پروف ریڈ اول پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 7

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti008.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد


سے پہلے ہندوؤں کی مقدس کتاب کے اشلوک پڑھے جاتے تھے۔ پھر قرآن پاک کی تلاوت ہوتی تھی۔ پھر بائیبل سے کوئی حصہ پڑھا جاتا تھا۔ اس کے بعد کوئی سکھ گرنتھ صاحب سے کچھ پڑھا جاتا تھا۔ اس کے بعد اسی ترتیب سے سارے مذہبوں کے پیروکار یکے بعد دیکگرے تقریر کرکے گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے اور آپس کے بھائی چارے کے عزم کا اظہار کرتے تھے۔ آخر میں ایک ہندی پرار تھنا گائی جاتی تھی جس میں شامل ہوتے تھے۔ اس کا ایک اشلوک مجھے اب تک یاد ہے ۔ ۔

رگھوپتی راگھو رادھا رام
پتی پتاون سیتا رام
جانے اس کا مطلب کیا تھا۔
والدین، بہن بھائیوں اور بزرگوں‌کے خطوط مجھے مل رہے تھے اور میں بھی انہیں خط لکھتا تھا۔ میرے نام پر خط میں‌‌ یہ تاکید ہوتی تھی کہ کسی طرح پاکستان پہنچ جاؤں۔ میرے ابا جان کا حالات کی سنگینی کے باعث یہ مشورہ تھا کہ میرے مرشدبزرگوار تایا جی اور میں‌ دونوں کسی نہ کسی ذریعہ سے پاکستان پہنچ جائیں۔ حالات درست ہونے کے بعد واپس آسکتے ہیں۔ قبلہ گاہی امی جان مجھے دیکھنے کے لیے بہت پریشان تھیں۔ ان لوگوں کی پریشانی کا سبب یہ تھا کہ یوپی میں فسادات اور مسلمانوں کی بربادی کی خبریں انہیں‌ برابر مل رہی‌ تھیں۔ ادھر میرا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر پاکستان پہنچ جاؤں اور اپنے والدین اور بہن بھائیوں ‌سے ملوں لیکن یہ بات ممکن کس طرح‌بنے۔ اس بارے میں کوئی صورت کوئی تدبیر، کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا۔ میرے تایا جی اپنی جگہ چھوڑنے اور پاکستان آنے کے خواہاں نہیں تھے۔ انہوں نے نوجوانی کے دنوں میں فقیری اختیار کرکے بھرے پرے خاندان سے الگ ہوکر وہاں خانقاہی زندگی اختیار کرلی۔ ساری زندگی وہاں‌گزارنے کے بعد اب اپنی جگہ چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ میں اتنا کم عمر تھا کہ اس قدر طول طویل، پر خطر اور شدت کے سفر پر اکیلا نہیں بھیجا جاسکتا تھا۔ اسی کشمکش اور گومگو کی حالت میں وقت گزررہا تھا دل ایک منٹ کےلیے نہیں لگتا تھا لیکن اپنی تعلیمی مصروفیت کو پوری طرح جاری رکھے ہوئے تھا۔ ساتھ ہی اس ذریعہ کا منتظر تھا کہ پاکستان آنے کا سبب بن سکے۔
اس ذریہ کے انتظار میں ایک ایک دن بہت بھاری گزرا، دل ہر وقت اداس اور اچاٹ رہا مگر کوئی طریقہ ایسا نہیں بن رہا تھا کہ پاکستان کا سفر کرسکوں۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ مدرسہ کی تعلیم جاری رہی۔ امن وامان کی صورت مخدوش رہی، قتل وغارت کے اکا دکا واقعات ہوتے رہے۔ ہم اب بھی اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ رات اپنے گاؤں میں محفوظ ہونے کا احساس کرسکیں۔ دن میں اپنے گھر رہتے تھے لیکن رات کو درگاہ شریف پیران کلیر میں جاکر سوتے تھے۔ میرا زیادہ وقت روڑکی میں مدرسہ میں گزررہا تھا۔ ایک تعلیم کی مصروفیت اور مطالعہ ہی میرے لیے تقویت کا باعث تھا۔ ورنہ سخت پریشانی لاحق تھی۔ کچھ سمجھ نہیں‌ آتی تھی کہ کس طرح پاکستان پہنچنے کا ذریعہ ہاتھ آئے گا۔ اس جانکاہ انتظار اور کشمکش میں کئی مہینے بیت گئے۔ یہاں تک کہ رجب کا مہینہ آگیا۔ تعنی جون 1948ء کا مہینہ شروع ہوگیا۔ مدرسہ میں میرا دوسرا سال مکمل ہورہا تھا اور امتحان کے دن آگئے تھے۔ انہی دنوں اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت سے میرے لیے پاکستان کا راستہ کھول دیا۔
ہوا یوں کہ مولوی حمید حسن دیوبندی مفتی اعظم مالیر کوٹلہ اپنے بچوں کو چھوڑنے کے لیے دیوبند گئے۔ یہ مولوی حمید حسن مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے اور پور قاضی کے رئیس حافظ عبدالحئی کے داماد تھے۔ریاست مالیر کوٹلہ میں مفتی اعظم کے عہدہ پر فائز تھے۔ کافی عرصہ سے ان کے بیوی بچے اپنے گھر نہیں‌ آتے تھے۔ ملک قتل وغارت کے طوفان سے گزرا تھا۔ اس لیے حالات ذرا پرسکون ہونے پر وہ اپنے بچوں کو گھر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
پروف ریڈنگ : ابو کاشان


