پختون کی بیٹی۔ داستان گل و بلبل - باب اول

تفسیر

محفلین
.
پختون کی بیٹی

سید تفسیر احمد

باب اول۔ داستانِ گل و بلبل


1۔ گل

2۔ سکینہ

3۔ خان

4۔حدود ارڈنینس

5۔ پینو

6۔ ساحل سمندر​

٭ ٭٭

آج کے زمانے میں ایسی قوم دنیا کی بھلائی اور انسانیت میں کیا حصہ لےگی
جو عورتوں کی عزت کو لوٹنے میں فخر محسوس کرتی ہو؟

جو ماں، بہن اور بیوی کو روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ یہ تو کوئ مردانگی نہیں۔
عورت بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ وہ کوئ گائے یا زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔

جس نے تم کو جنا ہے اور تم اس کو بازارمیں نیلام کرتے ہو! جس نےتم کو بھائ کہا تم سےلاڈ کیا،
اس بہن کو بیچ دیتے ہو!

تم اپنی ہی اولاد ، اپنی ہی بیٹی کوخان اور ملّک کے پاس چھوڑ آتے ہو
اور بیٹیوں سے باپ کہنے کا حق چھین لیتے ہو۔
یہ نہیں جانتے کہ کتنے مرد اُس کی بےحرمتی کریں گےاور اس کی عزت لوٹیں گے!





گل

میں نے کمپیوٹر آن کیا۔اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اسائنمنٹ کی فائل کو کھولا۔

کلاس: فلسفہ۔ ایم چار سو دو۔ ارسطو
پروفیسر : سان کیلسی۔اسسِٹنٹ پروفیسرآف فلاسفی، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ایٹ لاس اینجلس۔
اسائنمینٹ: اَچھائ کا virtue
ڈیؤ ڈیٹ: پانچ جولائ

کمپیوٹر کے اسکرین پر میسنجرکا ایک ’ پاپ اپ‘ نظر آیا۔
” سلام“۔
دماغ نے کہا نظرانداز کردو۔ میں نے’ مصروف ‘ہو نے کا بٹن کِلک کردیااور اپنی توجہ اسائنمنٹ پر مرکوز کی۔
اچھائ۔میں نے عنوان لکھا۔ اسکرین نے ایک بھبکالیا۔
” سلام“۔
میں نے ’ ناموجود ‘ ہو نے کا بَٹن کِلک کردیا۔ اورتَمہید لکھنی شروع کی۔اچانک ذہن خالی ہو گیا۔
اسکرین پھرسے بھبکا۔۔۔ سلام۔۔۔اور مسینجرنے سارے اسکرین پر قبضہ کرلیا۔
” سلام “۔
میں نے پروفائل دیکھنے کی کوشش کی۔ نام ، جنسیت ، ملک اور پیشہ کے خانے میں’ نا اِظہار‘ لکھا تھا۔
سعدیہ میری چھوٹی بہن کمرے میں داخل ہوئ۔ میں نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئ۔
” تم کون ہو؟“میں نے پوچھا۔
”میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” مجھے 5 جولا ئ سے پہلے اپنے کالج کے اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے“۔
” میں نے تمارا افسانہ’مدّوجزر‘ پڑھا“۔
” کیا تم کو پسند آیا؟“میں نے نرمی اختیار کی ۔
” میں نے تمارا مضمون تقویٰ بھی پڑھا“۔
” تو؟“ میں نے کہا۔
” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” کیوں؟“ میں نے سوال کیا۔
” مجھےاور میری تمام بہنوں کوتمہاری مدد چاہیے“۔ اس نے عاجزانہ لہجہ میں کہا۔
” مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ تم مجھ سے کھیل رہی ہو“۔
” مجھےاور میری تمام بہنوں کوتمہاری مدد چاہیے“۔اس نےمیری بات کونظرانداز کردیا۔
” کیوں؟“ میں نےمطالبہ کیا۔
” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے پھر دوہرایا“۔ ہم’ آڈیو‘ استمعال کریں گے“۔
” لیکن میں مصروف ہوں۔ مجھے اس اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے”۔
” اگر میں تم سے وعدہ کروں کہ ہماری گفتگو کےاختتام پرتم اس اسائنمنٹ کو آدھےگھنٹے سے کم وقت میں کر لوگے تو کیا پھر تم مجھ سے بات کروگے؟ ”
میں نے اس کو’ قہقہہ‘ لگانے کا ونک بھیجا اور بے پروائ سے آڈیو کی درخواست کو قبول کرلیا۔ ویسے بھی اس وقت میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔

میں نے مائکروفون میں کہا۔” تمہارا کیا نام ہے ؟ تم کون ہو؟ اور تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ اگر تم ان باتوں کا جواب پانچ منٹ میں نہ دوگی تو میں کمپیوٹر کو آف کردوں گا”۔

اس نےصرف یہ کہا کہ پانچ منٹ کے بعد یہ مجھ پر ہوگا کہ میں اس کی تمام باتوں کوسنوں یا نہ سنوں۔

” میرا نام گل ہے“۔

کنکشن بہت صاف تھا۔ میں نے پہلے کبھی اس انٹرنیٹ آڈیو کواتنا صاف نہں سننا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ لڑکی میرے کمرے میں موجود ہے۔ اس کی آواز غم اور سوزسے بھری تھی۔

” آپ داستان لکھتے ہیں! میں نے آپ کی داستان ۔ ’مدّ وجزر‘ پڑھی - بہت اچھی لگی۔ اگر میں آپ کو ایک حقیقی داستان سناؤں توکیا آپ اس کو لکھیں گے؟“

” میں آپ سے بد سلوکی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں صرف اپنی پسند کے موضوع پرداستان لکھتا ہوں“

گل نےمجھےنظرانداز کر کے کہا۔

” میں پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک چھوٹےگاؤں میں پیدا ہوئ۔ میرا ایک بھائ ہے جو مجھ سےدو سال بڑا ہے۔اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں۔ ایک ،سال بھر اور دوسری دو سال مجھ سے چھوٹی ہے۔ میں نےاس کی سِسکیوں کی آواز سنی۔ ہمارے ساتھ دادی، نانی،چچا اورچچی بھی رہتے تھے۔

ابا بہت بوڑھے ہیں اور وہ چار جماعت تک اسکول گئے تھے۔ اس لے وہ مزدوری کا کام کرتے تھے۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ جب کبھی ماں کوابا کچھ پیسے دیتے وہ بھائ کے ساتھ بازار جاکر سبزی، گوشت اور آٹا لے آتی تھیں۔ بعض دفعہ ماں ہم کو صرف’ ڈوڈئ‘ اور پانی دیتی اور ابا کو’ ٹیکالہ‘۔ میں جب چھ سال کی تھی تو پہلی دفعہ میں نے خان صاب کے ہاں دودھ پیا۔

” ڈوڈئ اور ٹیکالہ کیا ہوتا ہے“۔ میں نے سوال کیا۔
میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔

” میں پانچ سال کی تھی ایک دن ماں نے کہا بیٹی تمہارے بھائ کوبابا، مردان کے خان صاب کےہاں لےجارہے ہیں۔ یہ اب خان صاب کے پاس رہ کر کچھ سیکھےگا“۔

میں نے کہا ” بھائ وہاں کیوں جائیں یہاں کیوں نہیں سیکھتے ؟“

میں نے بھائ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔” بھائ ! تم مجھ کو چھوڑ کرمت جا ؤ۔ میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟ کس کے ساتھ اس کول جاؤں گی؟ جب بڑے بچےمجھ کوماریں گے توکون مجھ کو بچائے گا؟ “

سعدیہ کے آنسواب اس کےگالوں پر بہ رہے تھے۔

باپ نےمیرا ہاتھ جھٹک دیا۔ بھیا نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا کرچیخ ماری اور وہ چلایا۔گل،گل“۔
میں بھائ کواب بھی دروازے سےنکلتا دیکھتی ہوں۔ جب میں دروازے پر پہنچی

توبابا۔ بھائی کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔

جیسے سُوئی ایک پُرانے ریکارڈ پر رُک جاتی ہے وہ ایک گِھسّے ہوے ریکارڈ کی طرح ایک جملہ دُہرانے لگی۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ سعدیہ اب رو رہی تھی۔گل رو رہی تھی۔ پھرمیں نےگل کی دھاڑیں مار کر رونے کی آواز سنی۔

میں خاموش رہا۔ میرے پانچ منٹ تک سننے کے وعدے کوگزرے ہو ئے عرصہ ہو چکا تھا۔ میں اب اس مقام پر تھا جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ مجھےاب اس کہانی کوسننا تھا۔

