاور میں تھے ہمارا راستہ چارشادہ، پہاڑوں میں باڑ خیلا ، ووچ، واردی پوست اور پھر چترال۔ راستہ بہت خوبصورت ہے۔ سٹرک پر درختوں کی لاین لگی ہے۔ فضا گنّے کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔
ایک آدھ گھنٹے میں تخت بھائی سے گزرے شہر میں کافی چہل پہل ہے ۔تخت بھایئ کے کچھ میلوں کے بعد پہاڑوں کو سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سڑک اب بل کھا تی ہویئ اوپر چڑھتی ہے۔سڑک کے ساتھ ساتھ دریاِ پنج کورا بھی سانپ کی طرح بل کھاتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ ہر موڑ پر گاڑی روک کر تصویرں لو۔ نقاب پہنی ہویئ ننھی بچیاں بکریوں کی چرواہا ہیں۔ کہیں لڑکے پانی کے تیز بہاؤ میں کھیل رہے ہیں۔کہیں لوگ چرخی، ٹوکری اور رسی کی مدد سے دریا کو پار کر رہے ہیں۔
پہلا پولیس چیک پوانٹ پیمرگارا ہے۔ پولیس گارڈ نے ہم کو ہاتھ کے اشارے سے جانے دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ 'دیر' میں ایک گھنٹا ٹہریں گئے۔ ہاتھ منہ دھویں گے اورکھانا کھائیں گے۔ دیر پہنچ کر ہم ہوٹل المنصوٹہرتے ہیں۔ ہمارا کمرہ چھت پر ہے۔ یہاں سے آپ تیرچ میر جو ہندو کش کی تیئس ہزار فٹ بلند چوٹی کا نام ہے اور جس کا ترجمہ' بڑے بزرگ ' ہے کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ اس وقت ٹیمپریچر ْ٧٥ ہے۔اور موسم خوشگوار ہے۔ میں نے برقعہ پہنا اور ہم نے شہر کی میں ا سٹریٹ اور دریا کی پار کرنے کی جگہ کا جایزہ لیا۔اسکے بعدہم نے نیچے جانے والا دروازے کی کنڈی لگادی اور چار پایاں کھلے برآمدہ میں لگا دیں۔شان اور میں نے آسمان پر جنوبی ستا رہ تلاش کیا۔ میں شان کو بتایا کہ ستاروں کی مدد سے کسظرح سے صحیح راستہ اختیار کرتے ہیں۔
ہم صبح ناشتہ کے بعد لوواری درہ کی طرف چلے۔ راستہ میں ہم نے سڑک کا جزیہ دیا۔ دوپہر تک ہم چترال کے شہر میں پہنچے۔ میں نے ہوٹل پی۔ٹی۔ڈی۔سی میں بُکینگ کرایئ تھی۔ ہوٹل بازار میں ہے۔ میں نے پاکستانی شلوار اور قمیض اور ڈوپٹہ پہن رکھا تھا۔ہم نے چابیاں لیں اور کمرے کھولے۔کمرے میں ہر چیز موجود تھی۔
ہم نے شہر کی بڑی سڑک پر چہل قدمی کی۔شاہی مسجدکے پاس دریا کے کنارے قلعہ چترا ل ' نو غورے 'کو دیکھا۔سہ پہر میں ہم گرم پانی کا چشمہ دیکھنے گے۔ پولو ، چترال ہی میں شروع ہواہے۔یہاں پولو امیروں کاکھیل نہیں ہے بلکہ سب لوگ کھیلتے ہیں۔ دو گھنٹے دور وادیوں میں چھپا کلاشی قبیلہ ہے۔یہ لوگ کافر ہیں اور انکے ابا واجداد سکندر اعظم کی فوج سے ہیں۔بہت حسین اور خوبصورت لوگ ہیں۔
شام کوواپسی پر ہمیں ایک گھبرا یا ہوا جوان لڑکا ہوٹل کے باہرملا۔اس نے شان کو روکا اور پشتو میں با تیں کرنے لگا۔ میں پیچھے دور کھڑی ہوگی۔ بات کو جلدی ختم کرکے وہ تیزی سے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گلی کے نُکّڑ پر غائب ہوگیا۔
شان نے کہا۔" لڑکی کے ماں اور باپ کو کسی طرح سے پتہ چل گیا ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ہمیں یہاں سے جلد نکلنا ہے ۔ صرف ڈفل بیگ اور بیک پیک لینے کا وقت ہے۔ تم کرایہ نمٹاؤاور قعلہ پر لڑکی سے مل کر میرا انتطار کرو۔ میںاوپر سے سامان لیکرآتا ہوں اور جیپ کو واپس کرکے تم دونوں سے ملتا ہوں۔ ہمیں جنگل کا راستہ لینا ہو گا"۔