سے پہلے ہندوؤں کی مقدس کتاب کے اشلوک پڑھے جاتے تھے۔ پھر قرآن پاک کی تلاوت ہوتی تھی۔ پھر بائیبل سے کوئی حصہ پڑھا جاتا تھا۔ اس کے بعد کوئی سکھ گرنتھ صاحب سے کچھ پڑھا جاتا تھا۔ اس کے بعد اسی ترتیب سے سارے مذہبوں کے پیروکار یکے بعد دیگرے تقریر کر کے گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے اور آپس کے بھائی چارے کے عزم کا اظہار کرتے تھے۔ آخر میں ایک ہندی پرار تھنا گائی جاتی تھی جس میں سب شامل ہوتے تھے۔ اس کا ایک اشلوک مجھے اب تک یاد ہے ۔ ۔

رگھوپتی راگھون رادھا رام
پتی پتاون سیتا رام
جانے اس کا مطلب کیا تھا۔
والدین، بہن بھائیوں اور بزرگوں‌کے خطوط مجھے مل رہے تھے اور میں بھی انہیں خط لکھتا تھا۔ میرے نام پر خط میں‌‌ یہ تاکید ہوتی تھی کہ کسی طرح پاکستان پہنچ جاؤں۔ میرے ابا جان کا حالات کی سنگینی کے باعث یہ مشورہ تھا کہ میرے مرشد بزرگوار تایا جی اور میں‌ دونوں کسی نہ کسی ذریعہ سے پاکستان پہنچ جائیں۔ حالات درست ہونے کے بعد واپس آسکتے ہیں۔ قبلہ گاہی امی جان مجھے دیکھنے کے لیے بہت پریشان تھیں۔ ان لوگوں کی پریشانی کا سبب یہ تھا کہ یو پی میں فسادات اور مسلمانوں کی بربادی کی خبریں انہیں‌ برابر مل رہی‌ تھیں۔ ادھر میرا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر پاکستان پہنچ جاؤں اور اپنے والدین اور بہن بھائیوں ‌سے ملوں لیکن یہ بات ممکن کس طرح‌ بنے۔ اس بارے میں کوئی صورت کوئی تدبیر، کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا۔ میرے تایا جی اپنی جگہ چھوڑنے اور پاکستان آنے کے خواہاں نہیں تھے۔ انہوں نے نوجوانی کے دنوں میں فقیری اختیار کر کے بھرے پرے خاندان سے الگ ہو کر وہاں خانقاہی زندگی اختیار کر لی۔ ساری زندگی وہاں‌گزارنے کے بعد اب اپنی جگہ چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ میں اتنا کم عمر تھا کہ اس قدر طول طویل، پُر خطر اور شدت کے سفر پر اکیلا نہیں بھیجا جا سکتا تھا۔ اسی کشمکش اور گومگو کی حالت میں وقت گزر رہا تھا دل ایک منٹ کے لیے نہیں لگتا تھا لیکن اپنی تعلیمی مصروفیت کو پوری طرح جاری رکھے ہوئے تھا۔ ساتھ ہی اس ذریعہ کا منتظر تھا کہ پاکستان آنے کا سبب بن سکے۔

اس ذریعہ کے انتظار میں ایک ایک دن بہت بھاری گزرا، دل ہر وقت اداس اور اچاٹ رہا مگر کوئی طریقہ ایسا نہیں بن رہا تھا کہ پاکستان کا سفر کر سکوں۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ مدرسہ کی تعلیم جاری رہی۔ امن وامان کی صورت مخدوش رہی، قتل وغارت کے اکّا دکّا واقعات ہوتے رہے۔ ہم اب بھی اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ رات اپنے گاؤں میں محفوظ ہونے کا احساس کر سکیں۔ دن میں اپنے گھر رہتے تھے لیکن رات کو درگاہ شریف پیران کلیر میں جا کر سوتے تھے۔ میرا زیادہ وقت روڑکی میں مدرسہ میں گزر رہا تھا۔ ایک تعلیم کی مصروفیت اور مطالعہ ہی میرے لیے تقویت کا باعث تھا۔ ورنہ سخت پریشانی لاحق تھی۔ کچھ سمجھ نہیں‌ آتی تھی کہ کس طرح پاکستان پہنچنے کا ذریعہ ہاتھ آئے گا۔ اس جانکاہ انتظار اور کشمکش میں کئی مہینے بیت گئے۔ یہاں تک کہ رجب کا مہینہ آگیا۔ یعنی جون 1948ء کا مہینہ شروع ہوگیا۔ مدرسہ میں میرا دوسرا سال مکمل ہو رہا تھا اور امتحان کے دن آ گئے تھے۔ انہی دنوں اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت سے میرے لیے پاکستان کا راستہ کھول دیا۔

ہوا یوں کہ مولوی حمید حسن دیوبندی مفتی اعظم مالیر کوٹلہ اپنے بچوں کو چھوڑنے کے لیے دیوبند گئے۔ یہ مولوی حمید حسن مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے اور پور قاضی کے رئیس حافظ عبدالحئی کے داماد تھے۔ ریاست مالیر کوٹلہ میں مفتی اعظم کے عہدہ پر فائز تھے۔ کافی عرصہ سے ان کے بیوی بچے اپنے گھر نہیں‌ آئے تھے۔ ملک قتل وغارت کے طوفان سے گزرا تھا۔ اس لیے حالات ذرا پرسکون ہونے پر وہ اپنے بچوں کو گھر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے
 
Top