” میں نے میرے بھیا کو آخری بار دیکھا۔ وہ منظر مجھ کو آج بھی اس طرح نظر آتا ہے۔ جیسے پھر سے ہو رہا ہو“۔ گل نے روتے ہوکہا۔

مجھ سے کرسی پر بیٹھا نہ گیا۔ میرے آنسو بہنے لگے۔میں نے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کیا۔

بہت عرصہ گزرا- ایک دن میں اسکول سے واپس آئ تودیکھا کہ ابا ، اماں کولکڑی سےمار رہے ہیں۔ ابا نے اماں کو بہت مارا۔ میں بہت ڈری اور دادی کے پاس بھاگ گئ۔

دوسرے دن ماں نےمجھے نہلا کرصاف کپڑے پہنائے۔ میرے بالوں میں کنگھی کی۔اور مجھے بہت پیارکیا۔ وہ بہت رویں۔ مجھے پتہ نہیں وہ کیوں رورہی ہیں۔ مگرمیں بھی نہ اپنے آنسوکو روک سکی اور ہم دونوں لپٹ کر بہت دیر تک روئے۔

شام کو بابا آئے اورکہا چلو۔ میں نے کہا۔” بابا ،ہم کہاں جارہے ہیں۔ اماں ہمار ے ساتھ نہیں آئیں گی“۔

ابو نے کہا۔” میں تم کوخان صاب کی حویلی میں لے جاتا ہوں۔ وہاں تم کو اچھا کھانا اورصاف سترے کپڑے ملیں گے۔اورتم گھر بار کی چیزیں سیکھوگی۔ بلبل ، اس طرح جب تم بڑی ہوگی تو تماری شادی ہوسکے گی“۔

میں نے روتے ہوکہا۔” بابا میں اماں کے پاس رہوں گی۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی“۔
بابا نے مجھےگِھسیٹنا شروع کیا اور میں نے چلانا شروع کیا“۔

میں اب بھی بھیا کو دروازے سے جاتا اور گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔اب میں اپنے آپ کو بھی بھیا کی طرح گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔

میری ٹہلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔

میں ایک نوجوا ن ہوں جس نے زندگی میں ایک وقت بھی فاقہ نہیں کیا۔جو ایک دن بھی اپنے ماں باپ اور بہن سے جدا نہ ہوا۔ جس کی بہن اس کو ہرگھنٹہ سیلولر فون پرکال کرتی ہے۔اور اگرمیں مصروفیت کی وجہ سے جواب نا دوں تو بیقرار ہو جاتی ہے اورطوفان کھڑا کردیتی ہے۔

” الٰہی میں کیا سن رہا ہوں؟ کیا یہی تیری توفیق اور تیرا انصاف ہے؟ تو دیتا ہے ایک کواورسب کچھ چھین لیتا ہے دوسرے سے“۔

اچانک میں نےگل کی آواز سنی۔

میرے بابا نےمجھے پیارکیا اورکہا۔” میری بلبل تم اندر جاؤ۔ اللہ حافظ“۔

حویلی کےاندر بہت لوگ تھے۔ گھر کے کاموں کی دیکھ بھال کرنے والی ماسی مجھے باورچی خانہ میں لےگئ۔ اور سبزی کاٹنے پر لگا دیا۔ مجھے تو چھری پکڑنا بھی نہیں آتی تھی۔ میں نےدیکھا کہ دو لڑکیاں وہاں کام کررہی ہیں وہ مجھ سے عمر میں بڑی ہیں۔ ان کا نام نورا بی بی اور جمعہ بی بی تھا۔جب ماسی باورچی خانہ سے چلی گئی تو میں ماں اور بھائ کو یاد کرکے رونے لگی۔ اتنے میں دروازے سے ایک بڑی لڑکی داخل ہوئ۔ لڑکیوں نے کہا چھوٹی مالکہ بی بی آرہی ہیں جھک کر سلام کرو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ کر سلام کیا۔

وہ مجھ کودیکھ کر مسکرائ۔
” تم نئ لڑکی ہو۔ تمھارا کیا نام ہے؟“۔
میں نے شرما کرکہا۔” گل، سب مجھ کوگل کہتے ہیں۔ میرے بابا مجھ کو اپنی بلبل کہتے ہیں“۔

اتنے میں ماسی باورچی خانہ میں واپس داخل ہوئ۔ بی بی آپ یہاں؟ آپ نےگھنٹی بجائ ہوتی تو میں نورا کو بھیج دیتی۔ کیا چاہیے؟“ ۔

” ماسی میں امی سے کہوں گی کہ گل کو میرے پاس رکھیں“۔
بی بی جیسی آپ کی مرضی۔ مگر ہمیں گل کوشادی کے قابل بھی تو کرنا ہے؟“۔
” اچھا، تویہ صرف اس وقت دوسرے کام کرے گی۔ جب میں کالج جاؤں“۔
” چلوگل تم میرے ساتھ آؤ“۔

ہماری ماں نے کھلے ہوئے دروازہ پر کھٹکھٹایا۔ہر چیز خیریت سے ہے؟ ہاں سعدیہ نے روتے ہوے جواب دیا۔ کمپیوٹر کا آڈیو چلا گیا اور اسکرین پر میرے اسائنمنٹ کا صفحہ واپس آگیا اور اس پر اچھائ کے virtue کی ایک آوٹ لائن موجود تھی۔
ماں نےصوفہ کے بیچ میں بیٹھ کر سعدیہ اور مجھ سے سوال کیا”۔ تم دونوں میں لڑائ ہوئ نا“۔

” نہیں ماں ، میں اپنے لیے رورہی ہوں۔ میں ، میری بہن گل کے لیے رورہی ہوں۔ میں صوبہ پختونخواہ اور پاکستان کی عورتوں کے لے رورہی ہوں“۔

اور سعدیہ سسکیاں لینے لگی۔ ماں نے سعدیہ کا سر اپنی گود میں رکھ کیا۔اور اُنگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں اور پھر میری طرف دیکھا۔ میں اپنے جذبات پر قابو پاچکا تھا۔



سکینہ​


سعدیہ اور میں کمپیوٹر پر ایک گیم کھیل رہے تھے۔ مسینجر کا اسکرین’ کپکپایا‘۔
” السلام علیکم“۔میں نےوعلیکم سلام لکھا۔
” میرا نام سکینہ ہے۔میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
سعدیہ نے کہا۔” ہاں بھائ جان نئ گرل فرینڈ، میں چلوں“۔
میں نے کہا۔ ” کدھر جاتی ہو۔تم یہ گیم ہار جاؤگی بیٹھو، میں اس کو ابھی رخصت کرتا ہوں۔میں اس کو جانتا نہیں ہوں“۔
” میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” میں تم کو نہیں جانتا اور نہ ہی تم میری contact list میں ہو۔پھرتم کومیرا برقی رابطہ کیسےملا“۔
” میں’ آڈیو اجازت‘ کی درخواست بھیج رہی ہو“۔
” اور میں اس کو ’ قبو ل‘ نہیں کروں گا“۔ میں نےغصے سے کہا۔
اسپیکر پر آواز آئ۔” میرا نام سکینہ ہے۔ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
اس کی آواز میں ترنم اور سوز تھا اُس آواز میں اپنائیت تھی۔ جیسے ہم ایک جیسے ہیں۔
” میں کوہاٹ کی ایک خان زادی ہوں۔گل میری ننھی سی بہن کی طرح تھی“۔
سعدیہ اورمیرے کان کھڑے ہوگئے“۔ تم گل سے واقف ہو؟“
اس نے میرے سوال کو نظرانداز کرکے کہا“۔ میں نے ہمیشہ اس کی دیکھ بھال کی۔ ہم بہت عزت دار ہیں اورہماراگھرانا شریف گھرانا ہے“۔
” تم اس کے متعلق کیا جانتی ہو؟ میں نے کہا“۔
” وہ میرے پاس ایک سال سے تھوڑا سا کم عرصہ رہی“۔
” کیا۔گل نے تم کو مجھ سے بات کرنے کوکہاہے؟“
” میرا نام سکینہ ہے۔ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اسنے پھر سے دُ ہرایا۔
سعدیہ نے مجھ سےفرنچ زبان میں کہا۔” بھیا ، آپ مت پوچھیں اس کو بتانےدیں کہ یہ آپ سے کیوں بات کرنی چاہتی ہے؟“
سکینہ ہنسی۔ وہ ایسے ہنسی جیسے کسی نے ستار پرہاتھ پھرا ہو۔ مجھےایسا لگا کہ وہ فرنچ جانتی ہے۔

” گل جب میرے پاس رہنے آئ تو وہ ایک خاموش اورکھوئ کھوئ سی دس سالہ تھی۔ ایک دن وہ برآمدہ میں کھڑی تھی۔ میں نےاسے نام لے کر پکارا۔ جب اس نے موڑ کر میری طرف نہ دیکھا تو میں نے بلند آواز میں پکارا۔ تب بھی اس نے جواب نہ دیا“۔

” تمہارے خاندان میں آنے سے پہلے وہ کہاں تھی؟“ میں نے سوال کیا؟

” مجھے نہیں پتہ نا۔ بس یہ پتہ ہے کہ ہم وادی میں ہیں اور وہ پہاڑوں سے آئی تھی“۔
” کوہا ٹ میں غر یب اپنی لڑکیوں کو ملک یا خان کے پاس کیوں رکھتے ہیں؟“ مجھے رواج کے متعلق بتاؤ۔

” مجھے نہیں پتہ نا۔ بڑوں کو پتہ ہے۔ اور یہ صرف کوہاٹ میں ہی نہیں بلکہ سارے پختونخواہ اور افغانستان میں ایسا رواج ہے“۔

میں نے اسے کُریدا“۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟“

میرا خیال ہے کہ اس سےغریبوں کو اپنے بچوں کوپالنے میں مدد ملتی ہے۔اور بچوں کوگھر کے کام کاج کی تربیت بھی ملتی ہے“۔

میں نے کہا“۔ کیا ان بچوں کونوکروں کی طرح رکھا جاتاہے؟“

” ہم عزت دار ہیں اورہماراگھرانا شریف گھرانا ہے۔ ہمارے خاندان میں اُنکواپنے بچوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ گل میرے کمرے میں سوتی تھی۔ وہ اکیلے سونے سے ڈرتی تھی”۔

” مجھےگل کے متلعق اور بتاؤ“۔

” میری کوئ چھوٹی بہن نہیں۔ وہ میری چھوٹی بہن کی طرح تھی۔ میں نےاس کو پہلا سپارہ پڑھایا۔گنتی اوراردو کا پہلا قاعدہ پڑھایا۔انگریزی کے لفظ سکھانے کی کوشش کی۔ایک دن پشاور والی آنٹی آئیں اور وہ اُن کے ساتھ چلی گئ“۔

” اپنی مرضی سے؟“
” ہا ں اپنی مرضی“۔ ۔سکینہ نے کہا۔
مجھ یقین نہیں آیا مگر میں خاموش رہا۔ کیا بڑے دس سال کی بچی کواُس کی مرضی دیں گے؟

” اس کے بعد میں نے گل کے بارے دوسال تک کچھ نہ سنا۔ایک دن امی نے بتایا کہ گل اب شادی شدہ ہے“۔ سکینہ نے کہا۔

” تم نے کیا کہا ، شادی شدہ“۔ میں نےحیران ہوکرکہا ؟

” شادی شدہ“۔ سعدیہ کرسی سے اُچھل کر کھڑی ہوگئی اور اسکا سردائیں بائیں ہل رہا تھا۔جسے ایک مسخرہ اپنا سر ہلاتا ہے۔

سکینہ نے کہا۔ ” یہ اسی عجیب بات تو نہیں ہے۔ یہ تو ہماری قوم کے غریبوں کی مجبوری ہے لڑکیوں کی شادی سے لڑکی کے ماں باپ کو پیسے ملتے ہیں۔گل کے ابو نے پیسوں کے لئے اس کی شادی ایک چالیس سال کے آدمی سے کردی“۔

سعدیہ غصہ سے بولی”۔” یہ تو ظلم ہے کیا ایک ماں، باپ اور بھائ اپنی بیٹی اور بہن پر یہ زیادتی کرسکتے ہیں۔ اس عمر میں تو لڑکی جسمانی اور دماغی طور پر تیارنہیں ہوتی“۔

میں نے سعدیہ کو ر وکا۔ ” اس میں سکینہ کا قصور نہیں ہے“۔
سعدیہ نے سکینہ سے معافی مانگی۔

سکینہ کہا۔” میں تمہارے غصہ کو قبول کرتی ہوں۔ میں نےاس کو بہن کہا تھا اورگل نےمجھ کو باجی۔ مجھے بھی اتنا ہی غصہ ہے جتنا تم کو ہے۔ جب میں نے سنا کہ گل بچے کی پیدائش کے دوران مرگئی تومیں اس کے غم میں دو دن تک کھانا نہیں کھا سکی اور نا ہی سوسکی“۔

سکینہ ہچکیاں لے کر رونے لگی - سعدیہ میں اب سننے کی برداشت نہ رہی۔ وہ زور زور سے روتے ہوے کمرے سے چلی گئی۔

میں نے سکینہ سے کہا۔” مگر میں نے توگل سے تھوڑا عرصہ پہلے بات کی ہے“۔ سکینہ نے میری بات کو بلکل نظر انداز کردیا۔

” اللہ حافظ“۔ سکینہ نے سسکیاں لیتے ہوے کہا۔
” اللہ حافظ“۔

٭ ٭٭

میں نے سعدیہ کوماں کے کمرے میں پایا۔ اماں اس کو دلاسا دے رہیں تھیں۔ ” سعدیہ کیسی ہے؟“۔

ماں نے کہا کہ اس نےاب رونا بند کیا ہے۔

سعدیہ کھڑے ہوکرمجھ سےلپٹ گئی۔ بھیا آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔ آپ میری بہنوں کواس طرح مرنےنہیں دے سکتے۔ آپ مرد ہیں۔ میں آپ کو اس کا ذمہ دار ٹہراتی ہوں۔ تمام مرد اس کے ذمہ د ار ہیں۔ میں زخمی ہوں۔ میں زخمی ہوں۔میں زخمی ہوں۔ میں تمہاری گُل ہوں۔ تم مجھے بچاؤ۔ میں زخمی ہوں۔

میں نے سعدیہ کوگود میں اٹھاکر ماں کے بستر پرلیٹا دیا۔ اور ماں سرہانے بیٹھ کراپنی انگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔

میں نے سعدیہ کی پسندی کی سی ڈی لگادی۔ اس میں سمندر کی لہروں کی مسمرائ آواز اور پرندوں کی چرچراہت تھی۔

پانچ منٹ کے بعد سعدیہ کی سِسکیاں ختم ہوگیں اور اس کے بعد وہ سوگئی۔

٭ ٭٭

امی آپ نےگیارہ ، بار ہ سالہ بچّی کو چالیس پچاس سال کی عمر کے آدمی کوشادی کے بہانے، بیچنے کے بارے میں سننا ہے؟“

” ہاں اس کو مہر یا ’ سوارہ ‘ کہتے ہیں۔ اسلام نےمہرکےvirtue کواس لئےاختیار کیا تھا کہ مسلمان عورت کوکچھ حد تک مالی خود مختاری اور عزت ملے۔لیکن یہ اب غریبوں کے لے ایک آمدنی کا زریعہ بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ غُربت ہے۔یہ virtue جوایک زمانےمیں اچھائ کا virtueتھا اب زندگی، سماج اور تہذیب کی نشوونما میں برائ بن گیا ہے۔یہاں تک کے اب جن غریب خاندان کے پاس دولت نہیں ہے وہ لڑکیوں کا شادی کے لیے تبادلہ کرتے ہیں۔اس کو ‘ بدل’ کی رسم کہا جاتا ہے”۔
” آپ کا مطلب نہں سمجھ آیا“۔ سعدیہ نے کہا۔

” فرض کرو کہ ہم پختونخواہ میں ایک غریب گھرانا ہیں۔ مجھے تمارے بھیا کی شادی کرنی ہے۔ میں ایک ایسا گھرانا تلاش کرتی ہوں جہاں خاندان میں کم از کم ایک لڑکی اور لڑکا موجود ہیں۔ تمارے بھیا اس لڑکی سے شادی کریں گے اور تم اس خاندان کے ایک لڑکے سے شادی کروگی۔ اس طرح سے غریب لوگ بھی شادی کرسکتے ہیں”۔

” اگر خاندان میں صرف لڑکا یا لڑکی ہو اور دونوں نہ ہوں“۔ سعدیہ نے پوچھا۔
” تو پھرلڑکی والوں کے پا س مہراور سوارہ ہونا چاہیے“۔ ماں نے کہا۔

” امی ہم اگر بھائ جان کی شادی کے لیے ایک لڑکی منگائیں تو کتنے پا کستانی روپوں کی ضرورت ہوگی؟“۔سعدیہ نےمذاق سے پوچھا۔

” پکتیکا کے زُزمت علاقہ میں تم اپنے بھیا کی پچاس ہزار سے دس لاکھ پاکستانی روپوں میں اپنی پسند کی 14 برس کی لڑکی سے شادی کر سکتی ہو۔ یہ امریکن ڈالرمیں 9 سے لے کر16 ہزار ڈالرکے برابر ہیں“۔

” تب تو میں ایک 14 برس کی لڑکی جس کو رشتہ نہ ملتا ہوکم سے کم قیمت میں بھائ جان کے لئے منگاؤں گی۔ وہ تو میری دوست بن جائےگی“۔ سعدیہ نے قہقہہہہ لگا کرکہا۔

میں نے کہا“۔ ماں ہمیں سعدیہ کوکتنی مہرمقرر کرنا چاہیے؟“۔

” سعدیہ کوکوئ بھی نہیں خرید سکتا“۔ ماں نے سنجیدہ ہو کر کہا۔یہ اصول تمام ماؤں کااپنی بیٹیوں کے لیے ہونا چاہیے“۔

” آپ تو یہ کہہ سکتی ہیں کیوں کہ آپ مالی طور پر بہتر ہیں۔لیکن وہ ماں اور باپ ، ایسا نہ کریں توخاندان کے دوسرے بچے بھوک سے مر جائیں گے“۔ میں نے کہا۔
” کیا یہ اصول ، باپ کے لئے بھی صحیح ہے بھائ جان؟“

” میں کتنا بھی چاہوں کہ یہ صحیح ہے ، لیکن مسلمان لڑکی اور لڑکے کا باپ اس اصول پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ہم مرد اپنی مالی اور جنسی خواہشات کی لیے کتنی مصوم لڑکیوں کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں۔ میں اس پرشرمندہ ہوں اور مجھے اس معاشرے کی برائ کے خلاف حصہ لیناچاہیے“۔

٭ ٭٭
میں نے ماں کوگل کی پوری کہانی بتائ۔ میں نے ماں سے کہا”۔ ہم اسکا الزام صرف غربت کودے رہے ہیں حالانکہ یہ مسئلہ رسم رواج کا پہلے اور غربت کا بعد میں ہے“۔

ماں نے کہا”۔ تم کیا کروے گے؟“۔

میں نے کہا”۔ میں اپنی بہن کو زخمی نہیں دیکھ سکتا۔ اُس کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ وہ آہستگی کی موت مررہی ہے۔ مجھے دوسری گُلوں کو اس موت سے بچانا ہوگا“۔

اماجان نے کہا۔ ” بیٹا یہ کوئ نیا مسئلہ نہیں ، ہر چیزکی ابتدا گھر سے ہوتی ہے“۔
میں نے کہا۔ ”میں نہیں سمجھا“۔

” پختونخواہ کی تعلیم یافتہ باحیثیت لڑکیوں کو فیصلہ کرناہوگا کہ وہ کب تک خاموش رہئیں گی اور اپنی بہنوں، اپنی پختون قوم کی بچیوں پر یہ ظلم ہونےدیں گی - وہ کب انکی بھلائ کی پروا کریں گی“۔ اماں جان نے کہا۔

” جب پختون کی بیٹی اپناحق مانگےگی تو پاکستان کی تمام عورتوں کو انکا ساتھ دینا ہوگا۔ اور پھر دنیا کی تمام عورتیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ یہ صرف پختون کی بیٹی کی جدوجہد ہی نہیں ہے۔یہ تمام عورتوں کی جنگ ہے، ہم مختلف محاذوں پر لڑرہے ہیں۔ لیکن یہ محاذ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے“۔


ماں نے کہا ۔” کیا تم جانتے ہو کہ تمارے ملک امریکہ میں کالوں کے تھوڑے سے حقوق تھے۔ 1900 میں ایک 23 سال کی لڑکی نے یہ سب تبدیل کردیا“۔
” وہ کیسے ؟“ میں نے پوچھا۔
” اس نےہمشہ سے قبول کیے ہوے ایک غلط اصول کوماننے سے انکار کیا“۔ماں نے کہا۔
” تم اسکا نام جاننا چاہو گے؟“۔
” ہاں“۔میں نے کہا۔
” اسکا نام Rosa Luis Park تھا۔ وہ تماری گُل ہے“۔ماں نے کہا۔

” امریکہ میں کالےلوگوں کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی۔ 1823 میں ورجینا اسٹیٹ نے ایک قانون پاس کیا جسکا نام ’ جم کرو‘ یا ’ بلیک کوڈ ‘ تھا۔ اس قانون نے کالوں اورگوروں کوبالکل الگ کردیا۔ ہرچیز علیحدہ ، پانی پینے کا فوارہ علیحدہ ، علیحدہ ریسٹورانٹ، بسوں کی سیٹں علیحدہ ، علیحدہ پارک، اس کول علیحدہ ، علیحدہ رہنے کی جگہیں۔ غرض ہرقسم کی ذیادتی ہوئ“۔

1900 میں ’ روزا ‘ ا یک بس میں سفر کررہی تھی۔وہ اپنی مقررہ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ دوسری سب سیٹیں استمعال میں تھیں۔ایک گوراشخص بس میں داخل ہوا۔ بس کے ڈرائیور نے روزا سے کہا کہ تم اپنی سیٹ خالی کرو۔ روزا نے انکار کردیا۔ روزا کوگرفتار کرلیا گیا۔دوسرے دن ڈاکٹر مارٹن لوتھر کینگ اور تمام شہر کے کالوں نےشہر کی بسوں کواستمعال کرنا بند کردیا۔382 دن بعد کورٹ میں روزا مقدمہ جیت گئی۔اس سانحہ اوراس طرح کے دوسر ے سانحوں نے حقوق شہریت کی ابتدا کی اور 1963میں سِول رائٹ ایکٹ لکھا گیا”اب امریکی شہری حقوق کے قانون ، نسل، ذات اور مذہب کی بنیاد پر بنانے کی اجازت نہیں ہے “۔ قانون کی نظر میں تمام امریکی ایک ہیں۔

پاکستان کو اپنی ’ روزا ‘ چاہیے جس نے23 سال عمر اپنی بس سیٹ ایک گورے شخص کو دینے سے انکار کردیا۔اس سے ایک انقلاب شروع ہوا اور1965 میں قانون میں تبدیلی ہوئ اور تمام کالوں کو بس میں کسی بھی سیٹ پر بیٹھنے کا حق ملا۔
پاکستان کو اپنی’ سوو‘ چاہیے۔ جوجمہوریت کے لئے18 سال سے برما کی ملیٹری حکومت سے لڑرہی ہے۔ ’ ڈاو اینگ سان سووکی‘ نے 7 سال برمی جیل میں گزارے۔
پاکستان کو اپنی ’ ریگوبرٹا ‘ چاہیے جس نے اپنی زندگی’ گواٹامالا ‘ کے انڈیجنس( اصلی مقامی لوگ) لوگوں کی فلاو بہبود میں سونپی ہے۔ ریگوبرٹا مینچو نے اس کول یا کالج میں نہیں پڑھا۔ اس نے اپنے آپ کو پڑھایا.۔

پاکستان کو اپنی’ کریتیا ‘ چاہیے۔ جو کہ تھائ لینڈ میں لڑکیوں کے بیوپار کو ختم کرنےمیں مصروف ہیں ’ کریتیا ارچاون تیکول ‘ نے اس کام میں اب تک 20 سال گزارے ہیں۔

پاکستان کو اپنی’ نوال‘ چاہیے۔جو کہ مصر میں عورتوں کو مردوں کی فوقیت اور غلبت کے جال سے آزاد کرنے کے لیے مصروف ہے۔’ نوال السادوی‘ سےانکی میڈیکل ڈاکٹر کے کام کی اجازت مصر کی حکومت نے چھین لی ہے۔

پاکستان کو اپنی’ تھریسا’ چاہیے جس نے اپنی زندگی، کلکتہ کے غریبوں کے لیے وقف کردی۔ پوپ نے کلکتہ کی ماتا تھریسا کو اولیا saint کا درجہ دیا۔

پاکستان کو’ پختون کی بیٹی’ چاہیے۔ جو اپنی بہنوں، اپنی ماؤں کوآزادی دلانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردے۔ جو ’ روزا ‘ بن جائے۔ جو ’ سوو ‘ بن جائے۔ جو’ ریگوبرتا ‘ بن جائے۔ جو ‘ کریتیا’ بن جائے۔۔ جو ’ نوال ‘ بن جائے۔۔ جو’ تھریسا ‘ بن جائے۔

” ماں ، مگر میں کیا کروں؟“۔

” تم کواس پختون کی بیٹی کو ڈھوڈنا ہے۔ تم کو ریمشا کو ڈھوڈنا ہے۔ تم کوگل کو ڈھوڈناہے۔ تم کو نورا بی بی کو ڈھوڈناہے“۔

” میں ا نکو کہاں پاؤں گا؟“

” وہ کرک ، بنّوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرا اسمعیل خان میں گھومتی ہے۔وہ سوات میں بستی ہے۔ وہ چترال میں ملتی ہے۔وہ کوہستان میں ہے۔وہ بٹگرام میں رہتی ہے۔اس کا رنگ دیربالا میں جھلکتاہے۔وہ دیر پیاں میں موجود ہے۔وہ مانسہرہ اور شانگلہ میں رہتی ہے۔ وہ بونیرمیں بستی ہے۔وہ صوابی، مردان ، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ میں رہتی ہے۔وہ مالاکنڈ میں رہتی ہے۔وہ ایبٹ اباد اورہری پور میں ملتی ہے۔اس کی سانسیں کوہاٹ اورہنگومیں محسوس کرو گے۔ تم اس کو پختونخواہ کے تمام اضلاع میں پاؤگے“۔



خان

میں نہا کرغسل خانے سے نکلا تو اماں جان نے کہا ہم باہر سوئیمینگ پول پر ہیں اور چائے تیار ہے۔ میز چائے، سموسے ، نمک پارے اور میری پسندیدہ مٹھائ قلاقند سے سجی ہوئ تھی۔ سعدیہ کی آنکھیں اب تک سرخ تھیں۔ لیکن وہ مسکرا رہی تھی۔ میں نےماں کا ماتھاچوما اور پھر سعدیہ کاماتھا پیار سے چوما۔ اماں نے میرے نے چائے پیالی میں نکالی۔

” ماں“۔میں نے کہا۔” ایک دفعہ آپ نے ذکرکیا تھا کہ آپ اوراباجان نے کالج سے ایک سال کی چھٹی لے کر پیس کورPeace Core میں کام کیا تھا“۔

” ہاں اور ہمارا اسائنمنٹ افغانستان اور صوبہ سرحد تھا“ ۔ماں نے کہا۔

میں نے سموسے کے ایک ٹکڑے پر ہری مرچ کی چٹنی لگا کر کھایا۔اور پھر چائے کا ایک گونٹ لیااور ماں سے پوچھا۔

” یہ صحیح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کےدونوں طرف لوگ ایک ہی نسل کے ہیں“ ؟

” ہاں وہ سب پختون ہیں“۔

پختونخواہ میں باجوڑ کے ترکلانی سوات اور ملاکنڈ کے’ یوسفزئ‘ اور خیبر، کوہاٹ اور پشاور کے ’ آفریدی‘ ، مھند کے’ مھمند یا مومند‘ ، اورکزئ کے ’ اورکزئ ‘ ،کرم کے ’ طوری ‘ اور’بنگش‘ شمالی وزیرستان کے’ وزیری‘ ، جنوبی وزیرستان کے ’ محسود اور ارمڑ‘ ، ڈی آئ خان اور ٹانک کے ’ بیٹنی اور شیرانی‘ ، کوہاٹ کے ’ خٹّک اور اعوان ‘ اور بہت سی دوسری خیلیں“ ۔

سعدیہ نے پوچھا”۔ پختون اور پٹھان ایک ہیں؟“

ماں نے مسکرا کر کہا۔” ہاں، ہندوستانی پختونوں کو پٹھان کہتے ہیں، ایرانی افغان مگر یہ خود کو پختون کہتے ہیں“ ۔

مجھ ایک نظم یاد آرہی جو پختونخواہ کے ایک مشہور شاعر نے ’ خان ‘ کے بارے میں لکھی ہے۔

تقدیر کا کمہار جنت میں بیٹھا تھا
تقدیر کا کمہار ایک گدھا بنا رھا تھا

جب خان کو بنانے کا وقت آیا
کمہار نے گدھے کی دُم کو کاٹ دیا

اور دونوں کانوں کی نقاشی کی
اس کی پیشانی پر غصہ کا نشان بنایا

اور خان صاحب کے دماغ میں
اس نے ایک بیماری رکھ دی

وہ سب کا رہنما بنے
اسکے سر پر ایک پگڑی باند دی

کمہار نے اس کو دینا کی طرف روانہ کر دیا

٭ ٭٭

پختون کا کردار عزت ، بدل اور میلمستیا سے بنتا ہے۔

زندگی نہیں، موت مجھ کوگلا ملتی ہے
گر زندگی میں عزت کو دغا ملتی ہے

کھانا اکیلا کرتا ہے کھانے کو ضائع
ساتھ بیٹھ کے کھانے میں شفا ملتی ہے

نا کر میری عزت خراب تو تفسیر
پٹھان ہوں قتل کرنے سے جزا ملتی ہے

اگر آپ پٹھان کے مہمان ہیں یا آپ ایک منصف کی طرح آتے ہیں تو پٹھان آپ کی مہمان نوازی ایک دوست کی طرح سے کرے گا اورخاطر و خیا ل تعظیم و تکریم تہذیبی نظام کےمطابق کرے گا۔ اگرآپ اس کی ملکیت سے باہرہیں اور حکومت یا غلبہ کرنے کےارادے سے آرہے ہیں، پختوں آپ کی تعظیم اور تکریم کرے گا۔لیکن جب اندر آجاتے ہو آپ اس کے رقیب ہیں تب ظلم، لالچ، دھوکے بازی اوربغض اس کی و سعت ہوگی”

” ماں میں نے کہیں پڑھا ہے کہ چند تاریخ نویسوں کا خیال ہے کہ پختون اسرایئل کے کھوئے ہوئے، دس قبیلوں میں سے ایک قبیلہ کی اولاد ہیں۔اس قبیلہ کا نام جوزف (یوسفزئ) تھا۔اس کےعلاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پختون ، غور کے قیس عبدالرشید کی اولاد ہیں۔ قیس نے سات سو ہجری میں حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی - قیس ایک خیالی افغانہ کی اولاد میں سے ہیں۔ اس لیے وہ افغان کہلائے۔

” یہ تو کسی کو نہیں معلوم کہ صحیح کیا ہے۔ لیکن پختون اب مسلمان ہیں اور ہم سب کو اسلام یکجا کرتا ہے“۔

سعدیہ نے کہا“۔ مگر ان کے قانون تو اسلام سے مختلف ہیں نا“۔

” بیٹی ہر قوم اور قبیلہ ان اصولوں اور ورچوز کواختیار کرتا ہے جو اس کے بقا کے لیے بہتر ہوں۔virtues کی تبدیلی علمِ حیات اور تہذیب کی نشوونما پر ہے اور ترقی یافتہ قومیں اپنے آپ کو انسانیت کے عروج پر لے جانے کی تمنا اور کوشش کرتی ہیں۔مگر پختون کو اس کا آج تک موقعہ نہیں دیا گیا”۔ ماں نے کہا۔

” کیا تمہیں پتہ ہے کہ پاکستان کے بننے کے59 سال بعد اب بھی پختونخواہ کو پختونخواہ نہیں کہا جاتا۔ اب تک اس کو شمال مغربی صوبہ سرحد کہا جاتا ہے۔ یہ بھی تو بےانصافی ہے“ ۔

میں نے پوچھا۔” لیکن اماں، مجھے اس میں تو بےعقلی نظر آتی ہے کہ عورت اور خاندان کی عزت کواس طرح سے ملانا کہ عورت پر ہی ظلم ہواور عورت کی ہی بےحرمتی ہوتی ہے“ ۔

” بیٹے تم اس کو موجودہ زمانے کےلحاظ سے دیکھو تو یہ معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہے اور دنیا کا ہر شخص تسلیم کرے گا کہ یہ اصول وقت کی ضروریات کےساتھ نہیں بدلا۔اس کوبدلنا تھا۔لیکن ایک وقت عورت اور خاندان کی عزت کو اس طرح سے سلجھانا ایک سنہری اصول تھا اور اس نے قبیلہ کی بقا میں مدد دی۔ مگراب عورت اور خاندان کی عزت کو رکھنے کے لیے ملکی اور عالمی حقوق موجود ہیں“ ۔
” وہ کیسے؟“۔سعدیہ نے پوچھا۔

” ایک زمانہ تھا کہ جرگہ کوامتیازحاصل تھا۔جرگہ ایک روحانی اور اخلاقی جمہوریت تھا۔جرگہ نہ صرف جھگڑ وں کو نمٹا تا تھا بلکہ مخالفت کو بھی ختم کرتاتھا۔ عورت کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر عورت خون خرابے کے بدلے میں دشمن کو دی جائے تو وہ اپنی محبت اور محنت سے دشمن کو دوست میں تبدیل کر دے گی۔لیکن جرگہ کے اصولوں میں وقت کے مطابق تبدیلی نہیں ہوئ“ ۔ اماں نے کہا۔

” آج کے زمانے میں ایسی قوم، دنیا کی بھلائ اور انسانیت میں کیا حصہ لےگی جو عورتوں کی عزت کو لوٹنے میں فخر محسوس کرتی ہو؟ جوماں، بہن اور بیوی کو روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ یہ تو کوئ مردانگی نہیں۔عورت بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ وہ کوئ گائے یا زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ جس نے تم کو جنا ہے تم اس کوبازارمیں نیلام کرتے ہو!۔جس نے تم کوبھائ کہا تم سےلاڈ کیااس بہن کو بیچ دیتے ہو! تم اپنی ہی اولاد ، اپنی ہی بیٹی کوخان اور ملک کے پاس چھوڑ آتے ہو اور بیٹیوں سے باپ کہنے کا حق چھین لیتے ہو۔ یہ نہیں جانتے کہ کتنے مرد اُس کی بے حرمتی کریں گےاور اس کی عزت لوٹیں گے۔ اور تم اپنے آپ کو پختون کہتے ہو؟ تم کو تو شرم سے چلو بھرپانی میں ڈوب کر مرجانا چاہئے۔تم شرم سے نا آشنا ہو۔تم حیوان سے بدتر ہو“۔
سعدیہ رونے لگی۔ ماں نے اس کو رونے دیا۔

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔
.
 

تفسیر

محفلین
پختوں کی بیٹی - باب اول

(جاری۔۔۔۔۔)


حدود ارڈنینس​

کمپیوٹر کا اسکرین جھلملایا۔
” سلام“۔
میں نے مسینجرکی کھڑکی پر نظر دوڑائ۔
اسکرین نام ر فعت۔
” خوش آمدید رفعت کیا میں تم کو جانتا ہوں؟“
” نہیں“ اور اس نے’ حیرت‘ کا وینک بھیجا۔
میں نے اس کو’ زبان دکھانے ‘ کا وینک بھیجا۔ میں نے مذاق میں کہا”۔ اپنی تعریف کریں“
اس نے ’ ہنسی‘ کا وینک بھیجا۔اور لکھا۔
” تعریف تواس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔ میں رفعت آفریدی ہوں میرے شوہر کا نام احسان ہے“۔ رفعت نے کہا۔
” مجھے سکینہ سے آپ کی مسینجرکی آئ ڈی ملی ہے۔ میں آپ سے آڈیو پر بات کرنا چاہتی ہوں“۔
میں نے سعدیہ کے کمرے کے انٹر کام کا بٹن دبایا۔
” ہاں بھائ جان“۔ سعدیہ نے کہا۔
” تم فوراً کمپیوٹر کے کمرے میں آؤ”۔ میری آواز میں جلدی تھی۔
” میں آگئ“ ۔سعدیہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئےہوئے کہا۔
” اسکرین کو پڑھو۔” میں نے سعدیہ کی توجہ اسکرین کی طرف کی۔
” میں آپ سے آڈیو پر بات کرنا چاہتی ہوں“۔ رفعت نے ۔ ’ نج ‘ کا ونک بھیجا۔
سعدیہ مسیجیز پڑھ چکی تھی۔میں نے’ منظور‘ کا بٹن کلک کیا۔
” میرا نام احسان ہے۔اور آپ رفعت سے بات کر چکے ہیں“ ۔
سعدیہ نے مائک میں کہا۔” ہیلو احسان اور رفعت میں سعدیہ ہوں“ ۔
” سعدیہ میری بہن ہے“۔ اس سے پہلے کہ سعدیہ دوسری باتوں میں نکل جائے میں نے جلدی سےگفتگومیں داخل ہو کر کہا۔
” آپ لوگ کیوں ہم سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں“ ۔
احسان نے کہا۔” رفعت کا نام رفعت آفریدی ہے“
” hmm” سعدیہ نے کہا۔ رفعت پختون کی بیٹی ہے اور آپ نہیں۔
” جی ، میں مہاجر ہوں“ ۔ احسان بولا۔

” 1999میں میں اور رفعت کراچی میں ملےاور ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ ہم دونوں بالغ تھےاور ہم کومعلوم تھا کہ رفعت کا خاندان یہ کبھی بھی گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ مجھ سے شادی کرے۔ہم دونوں نے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔ اور غائب ہوگئے- پختون لوگوں نے اس کے احتجاج میں کراچی میں ہڑتال کردی۔ اس کے نتیجہ میں فساد ہوا۔ گولیاں چلیں۔اور دو آدمی مارے گئے اور دس زخمی ہوئے“ ۔

” رفعت نے کہا“۔ میرے والدین اور رشتہ داروں نےاحسان پر عدالت میں مقدمہ کر دیا اور یہ الزام لگایاکہ میں شادی شدہ ہوں اور احسان مجھے زبردستی بھگا کر لے گئے ہیں۔ پولیس نے احسان کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا“ ۔

رفعت سانس لینے کے لئے رُ کی“۔

” جب احسان کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا۔ میرے رشتہ دار بھی عدالت میں موجود تھے۔ان میں سے کچھ نےاحسان پرگولیاں چلائیں۔ احسان زخمی ہوگئے“ ۔

جج نے ہم سب کی شہادت سنی اور احسان کو بری کردیا“ ۔

” مگر ہمیں پتہ تھا کہ اگر ہم پاکستان میں رہے تو قتل کردیے جائیں گے۔ اس لیے ہم اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آگئے“۔

” سکینہ نے سوچا کہ آپ کو یہ جان کر یہ پتہ چلےگا کہ مسئلہ صرف پختونوں کے لوگوں میں محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ پاکستان کے حدود آرڈنینس کے استعمال کا ہے“۔

رفعت نے کہا۔ ” کیا آپ کو پتہ ہے کہ 7 نومبر1987 میں ایک کورٹ نے 25 سالہ شاہدہ پروین اور 30 سال کے محمد سرور کو سنگسار کرنےکی سزا دی۔ اُن کا قابلِ نفرت جرم جس کی یہ ہولناک سزا ‘ دی گئ اسے زنابالجبر’ کہاگیا۔

شاہدہ نے کورٹ کے ذریعے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لی۔ طلاق کے کاغذات پر شاہدہ اور اس کے پہلے شوہر نے مجسٹریٹ کے سامنے دستخط کئے۔قانون کے مطابق شوہر کو یہ کاغذات مقامی کونسل کے دفتر میں داخل ِرجسٹر کرنا چاہئے تھے۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ شاہدہ کو اس کا علم نہیں تھا۔اس نےعدت کے 97 دن لاہور میں گزارنے کے بعد دوسری شادی سرور سے کرلی۔ شاہدہ قانون کی نظر ایک بالغ لڑکی تھی۔

اُس کے پہلے شوہر نے کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ شاہدہ اس کی بیوی ہے۔ کیوں کہ اس نے طلاق کے کاغذات مقامی کونسل کے دفتر میں داخل رجسٹر نہیں کرائے ہیں۔ شاہدہ کی دوسری شادی زنا اور زنابالجبرہے۔اس قسم کی دسیوں مثالیں ہیں۔ پاکستان کے 1979 ، حدود آرڈینینس کا جو پاکستانی عورتوں کے حقوق کےساتھ جو ناانصافی اور ہے اس کا نظیر دنیا میں مشکل سے ملے گا۔ صرف 1987 میں 55 کیسوں میں 37 کیس ایسے تھے“۔

احسان نے کہا۔” دوسرا کیس۔ ایک یتیم 13 سال کی بچی کا ہے۔ جہاں مینا کے ساتھ اس کا چچا اور چچا کا لڑ کا زنابالجبر کرتا ہے۔جب مینا اپنے چچاؤں سے اس ظلم کا ذکر کرتی ہے تواس پر کوئ یقین نہیں کرتا۔ جب وہ پیٹ سے ہو جاتی ہے توآخرکار ایک چچا کواس بچی کی بات پر یقین آتا ہے۔ کورٹ میں کیس جاتا ہے۔ زنا کے مظلوم کے بیان کی قانون کے مطابق کوئ اہمیت نہیں ہے۔یا تو زنا چار آدمی کے سامنے کیا گیا ہو۔ یا پھر زناکار خود اپنے جرم کا اقبال کرلے۔ اس لیے مینا کو قصور وار ٹھرایا گیا اور اس کو 3 سال کی سخت قید اور 10 کوڑوں کی سزا دی گئ“۔

” پہلی جون 1999 کو یار حسین کو جب یہ پتہ چلا کہ اس کی بیٹی مملکت بی بی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو اس نے اس کو سوتے میں قتل کردیا“۔ رفعت نے کہا۔

کنور بولی۔” کراچی میں عورتوں کی مدد اور وسیلہ کی جگہ ’ شرکت گاہ ‘ کی رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ 1993 سے 1998 میں 535 عورتوں کو ان کے شوہر یا رشتہ داروں نے قتل کیا اور یاانہوں نے خودکشی کرلی۔ ’ پاکستان کاادارۂ حقوق انسانی‘ کے مطابق ہر روز 8 عورتیں زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔ ان میں سے 5 بچیاں ہوتی ہیں۔

حدود آرڈنینس کواسلامی شریعہ کے مطابق ضیاءالحق کی حکومت نے 1979 میں صدر کےحکم سے نافذ کیا۔ جو کہ بعد میں ملک کا قانون بن گیا“۔


پینو​

میں کتب خانے میں تھا۔ انٹرکام بجا۔ سعدیہ لائن پرتھی”۔ بھیا، سکینہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہے“۔

میں کمپیوٹر روم میں پہنچا.

” سلام“۔ میں نے کہا۔

” سلام“۔ سکینہ نے کہا”۔ تو آپ گل کی کہانی لکھیں گے؟“

” اس سے پہلے کہ میں کوئ وعدہ کروں۔ میں کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں“۔

” پوچھیں “ ۔

جب گل تمہارے خاندان میں آئ تو وہ 10 سال کی تھی اور جب وہ تمہارے گھر سے تمہاری آنٹی کے ساتھ گئ تو وہ 11 سال کی تھی۔اس لحاظ سے وہ ایک سال تمہارے خاندان میں پلی۔

” ہاں نا“۔ سکینہ نے کہا۔

” مجھے تم اس کی زندگی 5 سال سے 10 سال تک کی بتاؤ“ ۔ میں نے کہا۔

” میں نے بتادیا سب کچھ آپ کو ، نا“۔

تم نے مجھ کو بتایا”۔ گل اکیلے سونے سے ڈرتی تھی۔گل جب میرے پاس رہنے آئ تو وہ ایک خاموش اور کھوئ کھوئ دس سال کی لڑکی تھی۔ایک دن وہ برآمدے میں کھڑی تھی۔ میں نے اس کو اس کا نام لے کر پکارا۔ جب اس نے مڑ کر میری طرف نہ دیکھا تو میں نے بلند آواز میں پکارا۔ تب بھی اس نے جواب نہ دیا“۔

” تم نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ایسی کیوں تھی“۔

سکینہ خاموش رہی۔

سعدیہ نے کہا کہ اگر بھائ جان اس کہانی کو لکھیں گے تو یہ ضروری ہے کہ ان کو بھی پتہ ہو جو تم گل کے مطعلق جانتی ہو۔

” میں پینو کو اس گفتگو میں شامل کرتی ہوں“۔ سکینہ نے کہا۔

” پینو کون ہے؟“ میں نے پوچھا۔

” پینو اورگل ایک خاندان میں دو سال ساتھ رہیں“۔

” پینو اب سولہ سال کی ہے“۔

” ٹھیک ہے؟“

” سلام“۔ پینو کہا۔

پینو۔ تم گل کو جانتی ہو؟“

” جی، ہاں“۔

” کیسے“۔

” گل اور میں ، آنٹی کی حویلی میں ساتھ رہتے تھے“۔

” کیا تم کو پتہ ہے کہ میں تم سےگل کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہوں؟“

” آپ گل کی سچی کہا نی کو لکھیں گے“۔

” گل کی کہانی کیوں لکھی جائے“۔

” سکینہ بی بی کہتی ہیں کہ گل کی کہانی ہم پختون کی بیٹیوں کی کہانی ہے۔اس کوضرور لکھا جائے یہ ہماری تاریخ پر ایک برائ کا خونی داغ ہے۔ ہمیں اس داغ کو بھولنا نہیں ہے۔ مستقبل میں جب پختون کی بیٹی ظلموں سے آزاد ہوگی تو یہ”کہانی“ آنے والی بیٹیوں کو بتائے گی۔ کہ اُن کی ماؤں نے کیسے ظلم اٹھائے ہیں اور کیا قربانیاں دی ہیں“ ۔
” تم گل کے ساتھ ضلع کوہاٹ کے پہاڑوں میں ایک گاؤں میں تھی؟“

” ہاں“۔

” گاؤں کا کیا نام تھا اور کس خاندان میں تم پلی؟“

” سکینہ بی بی نے کہا ہے میں آپ کے سب سوالوں کا جواب دوں مگر میں آپ کو خااندان اور اس کے لوگوں کے نام نہں دے سکتی“۔

” اچھا، مگرتم مجھ کو اپنی داستان اس طرح بتاؤ جیسے کہ یہ سب ابھی ہو رہا ہے کیا تم یہ کرسکتی ہو؟”“ ہاں“ ۔میں اور گل ایک ہی کمرے میں سوتے ہیں۔ گل اور میں میری چار پائ پر بیٹھے ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے”۔

میں نے اس کی آواز میں کپکپی محسوس کی۔

”ایک چھوٹے خان جو اس حویلی میں مہمان تھے اوردوسری تحصیل سے اپنے چچا کے گھر رہنے آئے ہیں۔ وہ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔اور گل کی چار پائ پر بیٹھ جاتاہے اور کہتا ہے کہ تم دونوں میرے پیر دباؤ۔میں اور گل اپنے ابا کے پیر گھٹنوں سے نیچے دباتے تھے اسی طرح سے اس کے بھی پیر دابتے ہیں۔ چھوٹا خان غصہ ہو کر کہتا ہے۔ اوپر بھی دباؤ۔ وہ میرے سے کہتا ہے تم ا چھا نہیں دباتی تم جاؤ اُدھر بیٹھو۔ میں اپنی چار پائ پر آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ چھوٹاخان بستر سے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہے“ ۔ پینو اب ہچکیاں لیکر رورہی تھی۔

”اور گل کو اٹھا کرپیٹ کے بل بستر پر ڈال کر اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔گل اس کو روکنے کی کوشش کرتی ہے وہ اس کو بے تحاشہ تھپڑ مارتا ہے۔گل چیخیں مارتی ہے۔اور پھررونا بند کردیتی ہے“۔

پینو ڈھاڑیں مار کر رورہی تھی۔ سکینہ بھی رورہی تھی اور میرے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔

سعدیہ روتے ہوئے کمرے سے نکل گئ۔ میں نے جلدی سے پینو اور سکینہ کو اللہ حا فظ کہا اور سعدیہ کے پیچھے دوڑا۔ سعدیہ نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرلیا۔ ماں دوڑتی آئیں۔ اور مجھ سے پوچھنے لگیں کیا ہوا؟
میں نے کہا۔” ننھی۔ دوازہ کھولو“۔

” چلے جاؤ یہاں سے ، مجھ کو تم سب مردوں سے نفرت ہے“۔ سعدیہ نےروتے ہوئے کہا۔

میں نے ماں کو پینو سے ہماری گفتگو کا بتادیا۔

ماں نے کہا”۔ بیٹا تم سعدیہ سے ابھی بات نہ کرو۔ یہ گتھی اس کو خود سلجھانی ہوگی۔ تم صبر اور تحمل سے کام لو۔ وہ زخمی ہے۔اُس کو مرد پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ہر مرد اس کے لیے ایک سا ہے۔ یہ چند روز کی بات ہے۔ اس کو یاد آجائے گا کہ مرد بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھے اور بُرے، وہ جانتی ہے کہ اس کا باپ اور بھائی دنیا کے بہترین انسان ہیں“۔



ساحل سمندر​

میں نے سعدیہ کو شام کے کھانے پر نہیں پایا۔ دوسرے دن ناشتہ اور شام کے کھانے پر بھی باہرنہ آئ۔

ماں نے کہا ”وہ روتی ہے۔میری "ساد" بہت روتی ہے“۔

میں نے ابا جان کو خاموش دیکھا۔ وہ افسردہ تھے۔ میں نے اباجان کو پہلے اتنا سوگوار کبھی نہیں دیکھا۔

میں اپنے کمرے میں سر پکڑ کربیٹھ گیا۔ کیا یہ میری برائ ہے جس کی وجہ سے میری لاڈلی، میری ساد مجھ سے نفرت کرتی ہے۔یا یہ میرے جنس کی برائ ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ دل نے کہا تم اپنی ذمہ داری کو قبو ل کرو اور سعدیہ کے شانہ بہ شانہ اس برائ کو مٹانے میں حصہ لو۔ یہ مسئلہ صرف پختونی، پنجابی، سندھی، بلوچستانی یا مہاجری نہیں ہے۔ اور نہ ہی پاکستانی بلکہ اسلامی ہے۔

لیکن اس مسئلے کا تو حل ایک ہے۔اچھائ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ میری بہن بیمار ہے۔ میری گل، میری بلبل مرچکی ہے۔

کیوں نہ میں تمام پاکستان کی بہنوں کو بتاؤں کہ ان کی بہن کے ساتھ کیا ہوا۔شاید پختون کی خان زادیوں اور ملک زادیوں کو شرم آئے کہ ان کے گاؤں اور شہروں میں مرد گلوں کو نوچ کر کچل دیتے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں کس طرح سے اپنی بہن کے زخم کو شفا دے سکتا ہوں۔

رات ہوچکی تھی۔ چودھویں کا چاند نکلا ہوا تھا۔ساحل پر روشنی تھی۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ اور ساحل کے سامان کا بیگ اٹھایا۔ ایک اورکمبل اور چادر بھی رکھی۔ماں ، میں رات ساحلِ سمندرپر گزاروں گا۔ ماں نےگرم چائے کی تھرماس بوتل میرے بیگ میں رکھ دی۔ساحلِ سمندر ہمار ے گھر کی سیڑھیوں کے پاس تھا۔

میں نے چادر زمین پر بچھائ اور لیپ ٹاپ کھولا۔ کہانی کا عنوان ”گل کی کہانی“

میں نے اس پر لکیر کھینچ دی گل کی کہانی۔

پٹھان کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

پختونخواہ کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

پاکستان کی بیٹیاں۔ میں نے اس پر لکیر کھینچ دی۔

میں نے سوچا کہ ظلم اورمظلوم کی کہانی تو ہر کہانی نویس لکھےگا۔ مگرمیں تو اس کا حل لکھوں۔اس کے عنوان کاتعلق تو مرد اور وحشی پن سے ہونا چاہئے۔

٭٭٭

”ہمارے پا کستان کے نامرد“

” یہ کہانی ایک گل کی ہے۔

وہ ایک بلبل کی طرح تھی۔

وہ پھولوں کی کلیوں طرح نازک تھی۔

وہ فرشتوں کی طرح معصوم تھی۔

وہ ستاروں کی روشنی تھی۔

وہ میری بہن تھی۔

وہ میر ی سعدیہ تھی۔

وہ میری بھی تو گل تھی۔

وہ پورے پاکستان کی گل تھی۔

وہ زندگی کے صرف بارہ سال دیکھ پائ۔

ذلیل نامردوں اوروحشیوں نے اس ننھی کی بے عزتی اور بے حرمتی کی۔اور اس کی جان لی”۔

میری لکھائی میں روانی تھی۔میرے آنسو بھی اسی روانی سے بہہ رہے تھے۔جب میں نے اپنی کہانی کااختتام لکھا تو صبح کے چا ر بج رہے تھے۔ میں نے لیپ ٹاپ کو بند کیا اور سیڑھی چڑ کر اوپر پہنچا۔ ماں کھلے برآمدے میں آرام دہ کرسی پر ہلکی نیند میں سورہی تھی۔اس کی آنکھ کھل گئ۔اس نے کہا۔

”وہ ساری رات یہاں بیٹھی تمہیں دیکھتی رہی۔ میں 15 منٹ پہلے اس کو سُلا کر آئ ہوں “۔

ماں نے دھیرے سے سعدیہ کے کمرے کا دروازہ کھولا۔میری گل گہری نیند میں سورہی تھی۔ میں نے لیپ ٹاپ کو سعدیہ کی میزپر رکھا اور ایک پرچہ پر اس کو ایک نوٹ لکھا۔

میں نے دروازہ بند کرکے ماں سے کہا۔” اب ہر چیز ٹھیک ہوگی۔میں ساحلِ سمندر پرسوؤں گا“۔

٭٭٭

میں ہوائ مخلوق ہوں اور ایک گلائیڈر کی طرح فضا میں اُڑ رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف خاموشی ہے۔ میرے نیچے دور دور تک چٹانوں کا سلسلہ ہے۔ ہر طر ف سبزہ ہی سبزہ ہے۔اچانک آندھی اور طوفان برپا ہوا اور ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور بارش ہونے لگی۔ اور سعدیہ کی آوازیں آنے لگیں۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

سعدیہ پانی کا جگ لیے کھڑی تھی۔ سعدیہ پانی کا جگ پھینک کر مجھ سے لپٹ گئ۔بھیا میں نے آپ کی کہانی پڑھی۔ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔آپ میرے لیے دنیا کے انسانیت سے بھرے مردوں کی نشانی ہیں۔ میں نے اپنے کندھے کو آنسووں سے گیلا محسوس کیا۔میں نے سعدیہ کو اپنی باہوں میں زور سے سمیٹا۔

” بھائ جان یہ میری پسلیاں ہے۔آپ پھلوں کا عرق نہیں نکال رہے“ ۔

ہم دونوں بہت دیر تک اس طرح کھڑے رہے۔ سورج نکل آیا۔ اس کی روشنی نے لہروں میں جھلملاہٹ پیدا کی۔

ہم چادر پر بیٹھ گیے۔ میں نے گھر کی طرف دیکھا۔ اماں اور اباجان سیڑھیوں سے اتر کر ہماری طرف آرہے تھے۔ان کے ساتھ ایک حسین اور خوبصورت لڑکی تھی۔

” وہ سکینہ ہے“۔ سعدیہ نے فخر سے کیا۔

” جب میں نے اس کو آپ کی کہانی بھیجی ، تو وہ آپ سے ملناچاہتی تھی۔ وہ یہاں لاس انجلیس میں تھی”۔

میں نے اپنا شارٹ ویو ریڈیو آن کیا۔ اس پر کوئ علامہ اقبال کی نظم’ پھولوں کی شہزادی’ پڑھ رہا تھا۔

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں
رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغِ رضواں میں

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
نگہ فردوس در دامن ہے میری چشمِ حیراں میں

سنا ہے کوئ شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی
کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تُو لے چل
چھپا کر اپنے دامن میں برنگِ موجِ بُو لے چل

کلی بولی سریرآرا ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے پتھر بھی نگیں بن کر

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی
نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک
کسی دکھ درد کے مارے کا اشکِ آتشیں بن کر

نظر اس کی پیامِ عید ہے اہل محرم کو
بنادیتی ہےگوہرغمزدوں کے اشک پہم کو


(پہلی باب کا خاتمہ)
 

فرذوق احمد

محفلین
السلام علیکم سر
بہت خوب لکھا ہیں آپ نے ۔۔بالکل آج کے دور میں ایسا ہی ہو رہا ہیں ۔عورت اپنے اندر کتنی ہی خود اعتمادی پیدا کیوں نہ کر لے مگر درندوں کی نظر سے مشکل ہی بچتی ہیں ، درندے ہر آتی جاتی عورت کو ایسے دیکھتے جیسے پتا نہیں کیا ہو گیا ہیں ۔سب اپنے گھروں کو بھول کر باہر آتے ہیں ۔لوگ خدا کی اس بات کو بھول گئے ہیں کے جیسا کروں گئے ویسا بھروں گئے
 

ثناءاللہ

محفلین
ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت انداز میں آپ نے خواتین کے حقوق کی ترجمانی کی ۔ اور ان کے اوپر مظالم کی بڑا اچھا منظر پیش کیا اللہ آپ کو جہاد بلقلم کی اور توفیق عطا فرمائے آمین
اسی طرح لکھتے رہیئے ان شاءاللہ ایک دن یہ ظلمت کی رات چھٹ جائے گی۔
 

تفسیر

محفلین
farzooq ahmed نے کہا:
السلام علیکم سر
بہت خوب لکھا ہیں آپ نے ۔۔بالکل آج کے دور میں ایسا ہی ہو رہا ہیں ۔عورت اپنے اندر کتنی ہی خود اعتمادی پیدا کیوں نہ کر لے مگر درندوں کی نظر سے مشکل ہی بچتی ہیں ، درندے ہر آتی جاتی عورت کو ایسے دیکھتے جیسے پتا نہیں کیا ہو گیا ہیں ۔سب اپنے گھروں کو بھول کر باہر آتے ہیں ۔لوگ خدا کی اس بات کو بھول گئے ہیں کے جیسا کروں گئے ویسا بھروں گئے

شکریہ فرزوق- آپ کی لوگوں کی ہمت افزائی کا شکریہ۔ تفسیر
 

تفسیر

محفلین
ثناءاللہ نے کہا:
ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت انداز میں آپ نے خواتین کے حقوق کی ترجمانی کی ۔ اور ان کے اوپر مظالم کی بڑا اچھا منظر پیش کیا اللہ آپ کو جہاد بلقلم کی اور توفیق عطا فرمائے آمین
اسی طرح لکھتے رہیئے ان شاءاللہ ایک دن یہ ظلمت کی رات چھٹ جائے گی۔

بہت بہت شکریہ ثناء اللہ صاحب
 
Top